ادارتی نوٹ: پنجاب یونیورسٹی لاہور کی استاد شاعرہ اور ادیب عارفہ شہزاد کا ناول “میں تمثال ہوں” کے شایع ہونے کے بعد قدامت پرست اور دائیں بازو کے حلقوں کی طرف سے شدید ردعمل کا سامنا ہے اور تو اور کئی ایک ترقی پسند ادیبوں نے اسے “جنسیت زدہ” ناول قرار دیا ہے۔ کئی ایک مذہبی تنظیموں نے اس ناول پہ فی الفور پابندی لگانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ لیکن دوسری طرف کئی ایک ادیب اور نقاد اس ناول کی حمایت میں ڈٹ گئے ہیں- ایسٹرن ٹائمز ڈاٹ پی کے یہاں پر ناول پر ممبئی کے نامور اردو ادیب رحمان عباس اور ایک اور نوجوان نقاد حفیظ تبسم کے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پہ پوسٹ کیے جانے والے تبصروں کو پیش کررہا ہے۔

عارفہ شہزاد پنجاب یونیورسٹی لاہور میں پڑھاتی ہیں اور وہ پنجابی میں شاعری کرنے کے ساتھ ساتھ فکشن بھی لکھتی ہیں

عارفہ شہزاد کے ناول ‘میں تمثال ہوں’ کی حمایت کرنا میرا فرض ہے۔ رحمان عباس

رات سوچا کچھ پڑھاجائے، تو یاد آیا عارفہ صاحبہ نے ناول کی فائل بھیج رکھی ہے،  کسی کی رائے نہیں پڑھی ، میرے لیے متن اہم ہوتا ہے، نہ لکھنے والا اور نہ یہ بات کہ یہ اس کی پہلی کتاب ہے یا دسویں، ایک خیال تھا کہ چند صفحات ہی دیکھ لوں، اگر اچھا نہیں لگا تو رکھ دوں گا، لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر دیر رات تک میں ناول پڑھتا رہا اور پورا پڑھ لیا۔ بلاشبہ یہاں جو ناول لکھے گئے ہیں ان میں ’میں تمثال ہوں‘ بے حد متاثر کن  ہے۔ ناول بہ ظاہر ایک لڑکی کی رومانی اور جنسی خواہشات کا احاطہ کرتا ہے، تبدیل شدہ معاشرے میں جنسی جدلیات کی ہولناکی کو بیان کرتا ہے لیکن یہ ناول کسی بھی طرح سے جنس کے بیان کا ناول نہیں ہے بلکہ یہ ناول معاشرے کی اممیچورٹی، اورجبلت کے نہاں خانے کی سیر ہے۔ ناول نگارنے جس فارم کا انتخاب کیا ہے،  وہ اس کہانی کو بیان کرنے کے لیے  کارگر ہے، اور کوئی نقاد یہ سوال نہیں کرسکتا کہ اس میں فن کے لوازمات آب وتاب سے کیوں دکھائی نہیں دیتے۔۔۔، اس فارم کا جو تقاضا ہے ناول اس میں اسی طرح لکھا جاسکتا ہے۔ باوجود اس کے فارم کی کچھ کمیاں ہیں لیکن ان سے صرف نظر کیا جاسکتا ہے۔ اردو میں عورت کی جبلت ، اس کی ذہنی کشمکش اور خواہش کے پل صراط پر ننگے پیر چلنے کو شاید ہی کسی خاتون نے اتنی ایمانداری سے پہلے بیان کیا ہو، میں پبلشراور ناول نگار کو مبارک باد دیتا ہوں۔ اس ناول پر فحاشی کا مقدمہ بھی ہو سکتا ہے اوراگر ایسا ہوا تو میں عارفہ کی حمایت میں بیان دینے کے لیے کورٹ میں حاضر ہو سکتا ہوں۔۔۔ کہ جمالیاتی سطح پر یہ ادب ہے، فحش تو وہ نظر,صاحب، صاحبہ یا کلچر  ہے جس کے ذہن میں لفظ کلیٹرس مکھی کی طرح بھنبھناتا رہتا ہے۔

رحمان عباس کا تعلق ممبئی ہندوستان سے ہے- وہ اردو کے مانے تانے فکشن رائٹر ہیں – ان کے کئی ناول شایع ہوچکے ہیں- ان کا ایک ناول روحزن عکس پبلیکیشنز پاکستان نے شایع کیا ہے۔

عارفہ شہزاد کا ناول ’’میں تمثال ہوں‘‘ ایک بے ترتیب قاری کی نظر میں- حفیظ تبسم

بات شاعری کی ہو یا فکشن کی، عورت کا تصور وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ کبھی عورت کو مظلوم، کبھی ظالم دکھایا گیا۔ مگر بہت کم ادیب ایسے گزرے جنھوں نے عورت کی روح کے اندر اتر کر کوئی ایسا فن پارہ تخلیق کیا جسے پڑھ کر مرد اور عورت دونوں ہی چیخ اٹھے کہ یہ کیا لَغویات ہے؟

در اصل، پدری سماج عورت کے بدلتے ہوئے روپ کو آسانی سے ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ عارفہ شہزاد کے ناول میں تمثال ہوں کا چھپنا ہی تھا تو جیسے اس نئے پرانے آپریشن ردُّ الفساد کا آغاز ہو گیا۔ کسی نے اس کو سرے سے ناول ماننے سے انکار کر دیا، اور کوئی کہنے لگا کہ ہمارے معاشرے میں ایسا کردار ہو ہی نہیں سکتا؛ کسی نے کہا یہ آب بیتی ہے۔

بَہ طورِ قاری میں پوچھنا چاہوں گا:

  • ناول کیا ہوتا ہے؟
  • کیا ناول لکھنے کے لیے کوئی واحد تکنیک یا طریقہ ہی وَضع ہے؟

ایسے ناول بھی پڑھنے کو ملتے ہیں جو ناول کی دنیا میں اہم مقام رکھتے ہیں، مگر تاریخ، فلسفے یا میڈیکل سائنس کی کتاب جیسا تأثّر دیتے ہیں۔

جدید ناول نگاری کے تناظر میں دیکھا جائے تو انجیلِ مقدس بھی ایک ناول ہی معلوم ہوتا ہے؛ ناول تو کسی ڈائری کے چند صفحات بھی ہو سکتے ہیں؛ ایک مقام پر بیٹھے دو کرداروں کا طویل مکالمہ؛ ایک آدمی کی مسلسل بڑبڑاہٹ بھی … چند بے ترتیب خواب بھی … (اِس طرح کے ناولوں کی مثالیں موجود ہیں۔)

عارفہ شہزاد کے اس ناول میں میں تمثال ہوں کے سات عشق  ہیں: اُف! توبہ اسلامی اور مشرقی روایات کے امین معاشرے میں سات عشق کیسے ہو سکتے ہیں۔

ارے بھئی سات کیا چار گنا زیادہ عشق بھی ممکن ہیں، بس دل گردہ مضبوط چاہیے۔ اگر عورت اتنے عشق کرتی ہے تو اِس کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ مرد ہمیشہ عورت کو ایک جسم ہی سمجھتا ہے، حساس دل رکھنے والا وجود نہیں۔

یہ ناول عورت کے عشق، جذباتی و نفسیاتی کش مش، جنسی نا آسودگی کو موضوع بناتا ہے تو ساتھ ہی یہ بھی بتاتا ہے کہ سماجی اور مذہبی جکڑ بندیاں جتنی بھی سخت ہوں، جنسی جذبات پر کوئی زور نہیں۔ یہ فطری جذبہ بیدار ہو کر ہی رہتا ہے۔

تمثال، جو ایک مذہبی گھرانے کی مذہبی قسم کی لڑکی تھی، خود لذّتی اور ہم جنس پرستی جیسے تجربات سے گزر چکی تھی۔ اِن جذبات سے اسے کس نے متعارف کرایا؟ شاید فطری جذبات کے مُنھ زور طوفان نے! وہ تو حَیض کے پہلے خون کے متعلق بھی نہیں جانتی تھی۔

اِس ناول میں تمثال خود شاعرہ بھی ہے اور اس کے دو شاعروں سے عشق بھی رہے۔ اسی وجہ سے کچھ باریک بِین قارئین ناول کے بَہ جائے آب بیتی قرار دے رہے ہیں۔

ناول میں آب بیتی کا عُنصر ہو سکتا ہے، مگر کوئی آٹھویں درجے کا فکشن نگار بھی خود کو بَہ طورِ کردار پیش کرتے ہوئے بہت حد تک بدل جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ مصنفہ کی اُن تخلیق کاروں پر چوٹ ہو جن کے ادب میں معاشقے چلتے رہتے ہیں اور شاید اسی وجہ سے بہت سارے خواتین و حضرات اپنا اپنا عکس دیکھ رہے ہوں۔

مگر کہانی تو کہانی ہے جو موڑ کاٹتی ہے کبھی دائیں، کبھی بائیں، اور اس ناول کی تمثال اِس معاشر ے کی کوئی بھی عورت ہو سکتی ہے۔ اسی لیے یہ ناول آب بیتی نہیں جگ بیتی ہے۔

یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر اس ناول کو کوئی مرد مصنف لکھتا تو پھر کیسے آب بیتی کا لیبل چسپاں کرتے؟

اگر تکنیکی سطح پر دیکھا جائے تو یہ ناول، مرکزی کردار تمثیل کی ڈائری کے اوراق سے شروع ہوتا ہے جو ایک دل چسپ تکنیک ہے۔ پھر ماہرِ نفسیات کے سوال و جواب کا حصہ آتا ہے، جو سادگی سے کہانی کی نفسیاتی گِرہیں کھول دیتا ہے۔ بہ طور قاری مجھے یہ حصہ اس لیے بھی زیادہ اچھا لگا کہ فکشن نگار کا کام مسائل کی نشان دہی ہوتا ہے، مگر یہ انوکھا ناول ہے جس میں ماہرِ نفسیات کی خدمات حاصل کر کے حل بھی پیش کیا گیا ہے۔

ناول میں زبان و بیان کی سادگی ہے اور نفسیاتی موضوع میں زبان کی روانی قابلِ داد ہے۔

آخر میں سر ورق پر چھپا اقتباس پیش خدمت ہے:

تمثال! تم نے اچھا کیا اندر کے زہر کو باہر انڈیل دیا۔ اس زہر کو لفظوں کا روپ دیتے ہوئے میری انگلیاں نیلی پڑ گئی ہیں۔ لوگوں کے خوف میں الجھے ہم لوگ چھوٹے چھوٹے روزن اور دریچے تلاش کرتے ہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ در بند رہے گا!

ہمیں انھی لوگوں کے بیچ رہنا ہے، اپنے اپنے نقاب اوڑھے ہوئے!

میری دوست! تمھیں مَیں نے سنا ہے … محسوس کیا ہے… اپنے اندر اتارا ہے… اور تمھیں اوڑھ کر ہی لکھ پائی ہوں یہ سب… اب تو لگتا ہے … میں تمثال ہوں!

منفرد تخلیقی تجربے کا حامل ناول ہے – یعقوب قاسم مدیر

عارفہ شہزاد کا ناول ’’میں تمثال ہوں‘‘ اردو میں ایک منفرد تخلیقی تجربے کا حامل ناول ہے۔ ناول نگار نے قاری کو کہانی کے تانے بانے میں اس قدر الجھا دیا ہے کہ وہ یہ فیصلہ ہی نہیں کر پاتا کہ یہ ناول ہے یا آپ بیتی؟ ناول بھی ہے یا محض نفسیاتی الجھنوں کی ایک نوٹ بک اور اس پر کسی معالج کے مشورے؟ اردو زبان کا قاری چوں کہ سیدھی کہانی پڑھنے کا تربیت یافتہ ہے، شاید اسی لیے اس الجھن نے زیادہ زور پکڑا۔ ناول نگار کا کمال یہ ہے کہ اس نے بیان اور بیانیہ ڈسکورس کے اندر الجھائے رکھا۔ اور مزے والی بات یہ کہ وہ ناول میں بار بار اس بات کا تذکرہ بھی کرتی دکھاتی دیتی ہے کہ اس تحریر کو ناول نہیں سمجھا جائے گا۔ مصنفہ نے اس الجھاوے کو بطور ٹیکنیک استعمال کیا کہ میری یہ ذاتی ڈائری ، جسے ایک معالج نے لکھنے پر مجبور کیا، شائع ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی اس میں اس معالج کے نفسیاتی مشورے بھی شامل کر دیے گئے ہیں تاکہ ناول کی مرکزی کہانی کو سمجھنے میں مدد مل سکے یا کم از کم قاری ان الجھنوں کا شکار نہ ہو جس کا شکار کہانی لگ رہی ہے۔ ہمارا قاری ابھی تک روایتی کہانی کے حصار سے باہر نہیں نکل پایا، اس لیے اسے تکنیک سے چڑ ہے۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ناول نگار نے خود جس طرف بار بار دھیان دیا، اس ناول کا قاری بھی اسی دھوکے میں آکے اسے ناول تسلیم نہیں کرتا اور اسے سوانح سمجھ بیٹھتا ہے۔ مصنف نے اپنی کہانی کا ذکر اپنی دوسری معالج فارحہ، اپنی ساشل میڈیا پر بنے والی دوستوں رعنا، راحمہ۔۔۔۔ اور جونئیر اورسینئر ادبی دوست سے بھی ذکر کیا تو سب نے اسے مصنفہ کی سوانح سے تعبیر کیا۔ ناول میں کہانی کا یہی وہ پہلو ہے، جسے مصنفہ نے ایک تکنیک کے طور پر استعمال کرتے ہوئے قاری کو بھی یہ باور کروایا۔ اب دوسرا یہ سوال ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا۔ مصنفہ نے کہانی کے ’کُل‘ کے اندر سے کوئی Thematic concept دینے کی بجائے Thematic Statements میں زیادہ الجھائے رکھا ہے۔ (یاد رہے کہ تھیم کی پیش کش میں ان بیانات(Statements) کا بہت دخل ہوتا ہے جو کہانی کے’ موضوع ‘کو کھولنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ )

اردو فکشن کے تناظر میںیہ سوال بڑ ااہم ہے کہ فکشن خصوصاً ناول کی ایک بڑی تعداد جنس اور جنسی لاشعوری محرکات ہی پر مشتمل کیوں نظر آتی ہے؟شاید ا س کی ایک وجہ ہمارے سماج کا وہ تشکیلی ڈھانچہ ہے ، جس میں رسومات بطور ذہنی غلامی انسان کو ایسی زنجیروں میں جکڑ دیتی ہیں جس میں باطن اندر ہی اندر دم گھٹ کے مرنے لگتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ انسان جنس کی ضربوں سے مرنے لگتا ہے یا اسے اپنے گلے کا طوق بنا کے بازار میں نکل آتا ہے اوراس کی نفسی قوتوں کو شکست دے دیتا ہے۔

’’میں تمثال ہوں‘‘ کا موضوع بھی ایک جنس زدہ ایسی عورت کی کہانی ہے جو Polygamy رویہ رکھتی ہے۔ کیسی عجیب بات ہے ، ہماری سماجی اقدار میں کثرتِ ازواج کا معنوی تصور بطور صنف صرف مرد کے ساتھ رائج ہے۔ عورت کا بطور Polygamic رویہ نہایت غیر اخلاقی ہی نہیںبلکہ فطری حوالوں سے بھی غلط سمجھا جاتا ہے۔ اس ناول کی کہانی کو اگر ایک مرد کی کہانی سمجھ کے پڑھا جائے (جو بہت آسانی سے تبدیل کی جا سکتی ہے) تو شاید اس ناول کی اہمیت نہ ہونے کے برابر رہ جائے۔

کہانی بنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہے۔ دونوں حصے کہانی کے تھیم کے تصور سے مکمل طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ پہلا حصہ ایک ای میل سے شروع ہوتا ہے جو معالج کے ہدایت نامہ پر مشتمل ہے۔ نفسیاتی معالج مریضہ کو اپنی تمام کہانی بیان کرنے کو کہتا ہے جو مریضہ کے سات عشقوں کے واقعات پر مشتمل ہے۔ پہلے چھے عشق کے ۱۳ اوراق ہیں جب کہ آخری یعنی ساتویں عشق کے سات ورق ہیں۔ یوں کہانی کی مرکزی کردار تمثال بیس مختلف اوراق(ابواب) میں اپنی سوانح کو معالج کے سامنے کھولتی ہے۔ تمثال کا کردار ایک کج رَو جنسی رویے کے طور پر سامنے نہیں آتا بلکہ ایک ایسی عورت کا تصور ابھرتا ہے جو باقاعدہ اپنے نفسی لاشعور کی طنابوں کی پکڑ میں ہے اور Polygamy عورت کے طور پر اپنے کردار کو ادا کرنے میں سہولت محسوس کررہی ہے مگر ساتھ ہی اس گناہ(Guilt) کے تصور سے بھی نجات نہیں حاصل کر پا رہی جو اسے دیمک کی طرح اندر ہی اندر سے چاٹ رہا ہے۔

دوسرا حصہ معالجین کی گفتگوئوں پر مشتمل ہے۔ کہانی کے اندران معالجین کے مشورے اور ان کی ہدایات بھی بہت معنی خیز اور نفسیاتی الجھنوں کو کھولنے میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ کہانی ختم ہو چکی ہے اور اپنے اس کہانی پر مختلف نفسیاتی جائزے شامل کر کے کہانی کو الگ کر دیا گیا ہے۔ حالاں کہ اصل کہانی ان مشوروں پر ہی مشتمل ہے۔ ایسالگتا ہے کہ تمثال کا کردار کہانی میں قید ایک بے جان پرزہ ہے جسے خود تمثال اسے اوروں کی طرح محض جذبے کی تسکین کی کاطرح استعمال کر رہی ہے۔ وہ اس ’’استحصال‘‘ کو سمجھنے کی صلاحیت تک سے محروم ہے مگر معالجین سے مشاورت کے بعد وہ اپنی نفسی الجھنوں کو زیادہ بہتر طریقے سے پہچاننے کی دعویٰ کرتی نظر آتی ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر احسن کو کہنا پڑا: ’’آپ تجزیے پر تجزیے مت کروائیں۔ خود اپنے آپ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ آپ وہ نہیں ہیں جو دوسرے کہتے ہیں۔ آپ وہ ہیں جو آپ کا اندر کہتا ہے۔‘‘

میرے خیال میں تمثال کے عشق سات نہیں بلکہ پانچ ہیں ، پہلا عشق نہیں وہ سماجی رویہ ہے جس کی زد میں بعض اوقات مرد بھی ہوتے ہیں۔ یہ عشق نہیں بلکہ جنسی کج روی کا ایک عملی نمونہ ہے۔ تیسرا عشق جسے تمثال نے اپنی شادی کا تجربہ بتایا ہے، بھی عشق نہیں۔ ڈاکٹر احسن کے سوال نامے میں تمثال نے بڑی وضاحت سے اس کی طرف اشارے بھی کر دیے کہ وہ ایک خاندانی بندھن سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ اس ناول کا بنیادی نفسیاتی مسئلہ جس میں قاری الجھا رہتا ہے وہ یہی عشق ہے جسے تمثال ماننے سے انکاری ہے۔ یہ عشق اس کے تمام عشقوں کو کھا بھی رہا ہے اور ان کی طرف راستہ بھی کھول رہا ہے۔

یاد رہے کہ انسان کا سب کچھ اس کی تجرباتی زندگی ہے۔ یہ ایک ایسی کھڑکی ہے جہاں سے انسان سانس لیتا ہے۔ ورنہ سب کچھ عدم روشنی کا شکار ہو جائے۔ تمثال کا دوسرا عشق اصل میں اس کی زندگی کی ایسی کھڑکی ہے جہاں سے اسے سانس لینے میں سہولت محسوس ہو تی ہے۔ یہیں سے وہ باہر کا ’’منظر‘‘ دیکھتی ہے، ورنہ کمرہ تو تاریک تھا۔ جب وہ تاریکی سے اکتاتی ہے تو اسے یہ کھڑکی ہی نظر آتی ہے جہاں سے وہ باہر جھانک لے۔ جب شادی کے بعد راستہ بند ہوگیا اور تیسرے عشق کی گھٹن نے اس کی سانس لینے کی آزادی بھی مسدود کر دی تو اس نے اسی کھڑکی کو اپنا استاد بنا لیا اور اس سے سانس لینے کا ہنر سیکھنے لگی۔ یہ عشق نہیں بلکہ ایک زور دار قوت (thrusting Force) کے طور پر اس کے وجود میں گھس جاتا ہے۔ ایسے تجربے جو بند کھڑکیوں سے باہر جھانکنے کا اہتمام کرتے ہیں ، ضرور نفسیاتی لاشعور میں محفوظ کسی یادداشت کا حصہ بن چکے ہوتے ہیں۔ اسی قوت نے دیگر راستوں کی طرف دھکیلا اور تمثال زندگی کی ڈھلوان پر ایک مدور پتھر (Rotular Stone) کی طرح لڑھکتی ہی گئی۔

تمثال کی زندگی میں ایک نفسیاتی مسئلہ اور بھی ہے ، جس کی طرف تمثال کی بائیوگرافی میں بھی ذکر نہیں اور نہ ہی ڈاکٹر احسن نے سوال کیا، وہ جمالیات کا ہے۔ عشق کا نہیں تو کم از کم جنس کا بنیادی محرک جمالیات سے جڑا ہوا ہوتاہے۔ تمثال نے ’’جمال‘‘ نامی کسی احساساتی تجربے کا ذکر تک نہیں کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ جمالیات اور حسن و خوب تمثال کا مسئلہ ہی نہیں، محض جنس اس کا مرکز ہے۔ یوں ایک حیاتیاتی عمل کی ایک قبیح شکل سامنے آتی ہے۔ دوسرے عشق کی تصویر کشی کے بعد یہ تصویر سامنے آتی ہے کہ جیسے تمثال نے دوسرے عشق کو بطور’ جنسی لذت‘ نہیں بلکہ ایک ’جنسی عمل‘ قبول کیا۔ ساتویں عشق کی محرومی شاید اسی جنسی عمل کی عدم دستیابی سے ایک نفسیاتی عارضہ بنتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اگر جنس کاجمالیاتی لذت سے ادغام ہوتا توشخصیت میں کسی کج روی کی بجائے فن کارانہ بالادستی کاتصور قائم ہوتا۔ شاید مرد کا Polygamic رویہ اسی لیے متحرک (Active) ہوتا ہے کہ وہ جمال کشی کا قائل ہو چکا ہوتا ہے۔ عورت کو بطور جنس کے نہیں ’لذت‘ کے اپنے قرب میں لانا چاہتا ہے۔ عورت بھی جب کثرتِ ازواج کا شکار ہوتی ہے تو وہ جنسی تلذذ کو اپنا محور بنانے کی کوشش میں سماجی حد بندی توڑنے کا کارِ مشکل انجام دینے لگتی ہے۔ ’تلذذ ‘جمالیات کا ایک ردعمل ہے۔ یوں جمالیات سے عورت بھی نہیں بچ پاتی۔ ظاہر ہے ایسے میں وہ دفاعی نہیں جارحانہ (Offensive) طرز سے معاملات کوحل کرنے لگتی ہے۔ یوں وہ جنسی لذت سے دوہری قوت حاصل کرتی ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ جو عورت اپنی شخصیت میں Polygamic رویہ رکھتی ہے، وہ خواتین میں زیادہ جارحانہ نقطہ نظر رکھتی ہے۔ مگر یہاںتمثال کا معاملہ الٹ ہے، وہ صرف اُس کھلی کھڑکی کے سہارے زندہ ہے جو اسے دوسرے عشق کے وقت بند کمرے سے باہر جھانکنے کے لیے سہولت نظر آئی تھی۔ وہ جب بھی سانس لینے کی تکلیف سے گزرتی ہے، فوراً کھڑکی کی طرف لپکتی ہے اور سانس لینے کا حیاتیاتی عمل دوہرا کے لوٹ آتی ہے۔

مجھے اس ناول میں نفسیاتی الجھنوں کی ایک قطار نظر آئی جسے ڈاکٹر احسن نے بہت خوبصورتی سے حل کیا اور قاری کو زندگی کے گم شدہ اور ملفوف رویوں سے آگاہ بھی کیا۔ خاص طور پر ہم جنسیت میں فینٹسی کے تصور کی وضاحت۔ جب کہ دوسری معالج فارحہ سماج اور نفس کی کشمکش میں سماج کو ترجیح دیتی ہوئی نفسیاتی مسائل کو حل کرنے میں ناکام نظر آئی۔ فارحہ کے مشورے خود ایک نفسیاتی معالج کی ضرورت کا تقاضا کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ معاشرے میں ان بیانیوں کے اسیر ہوتے ہیں جنھوں نے اذہان کی نبض کو ایسے گرفت میں لیا ہوتا ہے کہ موت کے علاوہ کوئی چیز ان کو نجات نہیں دلا سکتی۔ فارحہ جیسے لوگ(نفسیاتی زبان میں) خودرحم کے قابل ہوتے ہیں۔ تمثال نے بہت اچھا کیا کہ اس کی باتوں پر عمل نہ کرکے اپنی نفسی کیفیات کو مزید تکلیف سے بچا لیا۔

ناول کی کہانی سات عشقوں کے، آگ کے اردگرد سات چکروں سے بھی مشابہت رکھتی ہے۔ سات پھیروں میں دو جسموں کے ذریعے دو آتمائوں کے ملن کا تصور پایا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کے لیے پریم، مان اور سمان دینے کی رسم ہے۔ ان سات پھیروں میں، اصل میں عورت اور مرد مل کر ایک دوسرے کی کامنائوں کو عمر بھر پورا کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ ہندو فلسفۂ حیات میں عورت اور مرد کے آگ کے گردیہ پھیرے ایک دوسرے کے لیے آشنا ہوجانے اور پویتر رہنے کا وچن کرنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تمثال جنس کے مجہولی رویوں میں، اندر ہی اندر ایک ایسی نفسی حالت سے گزری ہے جس نے اسے سات عشقوں کے پس منظر میں سات پھیروں کی آگ سے گزارا ہے۔ مگر تمثال وہ مورت پتنی ہے جس کاوجود کے پتی سے کوئی رشتہ قائم نہیں ہوپاتا اور آتما کا دکھ ختم ہونے کی بجائے ہر پھیرے پرمزید بڑھ جانے کا امکان پیدا ہوتا جاتا ہے۔

بنیادی طور پر فکشن کا اصول ہی یہ ہے کہ وہ زندگی کے کسی ایسے سوال کو سامنے لائے جو عام تجربے میں اضافہ بھی کرے اور اسے نئے تخلیقی رویوں سے آشنا بھی کروائے۔ ایسے فکشن کی خوبی یہ ہے کہ قاری لاشعوری محرکات کی لاتعداد کیفیات پر ناول ختم کرتا ہے تو اس کے سامنے نفسیاتی اور جنسی سوالوں کا ایک انبار ہوتا ہے۔ جس کے حل کرنے کی کوشش کی بجائے ان سے آگہی کے طویل مراحل طے کر لیتا ہے۔

ناول کا موضوع اور ٹریٹمنٹ منفردہونے کی وجہ سے اسے اردو میں اچھا ناول کہا جا سکتا ہے۔

“تمثال” ناول عکس پبلیکیشنز گراؤنڈ فلور تھری میاں چیمبرز ٹیمپل روڈ لاہور سے شایع ہوا ہے۔ ناول کیش آن ڈیلیوری سمیت کئی طرح سے منگوایا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے درج ذیل نمبر(بشمول وٹس ایپ) پر نوفل جیلانی سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

Contact Number: 03482224000

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here