زین العابدین نےاپنی آخری سانسیں 30جنوری کی صبح ضیاء الدین اسپتال، ناظم آبادکراچی میں پوری کیں، اورپھرہمارے ساتھیوں میں سب سے زیادہ پڑھنے والے والایہ دماغ ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگیا۔ زین، نےاردوآرٹس کالج اورکراچی یونیورسٹی کی بین الاقوامی تعلقات سے تعلیم حاصل کی۔ مگریہ نصف حقیقت ہے۔ وہ ازخود پڑھنے کوزیادہ اہمیت دیتے تھے۔ اس نے کئی مرتبہ اس خیال کااظہارکیاکہ یونیورسٹی میں اس کاوقت ضائع کیاجاتاہے۔ وہ پوری رات پڑھتے، میوزک سنتے اورفلم دیکھتے اورصبح کاناشتہ کرکے سوجاتے۔ ایسے میں صبح ساڑھے آٹھ بجے کلاس میں حاضری اس کیلئے کوفت کاباعث بنتی، اورسارا دن چڑچڑے رہتے۔ زین ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ شعبہ بین الاقوامی تعلقات، انگریزی، تاریخ، سندھی زبان کے شعبے بہت قریب واقع ہیں اوریہاں زین کے گرد روشن خیال اورقوم پرست طلبہ کا ایک جمیرغفیرجمع ہوتا۔ زین نے سال اول میں جوہردکھائے تولبرل سینئراساتذہ اس کی ذہانت سے بہت متاثرہوئے اوراس کوتعلیم مکمل پرشعبہ بین الاقوامی تعلقات میں بطوراستاد کے طورپردیکھنے کی خواہش کااظہارکیا۔ لیکن زین بطوردانشورپابندیوں اورروایات کے زیادہ قائل نہ تھے اوربہت جلد وہ کئی ایک اساتذہ کے ساتھ تنازعہ میں آگئے، اوراپنی روایتی تعلیم سال دوم کے بعد جاری نہ رکھ سکے، لیکن وہ علم کا دریاتھے۔
زین تین چیزوں کے شوقین تھے: مرغن غذائیں، اچھی کتابیں، اوربہترین فلم ومیوزک۔ زین بنیادی پرگوشت خورانسان تھے، اورساری زندگی منع کرنے کے باوجود قیمہ شوق سے تناول کرتے۔ قیمہ کھانے سے جوتوانائی حاصل ہوتی وہ اچھی کتاب پڑھنے اوربہترین فلم دیکھنے کے کام آتی۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا مصرف اس کے نزدیک ناپسندیدہ تھا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ کئی دن بھوکے رہتے مگراچھی فلم دیکھنے اورکتاب خریدنے کوفوقیت دیتے۔ اس کی ان عادتوں کےقریبی دوست گواہ ہیں۔ کچھ عرصے پہلے میں ان کے گھرگیاتوڈرائنگ روم میں کچھ نئی کتب کوایک نئی الماری میں سجی ہوئی دیکھیں۔ پوچھنے پربتایاکہ یہ وہ سوکتب ہیں جس کی ویل ڈیورانٹ نے صلاح دی ہے۔ لاکھوں روپے میں خریدی گئی ان کتب کوپلاسٹک کی خصوصی جلد بھی پہنانے کے بعد بہت سلقے داربنی الماری میں سجائی گئیں تھیں۔ زین کتابوں کے عاشق اورکیڑے تھے۔ ان کی ذاتی لائبری میں کچھ بہت ہی نادرکتب بھی تھیں۔ وہ کتابوں کےدرمیان زندگی گزارتے۔ بلکہ آخری عمرمیں ایک کمرے بیچ میں میٹرس کے گرد دواطراف اوپرتانیچے کتب کی الماریاں، سامنے ایک بہت بڑی ایل ڈی اسکرین، اس کے ساتھ بہترین ساونڈ سسٹم، ایک کونے میں کتب کے نیچے میزپرکمپیوٹراورسامنےایک کرسی اورقریبی پڑا ایک موبائل فون۔ یہ زین کی کل کائنات تھی جس کامرکزہ اس کی ذات تھی۔ زین کتب کے معاملے بہت کنجوس تھے۔ وہ بعض نوجونواں میں پوٹینشل دیکھ کرکتاب دیتے، بصورت دیگراس سے کوئی کتاب حاصل کرناجوئے شیرلانے کے مترادف تھا۔ جوبھی دوست احباب امریکہ یا یورپ سفرپرجاتے یہ ان کوکتب کی فہرست تھماتے۔ جب وہ بک شاپ میں جاتے توزین باقاعدہ ہدایات کے ساتھ حاضرہوتے اورکتاب کے کور، معیار، ایڈیشن وغیرہ کے بارے میں باقاعدہ معلومات حاصل کرنے کے بعدخریدنے کاحکم صادرکرتے۔ ان کے پاس پی ڈی ایف فائلزمیں بھی لاتعدادکتب کاذخیرہ تھا مگروہ چھپی ہوئی کتاب پڑھنے کے زیادہ قائل تھے اوراس پرزوربھی دیتے تھے۔ دوستوں سے کتاب مارنے کوعارنہیں سمجھتے اورکتاب واپس کرنے کے ہرگزقائل نہ تھے۔ ان کوکتب ازبریادتھیں اورسالہاسال گزرنے کے بعد آپ، ان کے سامنے غلط مفہوم یاجملے غلط دھرانے کے ہمت نہیں کرسکتے تھے، فورا ٹوکتےاورتصحیح کرتے۔ ازحدہوشیارتھے، ہمیشہ بحث کواسی طرف لے جاتے جواس کے حالیہ مطالعہ میں ہویا جہاں ان کوبرتری حاصل ہوتی۔ نوجوان اورطلبہ میں پوٹینشل دیکھ کران کواہمیت دیتے۔ اعلی تعلیمی اداروں اورگرائمراسکول سے فارغ شدہ طلبہ کوسطحی تصورکرتے۔ ایک دن کہنے لگے کہ دی نیوز کے ادارتی صفحے پرعجیب مخمصےکاشکارہوں: جس کی انگریزی اچھی ہوتی ہے اس کی تاریخ، فلسفہ اورسیاست کاعلم واجبی ہوتاہے اورسرکاری یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے ان علوم کی طلبہ کی انگریزی پرعبورنہ ہونے کامسلہ ہے۔
زین نے انگریزی زبان فلموں سے سیکھی۔ اوربعدازاں اردوآرٹس کالج کے اس طالب علم نے انگریزی زبان میں وہ کمال کی مہارت حاصل کرلی، ایک ایسی مہارت جس پرگرائمراسکولوں سے پڑھنے والے بھی رشک کرتے۔ وہ انگریزی واردو زبان وادب پربہت کمانڈرکھتے تھے۔ اورانگریزی، امریکی لب ولہجہ میں بولتے۔ اس نے اول انگریزی زبان، امریکی فلمیں دیکھ کرسیکھی جس میں چارچاندانگریزی ادب کے مطالعے نے لگائے۔ زین نے مجھ جیسےان گنت افرادکوانگریزی سکھائی۔ لیکن زین کومحض انگریزی زبان وادب پرعبورحاصل نہ تھابلکہ یہیں سے اس نے فلسفہ، سماجیات، سیاسیات اورتاریخ پرکمال کاعبورحاصل کیا۔ ان علوم کی وجہ سے وہ کلاسیکل لبرل ازم اورمارکس ازم کوبراہ راست ذرائع سے مطالعہ کرنے زیادہ قابل بنے۔
زین، چند ہی دوستوں کے زیادہ قریب رہے۔ اس کاخاندان کراچی کے علاقے قائدآبادمیں آباد ہوا، جہاں ساوتھ انڈیا جیسے حیدرآباد کے لوگ کافی تعدادمیں آبادہوئے۔ لیکن اس کے ابتدائی حلقے میں پشتون اورپنجابی نوجوان بھی شامل تھے۔ قائدآباد کے قدیم رہائشیوں کواردو، سندھی، بلوچی اورپشتوکی سمجھ آتی تھی، کیونکہ یہاں ایک مشترکہ کلچرتھا۔ زین کاخاندان دقیانوسی نہیں تھالیکن زین نے قران مجیدکے 18پارے بھی حفظ کئےتھے۔ علمی ہونے کی وجہ سے ہم عصروں میں ان کیلئے ابتداء ہی سےاحترام پایاجاتاتھا۔ ان کے زیادہ تردوستوں کاتعلق ترقی پسندپارٹیوں کےنوجوانوں سے تھا۔ زین نے انٹرمیں اردوکالج میں داخلہ لیا۔ اردوکالج کے اردوپڑھانے والے مارکسی استاد ن م دانش صاحب ان کومارکس ازم کی طرف لے آئے۔ زین کے مطابق ن م دانش نے انٹرآرٹس کی اردونصاب میں شامل اقبال کی نظم ‘محنت اورسرمایہ’ کی تشریح کی تو اس کومارکس ازم میں دلچسپی پیدا ہوئی، باقی کمی تاریخ کے مارکسی اساتذہ نے پوری کی اوریوں وہ ڈاکٹرمبارک علی کے کام سے آشناہوئے۔ اس طرح ان کی مارکسی علم سے جڑت کاآغازہوا جوآخری سانسوں تک جاری رہی۔
زین، مارکس ازم میں سبط حسن اورعباس جلالپوری کے کام سے متاثرہوئے اورخاص کرسبط حسن کے دیوانے تھے۔ وہ شاعری میں فیض اورجالب کوپسند کرتے تھے۔ حمزہ علوی کوبہت حقیقی نظریہ داں تصورکرتے تھے اوراقبال احمد کی تحریروں بھی پسندکرتےتھے۔ وہ ڈاکٹرمبارک علی، چند سنئیرصحافیوں اورارتقاء سے وابستہ دانشوروں کابہت احترام کرتے تھے۔ وہ نوجوانوں کوانگریزی زبان سکھاتے اوران کومتاثرکئے بغیرنہ رہتے۔ وہ سماجی موضوعات اٹھاتے اوریوں سیاسی کارکنوں کے سامنے سرمایہ دارانہ ومذہبی سیاسی پارٹیوں کاتضاد سامنےلاکران کوسوشلزم کی طرف مائل کرتے۔ وہ ایک ہی رات میں لوگوں کوسیکولربنانے کیلئے مشہورتھے۔ وہ نوجوانوں کے خیالات بتدریج بدلنے کے زیادہ قائل نظرآتے۔ وہ ہرمعاملے میں تقلیدکے سخت خلاف تھے اورعقل ودلیل کے قائل تھے بلکہ عقل ودلیل (ریزن، ریشنلٹی) کوتقلید پرفوقیت دیتے، چاہے یہ تقلیدمذہبی ہو، لبرل ہو یا مارکسی۔ وہ ایک طرح سےروایت شکن تھے۔ بنیادی طورپرجبر واستحصال کے خلاف زین، سماجی بندھنوں اوراقدارکے زیادہ قائل نہیں تھے۔
زین العابدین نے قائدآباد اورلانڈھی کے صنعتی علاقے میں کئی جگہ انگریزی زبان سکھانے کےمراکزمیں کام کیابلکہ خود کئی کھولے۔ جہاں اس نے مارکس ازم کوبھی عام کیا۔ جس کی وجہ سے اس کومخالفت کاسامناکرناپڑا لیکن لوگ ان کی قابلیت سے متاثربھی تھے۔ انہی میں ایک اسٹیل ملزمیں کام کرنے والے جماعت اسلامی کےشاہدبھائی تھے۔ انتہائی نفیس آدمی تھے۔ اس نے جماعت اسلامی کی چھپی ہوئی کئ کتب بشمول مودودی کی کتب کے سیٹ اس کوتحفے کے طورپردئیے، اس طرح زین کو جماعت اسلامی کی آئیڈیالوجی کوسمجھنے میں کافی مددملی۔ اوراس نے اس کی تنقید کوتیزترکردیاجس سے جماعت اورروایتی اسلامی تنظیموں سے جڑے لڑکوں سے وہ تنازعہ میں آئے۔ انہی انگریزی کوچنگ سنیٹرزمیں زین نے ڈاکٹرسیدجعفراحمد اورکمیونسٹ پارٹی کے منصورسعیدکے لیکچرز رکھوائے۔ ڈاکٹرسیداحمدجعفرصاحب نے پاکستانی تاریخ پرسلسلہ وارلیکچرزدیئے جبکہ منصورسعید نے کارل سیگان کی مشہورفلم سیریل ‘کاسموس’ پرقسط وارلیکچرز دیئے۔ طلبہ نے اس میں کافی دلچسی لی۔
زین کئی ایک سوشلسٹ گروپوں کے قریب گئے۔ ان میں کمیونسٹ مزدورکسان پارٹی، لیبرپارٹی اورطبقاتی جدوجہدشامل ہیں، جبکہ انٹرنیشنل سوشلسٹ اوراس کے میگزین ‘سوشلسٹ’ کے بانی اراکین وایڈیٹرز میں سے تھے۔ لیکن وہ ایک بے چین روح کی طرح تھےاورعمل سے زیادہ نظریاتی تربیت پرزوردیتے تھے۔ وہ پارٹی ڈسپلن کے قائل نہ تھے اورتخیلاتی زیادہ تھے۔ وہ افلاطون کے فلسفی بادشاہ کی طرح فلسفی سیاسی کارکن تخلیق کرنے کے زیادہ قریب تھے، جو ایک طرح سےلینن کے پروفیشنل انقلابی کی ایک نابیان کردہ تعبیرتھی۔ انہوں نے سیاست اورمارکسی پارٹیوں کے مسائل کوتحریری شکل دینے کی کوشش بھی نہیں کی۔ نہ وہ ‘فیملی مین’ تھے اورنہ ڈسپلن کے نام پراپنی آزادانہ سوچ سے دستبردارہونے کوتیارتھے۔ یوں سماجی بندھنوں اورنظریاتی کٹمنٹ کے نام پراپنی سوچ کی قربانی دینے سے دورتھے۔
زین نے کراچی یونیورسٹی میں روشن خیال اورقوم پرست طلبہ کواکھٹا کرکے ‘ریزنرز Reasoners’ کے نام سے کام شروع کیا۔ نیشنل اسٹوڈینس فیڈریشن موجودتھی مگروہ اس کی کارکردگی سے زیادہ مطمین نہ تھے۔ اس لئے دیگرتنظمیوں کے روشن خیال طلبہ کوجمع کرنے کی طرف متوجہ ہوئے۔ تنظیم کےاغراض ومقاصد خود ہی تحریرکئے۔ اغراض ومقاصد کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ نوجوانوں میں سیکولر، سائنسی اورعقلی شعوربیدارکرنا اوران کے حقوق کے تحفظ کیلئے جدوجہدکرنا، مذہبی وفرقہ ورانہ روداری کوفروغ دینا، خواتین کے خلاف پائے جانے والے رجعت پسندانہ رویوں کی شدیدمذمت کرنا اورتبدیلی کی سعی کرنا، تعلیمی نظام کوسیکولراوارغیرطبقاتی بنیادوں پرنئے سرے سے استوارکرنے کیلئے جدوجہدکرنا، معاشرتی اورمعاشی مسائل کاسائنسی تجزیہ کرنا، ترقی پسند رویوں کے فروغ کیلئے علمی، ثقافتی اورادبی سرگرمیوں کاباقاعدہ انعقادکرنا۔
زین کے نزدیک:
‘پاکستان آج گوناگوں مسائل سے دوچارہے، بڑھتی ہوئی طبقاتی تفریق اوراستحصال، نسل پرستی اورمذہبی جنونیت نے صحیح معنوں میں اس ملک کے لوگوں کوایک قوم بننے نہیں دیا۔۔۔ ہم کوبہرحال یہ تسلیم کرناپڑے گا کہ ہم نے اب تک جوقدم اٹھائےہیں وہ ہم کوتنزلی اوربربادی کی طرف لے گئے ہیں۔ اب ہمیں جذباتی اندازمیں ان اقدامات کودرست کہنے اورجائزقراردینے کاعمل ترک کرناپڑے گا۔ ہمارے رہنمااورنتیجتا ہمارے عوام اب تک ان مسائل کی جانب ایک ایسارویہ اختیارنہیں کرسکے ہیں جس کی عمارت Reasonیعنی عقل پرکھڑی ہو۔’
زین العابدین جس چیز کوکرنے کابیڑہ اٹھاتے، اس کیلئے سب کچھ برداشت کرنے کے لئے تیاررہتے۔ افغانستان انقلاب ختم ہواتوڈاکٹرنجیب کی پھانسی نے رائٹ ونگ کوجشن برپاکرنے کاموقع دیا، ایسے ماحول میں کراچی یونیورسٹی میں ڈاکٹرنجیب کے تعزیتی ریفرنس کاتصورکرنابھی محال تھا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے حملے کے باوجودپروگرام منعقد کیاگیا۔اسی کراچی یونیورسٹی میں ‘مارکس کی موجودہ عہدکی مناسبت سے اہمیت’ کے موضوع پرسیمنارکروایاگیا، جس میں منصورسعید اورراحت سعید نے بھی شرکت کی۔ یہ بعداز روس کے انہدام کے بعد دورمیں کروانا بہت مشکل کام تھا۔ کیونکہ مارکس اوراس کے نظریات ناکام قرارد دیئے جاچکے تھے۔ علمی سطح پرپوسٹ ماڈرن ازم کاچل چلاو کادورتھا اورفوکویاما کی تاریخ کے اختتام کی تھیوری عروج پرتھی۔ نیولبرل معیشت نے مزدورطبقہ کی کمرتوڑدی تھی۔ اوررائٹ کاابھارتھا۔ ایسے ماحول میں مارکس کی موجودہ عہدمیں اہمیت سیمنارپرکروانا بہت دل گردے کی بات تھی۔ لیکن وہ تمام خطرات کیلئے ہمہ وقت تیاررہتے۔
وہ یورپ میں رینساں اورروشن خیالی تحریک میں دانشوروں اورمفکرین کے کردار سے بہت متاثرتھے۔ وہ عقلیت پسندی (ریزن، ریشنلٹی ) کے فلسفہ سے بہت متاثرتھے وہ خود دیکارت کے عقلیت اوردلیل (ریزن) کے حق میں دئیے گئے دلائل کی زندہ تصویرتھے۔ ریشنلٹی کی بنیاد انفرادیت پسندی اورموضوعیت (individuality and Subjectivity) پرتھی۔ ریزن اورریشنلٹی کی بہترین تشریح دیکارت کے اس قول سے ہوتی ہے کہ میں ‘میں سوچتاہوں، پس میں ہوں’: ہرچیزکاپیمانہ میری ذات ہے۔ کیااچھاہے اورکیابراہے اس کافیصلہ میں کروں گا۔ میری ذات سے متعلق فیصلہ کوئی اورکیسے کرسکتاہے۔ کوئی ادارہ چاہے وہ سماجی ہویامذہبی، میری ذات سے متعلق فیصلے کااخیتارنہیں رکھتا۔ دیکارت کے ریزن کے فلسفہ کے مطابق ہرچیز پرشک کرناہے۔ یہاں تک کہ ہمارے حواس ہمیں دھوکہ دے سکتے ہیں لہذاء، بندے کی عقل ہی سچائی کاواحدپیمانہ ہے۔ لہذاء حواس سے حاصل ہونے والاتمام علم شک سے بالاترنہیں ہوسکتا، صرف ایک بندے کی انفرادی عقل ہی فیصلہ کن درجہ رکھتی ہے۔ دراصل وہ انقلاب فرانس سے بہت متاثرتھا اوراس کیلئے دانشوروں نے جوکام کیا اورقربانیاں دیں اس کوبہت آئیڈیلازکرتاتھا۔ اس نے ‘اے ٹیل آف دی ٹو سٹیز’ کویونیورسٹی میں دکھانے کابھی انتظام کیا۔ وہ اپنی جدوجہد کوبیک یک وقت انقلاب فرانس اورانقلاب روس کے نعروں کوحقیقی بنانےاوران کو بیک وقت پوراکرنے سے جوڑتے۔ وہ روسی انقلابیوں کے اس خیال سے سہمت تھے کہ سرمایہ داری، تیسری دنیا کے پسماندہ سماجوں میں وہ افعال اوروظائف پورے کرنے سے لاچارہے جووہ کلاسیکل بورژوا انقلابات میں انجام دیئے۔ اس لئے وہ سیکولرازم کی جدوجہد کو بھی بہت اہمیت دیتے تھے اورسوشلزم سے پہلے اس کےلئے جدوجہد کواہم گردانتے۔ وہ سامراج دشمن تھے اورمڈل کلاس نوجوانوں کے ساتھ دہشت کے خلاف جنگ پرمباحث میں اکثرمواد کیلئے رابطہ بھی کرتے۔ وہ ڈیوڈہاروے اورایلکس کالینی کوس کے کتب کواس سلسلے میں بہت اہمیت دیتے۔ وہ البتہ ژی زکیک کوسنجیدہ فلسفی کے طورپرنہیں لیتے تھے اوراس کومیڈیاکی پیداوارسمجھتے تھے۔
برطانوی عہدمیں مارکس کے نقطہ نظرکے حامی سبط حسن کے دلائل کواہمیت دیتے تھےاورمارکس پرقوم پرست لکھاریوں اورینٹلسٹ اوریہاں تک کہ مارکسی عرفان حبیب اورحمزہ علوی کے برصغیرمیں سرمایہ داری کے ممکنہ ترقی کے ازخود اپنے سماج کے اندرسے نمودارہونے کی قوت کی قوت کے خیال کوزیادہ جگہ دینے پرتیارنہ تھے بلکہ سمجھتے تھے کہ مشرق میں کھبی فلسفہ پیدانہ ہوا اورنہ عقلیت پسندی کی لڑائی لڑی گئی۔ یوں یہ معاشرہ کسی بہتری کی طرف جانے کی قوت سے محروم تھا۔ وہ اس کوقبول کرنے کیلئے تیارنہ تھے کہ یہاں ازخودکسی بہتری کی امید کی جاسکتی تھی جس کوبرطانیہ مخالف قوم پرست دانشورآیڈیلازکرتے تھے۔ وہ مغربی فلسفے سے بہت متاثرتھے خاص کرارسطواورہیگل کے شیدائی تھے۔ لیکن مارکس اوراینگلزکی تحریروں پرجان دیتے تھے۔ وہ مارکس اوراینگلز بہت ہی زیادہ متاثرتھے۔
وہ مغربی سماج سے باہردوانقلابی شخصیات سے بہت متاثرتھے۔ ایک چے گویرا اوردوسرا بھگت سنگھ۔ وہ چے کے بارے میں بہت جذباتی ہواکرتاتھا۔ جبکہ بھگت سنگھ اورکسی حدتک سبھاش چندربوس کی جدوجہد کی کامیابی کی صورت میں وہ سمجھتے تھے کہ ہم ایک بہترسماج حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہوتے۔ وہ انڈین کانگریس اورمسلم لیگ دونوں کی سیاست کے تنقیدنگارتھے۔ جہاں وہ سبط حسن کے بہت مداح تھے وہاں وہ محمدعلی جناح اوراقبال پرڈاکٹرمبارک علی کے خیالات سے زیادہ قریب تھے۔ اورسمجھتے تھے کہ ہمیں لگی لپٹی رکھنے کے بجائے ان پربراہ راست تنقیدکرنی چاہیے۔ وہ پرویزعلی ہود بھائی کی رائٹ ونگ پرتنقید کوقدرکی نگاہ سے دیکھتے تھے اورمسلمان سیاستدانوں اوراسلامی سائنس کوتسلیم کرنے کیلئے تیارنہ تھے۔ وہ اسلامی خلافت میں معتزلہ کی تحریک کوایک سائنسی فکرکی مختصردورانیہ کی تحریک کے بھی حامی تھے۔
زین نے ایک دوست کے کہنے پرصحافت جوائن کرنے کافیصلہ کیا تواس نے صحافت کونظریات کی جنگ (بیٹل آف آئیڈیاز) کے طورپردیکھا۔ جب مشال خان شہید ہوا توزین نے دی نیوزکے ادارتی صفحات پرادرایے لکھ کربربریت کوواضح کرنے کی کوشش کی۔ یہی نہیں بلکہ کئی مضامین بھی شائع کروائے۔ اس پررائٹ ونگ کے صحافیوں کی طرف سے شدید ردعمل آیا۔ انصارعباسی گروپ کے افراد نے مشال خان کے خلاف مضامین شائع کروانے کی کوشش مگرناکام رہے۔ زین پردباو بڑھانے کی کوشش توزین نے دی نیوز انتظامیہ پرواضح کردیاکہ مشال خان کے خلاف اپنے صفحات پرمضامین شائع کروانے کے بجائے وہ استعفی دینے کوترجیح دے گا۔ اس نے مجھے بتایاکہ میرے ہوتے ہوئے مشال خان کے خلاف کوئی مضمون کم ازکم میرے صفحات پرشائع نہیں ہوسکتا۔ زین خودمشال خان کوبہت آئیڈیلاز کرنے لگا۔ اوراس کی ایک وجہ تھی۔ زین خود بھی ایک دوسرے مشال خان ہی توتھے:اسی کی طرح روایت شکن، حقوق کی بات کرنے والا، مارکس اورلینن کے خیالات اورنظریات کاپرچارک۔
اس نے مزدورجدوجہد اورجبرکی شکارقوموں کی جدوجہد پراداریہ لکھے تووہ اپنے صحافت کوتبدیلی کاذریعہ بھی سمجھنے لگے۔ اس نے دی نیوزکے ادارتی صفحہ کوبہترسے بہتربنانے کی کوشش کی اوراس کوبہت معیاری بنانے میں کامیاب ہوگئےیوں وہ اپنے کام کوایک نظریاتی لڑائی کے دورپردیکھنے لگےاوراس کےحق میں بہت دلائل دیتےتھے۔ یہاں تک کہ جنگ اورجیوگروپ کی اسٹبلشمنٹ سے لڑائی کوجمہوریت اورحقوق کی جنگ سے جوڑنے لگے اورمیرشکیل الرحمن کی گرفتاری کواسی تناظرمیں پیش کرتےتھے۔
لیکن سب سےبڑھ کرزین ایک انقلابی تھے۔ اس نے ماماقدیرکے لانگ مارچ پرکراچی یونیورسٹی پرپروگرام میں شرکت کی اورکراچی میں پی ٹی ایم کے پہلے جلسے میں شرکت پربہت خوش تھے۔ وہ مارکس ازم کوہی متبادل سمجھتےتھے۔ البتہ وہ طبقاتی بنیادوں پرکام کرنے والی پارٹیوں کے کام سے مطمین نہ تھے۔ وہ عمل سے کہیں زیادہ نظریاتی جنگ کوبہت اہمیت دیتے تھے اورسوشلسٹ قیادت میں نظریاتی کمی اورنعرہ بازی کی شکایت کرتے۔ جوں جوں وہ جدوجہد سے دورہوتے گئے اوربیماری کی باعث محدودہوگئے ان کی تنقیدمیں زورآتاگیا۔ وہ حالیہ دنوں میں عمارعلی جان سمیت کئی دانشوروں کی جدوجہد سے بہت متاثرہوئے۔ وہ طلبہ مارچ پرمسروردکھائی دیئے۔
زین ارتقاء کے کام کوبہت اہمیت دیتے تھے اورہم سب اس کی لائبریری میں سبط حسن اورحمزہ علوی کی کتب سے استفادہ کرتے اوراس کے پروگراموں میں شریک ہوتے۔ ارتقاء کے سیمناروں میں ہم منتظمین کے ساتھ ملکرکام کرتے۔ اس کوراحت سعید کے لکھے ہوئے اداریے اچھے لگتے تھے۔ ڈاکٹرسیدجعفراحمد ہماری پسندیدہ شخصیت تھی۔ ان سے پاکستان اسٹڈی سینٹر تقریبا ہردس پندرہ دن بعد ملنےضرورجاتےتھے۔ یونیورسٹی میں کئی ایک دوست جیسے توقیرگیلانی، امام شامل، عامر، صفدر، اورفلسفہ ڈپارٹمنٹ کےجناب بابرصاحب دوپہر کوریاض احمدکے کمرے میں جمع ہوتے اورسیاست سے لیکراشعار، ادب، فلم، فلسفہ، پولیٹکل اکانومی پرمباحثہ ہوتا۔ وہاں سے اٹھ کرصوفی کے ہوٹل آتے اوررات گئے یہ محفل برخاست ہوتی۔
زین بہت پرفیکشنسٹ تھے۔ اس لئے بظاہرکم لکھا۔ بھگت سنگھ پرچھپنے والی تقریباتمام ہی کتب کرنے کے بعداس نے برصغیرکے اس انقلابی پرلکھا۔ اس نے دی نیوزمیں گرامچی اوربھگت سنگھ پرسلسلہ وارمضامین لکھے۔ میں نے اس سے کہاکہ بھگت سنگھ پرمضامین کوسعت دے کرکتابی شکل میں چھاپہ جائے۔ اس کے علاوہ اس نے دی نیوزکیلئے اداریہ لکھے اوران کواپنے فیس بک سے شئیرکیا۔ اگرچہ اس نے کئی مرتبہ کسی موضوع پرپڑھنے اورتیاری کرنے کاذکرکیامگراس نے کسی مسودے لکھنے کاذکربرملانہیں کیا۔ زمانہ طالب علمی اورانگریزی لینگوج سینٹرز کے اختتام کے بعد پبلک میں اظہاررائے سے بتدریج ناصرف یہ کہ دورہونے لگے بلکہ ذاتی محدودیت کے ساتھ پبلک میں کھل کربولنے سے بھی احترازکرنے لگے۔ موڈی آدمی تھے۔ اکثرسیمنارمیں نام مشتہرکروانے کے باوجود عین موقع پرغائب ہوجاتے۔
یہ سب تسلیم کرتے ہیں کہ وہ بہت ہی پڑھاکواورکئی علوم پردسترس اورعبوررکھتے تھے۔ ان کی یہ خوبی دوست اوریہاں تک کہ مخالفین کوبھی اس کاگرویدہ بنادیتے۔ لیکن وہ کھری کھری کہنے اورلگی لپٹی کہے بغیرتنقید کرنے اورنظریاتی کمزوری کوپکڑکراجگرکرنے میں کھبی نہیں چوکتے۔ وہ پارٹی لائن اورڈسپلن کے پابندی کے قائل نہ تھے۔ وہ دراصل اپنی آزادی طبع کی بنیاد پراپنے خیالات پرقدغن کے قائل نہ تھے۔ وہ ایک ازاد منش دانشورتھے، مگرسب سے بڑھ کریہ کہ وہ ایک مارکسی دانشورتھے۔ مارکس کے مرنے پراینگلزنے جو الفاظ ادا کئے،کچھ ویسے ہی زین کے بارے میں دہرائے جاسکتے ہیں:
30جنوری کی صبح ایک بہت بڑے دماغ نے سوچنابند کردیا۔۔۔سب بڑھ کریہ کہ زین ایک انقلابی تھے۔ اس کامقصد سرمایہ داری اوران اداروں کاخاتمہ تھاجو اس نے جنم
دیئے۔ اس نے اس کیلئے ایک یادوسرے طریقے سے خدمات انجام دیں۔
سرتاج احمد خان کراچی میں مقیم اور مارکس وادی دانشور ہیں 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here