ہیوی الیکٹرک کمپلیکس کی نجکاری ، چار مقامی کمپنیوں نے 95 فیصد شئیر خریدنے میں دلچسپی ظاہر کردی

پاکستان کا واحد عوامی ادارہ جو ہر سال 70 ہیوی پاور ٹرانسفارمر تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے کو فروخت کیا جارہا ہے
ہیوی کمپلیکس 72 ایکڑ پہ پھیلا ہوا ہے جس کی مالیت کھربوں روپے کی ہے

نیوز ڈیسک- پرائیوٹائزیشن کمیشن (پی سی) نے جمعہ فروری 2021ء کو اعلان کیا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے الیکٹرک ہیوی کمپلیکس کی نجکاری میں 12 سرمایہ کار فرموں نے دلچسپی ظاہر کی ہے جن میں چار مقامی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔

ہیوی الیکٹرک کمپلیکس ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے طور پہ کام کررہا ہے جو سٹیٹ آف انجینئرنگ کارپوریشن پاکستان کی ذیلی کمپنی ہے اور یہ وفاقی وزرات صنعت و پیداوار کے تحت آتی ہے۔ اس کمپلیکس کی بنیاد پاکستان پیپلزپارٹی کے تیسرے دور حکومت میں 1995ء میں صوبہ کے پی کے میں ہتار انڈسٹریل اسٹیٹ میں چین کی معاشی و تکنیکی معاونت سے ایک ارب سولہ کروڑ روپے کی لاگت سے رکھی گئی تھی

اس کی صلاحیت 132 کے وی اور 66 کے وی الیکٹرسٹی پاور ٹرانسمشن کے لیے 6 سے 40 ایم وی اے کے ٹرانسفارمر تیار کنے کی ہے۔ اس فیکٹری کی سالانہ پیداواری صلاحیت 3ہزار ایم وی اے کی ہے۔ فیکٹری کا ایریا 72 ایکڑ تک پھیلا ہوا ہے اور یہ اس نوعیت کی ملک میں پیداوار اور ٹیسٹنگ کی واحد سہولت ہے جس کے ٹیکنالوجی چین، جرمنی، سوئٹزرلینڈ سے لائی گئی ہے۔ اس فیکٹری نے پاکستان کو پاور سیکٹر کے لیے درکار اشیاء کی پیداوار میں خودکفیل بنادیا۔

سن 2015ء مارچ کے مہینے میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور میں بھی سٹیٹ آف انجنئیرنگ کارپوریشن پاکستان کے انتہائی اہم ترین سٹریٹجک ادارے ہیوی الیکٹرک کمپلیکس کی نجکاری کرنے کی کوشش ہوئی تھی۔ اس وقت بھی حکومت اس کے 97 فیصد حصص فروخت کرنے جارہی تھی۔ پاکستان پیپلزپارٹی سمیت کئی سیاسی جماعتوں اور ٹریڈ یونینز فیڈرشنوں کی مخالفت کے بعد اس منصوبے پہ عمل درآمد نہیں ہوسکا تھا۔ اب پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت ہیوی الیکٹرک کمپلیکس کی نجکاری کے منصوبے پہ تیزی سے عمل کرنا چاہتی ہے۔

مسلم لیگ نواز نے 1992ء میں سٹیٹ انجنئیرنگ کارپوریشن کے جھے بڑے انجینئرنگ انڈسٹریل یونٹس بيچ ڈالے تھے جس کا نتیجہ انتہائی برا نکلا۔ یہ چھے یونٹ ایک سو چالیس ارب روپے میں فروخت کردیے گئے تھے جو ان یونٹوں کے کل اثاثوں کی قیمت کا محض دس فیصد تھے۔ دسویں ملین روپے ان اداروں نے سالانہ آمدن؛ کے طور پہ نجکاری سے پہلے پیدا کیے تھے۔

نجکاری کے وقت ان میں سے اکثر یونٹس منافع بخش تھے- کراچی پائپ ملز، پاکستان سوئچ گئیر اور ٹیکسٹائل میشنری کمپنی کو جیسے ہی نجی کاروباری گروپوں نے خریدا تو ان اداروں کو بند کردیا گیا جب کہ میٹروپولٹن سٹیل کارپوریشن اور کوالٹی اسٹیلز کو نمائشی طور پہ آپریشنل کیا گیا اور چند سال بعد وہ بھی بند کردیے گئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here