خبر آئی ہے کہ اسلام آباد کے ایف نائن پارک کو غیرملکی قرضے کے لیے رہن رکھے جانےکی تجویز پر پورے ملک میں غصّے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اگرچہ خبر کی سرکاری زرایع سے تصدیق نہیں ہوسکی ے لیکن رپورٹ کیا گیا ہے کہ وزیراعظم نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے۔ ویسے اگر یہ خبر سچ بھی ثابت ہوجائے تو اس پہ کسی کو حیرانی نہیں ہونے والی۔ اس طرح کا کام کونسا پہلی بار ہوگا۔ ہم اپنے بہت سے اثاثے قرضوں کے لیے رہن رکھواچکے ہیں۔ یہ پریکٹس 2006ء میں جنرل مشرف کے دور میں شروع ہوئی تھی اور اس کے خالق وزیرخزانہ شوکت عزیز تھے اور پھر یہ کام راضی برضا اسحاق ڈار نے اپنے ذمے لے لیا۔

ملکی اثاثے رہن رکھے جانے کی لہر قومی شاہراہوں کو گروی رکھے جانے سے شروع ہوئی اور پھر اس لہر کی زد میں موٹروے، ہوائی اڈے ، پی ٹی وی ،ریڈیو پاکستان اور کئی پارک آگئے۔ 2006ء میں بلند شرح نمو کے خوشنما گیتوں کے درمیان زیادہ ٹول ٹیکس اکٹھا کرنے والی شاہرائیں ایم ون،ایم فور، آئی ایم ڈی سی اور اوکاڑا بائی پاس کو لیز پہ دے دیا گیا اور اس سے چھے ارب روپے اکٹھے کیے گئے۔2014ء میں حافظ آباد-لاہور موٹروے سیکشن کو ایک ارب روپے کے عوض رہن رکھ دیا گیا۔اسی طرح 49 ارب روپ فیصل آباد-پنڈی بھٹیاں موٹروے سیکشن کو رہن رکھ کر لیے گئے۔(وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موٹروے کے دوسرے سیکشن بھی رہن رکھے گئے) 2013ء سے 2016ء تک کراچی کا جناح انٹرنیشنل ائرپورٹ 492 ارب روپے کے عوض رہن رکھ دیا گیا۔ ایسی اخبار بھی ہیں کہ وقفے وقفے سے پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے اثاثے بھی رہن رکھے گئے۔

عوام کے غصّے سے بچنے کے لیے (مذہبی چولا بھی اس قرضے گیری کو پہنایا گیا)اسلامی طریقہ فنانسنگ(سکوک) کو بھی ملکی اثاثے گروی رکھنے کی اس روش کو جاری رکھنے کے لیے اپنائی گئی اور اس کا مقصد بھی زیادہ سے زیادہ قرض اٹھانا تھا۔

قرضوں کا حجم 2007 سے ہوش ربا ہے۔ پہلے 60 سالوں میں (1947-2007) کل قرضہ اور واجبات سات کھرب تھے۔ اگلے سالوں میں 2018ء کے مالیاتی سال کے آخر میں حجم 30 کھرب کو پہنچ گیا۔ اس میں 25 کھرب روپے کا قرضہ پبلک قرضہ ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے دور میں قوضوں کا حجم 45 کھرب روپے ہے جس میں پبلک قرض 36 کھرب ہے۔ یعنی صرف پبلک قرض کی مد میں 2007ء کے بعد ہر مالیاتی سال میں 2 کھرب روپے کا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے(کیا ہی بہتر ہوتا کہ مضمون نگار ہمیں یہ بتاتا ہے کہ پی پی پی کے دور میں 2008ء سے 2013ء تک پبلک قرض کتنا اور فی مالیاتی سال کتنا اور ایسے ہی 2013ء سے 2018ء تک پبلک قرض کتنا اور فی مالیاتی سال کتنا اور پی ٹی آئی کے دور میں کتنا تھا)

(نوٹ: پی پی پی کی حکومت کو ورثے میں پبلک قرضہ 8کھرب روپے ملا تھا اور جب اس کی مدت پوری ہوئی تو پبلک قرضہ کھڑا تھا 14 کھرب پہ یعنی فرق تھا 6 ارب کا اور 2018ء میں جب نواز لیگ رخصت ہوئی تو پبلک قرضہ کھڑا تھا25 کھرب روپے پر یعنی نواز لیگ نے پانچ سالوں میں 11 کھرب کا پبلک قرضہ لیا اور 2020 تک پبلک قرضہ 36 کھرب تک پہنچ گیا یعنی پونے تین سال میں پی ٹی آئی حکومت نے11 کھرب قرضہ لے لیا۔ تو اس حساب سے پی پی پی کی حکومت میں فی سال پبلک قرضہ سواکھرب بنتا ہے اور نواز لیگ کے دور میں یہ فی سال پونے دو کھرب اور پی ٹی آئی کے دور میں یہ فی سال پونے چار کھرب بنتا ہے۔ اب مضمون نگار نے پبلک قرضے میں فی سال اضافے کی مد میں تینوں حکومتوں کے فرق کو نجانے کیوں برابر کردیا)   

مزید آگے بڑھنے سے قبل یہاں ایک پہلی ہے: ہر سال پاکستان اربوں روپے ایسے قرضوں کے کرائے کی مد میں ادا کرتا ہے جو استعمال بھی نہیں ہوتے۔ جو لوگ اس پزل کو حل کرنے کے خواہش مند ہیں ان کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اس قرضوں کے معاہدے کون تیار کرتا اور اور کون مذاکرات کرتا ہے؟

.

ہو کیا رہا ہے، ایک طرف تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارا قرضوں کے بغیر گزارا نہیں ہے۔ دوسری طرف ہم ایسے قرضوں پر بھی اربوں روپے ادا کرتے ہیں جن کا ہمیں پتا ہی نہیں ہے کہ وہ  کہاں اور کیسے استعمال ہوتے ہیں۔  تو ہم کس چیز کے لیے پھر قرض لے رہے ہیں۔ یہ مضمون اس بات پہ زور دیتا ہے کہ اضافی قرضہ جو ہم لیتے ہیں اس کا ہمارے معیار زندگی اور معاشی نمو پہ کوئی فرق نہیں پڑتا۔

کون سے اثاثے رہن رکھے جارہے ہیں اور آخر میں ان قرضوں کا بوجھ کس کو اٹھانا ہے کے معنوں میں سب سے کم توجہ پانے والا پہلو غیر مساوی پن کا ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ ایف نائن پارک اسلام آباد کی کم قیمتی جائیداد میں سے ہے۔ اصل میں کچھ اور جگہیں جیسے اسلام کلب پھر گن کلب کہیں زیادہ مہنگے ہیں۔ یہی بات لاہور کے جی آر او اور مال روڑ پہ سرکاری مقامات بارے درست ہے- ایسی مہنگی عمارتوں کو کبھی رہن رکھا نہیں جائے گا کیونکہ وہ تو اس ملک کی اشرافیہ کے لیے مختص ہیں۔ ایسی جگہیں ءیں جہاں پہ اس ملک کے مقتدر اور طاقتور سکون پاتے اور سبسڈی پر پلاٹ حاصل کرنے سے لیکر موٹے حکومتی کنٹریکٹ حاصل کرنے کے منصوبوں پہ بحث ہوتی ہے۔ ایف نائن پارک تو عام لوگوں کے لیے کھلا ہے جہاں ہر کوئی کچھ بھی کرايہ اداکیے بغیر لطف اٹھا سکتا ہے۔ تو قانون اور گروی رکھے جانے کی حکمت عملیاں صرف ایسے مقامات پر ہی نافذ العمل ہوسکتی ہیں۔

اگر یہ منطق صاف سمجھ آتی ہے تو پھر اس بات کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں ہے کہ کراچی کے ہوائی اڈے سے لیکر موٹر ویز تک جیسے مقامات کو کیوں رہن رکھا جاتا ہے۔ ان کی ادائیگی کا بوجھ صرف اشراف پر نہیں بلکہ سب پہ آتا ہے۔

آخرکار ان قرضوں کی ادائیگی عوام نے ہی کرنا ہے۔

سادہ بات ہے کہ ہم ایسے قرضے لیکر خود اپنی موت کو آواز دے رہے ہیں جن کا مجموعی طور پہ قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ایسی بات نہیں ہے کہ دنیا میں کوئی اور قرضے نہیں لے رہا۔ حقیقت میں دنیا قرضوں میں نہائی ہوئی ہے ، خاص طور پر حکومتیں۔ لیکن جس طریقے سے یہ لیے جاتے ہیں اور جن مقاصد کے لیے ہوتے ہیں ان کا فائدہ ممالک کو ہوتا ہے۔ سیکنڈے نوین ممالک کی مثال لے لیں-  ترقی کے رول ماڈل کے طور پر پیش کیے جانے والے ان ملکوں نے بھاری قرضے لیے۔ لیکن یہ قرضے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے استعمال ہوئے ناکہ پبلک سیکٹر پہ بوجھ بن کر ان پہ لادھ دیے گئے۔ اور ایسی سرمایہ کاری عوام کے اعتماد کی شکل میں سامنے آتی ہے جو اپنی آمدن کی ایک بڑی شرح حکومت کو بخوشی ٹیکس کی شکل میں دیتے ہیں۔ پاکستان میں بالکل اس کے الٹ صورت حال ہے۔  

اس حکومت کی معاشی انتظامیہ کی تشکیل ہر حماقت اور ناکامی کا الزام گزشتہ حکومتوں کو دینے پہ کھڑی نظر آتی ہے۔ حالانکہ اس کی معاشی انتظام کاری کا کنٹرول پی پی پی دور کے وزیر خزانہ کے ہاتھ میں ہے) اس حکومت نے جتنے دعوے کیے تھے کہ یہ سپر سیپشلسٹ کی ٹیم لائیں گے اور بڑی تبدیلیاں لائیں گے سب نرے دعوے ہی ثابت ہوئے۔

خلاصہ یہ ہے کہ قرضے لینے سے پریشانیاں اس وقت نہیں آتیں اگر معاشی گروتھ اور شہریوں کا معیار زندگی بڑھ رہا ہو۔ اس کے لیے ملک کے پاس ایک شاندار گروتھ پلان ہونے کی ضرورت ہوتی ہے جوکہ ایک اہل انتظامیہ اور منصوبے کے ساتھ بروئے کار لایا جاتا ہے۔ پاکستان کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔

مضمون نگار ماہر معشیت ہیں اور پی آئی ڈی میں ریسرچ فیلو ہیں

 

shahid.mohmand@gmail.com

Twitter: @ShahidMohmand79

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here