صرف دس روپے

 

بولائےچند مکھوپادھائےکہانی لکھیک : بنوپھل

اردو ترجمہ: عامر حسینی

بٹھو بابو کو بڑا عجیب لگ رہا تھا، اس نے کہا،” جانے دو، ارے چھوڑو بھئی؛ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ تم لوٹا دینا جب تمہارے اپنے پاس ہوں۔ اتنے اتاولے کیوں ہورہے ہو؟”

اور زیادہ شرمندگی سی محسوس کرتے ہوئے، نکھل بابو نے کہا،” نہیں، اصل میں مجھے یہ بات بدحواس بنارہی ہے۔ میں نے آپ کو تین بار بنا پیسوں کے لوٹا دیا۔ آج میں نے یقینی طور پر آپ کی رقم لوٹا دینی تھی؛ گزشتہ رات میں نے وہ رقم الگ سے رکھ دی تھی۔ لیکن اس صبح مسٹر بوس بہت ہی بے رحم ہوگئے۔ ان کا بیٹا بنارس میں بیمار ہے؛ ٹیلی گرام آیا تھا کہ اسے پیسوں کی ضرورت ہے۔

بٹھو بابو نے کہا،” آپ نے ان کو پیسے دے کر بالکل ٹھیک کیا! اس میں مسئلہ کیا ہے! جب وہ تمہیں لوٹائے تم مجھے واپس کرسکتے ہو۔ مجھے دیکھنے دو تو اگر بپن مجھے کچھ نقد رقم ادھار دے دے۔۔۔۔”

“مجھے آج پیسوں کی ضرورت ہے” کہتے ہوئے بٹھو بابو اٹھ کھڑے ہوئے۔ جیسے ہی وہ رخصت ہوئے، پریشانی نکھل بابو کے چہرے سے رخصت ہوگئی اور اس نے خود سے کہا،” کیا حماقت ہے اسقدر تھوڑے پیسوں کے لیے نیند خراب کرلی جائے۔”

باہر(نکل کر) بٹھو بابو کی حالت بھی بالکل بدل گئی تھی۔ اس نے آواز نیچی رکھتے ہوئے کہا،” لگتا ہے کہ یہ احمق بھی سر درد بننے جارہا ہے۔”

دوم

دن یونہی معمول کے مطابق گزرتے چلے گئے۔ ایک ہفتہ ہوچلا تھا۔ بٹھو بابو ایک بار پھر صبح سویرے نکھل بابو کے دیوان خانے پہ آن دھمکے۔ قریب تین مہینے پہلے، بٹھو بابو نے اسے دس روپے کا قرض دیا تھا اور اس نے اسے آنے والے کل میں لوٹانے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن یہ قسمت کی ستم ظریفی تھی کہ دفتر کے معزز کلرک نکھل ناتھ مترا کو بٹھوچرن بوس جیسے لوفر کا مقروض ہونا پڑا اور وہ بھی دس روپے کی معمولی سی رقم سے۔ “ہائے تقدیر۔۔۔۔ میں تیرے آگے سرجھکاتا ہوں، نال راجا جیسے عیار بادشاہ کو تیرے ہاتھوں ذلت اٹھانا پڑی تھی اور میں تو پھر ایک سادہ کلرک ہوں۔” اس طرح سے نکھل بابو اپنے آپ کو تسلی دیا کرتا تھا۔ افواہ تھی کہ نکھل بابو کو بچپن میں مہا بھارت کے قصّے سننا بہت پسند تھے۔

بٹھوچرن کی آمد پر، نکھل بابو نے ایسے ظاہر کیا جیسے وہ بٹھوبابو کو دیکھنے کے لیے بے چینی سے دن گزار رہا تھا، اور اب اس کی آمد پر اس کی پریشانی غائب ہوگئی ہو۔

“اب میں ٹھیک ہوں! دھنے واد بٹھو بابو۔ میں ہر روز آپ بارے ہی سوچتا تھا۔ ہمارے پڑوس میں آج ایک مقامی تھیڑ شو ” گنیش اوپیرا” ہوگا۔ کیا آپ آنا پسند کریں گے؟ من پسند صحبت کے بغیر ایسی چیزوں میں مزا نہیں آتا۔ براہ کرم! آپ آئیے گا۔”

بٹھوچرن کا خوشی سے چہرا دمکنے لگا جیسے اس نے ابھی چاند کو پالیا ہو۔ اپنی چمکتی آنکھوں کو اٹھاکر، اس نے کہا،” کیوں نہیں! وقت کیا ہوگا؟”
” آٹھ ، شام کے آٹھ بجے۔”
“میں آؤں گا۔”

اسی وقت نکھل بابو کی چھے سالہ بیٹی منٹو نمودار ہوئی اور کہنے لگی،” بابا ۔ ماں کہتی ہے کہ ہمارے پاس چینی نہیں ہے!” بٹھوبابو نے منٹو سے بات چیت چھیڑ دی۔ اس نے اپنی بیٹی سے بھی کبھی اتنی بات نہیں کی تھی۔ “کاکی!، بچی ، تمہارا فراک تو بہت ہی پیارا ہے! ربن تو اس سے بھی زیادہ دل کش ہے۔” دس منٹ اور اسی طرح کی بات چیت میں گزر گئے۔

بٹھوچرن کا اولین مقصد تو دس روپے واپس لینا تھا۔ لیکن وہ خود کو اس حوالے سے دباؤ ڈالنے پر مجبور نہ کرسکا۔ بہت سارے عذر سوچ کر، اس نے معاملے کو طول دیا، تاوقتیکہ نکھل بابو خود ہی موضو، چھیڑ دے۔ بٹھوچرن کے ہاں شائستگی کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی۔

اور نکھل ناتھ بابو بھی راست گو ذہن رکھتا تھا۔ اس نے بھی اس موضوع ہرگز نہیں اٹھایا۔

اس سال فتح پور سیکری میں غضب کا پالا پڑھا تھا اور اسے نے غریب لوگوں کی مشکلات میں بے تحاشا اضافہ کردیا تھا۔۔۔۔۔نکھل بابو نے کئی طریقوں سے اس معاملے پر پریشانی کا اظہار کیا۔

گھڑیال نے نو بجادیے۔ نکھل بابو نے کہا،” مجھےتیار ہوکر کام پر جانا ہے۔”

اس وقت بٹھوچرن اور اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا۔ مایوسی سے اس نے پوچھا،” کیا مسٹر بوس سے آپ نے پیسے واپس لیے؟” نکھل ناتھ نے ایسے ظاہر کیا جیسے وہ آسمان سے گرپڑا ہو۔” ٹھیک، ٹھیک، میں بھول ہی گیا تھا، میرے پاس آپ کے پیسے ہیں۔” اس نے اپنی جیب تلاش کرنا شروع کردی۔

” ارے او گوش، میری چابیاں کہاں ہیں؟ اس نے اپنی ساری جیبوں کی مفصل تلاشی لی۔ میز کے نیچے ، وارڈروب کے اوپر، اس نے ہر جگہ تلاش کیا۔ مصیبت ہے ، چابی نہیں مل رہی ہے۔ بٹھوچرن نے بھی تلاش کرنے میں مدد کی اور آخرکار اسے کہنے لگا،” جانے بھی دیچیے؛ اتنی بھی کیا جلدی ہے؟”

سوم

شام کو وہ ٹھیک وقت پہ پہنچ گیا ، بٹھوچرن نے پایا کہ نکھل ناتھ تو وہاں کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ پتا کرنے پہ اسے معلوم ہوا کہ نکھل ناتھ تو کسی ضروری کام سے باہر چلا گیا؛ اور کچھ پتا نہیں تھا کہ وہ کب لوٹے گا۔

بٹھوچرن نے خود ہی سارا شو دیکھا۔ اس نے واقعی میں اترا کی اداکاری کو بہت پسند کیا۔ دماغ اور بدن کے درمیان بہت گہرا سمبندھ ہوتا ہے اور اس کی نفی نہیں کی جاسکتی۔ اس کا ثبوت تھیڑ کے آخر میں میسر بھی آگیا۔۔۔۔۔۔۔اس نے اترا کی تکلیف پر بہت آنسو بہائے۔ اگلی صبح وہ سمجھ گیا کہ درد اس کے گلے کی پھانس بن چکا ہے۔ اسے نگلنا مشکل اور اسے دوموٹے سوجے ہوئے غدود بھی تھے۔ اس نے اپنے بخار کو ماپا تو اسے پتا چلا کہ اسے ہلکا سا بخار تھا۔ ہلکا سا بخار بتدریج تیز ہوتا گیا؛ اور بٹھوچرن نے بستر پہ لیٹے ہوئے سوچا کہ اگر وہ نکھل ناتھ سے ملا نہ ہوتا تو وہ کبھی تھیڑ دیکھنے نہ جاتا۔ یہ بھی سچ تھا کہ دس روپیوں کے لیے وہاں جانا بنیادی مقصد نہ تھا، وہ تو نکھل ناتھ سے ملنے اس کی صحبت کی خواہش کے تحت جایا کرتا تھا۔ اس طرح کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ بلبلانے لگا،” یہ بدمعاش مجھے معاشی اور جسمانی طور پر مار دے گا۔” بٹھوچرن ایک ہفتے تک بستر پہ پڑا رہا؛ مزید اسے 17 روپے اور 87 پیسہ اپنے علاج پہ خرچ کرنے پڑے۔

چہارم

اوپر بیان کیے گئے حادثے کے بعد ایک ماہ اور گزر گیا۔ کیونکہ زمین تو بنگالی نہیں ہے نا، یہ تو مذہبی وفور کے ساتھ اپنے مدار کے گرد گھومتی ہے؛ رات اور دن تو اپنی فطرت کے مطابق ہی بدلتے ہیں۔

یہ مہینے کا چھٹا روز تھا۔ سیڑھیوں سے اتر کر کمرے میں بیٹھے ہوئے، نکھل ناتھ اپنے ذہن میں حساب کتاب لگارہا تھا ۔ کل ادائیگی کا دن ہے۔ اس کی کل تنخواہ ملا جلا کر 55 روپے تھی۔ گھر کا کرایہ 15 روپے تھا اور 20 روپے سبزی والے کے ادا کرنے تھے۔ باقی بچتے بیس روپے سنتالیس پیسہ۔۔۔۔ 47 پیسہ نہ گنتے ہوئے ۔۔۔ اس نے بیس ہی شمار کیے۔ ان پیسوں میں سارے مہینے کی سبزی و دیگر اشیائے ضرورت خریدنا تھے، بچوں کے اسکول کی فیس کی ادائيگی، مٹی کے تیل کی خرید، کپڑے اور لانڈری کے اخراجات کرنا تھے۔ بٹھوچرن کے دس روپے قرض کی واپسی ناممکن ہوگی۔

لیکن اس کی بیوی کے پاس کچھ پیسے تھے۔ اس نے گھریلو اخراجات میں سے کچھ پیسے بچا لیے تھے لیکن نکھل کو ٹھیک سے پتا نہ تھا کہ وہ کتنے پیسے ہیں۔ مزید یہ کہ وہ شوبھا کو اس کی چھوٹی سی رقم سے محروم کرنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ کیسے اس کا مطالبہ کرسکتا تھا؟

اس نے بٹھوچرن سے پیسے جوئے پہ لگانے کے لیے ادھار لیے تھے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وہ ہار گیا تھا۔ وہ مخلص ہوکر اپنی بیوی کو یہ سب بتا نہیں سکتا تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ کہیں اور سے پیسے لوٹانے کا انتظام کرلے گا۔ لیکن ہر ماہ ۔۔۔۔۔ دماغ میں حساب و کتاب کرکے ۔۔۔۔ وہ جان گیا تھا کہ ایسا کچھ انتظام کرنا ناممکن تھا۔ اس کے لیے بہانے بناکر بٹھوچرن کو نراش واپس بھیجنا مشکل ہوتا جارہا تھا۔ ہر بات کی کوئی حد ہوتی ہے۔ نکھل ناتھ سوچ رہا تھا کہ اب آگے وہ کیا کرے؛ اسی لمحےاسے گلی کے موڑ سے بٹھو کی آواز سنائی دی،” ہاں، میں ابھی نکھل بابو کو ملنے جارہا ہوں۔”

بدحواس ہوکر، نکھل ناتھ تیزی سے اٹھ کر کھڑا ہوا اور ساتھ ملحقہ خفیہ کمرے کے اندرجا گھسا اور اس نے فوری طور پہ اپنے آپ کو اندر بند کرلیا۔

پنجم

“نکھل بابو”
منٹو نمودار ہوئی،” بابا ابھی تو یہاں بیٹھے تھے۔ ہوسکتا ہے ابھی ابھی باہر نکلے ہوں۔”
“ٹھیک ہے، جب وہ واپس آئیں تو بتانا کہ میں آیا تھا۔”
“اچھا”

بٹھوبابو چلے گئے۔ تھوڑی دیر ہوئی تھی ان کو گئے، نکھل ناتھ طوفان کی طرح اپنے چھپنے کے مقام سے باہر نکلے ، چیختے ہوئے،”ہائے بھگوان! کونے میں بھڑ کا چھتا تھا۔ اس کے کاٹنے سے، نکھل بابو سدھ بدھ بھول گیا اور یونہی دیوانہ وار گھومنے لگا۔ اس نے گھڑے سے کچھ پانی انڈیلا اور اس کے چھینٹے اپنی آنکھوں اور چہرے مارنے لگا۔ چلد ہی اس کی بائیں آنکھ سوج کر کپا ہوگئی اور بند ہوگئی جبکہ اس کا دایاں گال بھی سوج کر پھول گیا، اس کی ہئیت کذائی دیکھ کر منٹو کی ہنسی چھوٹ گئی ۔ نکھل ناتھ سڑھیاں چڑھ کر اوپر کی منزل پہ گیا اور لیٹ گیا۔

ٹھیک اسی لمحے دو آدمی بٹھو بابو کو تھامے ہوئے نمودار ہوئے۔ اس مخمصے میں گرفتار کہ نکھل بابو سے اپنی رقم کیسے نکلوائے اور غائب دماغی سے نیچے گلی میں چلتے ہوئے اس کا پیر کیلے کے چھلکے پہ آیا اور وہ گر پڑا۔ اس کا سر پھٹ گیا تھا اور اس کا بازو بھی ٹوٹ گیا تھا۔ دو راہ گیروں کی مدد سے اور شدید تکلیف کے باوجود وہ نکھل ناتھ کے ہاں پہنچ گیا کیونکہ اس کا اپنا گھر کافی دور تھا۔

نکھل ناتھ اوپر منزل میں بستر پہ لیٹا ہوک تھا۔ بار بار پکارے جانے پر، وہ نیچے آیا اور اپنی دائیں آنکھ سے اس نے دیکھا کہ بٹھوچرن لوٹ کر آگیا تھا۔

ایکدوسرے کو دیکھتے ہیں انھوں نے بے اختیار کہا،”مجھے بچاؤ”۔

* * * * * *

تب سے تین ماہ اور گزر چکے ہیں۔
نکھل ناتھ نے اب تک پیسے واپس نہیں کیے ہیں۔
بٹھوچرن اب بھی چکر پہ چکر لگارہا ہے۔

ختم شد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

مصنف کا تعارف اور دیگر ضروری معلومات

یہ کہانی بنگالی زبان کے معروف ادیب بونوپھل(جنگلی پھول جو قلمی نام تھا) نے لکھی اور پاراباس نامی ویب میگزین کے بنگالی سیکشن میں شایع ہوئی مارچ 1913ء میں- بونوپھل کا اصلی نام بولائے چند مکھوپادھائے تھاجو 1979ء میں پیدا ہوئے اور 1979ء میں فوت ہوئے۔ بہار ہندوستان کا قصبہ پورنیا ان کی جنم بھومی ہے اورانہوں نے میڈیکل کی ڈگری پٹنہ یونیورسٹی سے لی اور میڈیکل پیشے سے وابستہ رہے زیادہ تر زندگی بنگال سے باہر گزاری۔

 

یہ کہانی اس کے بعد انگریزی میں ترجمہ نیتا داس نے کی اور ترجمہ سیکشن میں یہ نمودار ہوئی جہاں سے اسے  اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

بنگالی زبان میں یہ ماترو دوشتی ٹکا کے عنوان سے لکھی گئی تھی۔

 Matro Doshti Taka (মাত্র দশটি টাকা)

اور بنسی شلپا کول کتہ سے یہ “بنوپھل کی بہترین کہانیاں” کے عنوان سے شایع مجموعے میں شامل ہے۔

বনফুলের শ্রেষ্ঠ গল্প (‘Best stories of Bonophul’) (Banishilpa, Kolkata).

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here