۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شکاری۔۔۔۔۔
دانش اور محبت کا استعارہ
(خاکہ)
۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے گھر جانا ہے میں بس کے انتظار میں کھڑا ہوں۔ چھوڑو یار گاڑی اور آ جائے گی میں آپ کو اس کی فرنٹ سیٹ پر بٹھا دوں گا۔
مجھے بھوک بھی لگی ہے میں نے کھانا بھی کھانا ہے
تو میں آپ کو کڑاہی گوشت کھلا دوں گا ۔بس آپ میرے پاس چلیں وہاں بہت سے دانشور بیٹھے ہیں ضروری باتیں کرنی ہیں
جب اس کے پاس کوئی دوست نہیں ہوتا تھا تو وہ خود جا کر کسی نہ کسی کو پهنسا كر لاتا۔آج وہ اس مسافر دانشورکو اپنے گھر گھیر لایا ۔اور اس نے آتے ہی کھانے کا مطالبہ کر دیا
بھلا اسے کھانا کہاں ملتا۔اسے تو وقت گزارنے کے لئے آدمی درکار تھا
قیدی دانشور نے جب کھانے کا مطالبہ دوہرایا تو اس نے کہا یارذراصبر توکرو اور تصور سے بھی کام لو کہ کڑاہی تیار ہو رہی ہے اس میں سے گرما گرم ہواڑیں نکل رہی ہیں
بیچارے بھوک کےمارے دانشور کے منہ سے رال ٹپکنی لگی صبح پانچ بجے تک انتظار کے بعد اس کو کھانے اور کرایے کی وافر رقم دے کر قیدی کو گھر جانے کی اجازت دی گئی۔
کبھی کبھی شکار پھنسنے کے موڈ میں خود بھی چلا آتا جب کہ میرے ساتھ بھی کئی بار ایسا ہوا کھایا پیا انقلاب کی منصوبے بنائےرات بسر کی اور پھر بیگ کندھے پرڈال کر روانہ۔
ایک دور میں ترقی پسند سیاست ڈیرے اڈے ملتان پر ہوتی تھی جسے وہ کمیو نسٹ پارٹی کا دفتر کہتا تھا۔رات کو جب “امروز” کی ڈیوٹی سے رحیم بخش جتوئی اور شبیر حسن اختر فارغ ہو کر نیچےآتے تو محفل اور جم جاتی ۔گئی رات بعد یہ محفل اس کے اپنےڈیرہ پر آجمتی اورصبح آٹھ بجے تک چلتی رہتی بعض دفعہ یہ مجلس اس کے اپنے مکان کے اندراس کے مخصوص ہال میں بھی ہوتی جہاں کچھ دوست تو صوفوں پر بیٹھ کے کھاتے پیتے اور کچھ قالینوں پر گڑ بازیاں کھاتے ہوئے سیاست ادب اور فلسفے پر بحث بھی چلائے رکھتے۔
ایک بار اس کی ماں نے اس سے پوچھا تم ایل۔ ایل۔بی کے ایک پرچے میں کیسے فیل ہوگئے تو اس نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے دوستوں کی طرف اشارہ کر کے کہا ان نامراد کامریڈوں سے پوچھو جنہوں نے مجھے کورس کی کتابیں پڑھنے کی بجائے مارکس پڑھنے پر لگا دیا
اپنی بیویوں سے ناراض بہت سے كامریڈ مہینوں اس کے دیرے پر پڑے رہتےاور کئی اپنی لائیبریریاں بھی ساتھ لےآتے
کبھی کبھی وہ کامریڈوں کے ساتھ ہاتھ بھی کر لیتا
جب چائے والا پیسے لینے آتا تو وہ مہمان سے کہتاذرا اسے پیسے دے دینا میرے پاس کھڑے نہیں ہیں اور جب کامریڈ اپنا واپسی کا کرایہ دےبیٹھتا تو پھر کئی دن تک وہ واپسی کے لیے اس سے کرایہ مانگتا رہتااور جب تک وہ چاہتا اسے اپنے پاس ٹکائے رکھتا اور جب چاہتا اسے روانہ کرتا عام طور پر کامریڈواحد بخش رند مرحوم اور کامریڈ منظور بوہڑ مرحوم کے ساتھ ایسا ہوتا تھا۔لیکن استاد محمود نظامی کے ساتھ ایسا نہ ہوتا کیونکہ وہ اپنا کرایہ اپنے نہنگ میں چھپا کر رکھتا ہے
بہت سے دوست کرایہ ہونے کے باوجود بھی اس سے کرایہ بٹورتےاور اسے اس بات کا علم بھی ہوتا ہےمگر وہ مسکراکر کرایہ دے دیتا ہے
وہ دوستوں سے مذاق بھی کرتا ہےاور مذاق کو برداشت بھی کرتا ہے۔ایک بار میری موجودگی میں ایک شخص نے آکر کہاکہ اڈے پر ایک موچی بیٹھا ہوا ہےوہ کہتا ہے کہ وہ آپ کا بھائی ہے اور اس کے باپ کا نام بھی آپ کے باپ کے نام ساتھ ملتا ہے وہ کہتا ہے کہ آپ نے اسے گھر سے نکال دیا ہے اور اس کی جائیداد پر قبضہ کر لیا ہےیہ بات سن کر وہ مسکرایا اور بولا بیچارہ درست کہتا ہے ۔ہو گا میرا بھائی
۔وہ بہت کم غصہ کرتا ہے اور جب غصہ آئے تو پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ جب وہاں سے جائیں گےتو وہ ہاتھ بڑھائے گا اور کہے گا ہاتھ ملائو نا اور پھر دوستی بحال۔
جب کسی اہم فلسفیانہ موضوع پر گفتگو ہوتی ہے تو وہ اپنی حمایت میں جلدی سےسوویت یونین کی ڈکشنری آف فلاسفی اٹھا کر لاتا ہے
وہ کتابوں پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنے تخلیقی جوہر پر انحصار کرتا ہے۔اور باتوں کا منطقی انداز میں تجزیہ کرتا ہے۔
وہ خود نمائی اور شہرت سے بے نیاز اپنے دوستوں کی دنیا میں مست رہتا ہے۔
پولیس نے کئی بار اس کے ترقی پسندانہ نظریات کے بارے میں اس سے باز پرس کی لیکن وہ خوف سے بالاتر ہو کر اپنے خیالات پر قائم رہتاہے اور ایسی باتوں کی پروا نہیں کرتا۔
اپنی بیماری اورمجبوری کے باوجود اپنے دوستوں کے دکھ اور خوشی میں شامل ہونے کو ترجیح دیتا ہے۔اس نے میری ہر خوشی اور دکھ میں دور کا سفر کر کےمیرے غم میں اور خوشی میں شرکت کی
وہ اتنا بے نیاز شخص ہےجب آپ اسے فون کرتے ہیں تو وہ آپ سے پوچھتا ہے کیا آپ یہاں آئے ہوئے ہیں اگر آپ کہتے ہیں کہ نہیں میں اپنے گھر پر ہوں تو وہ کہے گا کہ میں باتھ روم میں ہو ں اسی نمبر پر آپ سے بات کروں گا لیکن پھر وہ یہ بات بھول جاتا ہے یا آپ کو” الو کا پٹھا” کہ کر معاملہ جانے دیتا ہے لیکن آپ سے نہ نفرت کرتا ہے اور نہ تعلق ختم کرتا ہے
ایک بار وہ میرے بیٹے کی شادی پر آیااور شادی پر اس نے رضو شاہ کے ساتھ اتنی شاندار جھمر ماری کہ گاؤں کے لوگ حیران رہ گئے حالانکہ ہمارے گائوں کی جھمر پورے علاقےمیں مشہور ہے
صبح سویرے ناشتے پر جب اس نے بہت ہی فلسفیانہ انداز میں گفتگو کی اور بہت سے سوالات کے ماہرانہ جوابات دیئے تو اس پر وہاں کئی نوجوان حیران رہ گئےان میں سے ایک پڑھے لکھے نوجوان نے کہا حیرت ہے اس آدمی کی یہ شخص کمال بندہ ہے رات اس نے کتنی شاندار جھمر ماری اور اب فلسفیانہ انداز میں سیاست پرگفتگو کر رہا ہے
میرے خیال میں اس نجیب ا لطرفین شخص منصور کریم سیال کو آپ پہچان گئے ہونگے۔خدا اسے سلامت رکھے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here