آج ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کا دن ہے بلکہ یوں کہیے کہ آج نئے پاکستان کے مسیحا کو مصلوب کیے جانے کا دن ہے۔ جیسے ابن مریم اپنے حواری یہوداہ کی غداری کے سبب مصلوب ہوئے تھے ایسے ہی قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو جیسا مسیحا اپنے اس چیف آف آرمی اسٹاف کے ہاتھوں مصلوب ہوا جس کو بھٹو صاحب نے تابعداری اور نیاز مندی میں ڈوبا ہوا پایا تھا۔

میری یادوں کے پٹارے میں بھٹو صاحب کے حوالے سے کچھ زیادہ مناظر نہیں ہیں جن کو میں اپنے پڑھنے والوں سے شئیر کروں تو ان کے علم میں کچھ اضافہ ہوجائے گا۔ میرا خاندان سارے کا سارا اس زمانے میں سنّی فرقے کی سیاسی جماعت جمعیت علمائے پاکستان – جے یو پی میں شامل تھا اور اس مناسبت سے ہمارے گھر کے سارے مرد اس جماعت کے قائد علامہ الشاہ احمد نورانی کے معتقد تھے اور ان کی ہمدردیاں پاکستان قومی اتحاد- پی این اے سے تھیں۔ میرے نانا اور ان کا سارا خاندان پاکستان پیپلزپارٹی کا گرویدہ تھا اور نانا کا شمار اوکاڑا میں پی پی پی کی بنیاد رکھنے والے اولین کارکنوں میں ہوتا تھا۔ مجھے اپنے بچپن کی دھندلی دہندلی سی یاد ہے۔ ان دنوں میرے والدین خانیوال کے بلاک تین کی چھے نمبر گلی کے 75 نمبر مکان میں مقیم تھے اور ميں اپنے دادا کے ساتھ وہاں تھا اور نانا بھی وہاں آئے ہوئے تھے۔ سب لوگ مکان کے صحن میں تھے اور گھر کے بزرگ اور بڑے بشمول عورتیں صحن میں بچھی کرسیوں اور دو عدر چارپائیوں پہ بیٹھے تھے اور میں اپنی دو بہنوں کے ساتھ درمیان میں کھڑا تھا۔ والد نے ایک ترپائی پہ بڑا سا ٹیپ ریکارڈر رکھا ہوا تھا جس کے ساتھ ریڈیو بھی تھا۔ انھوں نے ایک کیسٹ لگائی اور ریکارڈنگ کا بٹن دبادیا اور میرے والد کے چچا زاد بھائی تھے اصغر علی وہ کہنے لگے: بھئی بچوں! سب ملکر کہو، ہل چلے گا ، ہل چلے گا۔۔۔۔ گنجے کے سر پہ ہل چلے گا۔ میری دونوں بہنوں نے کورس کی شکل میں یہ فقرے گانے شروع کردیے۔ میں چپ کھڑا تھا تو میرے تایا نے مجھے کہا،”کہتے کیوں نہیں؟”، میں نے اپنے دادا کی طرف دیکھا،انھوں نے نفی میں گردن ہلاکر مجھے ایسا کچھ کہنے سے باز رکھا۔ جو میرے تایا نے دیکھ لیا اور وہ میرے دادا سے مخاطب ہوگئے، چچا! آپ ایک فاشسٹ کے خلاف بچے کو نعرے لگانے سے کیوں روک رہے ہیں؟ آپ کے بڑے لیڈر بھی تو بھٹو کو جعلی سوشلسٹ کہتے ہیں اور دیکھیں انھوں نے نیپ والوں کے ساتھ کیا کیا؟ سب کو حیدرآباد جیل بند کررکھا ہے۔ کراچی میں مزدوروں پہ گولیاں چلوائیں۔ جے اے رحیم کو پولیس سے پٹوایا اور معراج محمد خان کی ٹانگیں تڑوادیں۔ ملک پولیس اسٹیٹ بن گیا ہے۔ ایف ایس ایف والوں کی غنڈاگردی دیکھی ہے آپ نے۔ تایا کافی دیر تک بولتے رہے۔ میرے دادا نے یہ سب سن کر فقط اتنا کہا،”غریب عوام ایسے نہیں سوچتے جیسے ملّا،سرمایہ دار، جاگیرداراور افسر شاہی سوچتی ہے۔” اور وہ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔ خانیوال کی شہری آبادی میں تاجراور متوسط طبقے کی اکثریت پی این اے کی حامی تھی جبکہ شہری غریب اور دیہی آبادی کی اکثریت کی ہمدردیاں پی پی پی کے ساتھ تھیں۔ شہر میں انتخابات کے بعد پی این اے کی کال پہ پرتشدد احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ شہر میں پی پی پی کے حامیوں کی دکانوں اور مکانوں پہ دستی بموں سے حملے کیے گئے اور کہچری بازار میں پی پی پی کے حامیوں کی چار دکانوں کو آگ لگاکر نذر آتش کردیا گیا- پی پی پی کے بہت سارے کمزور کارکنوں کو مسجد میں بلاکر پی پی پی چھوڑنے کا اعلان اور کلمہ تک لاؤڈ اسپیکر پہ سنانے کو کہا گیا۔ حالات بہت خراب ہوگئے تھے۔میں نے بڑوں سے سنا کہ ایف ایس ایف اور فوج کو طلب کرلیا گیا تھا۔ پی پی پی کے منتخب ایم این اے رفعت حیات خان ڈاہا کی قیادت میں ایک جلوس شہر میں آیا جس میں اکثریت دیہی علاقوں کی تھی تو اس پہ شہریوں نے پتھراؤ کیا اور ہماری گلی میں ایک ٹیالہ سے ہجرت کرکے آیا ہوا ارائیں خاندان تھا جس کے مرد احراری کہلاتے تھے، ان کے پاس رائفل تھیں انھوں نے (گورودوارہ چوک) سنگلہ والہ میں ایک اونچی عمارت سے اس جلوس پہ فائر کیے اور جوابی فائر ہوئے لوگ زخمی تو ہوئے لیکن کوئی ہلاکت نہیں ہوئی ۔ ایف ایس ایف نے شہر میں آکر کنٹرول سنبھالا، اگلے دن پی این اے نے جلوس نکالا جس میں مدارس کے بچے بھی شامل تھے۔ یہ جلوس دفعہ 144 کی خلاف ورزی تھی اور ایف ایس ایف کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم تھا۔ اس روز ایف ایس ایف کی فائرنگ سے ایک مدرسے کا طالب علم حضور بخش اور بلاک 7 کا رہائشی ظفراقبال جان سے چلے گئے۔ پی این اے کو مقامی سطح پہ دو شہید مل گئے اور شہر کا غصّہ بھٹو کی حکومت پہ اور دوچند ہوگیا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میرے دادا نے سارے گھر کو مجبور کیا کہ شہر کے عین وسط میں کچھ روز کے لیے رہائش ترک کرکے نواحی علاقے میں منتقل ہوا جائے اور وہ سب کو وہاں لے گئے۔ کراچی میں بھی حالات بہت خراب تھے ہی اب یہاں بھی خراب ہوگئے تھے۔ پھر 5 جولائی 1977ء کی رات مارشل لاء لگ گیا اور اگلی صبح میں نے اپنے والد اور دیگر مردوں کو بہت خوش دیکھا اور مارشل لا لگنے پہ ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔ میرے دادا کسی گہری سوچ میں تھے انہوں نے کسی سے کچھ نہیں کہا۔ ان کے ایک دوست تھے میر صاحب، وہ ہماری بیٹھک میں آئے تو میں نے دادا کو انھیں یہ کہتے سنا،”میر صاحب! بوٹ والی سرکار جب آجآئے تو بہت مشکل سے بیرک واپس جاتی ہے۔” ایسے ہی دن گزرتے چلے گئے۔ بھٹو پہلے رہا ہوئے اور پھر وہ نواب احمد خان قصوری کے مقدمہ قتل میں گرفتار ہوگئے اور مقدمہ پہلے ہائیکورٹ میں چلا اور پھر سپریم کورٹ گیا اور آخرکار 4 اپریل 1979ء کو وہ  دو بجے رات کو راولپنڈی کی جیل میں پھانسی پر لٹکادیے گئے۔ صبح کے اخبارات میں تو یہ خبر نہیں تھی لیکن دوپہر کے ضمیموں میں یہ خبر خصوصی طور پہ شایع کی گئی ۔ ہمارے گھر نوائے وقت کا ضمیمہ آیا۔ اور 6 بجے جب گرمی کی شدت میں کافی کمی آگئی تھی اور سورج بھی مغرب کی سمت غروب ہونےکو تھا ، میرے دادا مجھے لیکر گلی میں آئے اور میں ان کی انگلی پکڑ کر چلے جارہا تھا، گلي کے نکڑ پہ پہنچا تو میں نے سامنے بلاک ساتھ کی چوڑی گلی کے نکڑ پہ ایک ادھیڑ عمر شخص کو دیکھا جس نے سفید رنگ کی شلوار قمیص پہنی ہوئی تھی اور اپنے بازو پہ کالی پٹی باندھی ہوئی تھی اوروہ زور زور سے چیخ کر کہہ رہا تھا،”ظالماں نے عدالت دا سہارا لیکے گریباں دے بھٹو نوں پھائے چاڑھ دتّا” اس وقت مجھے پنجابی کے یہ شبد زرا سمجھ نہيں آئے تھے بھٹو بھی پنجابی لہجے میں کہا گیا تھا جس کی ادائیگی عجیب طرح سے ہوئی تھی۔ میرے دادا اس آدمی کے پاس پہنچے اور اسے تسلی دی اور چل دیے ، ابھی ہم سڑک پہ تھوڑی دور ہی گئے ہوں گے تو پیچھے شور بلند ہوا اور ميرے دادا نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور فوری طور پہ ایک تنگ گلی کی طرف مڑے انھوں نے مجھے گود مين اٹھالیا تھا۔ میں نے ادھر دیکھا تو مجھے پولیس ہی پولیس نظر آئی اور ایک گاڑی کی طرف اس آدمی کو گھسیٹ کر لیجاتے ہوئے دیکھا۔ دادا اس تنگ گلی سے ہوکر چور بازار(گڑمنڈی) سے ہوکر ہمارا گھرجہاں تھا اس گلی میں آئے اور گھر میں داخل ہوئے تو میری والدہ سے سامنا ہوا، انہوں نے پوچھا ، ابا! خیر تو ہے؟(امی میرے دادا کو ابا کہتی تھیں اور دادی کو امّی) انہوں نے کہا، ہاں خیر ہے، پولیس سابق ایم پی اے مجید انور ایڈوکیٹ کو گرفتار کرکے لے گئی ہے۔ بعد میں میں جب سن شعور کوپہنچا اور خود طلبا سیاست میں داخل ہوا تو مجھے پتا چلا کہ مجید انوراور چوہدری برکت اللہ (دونوں وکیل تھے) یہ دونوں وہ پہلے فرد تھے جنھیں شیخ محمد رشید صدر پی پی پی پنجاب نے خانیوال میں پی پی پی کی بنیاد ڈالنے کے لیے رابطہ کیا تھا اور اپنی سوانح عمری”جہد مسلسل” میں انہوں نے اس کا زکر بھی کیا۔ مارشل لا کے ابتدائی دور میں وہی تحصیل خانیوال پی پی پی کے صدر تھے اور 1970ء اور 1977ء میں وہی خانیوال کے ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ اس کے بعد میں، میں نے انھیں اپنے گھر سے پیدل چل کر صبح سویرے کہچریاں جاتے دیکھا اور کہچریوں سے پیدل ہی اپنے گھر کی طرف آتے دیکھا۔ ان دنوں انہوں نے پی پی پی کا دفتر راجپوت سرائے سٹی بس اسٹینڈ پہ بنایا ہوا تھا  جو باقاعدگی سے کھلا کرتا تھا۔ ہمارا شہر اگرچہ اپنے مزاج کے اعتبار سے اور اکثریت کے رجحان کے اعتبار سے اینٹی بھٹو اور اینٹی پی پی پی تھا لیکن اس شہر کی کچی آبادیوں کالونی نمبر ایک تا تین، لکڑ منڈی، چن شاہ بستی ، کرسچن کالونی، خرم پورہ، لوکو شیڈ کالونی، پرانا خانیوال، ریلوے لائن کے ساتھ بنی جھونپڑ پٹیوں اور کچے مکانات، محلّہ غریب آباد میں پی پی پی کی بہت حمایت تھی۔ جبکہ شہر کے سولہ بلاکوں میں دائیں بازو کے گھرانوں کے بڑی تعداد مين نوجوان بھی اپنے باپ دادا کی روایت سے باغی اور منحرف ہوکر پی پی پی کے بازو بن چکے تھے۔ ہماری گلی میں تین گھر پی پی پی کے تھے۔ ان میں قمرشمشاد ، شیخ باسط اور لاڈو دلہن  کے گھرانے کے سب کے سب افراد پیپلیے تھے۔ پچھلی گلی میں فتح محمد اور اس سےدو گلی چھوڑ کر اگلی تنگ گلی کے نکڑ پہ شیخ خلیل یہ دو نوجوان تھے جو اپنے گھرانے کی روایتی جماعت جے یو پی کو چھوڑ کر پی پی پی کے بازو بن گئے تھے اور اپنے اپنے والد سے مار کھاتے تھے۔ اس سے اگلی چوڑی گلی کے عین نکڑ پہ ایک بڑیسا حویلی نما گھر تھا جس کے اوپر بڑا سا علم غازی عباس کے ساتھ ساتھ بہت بڑا پی پی پی کا جھنڈا لہراتا دکھائی دیتا تھا اور جمشید علی عابدی ایڈوکیٹ کا گھرانا تھا اور ان کے بیٹے بدرعباس عابدی پی پی پی کے سرکردہ کارکن تھے جو بعد ازاں پی پی پی سٹی خانیوال کے جنرل سیکرٹری بنے تھے- آگے چوک آجاتا تھا جسے مدینہ مسجد چوک کہتے ہیں،یہاں پہ شمال کی طرف ایک بڑا سا گھر تھا جو پی پی پی کے بانی صدر خانیوال چودھری برکت اللہ ايدوکیٹ کا گھر تھا اور یہ پہلے ایم این اے بھی تھے۔ یہ 1973ء کی آئین بنانے والی کمیٹی کے رکن بھی تھے۔ بھٹو کی سیاست کا کمال تھا کہ اس شہر میں ایسے منجھے ہوئے سیاسی کارکن سامنے آئے جن کے گھرانوں کی اس سے پہلے پہچان سیاست کبھی نہيں رہی تھی۔ اکثر نمایاں کارکن چھوٹی اور نچلی سمجھی جانے والی ذاتوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے سیاسی کردار نے ان کی جو خاندانی اور ذاتی شناخت تھی اس پہ غلبہ پالیا تھا۔ اس شہر کے سیاسی کارکنوں میں بڑے نام رکھنے والوں میں لکڑ منڈی کے سقّے/ماشکی جو عباسی کہلاتے تھے اور ایسے ہی بستی چن شاہ اور کچی آبادیوں میں رہنے والے ذات کے فقیر جو شاہ کہلاتے تھے اور میراثی جو قریشی کہلاتے تھے شامل تھے لیکن ان کی ذات اور برادری کا کم سماجی اسٹیٹس ان کے سیاست میں ترقی کرنے کے اڑے نہ آیا اور پی پی پی نے ان کو بہتر مقام دے ڈالا۔ پی پی پی کے اجلاسوں ہوں، جلسے ہوں یا اور سرگرمیاں ہوں یہ اس پارٹی میں شامل سید، شیخ، قریشی، ارائیں، کمبوہ ، راجپوت ، جٹ ،مہر، ہراج، ڈاہے، گرديزی جاتوں سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کے برابر بلکہ اپنی کارکردگی کے اعتبار سے ان سے بھی کہیں زیادہ اہم سمجھے جاتے تھے – ان کمزور جاتوں سے تعلق رکھنے والوں کو پی پی پی کی پہلی حکومت ميں بہت ساری سرکاری محکموں میں نوکریاں ملیں، چینی ، آٹے ، گھی کے ڈپو ملے اور بہت سے لوگ بیرون ملک گئے اور ان کے آنے والے بچے بچیاں اچھی تعلیم سے آراستا ہوئے اور اکن کا سماجی مرتبہ ترقی کرگیا۔ یہ ایک ایسی سامنے دکھائی دینے والی تبدیلی تھی جس نے ان لوگوں کے دلوں میں بھٹو کی عقیدت کو دوچند کردیا تھا۔ پی پی پی کے یہ منجھے ہوئے سیاسی کارکن کم ازکم 1996ء تک خانیوال میں پارلیمانی ٹکٹوں کی تقسیم میں بنیادی کردار کے مالک رہے اور پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد بنائے جانے والے اہم سماجی و سروسز کمیٹیوں کے سربراہان اور ممبرز بنتے رہے۔ پی پی پی خانیوال سے انیس سو اٹھاسی سے 1997ء تک ہونے والے مسلسل چار انتخابات میں کبھی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیت نہ پائی اور ایسے ہی 2008ء میں بھی یہاں سے پی پی پی کو صوبائی نشست ملی لیکن اس کے باوجود یہاں کارکنوں کی وساطت سے بلامبالغہ ہزاروں وفاقی اور صوبائی محکموں میں نوکریاں دی گئیں۔ یہ ایک ایسا انقلاب تھا جس کی بنیادذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی۔ اس شہر میں بہترین سیاسی شعور کے مالک جتنے زیادہ کارکن میں نے پی پی پی کی جماعت کے دیکھے کسی اور پارٹی میں نظر نہیں آئے اور یہی کارکن گراس روٹ لیول کی سیاست کو عوامی سیاست کے نظریے سے جوڑے نظر آئے۔ بھٹو کو ایک اینٹی بھٹو اور اینٹی پیپلزپارٹی شہر میں زندہ رکھنے اور اسے ہیرو بنانے کے لیے یہی ایک عنصر سمجھ میں آجائے تو لوگوں کو یہ سمجھ آجائے کہ پریس کی سرخیوں سے سیاسی تاریخ نہیں بنا کرتی اور سرخیوں میں جو ہیرو نظر آتے ہیں وہ سیاست کی تاریخ میں زیرو ہوجاتے ہیں۔

بہت عرصے کے بعد میں نے جب ستار طاہر کی 1979ء میں لکھی جانے والی کتاب “مردہ بھٹو، زندہ بھٹو” پڑھی جس ميں انھوں نے بتایا تھا کہ جب پاکستانی پریس کے اکثر اردو اور انگریزی اخباربھٹوکی پھانسی پہ پورے پاکستان کے لوگوں کے پرسکون رہنے کی خبر دے رہے تھے جو عام مشاہدے کے خلاف بات تھی تو انہوں نے کتاب “مردہ بھٹو، زندہ بھٹو” تشکیل دی۔ میں نے 1984ء سے اخبارات پڑھنے شروع کردیے تھے اور میرے زیادہ تر اردو اخبارات ميں روزنامہ نوائے وقت اور رونامہ جنگ اور انگریزی میں ڈان اور پاکستان ٹائمز ، کبھی کبھی فخر ماتری کا ڈیلی لیڈر اور پھر ضیاءالحق کے آخری دور میں زیادہ تر دا مسلم اور دا فرنٹئیر پوسٹ پشاور (یہ اکثر شام کے وقت ملتے تھے) پڑھا کرتا تھا۔ فرنٹئیر پوسٹ کو چھوڑ کر باقی سب اخبارات بھٹو، بیگم بھٹو، بے نظیر بھٹو اور پی پی پی کی کردار کشی سے بھرے ہوتے تھے۔ آج کل اس ميں سوشل میڈیا شامل ہوگیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مبینہ ہر جرم بھٹو کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔

rbt

بھٹو ایوب مارشل لاء کو مضبوط  کرنے کا ذمہ دار تھا

65ء اور 71ء کی جنگوں میں دھکیلنے کا ذمہ دار تھا

محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی الیکشن مین ہروایا

بنگلہ دیش بنانے اورملک توڑنے کا ملزم تھا

بھٹو کا اصل باپ ہندؤ گھاسی رام تھا

بھٹو ایوب خان کو ڈیڈی کہتا تھا

ٹیپ کے یہ وہ فقرے ہیں جو بار بار دوھرائے جاتے ہیں اور ایسے الزامات کی ٹیپ ہم شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف سنتے اور آج زرداری کے خلاف سنتے ہیں جن کو عالمگیر سچائیوں کے طور پہ آج بھی پیش کیا جاتا ہے۔ بھٹو صاحب یزید وقت کے ہاتھوں جسمانی طور پہ ختم کردیے گئے لیکن اپنے چاہنے والوں کے ہاں وہ امر ہوکر رہ رہے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here