شیعہ نسل کشی اور ایم کیو ایم – ایس عدنان کاظمی

0
827

یہ درست ہے پاکستان میں شیعہ کا زیر عتاب ہونا بہت منظم مہم ہے جو اب بدل کر “آہستہ رو نسل کشی” میں بدل چکی ہے۔ شیعہ کا اہدافی قتل ہی شیعہ نسل کشی کی مہم کی واحد نشانی نہیں ہے بلکہ اس میں شیعہ برادری کو کمتر بنائے جانے کا عمل، ان سے نفرت میں اضافہ ، ان کا گھیٹوز میں بند ہونا، داخلی بے دخلی ، ترک وطن کرنا ، ان کی بعض مذہبی رسومات اور شعائر پہ پابندی والے قوانین کا اجراء ، بلاسفیمی اور اینٹی سائبر کرائمز ایکٹ کے تحتمقدمات میں غلط طور پہ ملوث کیے جانے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ تو شیعہ مسلمانوں پر عتاب یک جہت نہیں ہے بلکہ یہ کثیر جہتی مظہر ہے۔ شیعہ مسلمانوں کے بعض اہدافی قتل کے پیچھے سیاسی محرکات پائے گئے اور ایسے قتل کے پیچھے کچھ فسطائی اور نسل پرست گروہ ملوث تھے۔ صحافی و تجزیہ نگار سید عدنان سعید کاظمی اردو بولنے والے کراچی کے باشندے ہیں اور ان کا جھکاؤ پی ٹی آئی کی طرف ہے۔ انہوں نے شیعہ مسلمانوں کے اہدافی قتل میں سے کئی ایک کے پیچھے ایسے عوامل کا انکشاف کیا ہے جس پہ بہت کم بات ہوئی ہے۔ ایسٹرن ٹائمز اس مضمون کو اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں بیک وقت شایع کررہا ہے اور اس موضوع پہ اگر کوئی اور بھی لکھنا چاہے تو لکھ سکتا ہے ہم اسے شایع کریں گے۔ ایڈیٹر

سن 2019ء کے اوائل میں اڈیالہ جیل سے رہائی کے بعد فیصل رضا عابدی غیر معمولی طور پہ پریشان حال دکھائی دیتے تھے۔ مخمور حالت میں انھوں نے نظربند/ جبری طور پہ گمشدہ افراد کی حالت زار کچھ یوں بیان کی تھی:

“کراچی کے یہ سارے نوجوان تو شام نہیں گئے تھے۔ اور یہ سب کے سب قریب قریب ایم کیو ایم سے تعلق رکھتے ہيں۔ وہ اہدافی قتل پہ مقرر تھے جنھوں نے خود شیعہ کو بھی مارا ہے۔”

دسمبر کی پچیس تاریخ کو علی رضا کے قتل بارے بھی انھوں نے پریشان کن تفصیلات بتائی تھیں۔

علی رضا عابدی شاہ محمود قریشی کے ساتھ رابطے میں تھے ۔ اور ان دونوں کے درمیان رابطے کا کردار عابدی کے ماموں کررہے تھے جو شاہ محمود قریشی کے بہت بڑے ووٹر اور سپورٹر تھے۔ عابدی ایم کیو ایم چھوڑ کر پی ٹی آئی میں جانے کو تیار تھے کہ فاروق ستار اور کامران ٹیسوری نے ان پہ حملہ کروادیا۔

فیصل رضا عابدی نے جس پریشان کن امر کا انکشاف کیا ویسا ہی الزام ہم عابدی کے قریبی رشتہ داروں سے بھی سنتے ہیں۔

انٹیلی جنس کے زرایع بھی ان تفصیلات کی تصدیق کرتے ہیں۔ ایم کیو ایم کراچی میں چلا ہوا کارتوس بن کر رہ گئی ہے لیکن اس کے کئی ایک سرگرم ہرکارے ایسے ہیں جو فرقہ وارانہ دہشت اور اس سے پیدا ہونے والے صدمے کو استعمال کررہے ہیں تاکہ اپنے سیاسی کردار کو ختم ہونے سے بچا لیں۔

سن 2016ء میں جب ایم کیو ایم کے خلاف ایجنسیوں نے کریک ڈاؤن کیا تو اچانک شہر میں اہدافی قتل کی وارداتیں تیزی سے نیچے آئیں جبکہ 2012 تا 2014 میں اہدافی قتل کی وارداتیں بہت یادہ تھیں۔

کراچی کی تاریخ میں دو واقعات ایسے ہیں جو دکھاتے ہیں کہ کیس ایم کیو ایم نے “شیعہ ایشو” کو استعمال کیا۔

سن 2005ء میں شیعہ امام بارگاہ “مدینۃ العلم” پہ خودکش بم دھماکہ ہوا اور تھوڑی دیر میں بدلے میں کے ایف سی جلادیا گیا ۔ بلوائیوں نے نہ صرف بینکوں کی شاخوں کو نشانہ بنایا بلکہ گاڑیاں اور پٹرول پمپ اسٹیشن بھی نشانہ بنائے گئے۔

محاصرے میں گھرے شیعہ مسلمانوں سے لوگوں کو ہمدردی محسوس ہونے کے وہ بعد میں رونما ہونے والے واقعات سے برہم ہوگئے۔

اور یہی ایم کیو ایم کا مقصد ہے۔ انھوں نے ہنگامہ آرائی اور تباہی دونوں کو بڑھایا جوکہ انھوں نے خود پیدا کیا تھا۔ متاثرہ مذہبی برداری کو پہلے نشانہ بنانا اور پھر معصوم لوگوں کو بدلے میں نشانہ بنانا ایم کیو ایم کی چال تھی۔

اس چال نے کراچی کے شیعہ مسلمانوں کے پاس سوائے ایم کیو ایم کے ساتھ ہوجانے کے اور کوئی آپشن نہ رہا۔ ایم کیو ایم نے ان چالوں کا بڑھانا جاری رکھا اور 2009ء میں بدترین بم دھماکہ ہوا جب مئیر مصطفی کمال تھا۔ سو افراد بشمول بچے مارے گئے۔ جب شرکاء جلوس اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھانے میں مصروف تھے اور زخمیوں کو سنبھال رہے تھے تو ایک پراسرار گروہ گلیوں میں نمودار ہوا۔

سی سی ٹی وی کیمروں نے ان کو کراچی کی بڑی مارکیٹ اور دکانوں کو انڈسٹریلکٹر سے کاٹتے ہوئے دکھایا۔ اور پھر انھوں نے اس پہ فاسفورس پاوڈر چھڑک کر آگ لگادی۔

میڈیا نے اس کو شیعہ مسلمانوں پہ تنقیدی اور نفرت بھرے تبصرے کرنے کے لیے استعمال کیا جبکہ وہ کچھ دیر پہلے ایک خوفناک المیے سے دوچار ہوئے تھے۔ اس دوران ایم کیو ایم نے اس موقع کو تاجروں اور کاروباری برادری کو ایک اور دھمکی بھیجنے کا نادر موقعہ جانا اور ان کو پیغام بھیجا “ہمارے مطالبات پورا کرو ورنہ۔۔۔۔۔۔۔”

ایم کیو ایم نے 1980ء سے یہ کئی بار کیا جب ضیاء الحق نے اس جماعت کو کھڑا کیا تھا۔ جنرل اسلم بیگ سابق چیف آف آرمی اسٹاف نے یہ حقیقت کئی بار افشا کی ہے۔

ایم کیو ایم کا خمیر جنرل ضیاءالحق نے اسلامی جمعیت طلبا کے عسکریت پسندوں سے اٹھایا تھا۔ شیعہ بزرگ جو کراچی کے پرانے رہائشی ہیں وہ اسلامی جمعیت طلباء کے 1970ء میں علی بستی پہ حملوں یاد رکھتے ہیں۔
اسی طرح کے عسکریت پسندوں کو ایم کیو ایم میں شامل کیا گیا جس نے ایم کیو ایم کو جواردو بولنے والے دانشوروں کی ایک معتدبہ تعداد (جس میں کئی نامور شیعہ اردو بولنے والے دانشور بھی شامل تھے) رکھتی تھی سخت گیر فسطائی دہشت گرد تنظیم میں بدل دیا۔ 1990ء کے آتے آتے اس میں اردو بولنے والے بڑے نام والے دانشور بشمول شیعہ دانشور بہت ہی کم رہ گئے تھے۔

بلدیہ فیکٹری میں آک لکانے کے واقعہ میں 300 مزدور جل کر مرے تو 70 سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ کام متحدہ نے 2012ء میں کیا اوراس کا حکم اوپر سے آیا تھا- تب تک ایم کیو ایم ٹوٹی نہیں تھی ۔

یہ پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد ہوا کہ اس سانحے کے ذوا داروں کو سزا دی گئی ۔ کپتان کی حکومت نے آخرکار ایم کیو ایم سے لوگوں کی جان چھڑوائی۔

نواز لیگ کی بدعنوان اور پی پی پی کی کمزور حکومتوں کا ایم کیو ایم سے کوئی مقابلہ نہیں تھا لیکن پی ٹی آئی کراچی کے اردو بولنے والے پروفیشنل کی جماعت بنکر ابھری ۔ پی ٹی آئی نے کافی سارے علاقوں سے ایم کیو ایم کا صفایا کردیا اورباقی کے ایم کیو ایم دھڑوں پہ سختی سے نظر اور گرفت رکھی۔

مئی 2019 میں شیعہ ہیومن رائٹس کے نام سے “لاپتا شیعہ افراد” کے لیے ایک طویل ہڑتال کی گئی۔ یہ ہڑتال صدر مملکت عارف علوی کے گھر کے سامنے ہوئی اور کئی دن جاری رہی۔

معزز پی ٹی آئی کے وزیر علی حیدر زیدی نے احتجاج کرنے والوں سے مذاکرات کیے۔ تحریک انصاف کے لوگ ہوش ربا تفصیل سے وااقف ہیں۔

یہ تفصیلات وہی تھیں جو چند ماہ پہلے فیصل رضا عابدی نے مخمور حالت میں افشا کی تھیں۔

شام جانے والے لاپتا شیعہ افراد عدالتوں میں پیش کیے گئے۔ لیکن بہت سے شیعہ نوجوان اب بھی لاپتا ہیں۔ اور یہ شیعہ نوجوان قریب قریب سب ہی ایم کیو ایم کے مبینہ موت کے ہرکارے اسکواڈ سے تعلق رکھتے ہیں۔

ان میں بہت سارے تو اپنی بظاہر آمدن سے کہیں زیادہ مہنگا طرز زندگی اختیار کرنے کے سبب پکڑے گئے۔ ایم کیو ایم میں ایک دوسرے سے مسابقت میں مصروف فرقہ وارانہ دھڑے ظاہر کرتے ہیں کہ پارٹی کی قیادت نے اپنے عسکریت پسندوں کو شیعہ – سنّی مسلمانوں کے درمیان بدترین صورت حال پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔

ایم کیو ایم نے اپنے ایسے شیعہ عسکریت پسندوں کو سنّی اور شیعہ دونوں کو مارنے کے لیے استعمال کیا جو اسلامی جمعیت طلباء کے ڈیتھ اسکواڈ سے آئے تھے۔ ان موت کے ہرکاروں نے جے یو آئی ایف اور دیوبندی اہل سنت والجماعت کے مدرسہ طالب علموں کا بھی قتل کیا تاکہ جلتی پہ تیل پھینکا جاسکے۔ ایم کیو ایم کے غارت گار اسکواڈ نے اکثر شیعہ مسلمانوں کو قتل کیا اور اسی ڈیتھ اسکواڈ میں شامل سنّی اسکواڈ سے صابری جیسے سنّیوں کو قتل کرایا۔ تو شیعہ مسلمان برادری نے کئی بار اپنے لوگوں کو ایم کیو ایم میں شامل ہوئے اپنے لوگوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترنا پڑا۔

ایم کیو ایم نے اپنے غارت گر اسکواڈ کو سردمہری سے خون آشام کاروبار کے لیے استعمال کیا۔ بعض اوقات وہ سپاہ صحابہ سے کرائے کے قاتل حاصل کرتے اور کبھی خود اپنے آپ ہی ایسے قتل کرڈالتے تھے۔

مقصد ہمیشہ ایک تھا – شیعہ کو محصور رکھو اور ان کو ایم کیو ایم کے آگے جھکاؤ۔

شیعہ لاپتا افراد کے نام پہ جو حالیہ احتجاج ہے اسے پورے ملک کی شیعہ کمیونٹی کی مکمل حمایت حاصل نہیں ہے۔ کہا جارہا ہے علامہ امین شہیدی جس کے مقابلے میں موجودہ حکومت اور خود فوجی قیادت نے علامہ راجا ناصر عباس کو اہمیت دے رکھی ہے کا وینچر ہے۔

امین شہیدی اس احتجاج کو اپنی طاقت شو کرانے کے لیے استعمال کررہا ہے تاکہ وہ اقتدار کی غلام گردشوں میں اپنا مقام پاسکے اور جو نوجوان اس احتجاج کی قیادت کررہے ہیں ان کا زیادہ تر تعلق ایم کیو ایم سے ہے۔

اس میں کچھ تو آئی ایس او کے سابقین ہیں جن کا تعلق کراچی اور امین شہیدی کے علاقے سے ہے ، کچھ وہ ہیں جن کا تعلق جے ڈی سی سے لیکر ایم کیو ایم تک ہے۔ کچھ ایسے ہیں جو لیفٹ یا لبرل انسانی حقوق کے کارکنوں کے لبادے میں ہیں لیکن ان کا تعلق اصل میں ایم کیو ایم سے ہی ہے۔

کچھ عرصہ پہلے لندن میں آباد ہوئے ایک اردو اسپیکنگ شیعہ ایکٹوسٹ جعفر مرزا جو حسین حقانی کے ساتھ فورم کا حصّہ بھی ہے اور ایک اور ایکٹوسٹ نور مریم کنور کا شوہر ہے جو بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی اور وہاں پہ مسلح جدوجہد اور بھارت کی حمایت پہ تائیدی ٹوئٹ اور پوسٹیں کرتی رہتی ہے نے ایک مضمن لاپتا شیعہ افراد پہ لکھا تھا۔

یہ مضمون امریکی رسالے ڈپلومیٹ میں شایع ہوا تھا۔

اس کے علاوہ ایسے خاندان بھی ہیں جو شیعہ نسل کشی کے متاثرہ ہیں ان کو جذباتی طور پہ بلیک میل کرکے یا ان کی معاشی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاکر ان کو استعمال کیا جارہا ہے۔

شیعہ نسل کشی ایک حقیقت ہے لیکن کراچی میں یہ اس وقت سے بہت کم ہوچکی ہے جب سے فوج اور رینجرز نے ایم کیو ایم کو کٹ ٹو سائز کیا ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں سرائیکی ہوں، کوئٹہ میں ہزارہ ہوں ، سانگڑھ میں شیعہ ہوں، بلوچستان جھل مگسی میں بلوچی بولنے والے ہوں ، پارہ چنار میں پشتون ہوں اور راولپنڈی میں پنجابی ہوں سب کے سب شیعہ نسل کشی کے متاثرہ ہیں جو دہشت گرد سپاہ صحابہ نے کی ہیں لیکن ہم اس میں نسلی عنصر کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔

سنّی مسلمانوں کی بڑی تعداد بھی سپاہ صحابہ جیسے دہشت گرد گروپ کے ہاتھوں پنجاب ، کراچی ، کے پی کے اور بلوچستان میں ماری گئی ہے۔ لیکن کراچی میں شیعہ نسل کشی کی ایک پریشان کن جہت ہے کیونکہ اس میں ایم کیو ایم کی جانب سے شیعہ مارنے والے اسکواڈ بھی شامل رہے ہیں۔

بہت سے خاندان اس بات سے آکاہ نہیں ہیں کہ لاپتا ایم کیو ایم شیعہ قاتلوں نے کیا کیا؟ لیکن جو ایم کیو ایم کے بلبلے باہر ہیں وہ اس دل دہلادینے والے سچ سے واقف ہیں۔

کراچی میں شیعہ نسل کشی ایم کیو ایم کے بغیر ممکن نہیں تھی ۔ بنوامیہ کی ملوکیت کی طرح ایم کیو ایم کے رہنما بھی ممتاز شیعہ افراد کے جنازوں میں شریک ہوا کرتے تھے۔ ڈرانے والا اور ان کہا سچ یہ تھا کہ انہی ایم کیو ایم رہنماؤں نے شیعہ کو مروایا تھا۔ بہت سارے شیعہ کراچی میں ایم کیو ایم کے علاقوں میں ہی مارے گئے۔ یہ علاقے باقاعدگی سے لندن سے “بھائی ” کی کال پہ احتجاج میں بند کیے جاتے تھے لیکن شیعہ قتل کرنے والے آسانی سے اپنا کام کرتے تھے اور فرار ہوجاتےتھے – یہ وارداتیں نارتھ ناظژ آباد اور رضویہ سوسائٹی کی تنگ گلیوں میں ہوا کرتی تھیں۔ نمآئش ، گرومندر اور بہادرآباد جیسے ٹریفک کے اژدھام والے علاقوں میں بھی وہ آسانی سے وارداتیں کرتے اور غائب ہوجایا کرتے تھے۔

ایم کیو ایم کے پاس بہت سے ایسے صحافی ہیں جو پشتونوں کو شیعہ نسل کشی کا ذمہ دار قرار دیتے تھے۔ یہ باتایسے علاقوں کے بارے میں تو کسی حد تک درست تھی جہاں پہ طالبان قابض تھے۔ لیکن جب بعد میں کچھ دیوبندی مدرسہ طالب علم، مدرس، سپاہ صحابہ کے کارکن قتل ہوئے تو ایم کیو ایم کے حامی صحافیوں نے اسے ادلے کا بدلہ کی کاروائی قرار دیا۔ اس نے پورے پاکستان میں جو شیعہ مسلمانوں کی نسل کشی کا کیس تھا اسے خراب کردیا۔

حال ہی میں انصاف اسٹوڈنٹس کے اجتماع میں اس ایشو پہ بحث ہوئی۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی اکثریت ایم کیو ایم کو مستقبل میں ووٹ دینے نہیں جارہی ۔ ان میں سے اکثر نے پی ٹی ائی، جماعت اسلامی، پی ڈی ایم اور پی ایم ایل این کو ووٹ دینے کا عندیہ ظاہر کیا۔

ایم کیو ایم دوبارہ کبھی نہیں – اس دہشت گرد گروپ نے تعلیم یافتہ اردو بولنے والے سخت جان مہاجروں کی دو نسلیں تباہ کردیں۔ ہم کبھی رانما ہوتے تھے۔

اسی وجہ سے شیعہ لاپتا افراد کے احتجاج اب کراچی پریس کلب سے دور ہیں جہاں بلوچ، سندھی ، پشتون لاپتا افراد بارے احتجاج باقاعدگی سے ہورہے ہیں۔ کیونکہ جب کبھی سوالات اٹھتے ہیں لاپتا ہونے والے شیعہ افراد کون ہیں؟ پوچھا جائے گا تو جواب بہت ہی بے چین کرنے والا ہوگا۔ لاپتا شیعہ افراد کوعدالتوں کے سامنے پیش کیا جانا چاہئیے تاکہ سب کو پتا چل سکے کہ ایم کیو ایم نے ان کو کس ہلاکت خیز راستے پہ ڈال دیا گیا ہے۔

پندہ سال پہلے نوجوار شاہراہ فیصل پہ خطرناک کرتب دکھایا کرتے تھے ۔ ان کو ایم کیو ایم نے ہٹ اسکواڈ نے بھرتی کیے تھے۔علی رضا عابدی کے المناک قتل کی فوٹیج ان ٹارگٹ کلرز کی مہارت کا انکشاف کرتی ہے اور جس رفتار سے انہوں نے موٹر ساغيکل چلاتے ہوئے یہ قتل کیا اس سے بھی ذہنوں میں شکوک پیدا ہوتے ہیں۔

کپتان کا شکریہ وہ دن اب از کار رفتہ ہوگئے اور ایم کیو ایم بھی ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here