آج 11 اپریل 1990ء ہے اور پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کراچی ڈویژن کے صدر نجیب احمد کی 31ویں برسی ہے۔ آج کے ہی دن آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی صدر خالد بن ولید نے اپنے مسلح ساتھیوں کے ساتھ نجیب احمد کو باقاعدہ گھات لگاکر گولیوں سے چھلنی کردیا تھا اور وہ ہسپتال میں جاں بحق ہوگئے تھے۔ نجیب احمد کی شہادت کے بعد بھی ایک ایک کرکے کراچی کے تعلیمی اداروں میں پی ایس اف کے سرگرم کارکنوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا رہا اور ان کے سب کے پیچھے اس زمانے میں اے پی ایم ایس او کا مرکزی صدر خالد بن ولید تھا جو ایم کیوایم کے ڈیتھ اسکواڈ کو لیڈ کرتا تھا۔

نجیب احمد 17 نومبر 1963ء کو کراچی کی یو پی سے ہجرت کرکے آنے والے درمیانے طبقے کے ایک اردو بولنے والے خاندان میں پیدا ہوا- نجیب کا خاندان کراچی کی تعلیم یافتہ درمیانے طبقے کی اس برادری سے تعلق رکھتا تھا جس کی بہت بڑی تعداد 1976ء میں بنی پاکستان پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئی تھی۔ اس کے خاندان نے پی پی پی کو اچھے اور برے دونوں وقتوں میں ساتھ رکھا۔ نجیب احمد جوان رعنا تھے جب ملک میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا لگا اور نتیجے میں ذالفقار علی بھٹو کو پھانسی پہ جڑھادیا گیا۔ کراچی شہر پی پی پی کے حوالے سے 1977ء کی پی این اے کی تحریک کے وقت دائیں بازو کی رجعت پسندی کے آگے جھک گیا- نجیب احمد کا خاندان جس لسانی کمیونٹی سے رکھتا تھا، اس کمیونٹی کے درمیانے طبقے کی بھٹو سے نفرت انتہائی شدید ہوچکی تھی- خاص طور پہ نچلے متوسط طبقے میں اینٹی بھٹو کیمپ غالب تھا۔ لیکن نجیب کے خاندان نے بھٹو خاندان سے اپنا تعلق اور رشتہ ختم نہ کیا۔ نجیب احمد مارشل لا دور ميں پی ایس ایف کے پلیٹ فارم سے متحرک رہا- ابتدا سے اس میں قائدانہ صلاحیتیں تھیں اور اس چیز نے اسے پہلے کالج میں اور پھر یونیورسٹی میں پی ایس ایف کے مقبول لیڈر کے طور پہ مقبول ہوگئے۔ وہ ضیاء الحق کے زمانے سے کراچی کے تعلیمی اداروں میں مذہب کے نام اور زبان کے نام پہ فسطائی قوتوں اسلامی جمعیت طلبا اور اے پی ایم ایس او کی متشدد سیاست کا مقابلہ کرتے آرہے تھے۔ نجیب نے اس پرآشوب دور میں کراچی کے اردو- اسپکینگ طبقے کے نوجوانوں کو پی ایس ایف میں شامل کیا اور ان کو لیاری ، ملیر میں بلوچ اور پشتون ترقی پسند طلباء کے قریب آنے کا موقعہ فراہم کردیا۔ اور سندھ پیپلز اسٹونڈٹ فیڈریشن کے سندھی بولنے والے نوجواں طالب علموں سے روابط کرائے۔ اور 1988ء مں پی پی پی برسراقتدار آئی تو ضیآہ الحق کی باقیات جو پی پی پی کو نہ اقتدر ملنے پہ خوشی ہوئی اور نہ ہی وہ کراچی میں پ ایس ایف کے بڑھتے زور اور طاقت کو ٹھنڈے پیتٹوں برداشت  نہ کر پائی۔ وہ کراچی کے تعلیمی اداروں میں اے پی ایم ایس او اور اسلامی جمعیت طلبا اور چند ایک اور لسانی تنظیموں کا قبضہ جمانا تھا ۔ یہ قبضہ اسلحے اور بدمعاشی کے زور پہ کیا جارہا تھا۔ رینجرز اور ایجنسیوں اور یہاں تک کہ پولیس میں بھی ضیاءالحق کی باقیات کے لوگ موجود تھے جو جمعیت اور اے پی ایم ایس او کے غنڈہ عناصر کو ہلّا شیری دے رہے تھے۔

نجیب احمد نے اے پی ایم ایس او کا اردو بولنے والی آبادی کی اکثریت میں موجود تعلیمی اداروں ميں قبضہ کرنے کے منصوبے کو ناکام بنانے کی جدوجہد شروع کردی۔ اس نے سیلف ڈیفینس کے تحت ایک حد تک تعلیمی اداروں میں اے پی ایم ایس او کے فاشزم کو مسلط ہونے سے روکے رکھا۔ 1990ء کا آغاز ہوتے ہی پی پی پی کی مرکز اور صوبہ سندھ ميں موجود حکومت کو گرانے کے لیے کوششیں تیز تر ہوتی گئیں۔ ضیاء الحق کی باقیات پر مشتمل اسٹبلشمنٹ نومبر کی پہلی تاریخ 1989ء میں پی پی پی کی وفاق میں حکومت کو عدم اعتماد کے زریعے سے گرانے میں ناکام ہوگئی تھی۔ اس دوران اسٹبلشمنٹ نے حق پرست کے نام سے منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی کو پی پی پی سے اتحاد ختم کرنے پہ آمادہ کرلیا اور ایم کیو ایم سندھ میں لسانی بنیادوں پہ تشدد کو پھیلانے اور کراچی ميں قتل و غارت گری کرنے پہ مامور کردیا تھا۔ اس وقت کا اردو پریس پی پی پی کو اردو بولنے والی کمیونٹی کے دشمن کے طور پہ پیش کر رہا تھا اور اردو بولنے والی کمیونٹی میں زبردست قسم کا احساس عدم تحفظ پیدا کیا جارہا تھا۔ ایسے میں جب کراچی اور دیگر شہروں میں ایم کیو ایم نے ایجی ٹیشن شروع کی اور ساتھ ساتھ اس کے ڈیتھ اسکواڈ سرگرم ہوئے تو تعلیمی اداروں کا امن بھی بری طرح سے متاثر ہوا۔ اسٹبلشمنٹ کراچی کو مکمل طور پہ مہاجر لسانیت پرستوں کے ہاتھوں یرغمال بنانے پہ تلی بیٹھی تھی۔ اس مشن کو تعلیمی اداروں میں نجیب احمد کی قیادت میں پی ایس ایف نے روکنے کی ٹھان لی۔ اسٹبلشمنٹ نے جب اپنے منصوبے کو تعلیمی اداروں میں پی ایس ایف کراچی ڈویژن کے ہاتھوں ناکام ہوتے دیکھا تو اس نے  اے پی ایم ایس او کے ڈیتھ اسکواڈ لیڈر خالد بن ولید کو نجیب احمد اور اس کے ساتھیوں کو قتل کرنے کا پروانہ جاری کردیا۔ نجیب احمد پی ایس ایف کے زیر اہتمام ایک افطاری پروگرام سے واپس لوٹ رہے تھے جب اے پی ایم ایس او کے دہشت گردوں نے نجیب احمد کی گاڑی پر گھات لگاکر حملہ کیا اور ان پہ شدید فائرنگ کی اور وہ شہید ہوگئے۔ یہ کام ایسے وقت میں کیا گیا جب پی پی پی اور اس کی مرکزی قیادت وفاق میں اپنی حکومت بچانے کی سرتوڑ کوشش کررہی تھیں۔ اپریل میں نجیب احمد کا قتل ہوا اور پھر اگست تک کراچی کے اردو بولنے والی آبادی کی اکٹریت والے علاقوں ميں پی ایس ایف ہی نہیں بلکہ پی پی پی کے منجھے ہوئے سیاسی کارکنوں کا قتل شروع ہوگیا اور یہ سلسلہ بعد ازاں دوسری جماعتوں اور ان کے طلبا ونگ تک وسیع ہوگیا۔ اور اگست ميں غلام اسحاق خان نے قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں توڑ دیں۔ اسٹبلشمنٹ وفاق میں آئی جے آئی کو جتواکر نواز شریف کو وزیراعظم بنوانے کا فیصلہ کرچکی تھی۔ اس مقصد کے لیے نہ صرف آئی ایس آئی نے مہران بینک کے زریعے بڑے پیمانے پہ سیاست دانوں کو پیسے فراہم کیے بلکہ پولنگ کے دن بدترین دھاندلی کی گئی اور آئی جے آئی کو 106 نشستں اور پی ڈی اے کو 44 نشستیں دی گئیں۔ اصغر خان اس الیکشن ميں دھاندلی اور رقوم بانٹنے کے ثبوت لکر سپریم کورٹ گئے لیکن اس کیس کا فیصلہ کم از کم دو عشروں بعد سنایا گیا لیکن اس پہ آج تک عمل درآمد نہیں ہوا۔

پی ایس ایف کراچی ڈویژن کے جو اراکین و عہدے دار  اس خون آشام دور میں مرنے سے خوش قسمتی سے بچ گئے ان کی اکثریت آج بھی پاکستان پیپلزپارٹی کراچی ڈویژن کے بہترین سیاسی کارکنوں ميں شمار ہوتی ہے۔ وہ آج بھی نجیب احمد کو یاد کرتے ہیں۔ پی ایس ایف کراچی ڈویژن کے عہدے داروں اور کارکنوں یکے لیے نجیب آج بھی ہیرو کی مافق ہے۔ بلکہ صرف کراچی ڈویژن ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں پی ایس ایف کا نظریاتی کارکن اسے مانتا ہے۔ پی ایس ایف نے ضیاء دور میں جہاں پنجاب میں اسلم وڑائج جیسے جیالے طالب علم رہنماؤں کی وجہ سے اپنا وجود برقرار رکھا تو کے پی کے مين سید قمر عباس شہید کی لازوال جدوجہد نے وہآں پہ پی ایس ایف کو زندہ رکھا اور پھر مدر پارٹی کو بہت سے ہیرے دیے۔

پی پی پی اور بھٹو کا مخالف کیمپ نجیب احمد کی کردار کشی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ پچھلے سال سینئر صحافی و فوٹو جرنلسٹ زاہد حسین نے نجیب احمد کی شہادت کے دن اور اس کے جنازے کے موقعہ پہ اپنی کھینچی گئی تصویروں کو ایک نوٹ کے ساتھ سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پہ شایع کیں تو سوشل میڈیا پہ نجیب احمد کو پہلی بار بہت جوش اور عقیدت سے خراج عقیدت پیش کیا گيا۔

سندھ حکومت کو چاہئیے کہ وہ نجیب اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی یادگار تعمیر کرے اور ہر سال 11 اپریل کو اس یادگار پہ پی ایس ایف کا بڑا اجتماع ہو۔ ایسے ہی پی پی پی پنجاب کو رزاق جھرنا کی قبر پہ بڑی یادگار تعمیر کرنے کی ضرورت ہے  جہاں رزاق جھرنا کی پرسی پہ شہید مینار کے سائے ميں پی ایس ایف پنجاب کے بڑے سالانہ اجتماع کا اہتمام ہو۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here