حال ہی میں ہندوستان سے چلنے والا ویب رسالہ جمہور کے مدیران دیویانی موٹلا، ارسلان صمدانی اور شوذب رضا نے دلت شکراا سے بات کی-وہ انڈین ورکرز ایسوسی ایشن/تنظیم برآئے ہندوستانی کامگران – آئی ڈبلیو اے کے عہدے دار رہ چکے ۔ آئی ڈبلیو کی بنیاد 1930ء کے عشرے کے برطانیہ میں پڑی اور یہ مبعد جنگ زمانے کے دوران نسل پرستانہ سرمایہ داری اے خلاف لڑائی میں رہنماء کردار ادا کرتی رہی ہے۔ اس میں ادھم سنگھ جیسی شخصیات بھی شریک رہیں۔

اس انٹرویو میں انھوں نے آئی ڈبلیو اے کی نسل واد، جات وادکے ساتھ ٹکراؤ اور لڑائیوں پہ بات کی- ہم امریکی سیاہ فام اقوام کی پاور موومنٹس سے ان کے 60ء اور 70ء کے عشرے میں تعلقات کو زیر بحث لائے۔ حال ہی میں دلت -سیاہ فام یک جہتی پہ بات کی- ساتھ ساتھ امبیرکر اور مارکس کے درمیان جو تناؤ والا تعلق بنتا ہے اور ماؤ نے کیسے ان کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جیسے سوال پہ غور کیا۔

 

دیویانی موٹلا(ڈی ایم): کیا آپ یہاں سے شروعات کرسکتے ہیں جس میں آپ اپنے بارے میں بتائیں – خاص طور پہ یہ بتائیں آپ نے “دلت شکلا” نام اختیار کیا؟

دلت شکرا(ڈی ایس): جیسا کہ آپ کو پتا ہے کہ “دلت” مظلوم اور پسے ہوئے طبقے کے لیے استعمال اہونے والا سنسکرت کا لفط ہے۔ یہ نام ہندؤ مت کے براہمن واد کو چتاؤنی دیتا ہے۔ شکر چاریہ ایک جانے پہچانے گرو ہیں جو کہ ہندومت میں جو لوکایت یا چارواک کے فلسفے میں راکھششوں کا گرو ہے۔(لوکایت کا فلسفہ ہندوستان کے قدیم ترین فلسفہ مادیت میں شمار ہوتا ہے) شکرا اور یہ راکھشش مادیت پرستی کے معمار اور “خیال پرستی/عینیت پسندی”کے مخالف تھے۔ میں نے شکرا نام کو اپنے نام کے ساتھ مادیت پرستانہ فلسفوں سے اپنی وابستگی کی وجہ سے جوڑا۔ مجھے اپنا ذاتی نام استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ کیونکہ میں نہیں سمجھا انفرادی شخص کوئی بہت بڑی اہمیت کا حامل نہیں ہوتا ہے۔

ڈی ایم: بہت دلچسپ بات ہے۔ آپ اس تشکیلی تجربات بارے بتاسکتے ہیں جنھوں نے آپ کو یہ نام اپنانے کی راہ سجھائی؟

ڈی ایس: یہ نام امبییدکرواد اور مارکس واد دونوں سے میری وابستگی کو پورا کرتا ہے۔ امبیدکرواد سے میرا پہلا تعارف اس وقت ہوا جب میں ایک بچےطور پہ ہندوستان پھل پھول رہا تھا۔ 14 سال کا تھا میں تو برطانیہ چلا آیا۔ جب میں نے ویسٹ مڈلینڈز فونڈریوں اور کارخانوں میں کام کرنا شروع کیا تو مجھے یہاں برطانیہ میں پہلی بار نسل پرستی/نسل واد دیکھنے کو ملا۔ اگرچہ میں فیکٹری ورکر تو نہیں تھا (میں ٹیکنکل اپرنیٹس تھا) میں نے دیکھا کہ کیسے جاتی واد (ذات پات کی پوچا)ہندوستانی ملازمین میں اندر تک سرایت کیے ہوئے تھا۔ جات پات کی بنیاد پہ امتیازی سلوک جیسے رویے اس زمانے کی ترقی پسند تنظیموں میں بھی نظر آجاتے تھے۔ مثال کے طور پہ آئی ڈبلیو اے جہاں میں ٹریننگ لے رہا تھا اس کارخانے میں بہت سرگرم تھی۔ لیکن ابتداء میں، میں نے ان سے منہ پھیر لیا کیونکہ وہاں کوئی دلت کے ان کے درمیان تھے ہی نہیں۔ پھر بھی یہ اس وقت بہت ہی ترقی پسند ہندوستانی گروپ ——— ٹریڈ یونینز وغیرہ تھیں جو روزانہ کی بنیاد پہ نسل واد سے لڑ رہی تھیں۔ وہ مالیکم ایکس اور سٹاکلے کارمیکائیل جیسے لوگوں کو یو کے آنے کی دعوت دی جاتی اور ان سے کہا جاتا کہ وہ نسل واد پہ اپنے تجربات لوگوں کو بتائيں- میں یاد پڑتا ہے کہ ایک امریکی سفید فام رپورٹرنے آئی ڈبلیو اے کے مرکزی جنرل سیکرٹری جگ موہن جوشی سے برطانیہ میں نسل پرستی بارے انٹرویو کیا تھا۔ رپورٹر نے مذاق میں کہا “نسل پرستی اتنی بری نہیں ہے جتنی یہ امریکہ میں ہے۔” تو جوشی نے رپورٹر سے کہا کہ رات کے پہر میں وہ اس کے ساتھ باہر شراب پینے چلے اور خود دیکھ لے کہ نسل پرستی کیسی لگتی ہے- ان کی شراب خانوں کی یاترا کے آخر میں رپورٹر نشے میں دھت ہوچکا تھا جبکہ دوسری طرف جوشی کو کسی شراب خانے سے ایک جام بھی پینے کو نہیں مل سکا تھا۔ وہاں پہ نسل پرستی کس قدر گہری تھی۔ میں آئی ڈبلیو اے کے قریب اس وقت ہوا جب میں برمنگھم میں ایک یونیورسٹی میں داخل ہوا۔ میں ترقی پسند بک شاپ کے قریب رہتا تھا جو جوشی چلاتے تھے۔ میں گاہے بگاہے وہاں چلا جاتا اور اس طرح سے میں نے ان سے یارانہ گانٹھ لیا۔ ہم ہر طرح کے موضوعات پہ باتیں کرتے تھے- خاص طور پہ بائیں بازو کی کی سیاست پہ بات ہوتی تھی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب میں مارکس واد، ماؤ واد اور چین میں دلچسپی لینے لگا۔

میرے چینی دوست (مین لینڈ چین سے نہیں) بھی میری چینی ثقافت اور تاریخ کا مطالعہ کرنے پر حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ خاص طور پہ چین کی 20ویں صدی کی تاریخ کے مطالعے پہ اکسایا کرتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ جوشی اور چینی دوستوں کے اشتراک سے بننے والے ثر نے مجھے آئی ڈبلیو اے کو جوائن کرنے پہ آمادہ کیا۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ آئی ڈبلیو اے ماؤواد کے بہت زیراثر تھی۔ پھر میں نے برمنگھم کو چھوڑا اور لٹن چلا گیا جہاں مجھے جاب ملی تھی – وہاں پہ آئی ڈبلیو اے کی کوئی شاخ نہیں تھی۔ تو پڑوس کے شہر بریڈفورڈ میں ایک برانچ تھی میں نے وہاں شرکت کرلی۔
آئی ڈبلیو اے بریڈ فورڈ برانچ مقامی طور پہ نسل واد کے خلاف لڑائی میں بہت سرگرم تھی۔ ان لڑائیوں میں سے مجھے بطور خاص شراب خانے (کے اندر غیر سفید فام اقوام کے داخلے) کے مسئلے کی لڑائی خوب یاد ہے۔ بریڈفورڈ میں جو شراب خانے تھے وہ غیر سفید فام کو سروس دینے سے انکار کرتے تھے۔ پہلے تو ہم نے شراب خانے میں ملازم ساقی اور مالکان سے بات چیت کی- مجھے یاد ہے ایک بار تو انہوں نے ہمارے خلاف پولیس بلالی تھی۔ چھے پولیس کاریں ، ایک بڑی پولیس وین اور نصف درجن تربیت یافتہ کتّے اور ان کے ٹرینر وہآں نمودار ہوئے۔ ہمیں گرفتار نہیں کیا گیا اور ہم سختی سے وہاں جمے رہے۔ لیکن اس نے ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت کا سبق دیا۔ ہمیں منظم ہونے کی ضرورت تھی۔

تو ہم نے گورمکھی(پنجابی) ، اردو ، بنگالی اور انگریزی میں لیف لٹ چھاپے اور اسے کمیونٹی میں تقسیم کیے۔ ہم نے لوگوں کو نسل وادی شراب خانوں کا سماجی مقاطعہ کرنے کی دعوت دی۔ بائیکاٹ کی وجہ سے شراب بنانے والی کمپنیاں چھے ماہ کے بعد ڈھیر ہوگئیں۔ انھوں نے شراب خانوں کے مالکان بدل ڈالے اور کہا وہ شراب خانوں میں اب اور امتیازی سلوک برداشت نہیں کریں گے۔

اس وقت بریڈفورڈ آئی ڈبلیو اے کی نسل واد مخالف سرگرمی کا ایک طرح سے مرکز تھی۔ جزوی طور پہ اس کی ایک وجہ آئی ڈبلیو اے ک اس شاخ کے اراکین نوجوان تھے۔ دوسری شاخوں میں ممبران جیسے ویسٹ مڈلینڈز تھی میں ممبران پرانی نسلوں کے تھے۔ ان کے پاس ہندوستان میں جدوجہد کا تجربہ تھا جسے وہ یو کے میں ساتھ لائے تھے۔ لیکن بیڈفورڈ شائر کے لوگ بہت نوچوان تھے، وہ یو کے ميں ہی پلے بڑھے تھے اور تنظیم سازی بارے ان کے تصورات بھی قدرے مختلف تھے۔

اس نسبتا نوجوان نسل کے اندر سے آئی ڈبلیو اے کے دلت ممبران آئے تھے۔ ان میں سے ایک بلبیردت تھا۔ وہ ترقی کرتے ہوئے بعد ازاں آئی اے ڈبلیو کا مرکزی جنرل سیکرٹری کے عہدے تک پہنچا اور کمیونٹی میں بہت مقبول تھا۔ جب وہ فوت ہوا تو اس کے کریا کرم کی رسومات اس کی اپنی کمیونٹی (دلت جاتی کی ذیلی جات بالمیکی) کے مندر میں ادا نہ کی جاسکیں کیونکہ وہاں جگہ بہت کم تھی۔ اس کی ارتھی کے جلوس میںبہت سارے لوگوں کی آمد متوقع تھی تو اس کی آخری رسومات سکھ گورودوارہ میں ادا کی گئیں جو کافی کشادہ تھا۔ ارتھی کا جلوس اس قدر لمبا تھا کہ پولیس کو بیڈفورڈ کے باہر سے ٹریفک کو متبادل روٹ پہ ڈالنا پڑا۔ وہ اس قدر لوگوں میں نام رکھنے والا شخص تھا۔ لیکن پھر بھی آئی ڈبلیو اے کی آفیشل کہانی میں اسے اکثر بھلا دیا جاتا ہے۔

ڈی ایم: یہ تو ظاہر ہے کہ آئی ڈبلیو او کی سیاست کافی پیچیدہ تھی۔ اس کے ممبران نسل پرستی کے خلاف متحد تھے۔ لیکن جیسے کہ آپ کہتے ہیں جاتی پہ مبنی امتیازی سلوک وہاں موجود تھا نہ صرف تنظیم کے اندر اور بڑے پیمانے پہ یو کے میں بھی۔ کیا آپ تھوڑا کھول کر بتاسکتے ہیں کہ وہ امتیازی سلوک نظر کیسے آتا تھا؟

ڈی ایس: بات یہ تھی کہ جو دلت برطانیہ آتے وہ بہت ہی غریب ہوا کرتے تھے، تو ان کو تارک وطن سے قرضہ اٹھانا پڑتا، جبکہ اونچی جاتی سے تعلق رکھنے والے لوگ جیسے جاٹ پس منظر کے لوگ تھے وہ اپنی زمینں رہن رکھوا کر یہاں آتے تھے۔ تو اونچی جاتی کے لوگ ہمیشہ نچلی جاتی کے لوگوں کے مقابلے میں آغاز سے ہی اچھی حالت سے آغاز کرتے تھے۔ لیکن جب ہندوستانی پہلے پہل یو کے آئے تھے تو چاہے ان کا تعلق کسی بھی جاتی سے تھا ان کو جات واد کی قائم کردہ حدود کو ضرورت کے سبب توڑنا پڑا تھا۔ ان کو بہتر رہائش، مل جل کر رہنے ، نوکریاں تلاش کرنے جو کم ہی دستیاب تھیں کے لیے ایک دوسرے سے جات پات سے ہٹ اککر تعاون کرنا پڑا تھا۔ ان کو بین المذاہب اشتراک بھی کرنا پڑا تھا۔ جب گرودوارہ کی ضرورت تھی تو جاٹ سکھوں کو روی داسوں اور بالمکیوں کے پاس جانا پڑا جنھوں نے پھر اس کے چندہ بھی دیا۔

البتہ جب ہندوستان سے عورتیں آئیں اور ان کی شادیاں ہندوستان اور یہاں رہنے والوں کے درمیان ہونے لگیں تو جاتی واد مضبوط طریقے سے ابھرنا شروع ہوگیا۔ دلت اس وقت گرودوارہ سے باہر کردیے گئے تو انھوں نے اپنی تنظمیں بنانا شروع کردیں۔
آئی ڈبلیو اے ایک حد تک ان ہی حرکیات کا پرتو تھی ۔ لیکن میں یہ نہیں کہتا کہ ہر آدمی ہی ایسا ہی تھا۔ بريدفورڈ شاخ عام رجحان سے ہٹ کر کسی حد تک ایک استثنا تھی جس میں بہت سارے نوجوان تھے۔ آئی ڈبلیو اے کی قیادت جیسے جوشی اور گوتم اپّا جو لندن اسکول آف اکنامکس سے تھے ان سب چیزوں کی طرف بہت کشادہ رویہ رکھتے تھے۔ لیکن اکثریت اراکین میں جو ہندوستان کے دیہاتوں سے آئے تھے انھوں نے آئی ڈبلیو اے میں خود جات پات کی تقسیم دوبارہ انسٹال کردی تھی۔

جاتی کے بھید بھاؤ کے علاوہ ایک دوسرا مسئلہ جینڈر/صنف کا تھا۔ بہت تھوڑی عورتیں آئی ڈبلیو اے میں حصّہ لیا کرتی تھیں۔ آپ ان کو انگلیوں پہ گن سکتے تھے۔ اور اس کا جواز نہیں بنتا تھا اگرچہ وجہ سمجھ آتی تھی۔ بڑي وجہ اس کی یہ تھی کہ قیادت اور کارکنان آئی اے ڈبلیو نے عورتوں کو تنظیم میں لانے کی بہت زیادہ کوشیں ہی نہں کیں۔ ایک طرح سے انھوں نے یو کے ميں پنجابی دیہاتی علاقوں میں پایا جانے والا صنفی تعلقات کا ڈھانچہ پیدا کردیا تھا۔ بالکل ایسے ہی 1960ء میں امریکہ میں بلیک پاور موومنٹ پہ بھی تنقید کی جاسکتی ہے کہ اس نے بڑی وسیع معاشرت میں پدرسریت کو ازسر نو جنم دے دیا تھا۔ ہم بھی اس سے مستثنی نہ تھی۔

ارسلان صمدانی(اے ایس): انڈین ورکرز ایسوسی ایشن میں کیا خاص کردار تھا؟

ڈی ایس: میں 1980ء میں چند سالوں کے لیے لندن براانچ کا جنرل سیکرٹری بنایا گیا۔ اس سے پہلے 1970ء میں میں بریڈفورڈ فورڈ برانچ میں سرگم تھا جہاں بلبیر دت آئی ڈبلیو کا ممتاز رہنما بھی کام کرتا تھا جیسا کہ میں نے اس کا زکر پہلے کرچکا ہوں۔ میں ایڈوائس سنٹر میں بھی سرگرم تھا جو ویک اینڈ پہ کام کرتا تھا۔ دت اور میں ایک ٹیم کے طور پہ کام کرتے تھے۔ دوپہرے کے کھانے کے وقفے میں، میں لیف لیٹ کا ڈرافٹ بناتا ،شام کو اس کو فون پہ پڑھ کر سناتا اور مين آئی ڈبلیو اے کے ممبران سے ملاقات کے لیے بیڈفورڈ کا سفر کیا کرتا تھا۔

اے ایس: آپ نے بلبیر دت کا زکر کیا۔ آپ پہلے زکرکرچکے کہ آئی ڈبلیو اے جیسے بائیں بازو کی طرف مائل ہندوستانی گروپ عام طور پہ جاتی واد سوال کو مسترد کرتے تھے۔ چک موہن جوشی اور بلبیر دت جیسوں کا وہاں ہونا مستثنیات میں سے تھا۔ کیا مسترد کرنے کا یہ عمل آئی ڈبلیو اے کی رہمنائی اونچی جاتی کے لوگوں کی طرف سے ہونے کی وجہ سے تھا؟

ڈی ایس: کسی حد تک، ہاں۔ قیادت کا زیادہ تر تعلق جاٹ سکھوں پہ مشتمل تھا وہ “دلت سوال” کو سنجیدگی سے لیتے نہیں تھے۔ اگرچہ ستر کی دہائی میں دلت پینتھر ہندوستان میں فعال تھے۔آئی ڈبلیو اے میں اعلانیہ تو نہیں مگر غیر نمایاں طور پہ یہ خیال پایا جاتا تھا کہ ہر کوئی بطور ورکرز کے متحد ہوجائے تو انقلاب آجائے گا اور “جاتی واد کا مسئلہ” خود ہی حل ہوجائے گا۔

مختصر طور پہ حقیقت یہ تھی کہ ہندوستانی لیفٹ میں بہت سارے جن میں آئی ڈبلیو اے بھی شامل تھی میکانکی مادیت پرستی کی گرفت میں تھے۔ کچھ ملیٹنٹ لوگ تو کمیونسٹ مینی فیسٹو ہاتھ میں لہرانے لگتے تھے جب کبھی آپ دلت مسئلہ اٹھاتے۔ وہ کہا کرتے: “ہمیں دکھاؤ یہ کہاں لکھا ہوا ہے۔”

کسی بھی حالت میں، میرا نہیں خیال کہ آپ “جات کے سوال” کو کتابوں کے زریعے سے پوری طرح سمجھ نہیں سکتے۔ اسے حقیقی طور پہ سمجھنے کے لیے آپ کو حقیقت میں لڑنا پڑتا ہے۔ عمل بہت ضروری ہے نہ صرف جاتی مواد سے لڑنے کے لیے بلکہ اس کے آپریشن کو کو بھی سمجھنے کے لیے۔ میکانکی مادیت پرستی کے خلاف ، آج جس چیز کی ہمیں ضرورت ہے اور کل بھی تھی وہ ہے “جات پات” کے سوال کی طرف جدلیاتی مادیت پرستانہ سوجھ بوجھ –

اے ایس: ان دنوں جوشی، بلبیر دت اور آپ کے درمیان آئی ڈبلیو اے میں کس قسم کی بحثیں ہورہی تھیں؟ کیا آپ اس سوال پہ روشنی ڈال سکتے ہو؟ دلت سوال پہ اس زمانے میں آپ اور دوسروں کی مداخلتب کس قسم کی تھیں؟

ڈی ایس: ہم کچھ اس طرح کے سوالات اٹھایا کرتے تھے: “جات” ان سب میں کہاں فٹ ہوتی ہے؟ ہمارے ہاں اور زیادہ دلت ممبران کیوں نہیں ہیں؟ جاٹ سکھ برادری سے ہمارے ہاں اراکین زیادہ کیوں ہیں؟

آئی ڈبلیو اے کے اکثر لوگوں کا عمومی جواب یہ ہوتا تھا کہ دلت ممبران کو اپنا زیادہ کام اپنی برادری/قوم کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ممبران بنانے پہ صرف کرنا چاہئیے۔ ظاہر ہے کہ یہ لوآ آئی ڈبلیو اے کے اٹھائے گئے نمایاں ایشوز میں سے اسے ایشو نہیں بنانا چاہتے تھے۔ اس طرح کے جواب نے ہم جیسے دلتوں کو کبھی مطمئن نہیں کرپاتے تھے۔
بتدریج جوشی نے اس طرف قدم بڑھایا اور ہم نے “جات” پہ زیادہ سے زیادہ کام کرنےنگے۔ 1970ء میں ہم نے برمنگھم میں ایک کانفرنس جاتی واد کی اصلیت پہ کی۔اتفاق سے سنت رام اداسی ترقی پسند دلت شاعر اور پنجابی نکسل باڑی جو اس زمانے لندن کے دورے پہ تھے کانفرنس میں شریک ہوئے۔ ان سے ملنے کے بعد میں سمجھ گیا کہ دلت سوال ہندوستان میں بھی زورو شور سے اٹھایا جارہا تھا۔
بدقسمتی سے اداسی کو امتیازی سلوک کا سامنا ہوا جب وہ یہاں تھے اور ایسا سلوک ہمارے اپنے ممبران کی طرف سے ہوا۔ ایک شام ہم اداسی کے ساتھ بیٹھے تھے اور سارے کامریڈ بھی تھے۔ اداسی صرف ایک بہترین شاعر ہی نہیں تھا بلکہ وہ طبعی سائنسی علوم میں بھی دلچسپی لیتے تھے۔ یہ جاننے کے بعد کہ ہم سے کچھ کا پس منظر طبعی سائنسی علوم کا تھا تو انھوں نے ہم سے ایٹمی سٹرکچر اور کوانٹم فزکس بارے سوال کرنا شروع کردیے۔‎ی

ہمارے کچھ جاٹ کامریڈوں نے ان کو بہت ہی بیوقوفانہ جوابات دیے جبکہ وہ ان کے سنجیدہ جواب چاہتے تھے تب میں نے انکے سوالوں کا جواب دینے کے لیے مداخلت کی ۔ انھوں نے اسے سراہا۔ اداسی جاٹ کامریڈوں کے جات پرستانہ رویے پہ ان کی سرزنش کی تھی ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here