نیویارک ٹائمز میں مہمان کالم شایع ہوا جس کا عنوان میں نے اپنی اس تحریر کا عنوان بنایا ہے۔ اور اسی کو لیکر ریاض ملک نے امریکی لبرل پریس کے جمہوریت پسند اور اسٹبلشمنٹ مخالف ہونے کا پول کھولتے ہوئے پاکستانی نژاد امریکہ نواز تجزیہ نگاروں کی منافقت کو بے نقاب کیا ہے جس کا اردو ترجمہ میں آخر میں پیش کرنے جارہا ہوں ۔

ریاض ملک پاکستان کے قومی اور بین الاقوامی امور پہ ماہر ان گنے چنے چند تجزیہ نگاروں میں سے ایک ہے جو مغربی عالمی طاقتوں کے کلب کی ریشہ دوانیوں اور منافقت کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ وہ پاکستانی نژاد ان نیولبرل تجزیہ نگاروں کے تجزیہ اور آرا کا مستعار شدہ ہونا اور امریکی اسٹبلشمنٹ کی مالی مدد سے چلنے والے تھنک ٹینک اور پالیسی انسٹیوٹ کے بیانیوں کی نقالی ہونے کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔
انھوں نے نجم سیٹھی سے لیکر حسین حقانی اور ان کے بغل بچہ تجزیہ نگاروں کے تجزیوں کی اصل اور ماخذ ڈھونڈ نکالے ہیں اور یہ ان کے مستعار ڈسکورس و بیانیہ طشت از بام کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں نیولبرل صحافت کے دیوتا ڈان میڈیا گروپ اور آزادی صحافت کا مطلب مالکان میڈیا گروپس کا مفاد لینے والے جیو وجنگ میڈیا گروپ اور اس کے افق پہ جعلی ستاروں کی طرح چمکنے والے تجزیہ نگاروں اور اینکروں کی اصلیت کو انھوں نے اچھے سے سوشل میڈیا کے ہر اس صارف کو دکھائی ہے جسے صحافت و سیاست میں دلچسپی ہے۔

پاکستان میں ہمیں لبرل صحافت کے علمبرداروں میں ایسے اینٹی اسٹبلشمنٹ نایاب نظر آتے ہیں جنھوں نے اپنے ملک کی اسٹبلشمنٹ کی پراکسیز اور مداخلتوں پرغیرمستعار معروضی تنقیدی موقف اپنایا ہو اور ان کے موقف میں کہیں سے سے بھی مستعار اسکرپٹ کا شائبہ نہ ابھرتا ہو۔ ان میں جن کو بین الاقوامی شہرت کا حامل جانا جاتا ہے ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کا ڈسکورس امریکی (نیو) لبرل پریس سے مستعار لیا ہوا نہ ہو۔ یہ گروہ 80ء کی دہائی میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی افغانستان میں گلوبل جہادی پراکسی وار کو سپورٹ کررہا تھا۔ یہ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی قدامت پرست اور رجعت پرستانہ پالیسیوں پہ تو تنقید کرتا تھا لیکن اسے پاکستانی اسٹبلشمنٹ کا امریکی سرمایہ دارانہ بلاک کی افغانستان میں عالمی جہادی پراکسی جنگ کا اتحادی بننے پہ کوئی اعتراض نہ تھا۔

آپ 80ء کی دہائی میں پاکستان کے انگریزی لبرل پریس میں لکھنے والے مرحوم ہوگئے اور کئی ایک زندہ تجزیہ نگاروں کے جنوبی ایشیا میں خاص طور پہ افغانستان میں سرمایہ دار امریکی بلاک کی عالمی جہادی پراکسی وار پہ تجزیوں کا آرکائیوز دیکھیں تو یہ سب وہی کچھ لکھ رہے تھے جو بی بی سی، سی این این، فاکس نیوز، نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، دا انٹلاٹک، فارن پالیسی ، وال اسٹریٹ جرنل میں چھپ رہا تھا۔ اور ان تجزیہ کاروں کا افغان جنگ پہ وہی ڈسکورس تھا جو ڈسکورس امریکی بدنام زمانہ انسٹی ٹیوٹس کارینگی انڈومنٹ، وڑروولسن وغیرہ کا تھا۔ جن کے نزدیک افغان مجاہدین “مقدس جنگ جو” تھے جو اپنی مادر وطن کا دفاع کرنے کے لیے قربانی دے رہے تھے۔ اور پوری دنیا سے لائے گئے نوجوان جہادی عالمی امن اور تہذیب کے لیے سب سے بڑا خطرہ کمیونزم کا داعی سوویت یونین تھا سے افغان قوم کو بچانے کے لیے مقدس مشن پہ تھے۔

آپ اس زمانے میں صرف آکسفورڈ پریس سے افغان ایشو پہ ان لبرل تجزیہ نگاروں کی کتابوں کے متون ہی دیکھ لیں تو آپ کو پتا چل جائے گا کہ امریکی بلاک کی افغانستان پہ پالیسی ان کے نزذیک کیسے ہر ایک تنقید سے پاک تھی۔

ان لبرل تجزیہ نگاروں کا ڈسکورس جہادی پراکسی کے جنوبی ایشیائی تناظر میں تبدیلی کے عمل سے اس وقت گزرنا شروع ہوا جب امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان جنیوا میں معاہدہ ہوگیا اور پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے غالب گروہ کی امریکی اسٹبلشمنٹ سے راہیں الگ ہوگئیں۔ لبرل تجزیہ نگاروں پہ ایک دم انکشاف ہوا کہ پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ ریاست پاکستان کو ڈیپ اسٹیٹ بنانے کے لیے تزویراتی گہرائی کی پالیسی پہ عمل پیرا ہے اور اس پالیسی کا بنیادی جزو جہادی پراکسی ہے جس کا استعمال افغانستان اور بھارت میں کیا جارہا ہے۔ لیکن یہی لبرل تجزیہ نگار اس وقت بھی مڈل ایسٹ، لاطینی امریکہ، مشرق بعید، ایشیا پیسفک امریکی پراکسی جنگوں اور فوجی مداخلتوں اور رجیم بدلو پالسیوں کے مطابق ہی اپنا ڈسکورس ترتیب دے رہے تھے۔
یہ لبرل تجزیہ نگار ایک طرف تو پاکستانی عسکری اسٹبلشمنٹ کی ڈیپ اسٹیٹ پالیسی کو تباہی اور حماقت بتلاتے تو دوسری جانب یہ بھارت کی توسیع پسندانہ اور پراکسی مداخلتوں بارے آنکھیں بند کیے رکھتے اور بھارت کی تعریف میں رطب للسان رہنے لگے۔ ان کو بھارت کے اسرائیل پہ موقف میں تبدیلی، غیر جانبدار تحریک سے الگ ہوکر امریکی کیمپ میں شمولیت اور معشیت کے ریاستی سرمایہ داری سے نیولبرل طرف مڑ جانا ترقی پسندانہ اقدام لگنے لگے۔ یہی وہ وقت تھا جب پاکستان کے لبرل پریس اور لبرل تجزیہ نگاروں کو نواز شریف سے محبت ہونا شروع ہوگئی۔
(پاکستان کے 60ء سے لیکر آج تک لبرل تجزیہ نگاروں کی بھاری اکثریت کو ذوالفقار علی بھٹو سے شدید نفرت اور بغض رہا ہے۔ وہ پاکستانی ریاست اور اسٹبلشمنٹ کی رجعت پرستی اور بنیاد پرستی تک کا الزام بھٹو پہ ڈالتے ہیں اور پاکستان توڑنے کا الزام بھی- افغانستان میں جہادی پراکسی کا بانی بھی وہ بھٹو کو کہتے ہیں۔ ان میں کئی ایک کے ہاں بے نظیر بھٹو کی تعریف اس وقت کی جاتی رہی جب تک امریکی اسٹبلشمنٹ اپنے مفادات کے تحت بے نظیر بھٹو کے لیے نرم گوشہ پیدا کرتی رہی لیکن جیسے ہی وہ نرم گوشہ ختم ہوا ان کا رویہ بھی بدل گیا- اب یہ طالبان کی خالق بے نظیر بھٹو کو بتاتے ہیں)

بیسویں صدی کے خاتمے اور 21ویں صدی کے آغاز سے لیکر اب تک پاکستان میں امریکی لبرل پریس کی پیروی کرنے والا لبرل پریس ایک طرف تو امریکی اسٹبلشمنٹ کی پوری دنیا میں فوجی اور پراکسی جنگوں، جھوٹے پروپیگنڈے اور جزوی صداقتوں کو بڑے جھوٹ کے ساتھ ملاکر مخصوص حکومتوں اور مخصوص ممالک کے خلاف پروپیگنڈا جنگ میں استعمال کرنے جیسی حرکتوں پہ خاموش رہتا ہے تو دوسری طرف یہ امریکی جنگوں کا حامی نظر آتا ہے۔ عراق، افغانستان، شام، لیبیا، یمن میں حانہ جنگی کرانے، القاعدہ و داعش جیسی تنظیموں کو سپورٹ دینے کے معاملات پہ یہ لبرل خاموش رہتے ہیں۔
یہ لبرل تجزیہ نگار چین، روس، شام، پاکستان، ایران، یمن بارے امریکی ڈسکورس سے ہم آہنگ بیانیہ ہی اختیار کرتے ہیں۔ سی پیک ہو یا ایغور ایشو ہو ان کی بولی امریکی بولی ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان کو اسی بولی بولنے کے بدلے میں ہی تو پیسے ملنے ہیں اور مغربی لبرل پریس اسٹبلشمنٹ بھی تب ہی ان کو پروجیکٹ کرتی ہے۔ دوسری صورت میں یہ کبھی امریکی لبرل مین سٹریم پریس میں جگہ نہیں پاسکتے۔

اب آئیں ہم دیکھتے ہیں کہ ریاض ملک کیا کہتے ہیں:

پیارے امریکہ نواز لبرل تجزیہ نگارو!
آپ کے مغربی سامراجی دوست آپ کو ڈنڈا دے کر آپ کے ملک کی اسٹبلشمنٹ کے خلاف تو کھڑا کردیتے ہیں۔ اور وہ اس دوران آپ کو امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے الٹیاں کرنے اور سی آئی آئی کے بتلائے گئے نکات کی جگالی کرنے کو توکہتے ہیں۔ لیکن ان کی اپنی اسٹبلشمنٹ جو کرتی ہے اس کے بارے میں کیا؟

وہ آپ کو بتاتے ہیں کہ آپ چینی یغور مسئلے پہ اتھارٹی ہو جبکہ اس دوران وہ گزشتہ ایک صدی سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی خون آشام اور نسل کشی کی جنگوں کا جواز پیش کرتے ہیں ۔ ایسی جنگیں جو جھوٹ کی بنیاد پہ لڑی گئیں۔

جب آپ اپنی اسٹبلشمنٹ کے جھوٹ کی مذمت کرتے ہو تو وہ آپ کی سچ بیانی کو سراہتے ہیں لیکن اپنی اسٹبلشمنٹ کے جھوٹ کی مذمت کیے جانا ان سے برداشت نہیں ہوتا۔

گزشتہ ہفتے ایک جنگی جرائم کا مرتکب ڈونلڈ رمزفیلڈ مرگیا تو رودالیوں کی طرح مرگ پہ بین ڈالنے والوں کا سا کردار نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ جیسے امریکی لبرل اخبارات نے ادا کیا۔ انہوں نے اس کے چنگی جرائم پہ پردہ ڈال دیا۔ عراق پہ جنگ مسلط کرنے کے اس کے کردار کو پس پشت ڈال دیا۔ انھوں نے ان لاکھوں عراقی شہریوں کا ذکر تک نہ کیا جو مارے گئے اور یہ سب امریکہ کے عراق پہ غیرقانونی حملے کا شاخسانہ تھا۔
پاکستان میں لبرل ازم اور آزاد صحافت کے سب سے بڑے دعوے دار انگریزی اخبار ڈان نے تعزیتی جملے لکھ ڈالے۔ لیکن اس جنگی جرائم کے مرتکب کے ہاتھوں مارے جانے والے لاکھوں شہریوں کا کیا؟


ہمارے ہاں دیہاتوں میں جاگیردار، چوہدری، میر،ارباب، وڈیرے، ٹھاکر کے مرنے پہ چھوٹی جاتی کی عورتیں جنھیں رودالی کہا جاتا ہے وہ بین ڈالا کرتی تھیں تو ایسے ہی امریکی نیولبرل پریس ہو یا پھر پاکستان کا لبرل پریس اسے ڈونلڈ رمز فیلڈ کے مرنے پہ رودالیوں کا کردار نبھانا ہی پڑا۔ ان کو لگا کہ رمزے فیلڈ کا دو بار جنگی جرائم کا مجرم بیوروکریٹ بننا کوئی اعزاز تھا۔
گزشتہ ہفتے کم یاب قسم کی جرآت و ہمت رکھنے والا اصول پسند اور بہادر امریکی سینٹر مائیک گریول فوت ہوا۔ امریکی سیاست میں اس شخص سی ہمت رکھنے والے اب نایاب ہیں۔ امریکی سیاست تو اب بش،بیڈن، ٹرمپ اور کلنٹن کی طرح کے بدعنوان بدمعاشوں سے بھری پڑی ہے۔
سینٹر مائیک گریول سب سے زیادہ سینٹر رہنے والا واحد آدمی تھا جس میں اتنی ہمت تھی کہ وہ پینٹاگان پیپرز پڑھ کر سناسکتا تھا۔ افشا ہونے والی پینٹاگان دستاویزات نے امنیکہ کے ویت نام میں جرائم کو بے نقاب کیا تھا۔ ویت نام کے شہریوں پہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے ہونے والے اثرات بارے افشا دستاویزات کو پڑھتے ہوئے وہ آبدیدہ ہوگیا تھا۔

ایک سینٹر ہونے کے ناطے اس کی طرف سے ان دستاویزات کو پڑھنا انھیں پبلک ریکارڈ بناگیا اور اس نے ان دستاویزات کو لیک کرنے والوں کو جیسے ڈینیل ایلسبرگ کو مقدمے اور پھانسی سے بچاگیا۔

آج امریکہ کا کوئی ایسا مین سٹریم منتخب لیڈر نہیں ہے جو جولین اسانج کا دفاع کرسکے ۔
اسٹبلشمنٹ کے رودالی جیسے نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ(جس کا مالک سی آئی اے کا ایک سابق ٹھیکے دار ہے) نے مائیک گریول کے ورثہ کو برا بھلا کہا جب وہ فوت ہوا۔ انھوں نے اس کی شخصیت کو بیان کرتے ہوئے اسے “تماشا لگانے کے فن کی جبلی صلاحیت رکھنے والا” قرار دیا کیونکہ اس نے امریکی کیمیائی ہتھیاروں سے ویت نامی بچوں کی کھال اور گوشت جل جانے پہ گريہ کیا تھا، آہ و بکا کی تھی۔ انھوں نے اسے
“Flair for the theatrics”
یاد کیا۔
امریکہ نے کبھی اتنے خوفناک ہتھاروں کے استعمال سے انکار نہیں کیا ۔ اس کے برعکس شام جس نے نہ صرف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے انکار کیا بلکہ اس نے ایک عشرے پہلے اپنے ہتھیاروں کو اقوام متحدہ کے حوالے کردیا تھا۔

لیکن امریکہ کے نام نہاد قومی میڈیا گروپ نے کبھی ہنڈرسن جیسے ماہرین بارے بات نہیں کی جو شام گیا اور اس نے جو سائنسی تجزیہ کیا اس میں ردوبدل کیا گیا اور اسے امریکی موقف کے مطابق بنایا گیا۔ او پی سی ڈبلیو کے جرات مند حق گو ماہرین کے مطابق 2018ء میں دوما میں کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا جو کلورین گیس حملے کو ثابت کرتا ہو اور یہ سب ڈراما تیار کیا گیا تھا۔ سب سے زیادہ ہمارے بدن میں ہڈیوں تک کو سرد کردینے والا انکشاف جو ہے وہ امریکہ کا القاعدہ کی حمایت یافتہ پراکسیز کو حمایت دینا ہے۔ جیسے وائٹ ہلمیٹ تنظیم تھی جنھوں نے بچوں تک کو مار ڈالا اور الزام شام کی سرکاری فوج پہ ڈال دیا۔
جب نیویارک ٹائمز جیسا اخبار جھوٹ بولنے کی ایک تاریخ رکھتا ہو تو ہم ان جیسے اخبارات پہ یقین کیسے کرلیں۔ دوسرے کئی تو اس سے بھی زیادہ برے تاریخی کردار کے مالک ہیں۔ جیسے سی این این، بی بی سی اور الجزیرہ کا کردار جنگ اور نسل کشی جیسے ایشوز پہ بہت ہی برے کردار کے مالک ہیں۔

خاص طور پہ جب ان کے روس، شام، چین وغیرہ کے خبروں کے ابتدائی اور بنیادی سرچشمے سب کے سب بلاواسطہ اور بالواسطہ امریکی حکومت اور اس کی جاسوس ایجنسیوں سے مالی مدد پاتے ہیں۔

کیا ہم جاسوس ایجنسیوں جیسے آئی ایس آئی اور سی آئی اے ہیں ان کو مقدس کتاب کی طرح لیتے ہیں؟ لبرل نظام عقائد میں جاسوسوں کا کام ہی جھوٹ بولنا ہے اور ان کو مقدس کتاب سے بھی زیادہ قابل بھروسہ جانا جاتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here