پہلا حصّہ

اسلام کی ابتدائی تاریخ میں شیعان آل محمد کے کردار کو جھوٹ، تہمت اور بہتان سے پاک کرنے کے لیے ہمیں سب سے بڑی مشکل یہ پیش آتی ہے کہ اولین شیعان آل محمد جن کی اکثریت کا تعلق کوفہ سے تھا کے بارے میں صرف اموی پرست، ناصبیوں کے اندر یہ خیال راسخ نہیں ہے کہ وہ امام علی علیہ السلام سمیت آل محمد سے غداری، بے وفائی اور دھوکے کے مرتکب ہوئے بلکہ یہ خیال خود آج کے امامی و اسماعیلی و سنّی شیعان آل محمد کی اکثریت میں بھی راسخ ہے۔ اگرچہ امامی و اسماعیلی شیعہ کی اکثریت ان کو “کوفی” کہہ کر غداری کا طعنہ دیتی ہے اور انہوں نے یہ فرض کرلیا ہے کہ کوفہ میں مخلص شیعان آل محمد چند ہی تھے جبکہ سنّی شیعان آل محمد کے ہاں جو اکثریت ایسے اہل علم کی ہے جو سمجھتے ہیں کہ یہ آل محمد کے حمایتی تھے جنھوں نے امام علی ، امام حسن اور امام حسین علیھم السلام کو دھوکا دیا اور ان کے ہاں آل محمد کے مخلص پیرو کوفہ میں چند لوگ ہی تھے۔ دیکھا جائے تو ایک یا دوسرے طریقے سے امامی و اسماعیلی و سنّی شیعان آل محمد ایک سا خیال رکھتے ہیں۔ ایسے اہل علم جن کو ہم ایسے سنّی کہہ سکتے ہیں جن کے ہاں شامی، امویوں کے لیے گوشہ ہمدردی ہے وہ امام حسن اور امام حسین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی ذمہ داری کوفی شیعان آل محمد پر ڈال دیتے ہیں اور وہ ان کو اندر سے زندیق اور اسلام کے دشمن ثابت کرنے پہ زور لگاتے ہیں اور یہ لوگ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ملوکیت کی حمایت کے ساتھ ساتھ ناصبیت جدیدہ کے معمار بھی ہیں۔ پاکستان میں امامی شیعان آل محمد کی صفوں میں اب جواد نقوی جیسے لوگ بھی آگئے ہیں جنھوں نے اب اعلانیہ یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے قتل کے ذمہ دار کوفہ کے شیعان ہیں۔ اور یہ اپنے دعوے کے حق میں ایسی روایات پہ اعتماد کرتے دکھائی دیتے ہیں جو گروہ شامی کی گھڑی ہوئی ہیں۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ جواد نقوی جیسے لوگ کسی نادانی کے سبب یا بنا بر خلوص اپنی معروضی تحقیق کو پیش کرنے والوں میں سے نہیں ہیں بلکہ اس کے پیچھے مذموم مقاصد ہیں اور عارضی معاشی و سیاسی مفادات ہیں۔ میرا اس بات پہ یقین رہا ہے کہ شیعان آل محمد کی معروضی اور حقائق پہ مبنی تاریخ کو اگر سامنے لانا ہے تو اس کے لیے ہمیں جذباتیت اور مناظرانہ ڈسکورس پہ مبنی بیانیوں سے گریز کرتے ہوئے اسلام کی ابتدائی تاریخ پہ سنجیدہ مباحث کو فروغ دینا ہوگا۔

اسلام کی ابتدائی تاریخ میں تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب حضرت علی ابن ابی طالب خلیفہ راشد بنے تو اس وقت مدینہ،کوفہ،بصرہ اور دمشق یہ چار مراکز تھے اور ہم نے یہ دیکھا کہ جومہاجراور انصار صحابہ کرام تھے ان کی اکثریت حجاز اور عراق میں موجود تھی۔ ان میں ایک گروہ تو ایسا تھا جو پہلے دن سے اسے “فتنہ عظیم” قرار دے کر الگ ہوگئے۔ مدینہ میں عبداللہ بن عمر ، سعد بن ابی وقاض جیسے صحابہ کرام نمایاں تھے۔ دوسرا گروہ مہاجرین و انصار صحابہ کرام کا وہ تھا جس نے حضرت علی کے ہاتھ پہ بیعت کی مگر وہ مدینہ سے مکّہ روانہ ہوا اور وہاں سے باہم مشورہ ہوکر وہ بصرہ چلے گئے اور انہوں نے امام علی بن ابی طالب علیہ السلام کی بیعت کو توڑ دیا اور خون عثمان کا قصاص کا مطالبہ بلند کیا اور جنگ کی تیاری شروع کردی۔ اس گروہ کی قیادت ام المومنین عائشہ صدیقہ ، حضرت طلحہ، حضرت زبیر کررہے تھے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اس گروہ میں بنوامیہ کے لوگوں کی بھی بہت بڑی تعداد شامل تھی۔ یہ دوسرا گروہ جومکّہ و مدینہ سے نکلے تھے ان کے پیچھے مدینہ اور مکّہ میں جو مہاجرین و انصار رہ گئے تھے ان کی اکثریت امام علی ابن ابی طالب کی بیعت پہ قائم رہی اور جو لوگ بیعت نہ ہوئے تھے وہ بھی حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے خلاف کسی قیام کے حق میں نہیں تھی اور الگ تھلگ پرامن زندگی گزارنے لگے تھے اور اسی لیے امام علی ابن ابی طالب نے ان سے کوئی تعارض نہ کیا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اہل مدینہ و مکّہ کی اکثریت امام علی علیہ السلام کےحجاز سے باہر جاکر بصرہ میں ناکثین بیعت سے اور شام میں منکرین بیعت سے سامنا کرنے کے حق میں نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ مدینہ سے روانہ ہوئے اور آپ کا ارادہ بصرہ جانے کا تھا تو آپ کے ساتھ ایک ہزار سے زیادہ کا لشکر نہ تھا اور اس میں بھی ایک حصّہ کوفہ و بصرہ سے آپ کے ہاتھ پہ بیعت کرنے والوں کا تھا جن میں سب سے نمایاں مالک الاشتر اور حجر بن عدی تھے۔ گویا اہل حجاز میں سے انتہائی کم لوگ آپ کے ساتھ چلے۔اور جتنے متون ہیں تاریخ کے وہ سب کے سب اس بات یہ متفق ہیں کہ مقام ذی قار پہ آپ کے ساتھ بصرہ اور کوفہ سے بڑی تعداد میں لوگ آکر شامل ہوئے اور آپ کے لشکر کی تعداد تب کہیں جاکر 20 ہزار ہوئی۔ خیر یہ سب باتیں میں اپنی کتاب کوفہ میں تفصیل سے ذکر کرچکا ہوں۔

اہل عراق کے شیعان آل محمد کی وفا کے بارے میں جتنے شواہد ابتدائی تاریخی متون میں موجود ہیں۔ ان کو پیش کرتے ہی آپ کے سامنے جو اعتراض شدومد سے ناصبی، اموی پرست سنّی اور یہاں تک کہ جواد نقوی جیسے شیعہ حضرات کی جانب سے سامنے آتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ ان روایات کو پیش کرنے والا ثقہ نہیں ہے۔ میں نے ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں شیعان آل محمد کے علماء اور مصنفین کو عام طور پہ اس اعتراض کے سامنے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ وہ قتل عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کے بعد سے شروع ہونے والی تاریخ کو مجموعی طور پہ خود بھی شک کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ اور یہیں سے اموی اور ناصبی شیر ہوجاتے ہیں اور وہ خود کو جرح و تعدیل کے میدان کا شہسوار سمجھتے ہیں۔ اور ناصبیت و امیہ پرستوں کے اس حملے کے جواب میں سب سے پہلے ہتھیار ہمارے سنّی شیعان آل محمد کا ایک بڑا طبقہ گراتا ہے اور وہ شعوری ولاشعوری طور پہ اپنی سنّی شناخت کو حجاز، کوفہ، بصرہ کے اس گروہ مہاجر و انصار صحابہ اور ان کے شاگردوں سے جوڑنے لگتا ہے جو اس سارے عہد کو فتنہ عظیم کہہ کر سکوت کا ڈسکورس اپناتے تھے اور تاریخ کے اس دور کو لیکر ابتدائی اسلامی تاریخ کو ہی قول سے نہ سہی عمل سے رد کرتے تھے۔ اس روش سے سب سے بڑا نقصان شیعان آل محمد کو ہی پہنچتا ہے اور ان کے بارے میں اموی اور ناصبیوں کا پھیلایا ہوا بیانیہ ہی طاقتور اور غالب بیانیہ بن جاتا ہے۔

پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں ایسے سنّی شعیان آل محمد اہل علم جنھوں نے امیہ پرست اور ناصبیت کے خلاف اعلانیہ قلم اٹھایا۔ تقاریر کیں اور اس معاملے پہ خاموشی و سکوت کے موقف کو رد کردیا اور کررہے ہیں ان کے بارے میں ایک طرف تو امیہ پرست اور ناصبیوں نے یہ پروپیگنڈا کرنا شروع کیا کہ وہ اہلسنت سے نہیں ہیں تو دوسری جانب غیر امیہ پرست اور غیر ناصبی سنّی قدامت پرست علماء اور مفتیان کرام کی ایک بڑی تعداد نے ان پہ مائل بہ امامی تشیع ہونے کا الزام عائد کیا۔ پاکستان میں ہم ڈاکٹر طاہر القادری(صوفی اہلسنت)،مولانا اسحاق(اہلحدیث اہل سنت)اور علی انجنئیر(اہلحدیث سنّی عالم) اور مولانا طارق جمیل(دیوبندی سنّی) کے بارے میں ان کے مسالک کی جو ملاں اسٹبلشمنٹ ہے کا رویہ عمومی طور پہ مخاصمانہ پاتے ہیں اور وہ ایک یا دوسرے بہانے سے ان کی سنیت پہ اعتراض اٹھاتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے دور خلافت علی المرتضی سے لیکر بعد تک آل امیہ و آل عباس کی سرکاری و درباری تشریح تاریخ کو ماننے سے انکار کردیا ہے۔ لیکن یہ سب لوگ حدیث کے منہج سے تو اپنے ماننے والوں کی ذہن سازی کرتے ہیں لیکن تاریخ کے منہج پہ بطور خاص شیعان آل محمد کے کردار کو لیکر نہیں آتے اور اس موضوع پہ ان کے ہاں کام بھی نظر نہیں آرہا۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ ان کی سعی اور کاوش سے اہل سنت کے مین سٹریم ذیلی مسالک میں ناصبیت اور امیہ پرستی کو سخت چیلنج کا سامن ہے اور سنّی نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد مائل بہ ناصبیت اور امیہ پرست ہونے سے بچی رہی ہے۔ ایسے ہی حدیث کے منہج سے مولانا ظہور فیضی کا تصنیفی کام اہلسنت میں بہت قدر ہی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔

لیکن میرے نزدیک اسلام کی ابتدائی تاریخ کے فکری رجحانات اور سماجی و سیاسی صف بندیوں میں جو شیعان آل محمد کی سماجی- سیاسی تحریک اور صف بندی ہے اس پہ علمی کام کرنے کی اشد ضرورت ہے اور شیعان آل محمد کے کردار کا جو تاریخی استناد ہے اسے بھی شفاف طریقے سے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔”کوفہ:فوجی چھاؤنی سے سماجی-سیاسی تحریکوں کا مرکز بننے تک” کتاب اسی راستے کی طرف میرے سفر کی پہلی منزل ہے۔ اس کتاب میں،میں نے شیعان آل محمد بارے جو مواد پیش کیا ہے اس کی بنیاد ابومخنف، نصر بن مزاحم کے کوفہ بارے اخبار پر ہے۔ لیکن میں نے ان دونوں حضرات کے تاریخ میں مقام ومرتبہ پہ اور استناد پہ اشارے دیے ہیں لیکن خالص نظری مقدمہ پیش نہیں کیا۔ یہ نظری مقدمہ ایک الگ کتاب کا تقاضہ کرتا ہے جس کی طرف یہ مقالہ پہلی پیش رفت ہے۔ اس مقالے کی بنیاد ایک طرف تو ڈنمارک کے مستشرق ایلرنگ لڈوگ پیٹرسن کی کتاب”علی و معاویہ ابتدائی عرب روایت میں:اسلامی تاریخ کی تدوین کا آغاز اور ارتقا” پر ہے۔ اور ساتھ ساتھ شیعان آل محمد کے بارے میں ابتدائی اسلام کی تاریخ کے بنیادی متون میں موجود شواہد پہ ہے۔ میں اپنے اس مقالے میں جہاں ابتدا پہ شیعان آل محمد کی تاریخ کے ماخذ کے مستند ہونے بارے ہونے والی نظری تحقیق کا خلاصہ پیش کروں گا اور ساتھ ہی یہ بھی بتاؤں گا امام علی علیہ السلام نے جیسے قتل عثمان ابن عفان “فتنہ عظیم” کی علت کا سہارا لیکر خاموش بیٹھ جانے والوں سے اختلاف کیا اور ان کی انفعالیت اسلام کے منافی ٹھہرایا، ایسے ہی انھوں نے ناکثین، خوارج اور منحرفین بیعت کے مدمقابل آنے اور ان سے مصالحت و سمجھوتا نہ کرنے کی بنیاد جن افکار پہ رکھی اس سیاسی فکری نہج کو امام علی علیہ السلام کے انتہائی قریبی ساتھیوں اور ان کے مخالفین نے بھی “دین علی” کی اصطلاح میں بیان کیا۔ جبکہ آل امیہ نے شیعان علی /آل محمد کے ایک سیکشن کو ترابیہ سبائیہ کا نام بھی دیا اور سب سے پہلے یہ نام ابوزر،عمار یاسر، مالک الاشتر، حجر ابن عدی جیسے کبار شیعان آل محمد کو دیا گیا اور دینے والے سب سے پہلے شخص معاویہ ابن ابی سفیان تھے۔ معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں جو ابتدائی عرب روایت اور اس کا آغاز اور ارتقا کے اس کا منہج جو سامنے آتا ہے وہ سارے کا سارا یہ زور لگاتا ہے کہ وہ اسلامی اقدار اور اصولوں کے منافی تھا۔ دولت امیہ دور کے جو امیہ پرست اور ناصبی تھے وہ اس دین علی اور ترابیہ سبائیہ روایت کو خود امام علی و ديگر آئمہ اہل بیت سے منسوب کرنے سے شرماتے نہیں تھے لیکن جدید دور کے امیہ پرست اور جدید ناصبیوں کی اکثریت اس کی نسبت امام علی اور آل محمد سے نہیں جوڑتے اور اسے مجوسی، یہودی، نصرانی اور عجمی سازش قرار دیکر سارا الزام کوفہ کے شیعان آل محمد پہ ڈال دیتے ہیں اور وہ ابومخنف جیسے عراقی مبادی مورخین کو بھی اس سازش میں شریک بتاتے ہیں۔ ان کے خیال میں کوفہ کے شعیان علی اسلام کے پاک شفاف سرچشمہ علم کو گدلا کرنے والے اور ان میں گھڑے ہوئے افسانوں کی آمیزش کرکے انہیں اہل بیت کے نام سے پھیلایا۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جسے اول اول نوآبادیاتی دور میں گھڑا گیا اور پھر مابعد نوآبادیاتی دور میں اسے اسلامی معاشروں کے زوال کی سب سے بڑی وجہ بناکر پیش کیا گیا۔ یہاں تک کہ ہمیں اقبال بھی اس سے متاثر نظر آتے ہیں۔ اسے اسلام کی عجمی تعبیر کا نام دے دیا گیا۔ اس میں تصوف اور شیعیت دونوں خاص نشانہ بنائے گئے۔

دین،تصوف، تمدن شریعت تمام
بتان عجم کے پجاری تمام
یہ امت روایات میں کھوگئی
حقیقت خرافات میں کھوگئی
ہمارے ہاں مسلم عقلیت پسندی اور روشن خیالی کے نام پہ ردتشکیل تاریخ کا رویہ نوآبادیاتی دور میں روشن خیال مسلم ریفارمسٹ دانشوروں کے ہاں ظاہر ہونا شروع ہوا اور ابتدائی اسلامی تاریخ میں مسلمانوں میں پہلی صدی ہجری میں 36 ھجری سے جو خانہ جنگیوں کا سلسلہ شروع ہوا، اس دور کے تاریخی مواد میں بالخصوص جو ابتدائی کوفی مورخین کا جو ڈسکورس تھا اس کی ردتشکیل کا رجحان طاقتور ہونا شروع ہوگیا۔ حیرت انگیز طور پہ سرسید سے لیکر پرویز تک جو عقلیت پسندانہ ہندوستانی مسلم دانشوروں کی ذہنیت ہے وہ کوفی شیعت اور تصوف کی تاریخی بنیادوں کو مشترکہ طور پہ گرانے پہ مصر ہوئی اور اس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد کی ساری تاریخ کو عمجی سازش ٹھہرادیا۔

نوآبادیاتی دور میں مسلم عقلیت پسند روایت کے خلاف دارالعلوم دیوبند ، جامعہ ملیہ دہلی ، انجمن حمایت اسلام لاہور وغیرہ سے جو مذہبی قدامت پرست اصلاح پرست روایت کے تحت جو دانشورانہ روایت ابھری اس میں فرقہ پرستانہ تاریخ پسندی کا جو رجحان سامنے آیا اس میں آل امیہ تاریخ پسندی کا رجحان بہت نمایاں تھا اور اس رجحان میں ایک اور اثر بھی شامل تھا جسے ہم ترک ‏عثمان سلطنت کے آخری دور کا سرکاری تاریخ نویسی کا رجحان بھی کہہ سکتے ہیں۔ ترک عثمان دور میں اناطولیہ اور ایرانی صفوی شیعیت کے زیر اثر جو اینٹی عثمان رجحان تھا کے خلاف ردعمل کے طور پہ متاخر سرکاری نام نہاد سنیت پرست تاریخ نویسی کا اثر بھی تھا جس میں ابتدائی عراقی تاریخی نویسانہ رجحان کی مخالفت اور شامی تاریخی نویسی کے رجحان کی طرف جھکاؤ واضح تھا۔ دارالعلوم دیوبند کے ابتدائی معمار مولانا یعقوب، مولانا مملوک علی، مولانا قاسم ناناتوی، مولانا محمود حسن، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا خلیل احمد انبٹھوی، مولانا حسین احمد مدنی،مولانا سعید احمد دہلوی یہ سب کے سب ایک طرف تو ترک عثمان سلطنت کے آخری دور کی اسلام کی ابتدائی دور کی ازسرنو تاریخ نویسی امیہ پرست رجحان، اینٹی کوفی تاریخ نویسی کے زیراثر تھے تو ساتھ ساتھ مغلیہ دور کے آخری فرمانروا اورنگ زیب عالمگیر کی اینٹی وحدت الوجودی تصوف و شیعت رجحان کے ساتھ ساتھ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد ریاست اودھ کی امامی شیعیت کے ماننے والے نوابوں کے زیر سایہ پیدا ہونے والے فرقہ پرستانہ رجحان پہ مبنی تاریخ نویسی کے اثرات بھی ان پر تھے جس کے سبب دارالعلوم دیوبند کے زیر سایہ اسلام کی ابتدائی تاریخ کے خاص طور پہ 36 ھجری سے لیکر آل امیہ کی حکمرانی تک کے بارے میں جو تاریخ نویسی کا رجحان ابھرا اس میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی خلافت سے لڑنے والوں کے کیمپ کی طرف معذرت خواہانہ رجحان طاقتور تھا اور اس کے ذیل ہی میں دوسرا اقلیتی رجحان اعلانیہ مائل پہ ناصبیت تھا۔ دارالعلوم دیوبند کے زیر سایہ غالب طاقتور تاریخ نویسی کا رجحان ہو یا اقلیتی ناصبی مائل رجحان ہو ان دونوں کے ہاں عراقی شیعان آل محمد کی تاریخ کو سرے سے رد کرنے کا رجحان مشترک تھا۔ اس نے نوآبادیاتی ہندوستان میں صوفی سنّیوں کے ہاں جو کوفی شیعان آل محمد کی تاریخ کی طرف جھکاؤ کا رجحان تھا اسے بھی بدعتی رجحان کہہ کر رد کردیا – اسے من گھڑت قصّے کہانیوں پہ مشتمل قرار دیا گیا۔ یہ رجحان واقعہ کربلا کی ذمہ داری کوفی شیعان آل محمد پہ ڈالتے تھےاور دیوبند کے زیراثر پہلی صدی ھجری کی تاریخ نویسی میں شامی سیاست کے لیے معذرت خواہانہ رجحان نے ترقی کرنا شروع کی۔ یہ رجحان سیاست امیر شام کے دفاع سے ترقی کرتی ہوئی سیاست یزید کے دفاع تک جاپہنچی۔ شامی ملوکیت نے جس طرح سے اسلامی اقدار و شعائر سے انحراف کیا تھا یہ اس کے انکار سے شروع ہوتی ہوئی یزید کے کفر، فسق اور فجور سے انکار کرتے ہوئے اس کے ایک اچھے مسلمان ہونے کے دعوے تک آن پہنچی۔ آج یہ اس سے بھی ایک قدم آگے آچکی ہے۔ اب دیوبند کے ہی زیر اثر تاریخ نویسی کا ایک اور رجحان طاقتور ہورہا ہے جس کے تحت مروان اور حجاج بن یوسف بھی محترم و مکرم ٹھہرائے جارہے ہیں۔ کراچی سے حجاج بن یوسف اور مروان کو زبردست اسلامی رہنما ثابت کرنے والی دو ضخیم کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔

دیوبند کے زیر اثر تاریخی نویسی کا یہ رجحان نوآبادیاتی دور ہی میں براہ راست واقعہ کربلا سے جڑی محرم کی ثقافت پہ براہ راست حملہ آور ہوا۔ ایک ایسی ثقافت جو ہندوستان میں صدیوں کے ارتقائی سفر سے گزرتی ہوئی کمپوزٹ کلچر کا حصّہ بنی اسے اسی تاریخ نویسی کے زیراثر صرف شیعہ امامی مسلمانوں کی غیراسلامی بدعتی ثقافت کہنے پہ اصرار شروع ہوا۔

جہاں عقیدت پرست صوفی سنّی اسلام کے خلاف دارالعلوم دیوبند کے زیراثر اصلاح پرست تحریک نے سفر شروع کیا تو ساتھ ساتھ دارالعلوم دیوبند مدرسہ تحریک نے سنّی مسلمانوں کو محرم کی ثقافت، شعائر اور رسوم و رواج سے الگ کرنے کی تحریک بھی شروع کی۔ مولانا حسین احمد مدنی اپنی سوانح عمری “نقش حیات” میں اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ سنّی مسلمانوں کے ہاں محرم میں تعزیہ داری، نیاز و ختم، امام حسین کا فقیر بننا، محرم الحرام سے نو ربیع الاول تک شادی بیاہ، عقیقہ جیسی رسومات سے گریز کرنا عام تھا۔ یہاں تک کہ حسین احمد مدنی کہتے ہیں کہ دیوبند شہر میں سنّی مسلمانوں کی مساجد سے دس محرم کو تعزیے کے درجنوں جلوس اور خود حسین احمد مدنی کے رشتہ دار خواتین کے ہاں مجالس واقعہ کربلا کا انعقاد ہوا کرتا تھا۔ پانی و شربت کی سبیلیں لگا کرتیں اور نیاز امام حسین کے چاول، حلیم و حلوہ تیار کیا جاتا تھا۔ حسین احمد مدنی کہتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند نے سنّی مسلمانوں میں رائج ان شیعہ بدعات کو ختم کرنے کے لیے خصوصی اصلاحی تحریک چلائی اور اودھ سے اس کا سلسلہ ہندوستان کے دیگر علاقوں تک پھیلایا۔

محرم کی ثقافت سے سنّی مسلمانوں کو الگ کرنے سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ بعد ازاں اس ثقافت کو ہی مٹانے کی کوشش تک آیا اور اصلاحی کوششوں نے نوآبادیاتی دور میں ہی فرقہ وارانہ تشدد اور فساد کی شکل اختیار کرلی۔ سب سے پہلے اس کی لپیٹ میں لکھنؤ آیا، پھر مظفر نگر اور پھر بہار اور اس کے بعد پنجاب اس کی لپیٹ میں آیا۔ مشیر الحسن نے اس موضوع پہ ایک پورا مقالہ تصنیف کیا جو میری کتاب “شیعہ نسل کشی: افواہ یا حقیقت” میں شامل ہے۔ مشیر الحسن اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ دارالعلوم دیوبند، جمعیت علمائے ہند، مجلس احرار جیسی جماعتیں تھیں جنھوں نے محرم کی مشترکہ ثقافت اور مشترکہ مسلم تیوہار کہلانے والے محرم کو غیراسلامی شیعہ امامی تیوہار بنانے پہ اصرار کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس دعوے کی نفی صوفی سنّی مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت نے کی اور علمائے فرنگی محل میں اس میں سب سے آگے تھے۔

پاکستان میں سنّی تاریخ نویسی کو امیہ پرستانہ تاریخ نویسی بنانے کی روایت دارالعلوم دیوبند کے زیراثر جڑ پکڑنی شروع ہوئی۔ نصاب تعلیم میں ابتدائی مسلم تاریخ اور اسلامیات و اردو کی کتابوں میں واقعہ کربلا حاشیے پر لیجاتے لیجاتے اس کا زکر پرائمری، مڈل، ہائی اور اسکینڈری جماعتوں کی نصابی کتابوں سے غائب کردیا گیا۔اور اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ پنجاب اسمبلی نے ایک قانون بنانے کی کوشش کی جس کے مطابق اہل بیت اطہار کے ناموں کے ساتھ علیہ السلام نصابی و غیر نصابی کتب میں لکھنا قابل دست اندازی جرم قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ اور پاکستان میں تحریری، تقریری اور سوشل میڈیائی سطح پہ 36 ھجری سے لیکر 61ھجری تک کے کئی ایک واقعات کا بیان بھی گستاخی و توہین کے زمرے میں آنے لگا ہے اور ان واقعات کو نقل کرنے پہ پاکستان الیکٹرانک و سائبر کرائمز ایکٹ کے تحت سینکڑوں ایف آئی آرز کا اندراج ہوا اور یہاں تک کہ 295 اور 295 اے کے تحت بلاسفیمی قرار دے کر مقدمات کا اندراج کیا گیا ہے۔

پاکستان میں امیہ پرست تاریخی نظریات کو سرکاری اور غیر سرکاری طور پہ مقدس قرار دے کر محرم کی ثقافت اور محرم کا تیوہار “شیعہ امامی” تیوہار بن چکا ہے اور ریاستی سطح پہ پابندیوں نے سنّی مسلمانوں کی اس تیوہار میں ثقافتی شرکت کو نہ ہونے کے برابر بنادیا گیا ہے۔ نوے کی دہائی سے محرم کے جلوسوں اور مجالس عزا پہ دہشت گردانہ حملوں نے محرم روٹس کے حفاظتی انتظامات کے نام پر اٹھائے گئے اقدامات اور محرم کے ضابطہ اخلاق کے تحت عائد کی گئی پابندیوں نے محرم کے تیوہار سے پاکستان میں سنّی اکثریت اور دیگر مذاہب کے لوگوں کی شرکت کو بہت زیادہ کم کردیا گیا ہے۔ پاکستان میں سنّی تعزیہ کے جلوسوں، سبیلوں، نیاز کی روایت محرم روٹس پہ دھیرے دھیرے مر رہی ہے۔ محرم روٹس کی حفاظت کے لیے اور امام بارگاہوں کی حفاظت کے لیے اٹھائے گئے اقدامات جو دہشت گردی اور تکفیری عناصر کے متشدد اعمال کا نتیجہ ہیں ان کو لیکر پاکستان میں ایک لبرل۔سیکولر سیکشن بھی عوام کی مشکلات ختم کرنے اور راستے کھلے رکھنے کے نام پر محرم کے جلوسوں کو امام بارگاہوں تک محدود کرنے کی مانگ کرتا نظرآتا ہے۔

پاکستان میں امیہ پرست اور ناصبی تاریخ نویسی کے رجحان نے امامی شیعہ کی نسل کشی کو ایک امر واقعہ بنایا اور واقعہ کربلا سے جڑی فکر و نظر سے وابستگی کو جرم بنادیا ہے۔

پاکستان کی جامعات میں ابتدائی اسلام کی تاریخ پہ آزادانہ تحقیق پہ مبنی دانشورانہ کام کو سنجیدہ تاریخی ریسرچ کے زمرے میں خیال نہیں کیا جاتا۔ اور اسے فرقہ وارانہ خیال کیا جاتا ہے۔ خاص طور پہ پہلی صدی ھجری کے شیعان آل محمد کے معروضی تاریخی کردار پہ تحقیق تو غیراعلانیہ پابندی کا شکار ہے۔ اور ایک کمپوزٹ اسلامی کلچر کی تحقیق پہ اصرار کسی جامعہ کے محقق کے قتل کا سبب بھی بن سکتا ہے جیسے کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر شکیل اوج اور ماس کمیونیکشن کے استاد یاسر وحید کا قتل تھا۔

امیہ پرست تاریخ نویسی کا جبر اس کے الٹ تحقیق کو مشکل ہی نہیں بناتا بلکہ بہت سے خطرات کو دعوت دینے کے مترادف بھی ہے۔ ایسے سنّی پس منظر کے دانشور جو ابتدائی تاریخ اسلام میں شیعان آل محمد کی تاریخ اور اس کے سنّی شیعان آل محمد اور امامی شیعان آل محمد ایک ہی سماجی- سیاسی کیمپ کا حصّہ ہونے پہ تحقیق کرتے ہیں اور اور اسے اسلامی تاریخ کی مستند روایت کے طور پہ پیش کرتے ہیں وہ سماجی بے گانگی کا زبردست شکار ہوتے ہیں اور ان کی سنّی شناخت بھی غیر معتبر ٹھہر جاتی ہے۔ میں نے خود ذاتی سطح پہ اس کا تجربہ کیا ہے اور کررہا ہوں حالانکہ میرے اردگرد رہنے والے میرے خاندان کے سنّی پس مںظر سے بھی واقف ہیں اور میرے مارکس وادی نظریات و رجحانات اور مارکس واد نظریات کے تلے دور طالب علمی سے میری بھرپور عملی سیاسی سرگرمیوں سے بھی واقف ہیں۔ اس کے باوجود اسلام کی ابتدائی سماجی- سیاسی تاریخ پر میرے تحقیقی کام کو دیکھ کر یہ سوال ضرور کیا جاتا ہے کہ کیا میں “شیعہ” ہوچکا ہوں۔ اور شیعہ ہونے سے ان کی مراد اثناعشری /امامی شیعہ ہونا ہوتی ہے۔ میرا ان کو تاریخ میں پروٹو سنّی شیعان آل محمد کے ثقہ ماہرین تاریخ جن میں ابو مخنف بھی شامل ہے کے بارے میں بتانا بھی بیکار جاتا ہے۔ ایسے ہی اس موضوع پہ کام کرنے والے غیرمسلم مشتشرقین اور مارکسی ، سوشلسٹ اور سیکولر ملحدین دانشوروں کے کام کی تفصیل بتانا بھی بے کار جاتا ہے۔ میں اپنے گہرے مطالعے سے اس نتیجہ پہ پہنچا ہوں پہلی صدی ھجری سے شروع ہونے والی علوی تحریکیں مسلم سماجوں کی “عوامی تاریخ” کا حصّہ ہیں اور یہ کسی مذہبی فرقے کی تاریخ نہیں ہیں بلکہ اپنی بھرپور عوامی-سماجی۔طبقاتی بنیادیں رکھتی ہیں جو درباری اور سرکاری حکمران طبقات کی تاریخ سے الگ ہیں۔ یہ جو 36 ھجری سے شیعان آل محمد کی سماجی-سیاسی تاریخ ہے یہ جہاں آل محمد سے عقیدت و محبت کا عوامی اظہار کی تاریخ ہے وہیں یہ ابتدائی مسلم معاشروں کے کچلے ہوئے مجبور و محکوم عوام کی جدوجہد کی تاریخ بھی ہیں۔ اسے تاریخ کے میکانکی مادیت پرست نظریات اور حکمران طبقات پرست تاریخ کے زیراثر بنائے جانے والے نظریات کے بل بوتے پہ محض فرقہ پرستانہ تاریخ کہہ کر رد نہیں کیا جاسکتا۔ اس عوامی تاریخ کو ہندوستان میں ماقبل نوآبادیاتی دور کے اشراف طبقات کی کئی ایک پرتوں، نوآبادیاتی دور کے بنے بیوروکریٹک ڈھانچے میں موجود شیعہ پرت اور نوآبادیات دور کے شیعہ نواب، جاگیردار، زمیندار اشرافیہ اور سرمایہ دار پرتوں کی وجہ سے رد نہیں کیا جاسکتا۔ نہ ہی غلط طور پہ پنجاب میں 1984ء میں سپاہ صحابہ پاکستان کے جنم کو سرائیکی وسیب کے شیعہ جاگیرداروں کے خلاف ردعمل کانتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ کوئی تاریخ کی مادی جدلیاتی تعبیر نہیں ہے۔ سامراج محکوم اقوام اور خطوں کے محنت کشوں، مجبور محکوم کچلے ہوئے اور پسے ہوئے طبقات کو نسلی و مذہبی تعصبات کا نشانہ بناتا ہے اور ساتھ ساتھ اس کی بربریت اور ظلم کے پہلو بہ پہلو یہ جو طالبان، القاعدہ، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، داعش جیسی تنظیموں اور ان کے تحت پیدا تحریکیں ہوتی ہیں ان کو کسی بھی لحاظ سے عوام کی مزاحمت کا اظہار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہمیں برطانوی سامراج کے ابتدائی دور میں تحریک جہاد اور 1857ء کی مجاہدین کی تحریکوں کا بھی ازسرنو جائزہ لینا ہوگا تب کہیں جاکر ہم فرقہ پرستانہ اور نسل پرستانہ جذبات کے زیراثر لکھی جانے والی تاریخ کو معروضی سطح پہ دیکھنے کے قابل ہوں گے۔ ہمیں ابتدائی اسلامی تاریخ کے جائزے کے لیے نوآبادیاتی دور میں بنائے گئے تاریخ نویسی کے بنائے گئے اس سامراجی فریم ورک سے سے نکلنا ہوگا جو پہلے تو ماقبل نوآبادیاتی دور کو مسلمان- ہندؤ دور میں تقسیم کرتا ہے اور ساتھ ساتھ مسلمان دور کو شیعہ-سنّی تقسیم کے فریم ورک میں دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور ہمیں پہلی صدی ھجری کی تاریخ کو اس کے اپنے زمان و مکان سے اٹھاکر اسے 1979ء میں ایران میں آئے شیعہ انقلاب اور اس سے جنم لینے والی ایران- سعودی جیو پالٹیکس اور امریکی سامراجیت کے زیر سایہ مڈل ایسٹ، شمالی افریقہ، جنوبی ایشیا میں سعودی-ایرانی فرقہ وارانہ خارجہ پالیسیوں اور اس کے تحت ہونے والی پراکسی جنگوں سے بننے والی ذہنیت کے زیر اثر دیکھنے کی روش کو ترک کرنا ہوگا۔ یہ ذہنیت ہی ہے جو فالس بائنری کے تحت جبران ناصر، حسین حقانی جیسوں کو پاکستان میں شیعہ نسل کشی کو پہلی صدی ھجری کے مسلم سماج کی سماجی- سیاسی تحریکوں اور تقسیم سے پیدا تنازعے کا تسلسل قرار دینے جیسی علمی بددیانتی کرنے پہ مجبور کرتی ہے اور مظلوم اور ظالم میں برابری کو راستا دیتی ہے۔

جب پہلی صدی ھجری کے شیعان آل محمد قاتلان آل محمد ٹھہرائے جاتے ہیں تو آج شیعہ شناخت رکھنے والے بھی اپنی نسل کشی کے باوجود بطور مظلوم کمیونٹی کے دیکھے اور دکھائے جانے سے انکار کو غالب رجحان بننے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

اب ہم شیعان آل محمد کی تاریخ کے آغاز اور اس کی نشونما کو ابتدائی صدی کی عرب روایت کا جائزہ لیں گے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here