روزنامہ سلطان 30 ستمبر 2021 کی اشاعت

سندھ میں جدید سندھی قوم پرستی کے باوا آدم غلام مرتضی سید عرف جی ایم سید جس قبرستان میں دفن ہیں ، اس قبرستان پر ان کے بیٹے جلال محمد شاہ اور جی ایم سید کے پوتے نے اپنا حق ملکیت جتایا اور اس قبرستان میں ملاح برادری کے لوگوں کی سات قبروں کی باقیات کو نکال باہر کیا۔ اس حرکت پہ سندھ کے ترقی پسند ، باشعور عوام اور دانش نے سخت احتجاج کیا۔ اس احتجاج میں سب سے طاقتور آواز سندھ یونیورسٹی جامشورو کے شعبہ فلسفہ کی سینئر استاد پروفیسر امر سندھو کی آواز بھی شامل ہے۔

پروفیسر امر سندھو نے مذکورہ بالا واقعے پر سندھوی قوم پرست وڈیرہ اشرافیہ اور موقعہ پرست بگاؤ مال درمیانے طبقے کے سندھی دانشوروں کی خاموشی کا سخت نوٹس لیا۔ انھوں نے جلال محمد شاہ سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کا مطالبہ کیا۔ سندھ یونیورسٹی کی ہی ایک اور پروفیسر عرفانہ ملاح جن کے خلاف جی ڈی اے قوم پرست سیاست دانوں کے اتحادی مولوی راشد سومرو نے بلاسفیمی جیسا خطرناک کارڈ استعمال کیا تھا  نے بھی اس واقعے کا نوٹس لیا اور اپنے کالم میں سندھی قوم پرستوں میں موقعہ پرست عناصر کی خاموشی کو للکارا۔

ان کوششوں سے بہت سے مقدس جاگیردار پیر سندھی وڈیروں کا چہرہ بے نقاب ہونے لگا تو انھوں نے اپنے نمک خواروں کو اپنے دفاع کے لیے بلالیا۔ ان میں حسب سابق ایک بکآؤ مال قوم پرست اعجاز منگی بھی اپنے آقاؤں کو بچانے کے لیے میدان میں اترا ۔ اعجاز منگی اپنے آپ کو سندھی زبان کا نظیر اکبر آبادی اور اکبر الہ آبادی سمجھتا ہے۔ اسے شاید یہ بھی زعم ہے کہ وہ سندھیوں کا يگانہ چنگیزی ہے-اور اسے کہیں یہ بھی لگتا ہے کہ وہ سندھی شاعری کا جعفر زٹلی ہے۔ اس نے نظیر آکبر آبادی و اکبر الہ آبادی و يگانہ چنگیزی اور جعفر زٹلی کی بھدی پیری کرتے ہوئے ایک مبتذل نظم لکھ کر امر سندھو کی آواز کو خاموش کرنا چاہا لیکن وہ یہ نظم لکھ کر خود ہی سندھمی قوم کے سامنے بے نقاب ہوگیا۔

اردو پڑھنے والوں کو اعجاز منگی شاید سندھ کا بہت بڑا ترقی پسند قوم پرست لگتا ہوگا ۔لیکن وہ سندھی درمیانے طبقے کے دانشوروں میں موقعہ پرست و بکاؤ مال دانشور ہونے کی کلاسیکی مثال ہے۔ اس کے پاؤں کیچڑ میں اور سر آسمان کی طرف رہا تھا لیکن اس نظم کو لکھتے ہوئے تو وہ اپنا سر بھی کیچڑ سے گندا کرگیا ہے۔

اعجاز منگی سندھ کے ان قوم پرست لکھاریوں میں سے ایک ہے جسے افغان طالبان ، تحریک طالبان پاکستان، القاعدہ سمیت عالمی جہادی عسکریت پسند تحریکیں امریکی سامراجیت  کے خلاف حقیقی مزاحمتی تحریکیں لگتی  رہی ہیں ۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس کی اس لائن کی وجہ سے پکوڑوں کے لیے بطور لفافے استعمال ہونے والے چیتھڑے اخبار “روزنامہ امت ” جیسے اخبار میں “کالم” لکھنے کا موقعہ ملا۔ وہ سندھ میں تکفیری ، فرقہ پرست اور رجعت پسندی کو پھیلانے والے جمعیت علمائے اسلام کے سابق صوبائی صدر ڈاکٹر خالد سومرو مرحوم کو عظیم سندھی انقلابی قوم پرست سیاست دان کے طور پر پیش کرتا رہا ہے۔ اب وہ اس کے بیٹے خالد سومرو اور اس کے ساتھی رجعت پرست ملاؤں کی مدح سرائی کرتا ہے۔ اس دوران وہ اپنے پڑھنے  سے یہ حقیقت چھپاتا رہا ہے کہ پورے سندھ میں جہادی مدرسوں اور  ناجائزقبضوں میں ڈاکٹر خالد سومرو اور اس کا بیٹا راشد سومرو ملوث رہا ہے اور ان دونوں مولویوں کے بنائے نیٹ ورک کے سپاہ صحابہ جیسی کالعدم تنظیموں سے روابط  پہ پردہ ڈالتا رہا ہے۔ اسے قبضہ گیری میں ملک ریاض تو نظر آتا ہے لیکن بھولے سے بھی اس کے قلم سے سندھ کی زمینوں اور وسائل پر قبضے کرنے والی ضیاءالحقی بد روحوں کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں لکھا جاتا۔

وہ نوے کی دہائی اور پھر مشرف دور سے شروع ہونے والی شیعہ نسل کشی پہ جواز سے بھری دلیلیں پیش کرتا رہا ہے۔ اس نے شام میں امریکہ سامراج اور اس کے اتحادیوں (سعودی عرب، قطر، یو اے ای، ترکی، اسرائیل ) کی عالمی جہادی پراکسیوں کی مداخلت کو انقلابی تحریک قرار دیا۔ امریکی سامراج کی لائن کے مطابق وہ بشار الاسد کو سنّی مسلمانوں کا دشمن بناکر پیش کرتا رہا اور بالواسطہ طور پر پاکستان میں شیعہ قتل عام کرنے والے دہشت گردوں کے لیے ان کے اعمال کا جواز فراہم کرتا رہا۔

اعجاز منگی درمیانہ طبقے کی اس کمینگی سے سر سے پاؤں تک لتھڑا ہوا ہے جو اپنے سیاسی مخالفین یا جو اسے پسند نہ ہوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے لیے ان کو ملآؤں کے آگے نرم چارے کے طور پر ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔  کیا آپ کو پتا ہے کہ سندھ ویمن ایکشن فورم کی عورتوں کے حقوق کے لیے سب سے متحرک آوازوں کی وڈیوز تکفیری ملاؤں کو فراہم کرتا رہا جن میں عرفانہ ملاح کی وڈیوز بھی شامل تھیں جو اس نے راشد سومرو سمیت ملاؤں کو پیش کیں اور اس کے خلاف بلاسفیمی کی مہم چلوائی ۔ عرفانہ ملاح کے لیے اس نے ایسا ہانکا لگایا تھا جس میں ان کا قتل ہونا یقینی نظر آتا تھا۔

اسے امر جلیل کی باتیں زھر لگتی ہیں اور ان کی گفتگو کے وڈیو کلپس بھی اس نے راشد سومرو سمیت دیگر ملاؤں کو دیے تاکہ ان کے خلاف بھی ہانکا لگایا جاسکے۔

سوال یہ جنم لیتا ہے کہ اعجاز منگی یہ سب کچھ کیا فقط اپنی درمیانہ طبقے کی مخصوص کرداری کمینگی کے سبب کررہا تھا اور کررہا ہے؟ اس کا جواب نہیں میں ہے۔ اس کمینگی کے ساتھ ساتھ اس کے پیچھے “نامعلوم” کی ہدایات بھی ہیں ۔ وہ نامعلوم جو پاکستان میں مذہبی بنیاد پرست ہر ایک جماعت اور ہر ایک ملّاں کے فساد کے پیچھے چھپے رہتے ہیں ۔ سندھ میں انھیں رواداری، صلح کلیت ، سیکولر ثقافت ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔ وہ جو سندھ اور سندھیوں میں بھی ویسی ہی فرقہ واریت، بنیاد پرستی ، نام نہاد جہاد ازم، مذہبی عسکریت پسندی کا راج چاہتے ہیں جیسا راج انہوں نے پنجاب، خیبر پختون خوا ، بلوچستان  اور سرائیکی وسیب میں رائج کیا ہے۔

اعجاز منگی سندھ کے درمیانے طبقے کے ان بکاؤ مال سندھی دانشوروں کے ٹولے ميں شامل ہے جو  “سندھ برباد ہوگیا، سندھ تباہ ہوگیا، سندھ  میں کچھ اچھا نہیں ہورہا” جیسے بیانیہ کے ساتھ پاکستان پیپلزپارٹی پہ حملہ آور ہوتے ہیں ۔ جن کے نزدیک پی پی پی ميں نہ تو غریب سندھی عوام  کی کوئی حثیت ہے اور نہ ہی درمیانے طبقے کی ۔ جنھیں سندھ میں پی پی پی بس مجرموں، لٹیروں، چوروں اور ڈاکوؤں کی جماعت نظر آتی ہے۔ جن کے نزدیک سندھ میں جو برا ہورہا ہے اس کا ذمہ دار آصف علی زرداری ہے۔ اور اگر سندھ میں پی پی پی کی سیاست “عوام دشمن ” ہے تو اس کا متبادل ان بکاؤ مال دانشوروں کے نزدیک کیا ہے؟ اعجاز منگی کے نزدیک لاڑکانہ میں اس کا متبادل جمعیت علمائے اسلام کا بنیاد پرست اور بلاسفیمی بریگیڈ کا  کمانڈر راشد سومرو ہے۔ تھر میں اس کا متبادل اس کا مربی و آقا اور مخدوم ارباب غلام رحیم ہے۔  سندھ میں اس کا متبادل گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس میں شامل سندھی قوم پرست وڈیرے اور جاگیردارہیں جو  پاکستان تحریک انصاف ، ایم کیو ایم پاکستان کے اتحادی ہیں۔ اس کے نزدیک متبادل کے  ٹی این نیوز نیٹ ورک کا مالک علی رضا ہے جس کی چھتری کے نیچے ایسے سندھی مڈل کلاس دانشور جمع ہیں جو اپنے آپ کو ضیاء الحقی اسٹبلشمنٹ کے ہاتھوں بیچ چکے۔

اعجاز منگی جیسے  سندھی دانشور وں کو جہاں سندھ میں قوم پرست جی ڈی اے والے پی پی پی کا متبادل نظر آتے ہیں تو پنجاب میں ان کو نواز شریف چی گیورا نظر آتا ہے۔ ان جیسے سندھی دانشوروں کی سوچ اور ذہنیت پنجاب کی اربن چیٹرنگ کلاس سے زرا مختلف نہیں ہے۔اعجاز منگی کو صلاح الدین ، رفیق افغان جیسے صحافت کے بے تاج بادشاہ نظر آتے رہے اور وہ ان کے تلوے چاٹتا ہے۔  ارباب رحیم کی شان میں پورا مقالہ لکھ مارتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے پنجاب میں وجاہت مسعود  نے عطاء الحق قاسمی کو پابلو نیرودا لکھا، نواز شریف کو سقراط لکھا اور اب اسے روزنامہ جنگ وطن، جمہوریت اور دستور کا آخری مورچہ لگتا ہے۔ اعجاز منگی کے نزدیک بھی سندھ کے بچآؤ کا آخری مورچہ اسٹبلشمنٹ کا لاڈلہ جی ڈی اے اور سندھ میں آزادی اظہار کا آخری مورچہ اردو میں روزنامہ امت اور  سندھی میں “روزنامہ کاوش” ہیں۔

ارباب غلام رحیم کا چاپلوس اعجاز منگی آصف علی زرداری کو اس کے جنم دن پہ بدھائی دینے والا امر سندھو کا ٹوئٹ ٹوئٹر پہ یزید کی ہمنوائی لگتا ہے۔ ہے نا اچھنبے  کی بات ۔ اسے ملک ریاض کی کمپنی اور تعمیراتی منصوبوں میں خطیر مشاہرے پر ملازمت کرنے والے “نامعلوم” تو نظر نہیں آتے لیکن آصف زرداری نظر آجاتا ہے۔ اعجاز منگی کو امر سندھو  جیسی سندھی دانشوروں پہ اس لیے  غصّہ آتا ہے کہ وہ یہ سوال کرتی ہیں کہ اگر آصف زرداری اسٹبلشمنٹ کا مہرہ ہے تو اسے بے نظیر بھٹو سے شادی کے بعد سے لیکر ابتک ایسے اداروں کی طرف سے مسلسل مقدمات کا سامنا کیوں ہے جن اداروں کے بارے میں ہر کس و ناکس کو پتا ہے کہ وہ “نامعلوم” کے اشارہ ابرو پہ چلتے ہیں۔  کیا ہم اعجاز منگی جیسے چلتے پرزوں سے پوچھ سکتے ہیں ان کے سندھ میں متبادل کے طور پر  ایسے اشخاص اور گروہ ہی کیوں ملتے ہیں جن کے بارے میں سب کو پتا  ہے کہ ان کی بیساکھیاں راولپنڈی کی ایک ورکشاپ میں بنتی ہیں ؟

پی پی پی کے خلاف خود کو سندھ میں ترقی پسند متبادل کہہ کر پیش کرنے والا ایک ٹولہ امر سندھو جیسی دانشوروں سے اس لیے بھی خفا ہیں کیونکہ وہ ان کی سیاسی یتیمی کی حالت کو ختم کرنے کے لیے غنوی بھٹو کے چرنوں میں بیٹھ جانے کی پالیسی سے اختلاف کرتے ہیں ۔  وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے تو انقلابی پرولتاریہ پارٹی کی تعمیر نہیں ہوسکتی ۔ اگر پی پی پی سوشلزم اور سندھ کاز کی تباہی کی ذمہ دار ہے تو کیا اس کا متبادل یتیم انقلابیوں کا اسٹبلشمنٹ کے خچروں اور گدھوں سے اتحاد ہے؟

آخر میں اعجاز منگی کی سندھی نظم کا اردو ترجمہ ملاحظہ کریں جو اس نے “پروفیسر امر سندھو ” کے بارے میں لکھی ہے

پگلی کو چوڑی

اعجاز منگی

“پگلی کی چوڑی کبھی ٹانگ میں کبھی کلائی میں”

اکثر یہ سوچ کر میں نے اس کو معاف کیا

مگر وہ اتنی پگلی بھی نہیں

پگلی ہوتی تو وہ زرادری کو جنم دن

کی مبارک

ٹویٹر کے بجائے فیس بک پہ دیتی

چالاک پاگل سیریل کلر بنتے ہیں

یا پھر وہ رستا اختیار کرتے ہیں جو اس کا ہے

فیس بک پہ امام حسین کے ساتھہ

اور ٹوئٹر پہ یزید سے

فیس بک پہ وہ کامریڈ سینگار کی ساتھی ہے

اور ٹویٹر پہ زرداری کی سنگتی

ایک طرف بحریہ کے بے قصورقیدیوں کی آزادی کی مبارکبادیں ہیں اور

دوسری طرف مرد حر کے جنم دن کی مبارکباد

سندہ کے باشعور لوگ پھر بھی اس کو پیار کرتے ہیں

کتنی عجیب عورت ہے وہ

مگر عورت کیا صرف جسم ہے

کیا عورت ایک احساس و خواب نہیں

عورت ایک کرپٹ، جھوٹے اور کرمنل کو کیسے چاہ سکتی ہے

کیا کوئی جھوٹا کرپٹ اور کرمنل مرد

اصل عورت کا ہیرو بن سکتا ہے

نقلی عورتیں نقلی ہار سینگار کی طرح ہوتی ہیں

نقلی عورتیں خصاب نہیں عذاب ہوتی ہیں

نقلی عورتوں کا رونا ہنسنا بھی نقلی ہوتا ہے

عورت کبھی بھی شہد میں زہر ملانے والے سے محبت نہیں کر سکتی

گر کوئی عورت کرتی ہے تو جان لو کہ وہ عورت نہیں ہوتی

اس کو عورت کا جسم تو ملا ہے

وہ عورت کے روح سے محروم ہے

عورت تو وفا کی علامت ہے

وہ عورت باشعور کیسے ہو سکتی ہے

وہ عورت عورت بھی کیسے ہو سکتی ہے

وہ عورت جو عوام سے عشق نہ کرے

وہ بظاہر عورتوں کی سنگتی ہے مگر اصل میں عورتوں کی بیری ہے

اس میں عورت لیئے حسد اور بیر ہے

وہ جو عورت نہ بن سکی

وہ جو مرد بننے سے بھی محروم ہے

اور افسوس کہ وہ خود کو تیسری جنس بھی نہیں مانتی

کیوں؟؟کیوں؟؟اخر کیوں؟؟؟؟

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here