کچھی میں بلوچ کے ساتھ سندھی سرائیکی بولنے والے جاموٹ قبائل کی اکثریت ہے۔ یہ یہاں کی قدیم آبادی ہے اور یہ قبائل صدیوں کا باہمی سماجی تال میل رکھتے ہیں۔ ان کے درمیان قبائلی لڑائیاں فیوڈل ازم کے پنجے گاڑنے کے بعد سے ہوتی آئی ہیں۔ بلوچ ریاست کی تشکیل کے بعد یہاں زمینوں پہ بلوچ قبائل کا قبضہ ہوا۔ جاموٹ قبائل کی اکثریت بزگر رہی۔ اعوان (مقامی تلفظ: آوانڑ) البتہ یہاں کا مقامی قبیلہ نہیں۔ یہ انگریز دور میں ہندوستانی اور موجودہ پاکستانی پنجاب سے یہاں لا کر بسایا گیا۔ اب البتہ ایک صدی کا عرصہ گزار کا یہ یہیں رچ بس چکا ہے۔ اس کا جینا مرنا اب اسی زمین سے ہے، سو یہ یہیں کا مقامی ہے اور زمین کا اصل فرزند ہے کیوں کہ یہ زمین بونے والوں میں سے ہے، اسے آباد کرنے والوں میں سے ہے۔

May be an image of 1 person and indoor

اصل میں بزغر و بھوتار جو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ان کی علیحدہ رواجات اور اصول ہے۔ سراوان میں بزغر اور بھوتار زمین کے مشترکہ مالک ہوتے پیں۔جب بزغر کو زمین چھوڑنا پڑے تو ایک چوتھائی حصہ لیکر کر فارغ ہو جاتا ہے اور اگر بھوتار زمین بیچنا چاہے تو بزغر کو فارغ کرے تو آدھا بزغر اور آدھا زمین بھوتار کا ہو جاتا ہے۔

جھالاوان میں بھوتار اور بزغر کا حصہ فصل میں ہوتا ہے ۔جہاں بزغر موروثی نہیں ہوتا بلکہ فصل کاٹنے پر فارغ ہو جاتا ہے۔

کچھی میں چونکہ قبائل کو زمینیں خون بہا میں ملی ہے اس لئے وہاں موروثی بزغر ہے اور وہ زمین کے مالک نہیں بلکہ فصل کے مالک ہوتے ہیں اور وہ اس زمین پر فصل کے موروثی بزغر ہوتے ہیں اور زمین مالک کو زمین کا حصہ بٹائی دیتے ہیں۔

May be an image of 1 person and beard

کچھی کا اوپری علاقہ بالا ناڑی کہلاتا ہے۔ یہاں مختلف ٹکڑیوں میں قدیم قبائل کی زمینیں ہیں۔ چھوٹی بڑی زمینداریاں ہیں اور صدیوں سے آباد بزگر جو نسل در نسل سے اس زمین کو آباد کرتے آئے ہیں۔ ہر قصبہ متعلقہ قبیلے کے نام سے منسوب “شہر” ہے۔ ان میں حاجی شہر سب سے بڑی اور قدیمی آبادی ہے۔ جس کے آس پاس دیگر قدیم آبادیاں بستی ہیں۔ لمجی (Limji) کی طرف دوسا (Dosa) نام کا قصبہ ہے، اس کے پاس اعوانوں کی قدیم آبادی ہے جسے مقامی لوگ “آوانڑیں دا شہر” بھی کہتے ہیں۔ یہاں کی زمینیں قدیم عہد سے دینار زئی قبائل کی ملکیت ہیں اور اعوان یہاں کے جدی پشتی بزگر ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق دینار زئی زمیندار نے کوئی تین چار پشت پیچھے، ایک بزگر قتل کر دیا تھا، اس تنازعے کے نتیجے میں دینار زئی علاقہ چھوڑ کر کوئٹہ اور مستونگ کی طرف چلے گئے۔ کسانوں نے اس کے عوض بٹائی دینا بند کر دیا۔

یہ مسئلہ کسی صورت بلوچ اور جاموٹ تضاد کا نہیں بلکہ استحصالی طبقات اور مظلوم طبقے کے درمیان ہے جسے کچھ قوتیں دانستہ یا غیر دانستہ لسانی ،نسلی اور قومی جھگڑے کا رنگ دے رہے ہیں
ظالم اور قاتل چاہے بلوچی یا براہوئی زبان بولنے والا ہو وہ ہر صورت قابل نفرت اور قابل مزمت ہے۔ہم مطالبہ کرتے ہیں قاتلوں اور ان کے سہولت کاروں کو فی الفور گرفتار کیا جائے چاہے وہ کتنے ہی بااثر افراد کیوں نہ ہوں۔ہم اس معاملے میں شہید ہونے والے مظلوم لوگوں کے خاندان کے غم میں برابر کے شریک ہیں
ہم توقع کرتے ہیں اس مسئلے کو قبائلی اور نسلی رنگ دینے کی بجائے اسے اسی پراسپیکٹس میں دیکھا جائے -رفیق کھوسو بلوچ نیشنل پارٹی
ناڑی کی زمینیں جب سے آباد ہونے لگی ہیں ان پر مسئلے شروع ہوئے۔ یہ مسئلے پہلی بار تب شروع ہوئے جب پٹ فیڈر سے کاشتکاری کی شروعات ہوئی، اس سے پہلے یہ زمینیں گوارشت یعنی بارشوں اور کئور کے پانی سے ہوتی تھی۔ کئور کے پانی سے بھی آبادی کو کوئی انتظام نہیں تھا، بس جب کئور میں طغیانی آتی جس سے علاقے میں سیلاب کی طرح پانی پھیل جاتی تھی، تبھی اس پر آبادی ہوتی تھی۔ اسی طرح جب کچھی کینال شروع کیا گیا تو اس وقت سے اب تک کچھی کینال تو کچھی تک نہیں پہنچ سکا مگر ان زمینوں کی وجہ سے جھگڑے روز بروز بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ اس واقعہ سے پہلے سیال اور جمالی قبیلے کے درمیان میں زمینوں پر جھڑپ ہوچکے ہیں۔
یہ بات سچ ہے کہ یہاں کے جاگیردار بلوچ ہیں، بزگروں میں سندھی، سرائیکی اور بلوچ ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جاگیردار کبھی بھی قوم، زبان و مذہب سے تعلق نہیں رکھتا ہے، اسے صرف زمین چاہئے ہوتا ہے ۔۔چاہے وہ زمین بلوچ کے زیر کاشت ہو، سندھی یا سرائیکی کے۔۔۔۔!
آپ تحقیق کرکے دیکھ لیں جاگیرداروں کے کارندے عموماً اسی طبقے سے ہوتے ہیں جو مظلوم ہوں۔۔۔۔۔!
ناڑی جیسے علاقے میں بلوچ، جاموٹ جیسے اصطلاحات حالیہ دور میں آئے جب سیاسی طور پر کچھ لوگ اقتدار حاصل کرنے کے لیے سرگرم ہوئے، اس سے پہلے بھی ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ یہ صوفیاء کی دھرتی ہے، یہاں کی تاریخ میں آپ کو ایک شخص بہ یک وقت ہفت زبان میں شاعری کرتا ملے گا۔ بحرحال ان اصطلاحات کے استعمال کا فاعدہ کسی کو ہو نہ ہو مگر جاگیردار اور اقتدار کے خواہش رکھنے والے ٹولے کو ضرور ہوتا ہے جو کبھی بھی مظلوم کا ہمدرد نہیں رہا ہے

اب کوئی تین نسل بعد دینا زئی نے یہ زمین چند ماہ قبل گیلو کو فروخت کر دی۔ گیلو نے زمین کی ملکیت کے بعد مقامی بزگروں کو بلا بھیجا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اب اپنا “حق طابع” گیلو کے حق میں لکھ کر دیں۔ جس کے مطابق زمین کا مالک جب چاہے بزگر کو زمین سے بے دخل کر سکتا ہے۔ بزگروں نے اس سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ صدیوں سے یہاں آباد ہیں، زمین کاشت کر رہے ہیں۔ انہیں زمین سے بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں اگر نیا زمیندار چاہے تو وہ اسے بٹائی دینے کو تیار ہیں۔
مگر گیلو حق طابع لینے پر مصر رہا۔ اور یہیں سے تنازعے کا آغاز ہوا۔
عاصم کرد گیلو، کچھی کا ایک اور مکروہ کردار ہے جس کی وحشت اور درندگی کے پیچھے ریاستی مشینری کھڑی ہے۔ مشرف کے زمانے سے پہلے گیلو اس علاقے کا کمزور فریق تھا۔ مشرف آمریت کی یاری نے اسے طاقت بخشی۔ بے پناہ کرپشن نے اسے برسوں میں ارب پتی بنا دیا۔ اس نے دھڑا دھڑ زمینوں پر قبضے کیے، کالے دھن کو سفید کرنے کے چکر میں ہر کاروبار میں ہاتھ ڈالا اور آج وہ اس ریجن کا ایک طاقت ور مرکزی کردار بن چکا ہے۔ اسی طاقت اور پشت پناہی نے اسے ہر فیوڈل کی طرح ظالم اور جابر بنا دیا ہے۔ اور فیوڈل کا ظلم و جبر خوف کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ اسی خوف کو قائم رکھنے کے لیے وہ مسلسل ظلم ڈھاتا رہتا ہے۔ حالیہ واقعہ بھی خوف کے جالے کو قائم رکھنے کا تسلسل ہے تاکہ کوئی حق دار حق کی آواز نہ اٹھا سکے۔
مبینہ طور پر ان بزرگروں کے ایک خاندان نے زمیندار کو حق طابع لکھ کر دے دیا۔ جس پر گیلو جاگیردار کو باقی بزرگوں کے خلاف کارروائی کا جواز مل گیا۔ اس نے اعلان کیا کہ اب اس کی مرضی کے بغیر جو بزگر زمین پر گیا وہ اپنا ذمے دار خود ہو گا۔ صدیوں سے زمین کو اپنی ماں ماننے اور اس کے سینے سے رزق پانے والے بزرگر زمین کو مگر کیسے چھوڑ سکتے تھے۔ اپنے بوڑھے باپ کا اکلوتا سہارا یہ دو نوجوان بھی اس روز معمول کے مطابق زمین کی کاشت کو نکلے تھے کہ گیلو کے مقامی جتوئی کارندوں نے گھات لگا کر انہیں قتل کر دیا اور فرار ہو گئے۔
ان خاک نشینوں کا مقدمہ اب کون لڑے گا؟ مقامی آبادی کے فوری احتجاج پر گیلو اور اس کے بھتیجوں کے خلاف ایف آئی آر تو درج ہو گئی ہے، مگر اس مافیا کے پیچھے پوری حکومت اور ساری ریاستی مشینری کھڑی ہے۔ سو ان سے تو انصاف کی توقع بے جا ہے۔ جاموٹ قبائل اور یہاں کا بزگر طبقہ بلوچ قوم پرستوں کی دلچپسی کا کبھی محور ہی نہیں رہا۔ پتہ نہیں یہ سانحہ بھی انہیں اس قومی غفلت سے جگا پائے گا یا نہیں۔ رہ گئے کسانوں، مزدوروں کی آواز اٹھانے والے ترقی پسند، روشن خیال دانش ور… تو ان کی آواز آل ریڈی اس قدر کمزور کر دی گئی ہے کہ اس نقار خانے میں اس کی بازگشت گونجنے سے رہی۔
نتیجتاً، حسبِ روایت خاک نشینوں کا لہو ایک بار پھر اسی خاک کا رزق ہونے کا ہی امکان ہے۔

یہ رپورٹ فیس بک پہ ترقی پسند دانشور ذوالفقار علی ذلفی بلوچ کی پوسٹ اور اس پہ ہوئے کمنٹس سے مرتب کیا گیا ہے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here