آڈیو ٹیپ بتاتی ہے کہ نواز لیگ کیسے  یوتھیانگر کی طرح  میڈیا

” مینجمنٹ کی ڈرٹی گیم”میں ملوث  ہے

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس تنظیم ک ایک دھڑے کے رہنما ناصر زیدی میر شکیل الرحمان، انصار عباسی اور عامر غوری کو بچانے کے لیے میدان میں کیوں کود پڑے ہیں؟

پی ایف یو جے کے دھڑے جس کا مرکز اسلام آباد ہے اس کا میڈیا ڈسکورس “پٹوار خانہ کے بیانیہ” سے ہی ہر وقت ہم اہنگ کیوں ہوتا ہے؟

پی ایف یو جے کے دھڑے جس کا مرکز لاہور ہے اس کا میڈیا ڈسکورس “سلیکٹرز” اور ” سلیکٹڈ” سے ہم آہنگ کیوں ہوتا ہے؟

انصار عباسی کے پاس “دا نیوز انٹرنیشنل” کے تحقیقاتی مدیر کا عہدہ ہے۔ اور وہ روزنامہ جنگ میں بھی کالم لکھتے رہتے ہیں۔ ان جیسے صحافیوں کا تحقیقاتی رپورٹنگ کا معیار کیا ہے؟

سابق جج راناشرافت علی کا ٹوئٹ ملاحظہ کریں

طاقت اور اختیار کی غلام گردشوں میں محلاتی سازشی کرداروں میں دھڑے بندی میں کسی ایک دھڑے کے ساتھ کھڑے ہوکر دوسرے دھڑے کو بدنام کرنا۔

 

پٹوار خانہ ایک طاقتور اسٹبلشمنٹ ہے جس میں ریاستی اداروں سے لیے گئے افراد ، سول سوسائٹی کی طاقت پریشر رکھنے والی پرت شامل ہی

https://www.thenews.com.pk/print/922366-framing-journalists-pfuj-pbc-hrcp-fn-say-journalists-shouldn-t-be-punished-for-doing-their-job

 

مگر سوال یہ جنم لیتا ہے جو کچھ دونوں اطراف کے صحافتی کیمپ کررہے ہیں کیا وہ ان کی صحافتی جاب ہے؟ کیا کسی صحافی کا یہ کام بنتا ہے کہ وہ جعلی خبر بنائے، پھر اس خبر پہ خود ساختہ تجزیے کیے جائیں اور پھر اس کو ایک “بیانیہ” میں بدلنے کے لیے پٹوار خانے یا یوتھیا گھر کے ہائر کردہ دانشور، ادیب ، تجزیہ نگار آجائیں؟ اور ان کی پشت پناہی کرنے کے لیے وکیلوں کے جتھے آجائیں۔ یعنی ” حقیقی وقوعہ سے خبر جنم نہ لے بلکہ اخبار نویس خود ہی ایک وقوعہ گھڑلے  جس کا نتیجہ کیا ہوگا یہ بھی طے کرلے اور پھر اس کا دھول پیٹ دیا جائے۔

انصار عباسی جیسوں کی صحافتی اخلاقیات کس درجہ کی ہے اس کا اندازہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چل رہے توہین عدالت کے ایک کیس کی جمعہ 7 جنوری 2021ء کی سماعت کی تفصیل سے لگایا جاسکتا ہے۔ ہے۔ اس کیس میں مرکزی ملزمان سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم، جنگ و نیوز /جیو میڈیا گروپ کے مالک میر شکیل الرحمان ، دا نیوز انٹرنشیل کے ایڈیٹر انوسٹی گیشن انصار عباسی اور عامور غوری ہیں ۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا موقف ہے کہ انصار عباسی اور عامر مغل نے جسٹس شمیمم کے بیان حلفی پہ مبنی جو خبر شایع کی اس سے عوام کا عدالتوں پہ اعتماد ختم ہوا۔ اس خبر نے آئی ایچ سی کی جانب سے مریم نواز شریف کی طرف سے لیک کردہ ایک ويڈیو ٹیپ کا فرانزک کرانے کے لیے کمیٹی قائم کرنے کے فصیلے کو عدلیہ پہ دباؤ کا اثر بناکر دکھانے کوشش قرار دیا۔

پاکستان مسلم لیگ نواز میاں محمد نواز شریف اور مریم نواز کو ایون فیلڈ کیس میں جو سزائیں سنائی گئیں تھیں ان سزاؤں کو واقعات اور ثبوت و شواہد کی بجائے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر باوجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے دباؤ اور اثر و سوخ کا نتیجہ قرار دیتی ہے –

پاکستان مسلم لیگ نواز پہ یہ الزام ہے کہ وہ اپنی مرکزی قیادت کے خلاف عدالتی فیصلوں کو متنازعہ بنانے کے لیے کچھ میڈیا گروپوں کو استعمال کررہی ہے جن میں “جنگ/نیوز/جیر، دنیا نیوز، آج نیوز ” کے نام تو لیک ہونے والی دو آڈیو ٹیپ میں لیے گئے ہیں جبکہ اس میں مبینہ طور پہ مریم نواز اور پرویز رشدی کی آوازیں ہیں-

پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف دونوں جماعتوں کا میڈیا سیل پانامہ کیس کو لیکر نواز دور حکومت میں ہی ایک دوسرے خلاف اپنے کنٹرول اور خریدے ہوئے میڈیا گروپوں کے زریعے ویڈیوز اور آڈیو ٹیپس اور وٹس ایپ لیک کررہی ہیں- نام نہاد مین سٹریم میڈیا اور برائے فروخت صحافی دونوں کیمپوں میں ہیں اور وہ اخبارات کے صفحہ اول اور ٹی وی چینلوں کے پرائم ائرٹائم میں نشر ہونے والے ٹاک شوز اور پرائم ائر ٹائم میں بلیٹن میں ٹیبل نیوز اسٹوریز کے زریعے سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کا ہائر کردہ صحافتی کیمپ اپنے گھوسٹ جرنلزم /فیک نیوز کے پروسس کو “آزادی صحافت، جمہوریت کی بالادستی، اظہار کی آزادی، انسانی حقوق کی علمبرداری” جیسے بینرز تلے سرانجام دے رہا ہے۔ اس کیمپ نے خود اپنے تئیں یہ لائنسس حاصل کررکھا ہے کہ یہ جسے چاہے آزاد اور اینٹی اسٹبلشمنٹ صحافی قرار دے اور جسے چاہے موچی، بوٹ پالشیا، اسٹبلشمنٹ کا حامی بتآئے۔ اور جس جماعت کو چاہے اسٹبلشمنٹ سے ڈیل کرنے والی بتائے۔

سوشل میڈیا پہ ایک کیمپ ایسا ہے جو مریم نواز اور پرویز رشید کی “ڈان لیکس” سے لیکر اب تک سامنے آنے والی آڈیو و ویڈیو ٹیپ لیکس اور بیانات حلفی کو لیک کرنے اور دوسری سیاسی جماعتوں پہ “ڈیل” کا الزام لگانے کو تو اینٹی اسٹبلشمنٹ ہونےے کا ثبوت قرار دے، لیکن دوسرے کیمپ کی لیکس کو وہ صحافتی اخلاقیات کا جنازہ نکال دینے والا عمل بتاتا ہے۔

حال ہی میں ایک آڈیو ٹیپ لیک ہوئی جس میں مریم نواز اور پرویز رشید کی آوازیں ہیں جس کے مطابق جیو نیوز پہ چلنے والا پروگرام “اسکور کارڈ” نواز لیگ کا سپانسرڈ کردہ ہے جس میں مریم نواز کے مطابق ناپسندیدہ مبصر حسن نثار اور ارشاد بھٹی ہیں۔

یکے بعد دیگرے مریم نواز شریف کی دو آڈیو ٹیپ لیک ہوئی ہیں اور ان دونوں کی لیک ایسے نیٹ ورک سے ہوئیں جن کا عمران خان اور موجودہ چیف آف آرم اسٹاف اور سابق ڈی جی آئی ایس جنرل فیض حمید گروپوں کی طرف واضح کھنچاؤ موجود ہے۔ اس گروپ میں نمایاں ترین حسن نثار، ارشاد بھٹی،چودھری غلام حسین، صابر شاکر، عامر متین، رؤف کلاسرا، کامران خان ہیں۔

ان دونوں کیمپوں نے ہی اصل میں عوام کا اعتماد مین سٹریم میڈیا کے دونوں اطراف میں بیٹھے ‘ہائرڈ’ صحافیوں، اینکرز، تجزیہ نگاروں سے اٹھادیا ہے۔

روزنامہ ڈان لاہور میں جسٹس شمیم کیس کی رپورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم، جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمان اور سینئر صحافیوں انصار عباسی اور عامر غوری کے خلاف توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی جمعہ کو ملتوی کر دی۔

ایک بیان حلفی کے بارے میں خبر جس میں پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پر مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کی جیل سے رہائی میں تاخیر کرنے کی کوشش کا الزام لگایا گیا ہے۔

آئی ایچ سی کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شمیم اور دیگر کو 20 جنوری کو ہونے والی اگلی سماعت تک اس معاملے پر “غور کرنے” کا وقت دیتے ہوئے کہا کہ “عدالت کے سامنے غلطی کا اعتراف عزت میں اضافہ کرتا ہے۔”

انہوں نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کی درخواست کو بھی مسترد کر دیا کہ شکیل الرحمان – جس کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے – کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالتی کارروائی میں شرکت کی اجازت دی جائے اور کہا کہ فرد جرم عائد کرنے کے لیے انہیں عدالت میں حاضر ہونا پڑے گا۔

پچھلی سماعت کے دوران، شمیم نے اپنا اصل حلف نامہ کھولا تھا – جو دسمبر کے اوائل میں جمع کرایا گیا تھا

دی نیوز میں شائع ہونے والی رپورٹ میں اس کا تذکرہ ہونے کے ایک ماہ سے زیادہ بعد – عدالت کی ہدایات پر۔ آئی ایچ سی کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شمیم سے پوچھا کہ کیا یہ دستاویز سابق جج کا حلف نامہ ہے اور کیا انہوں نے خود اس پر مہر لگائی ہے جس کا شمیم نے اثبات میں جواب دیا۔

آئی ایچ سی نے 7 جنوری (آج) کو تمام مبینہ مخالفین پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
گزشتہ ماہ جاری کردہ تحریری حکم نامے میں،
Iاس کے بعد کے چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو توہین عدالت کیس میں پراسیکیوٹر مقرر کیا تھا۔

آج کی سماعت کے دوران شمیم، ان کے وکیل لطیف آفریدی، اے جی خان، غوری اور عباسی موجود تھے۔ اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل نیاز اللہ نیازی اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود بھی موجود تھے۔

سماعت کے آغاز پر جسٹس من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت اظہار رائے کی آزادی پر یقین رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان پر مشتمل ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے بینچ کے بارے میں ایک “بیانیہ” بنایا جا رہا ہے – جو ایک درخواست کی سماعت کر رہا ہے جس میں ایک مبینہ کی صداقت کا پتہ لگانے کے لیے ایک آزاد کمیشن کی تشکیل کی درخواست کی گئی ہے۔ نثار کی آڈیو اور نواز شریف کو سزا سنانے سے پہلے اور بعد کے بعض واقعات کی چھان بین – کہ ججوں نے “دباؤ میں فیصلے کیے”۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایسی خبروں کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد ختم ہو رہا ہے۔

جسٹس من اللہ نے عباسی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت صحافی کی دیانتداری پر سوال نہیں اٹھا رہی بلکہ اسے خبر کے اثر کا احساس دلانے کی کوشش کر رہی ہے۔

جج نے نوٹ کیا کہ عباسی نے کہا تھا کہ اخبار حلف نامہ شائع کرے گا چاہے وہ “غلط ہو”۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا اخبار نہیں جانتا تھا کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کی سزا کے خلاف جاری اپیل کے حوالے سے بیان حلفی کی کہانی کس کیس کو متاثر کرے گی۔

جج نے عباسی کی جانب سے فرد جرم عائد نہ کرنے کی درخواست کے جواب میں کہا، “یا تو آپ (عباسی) کہتے ہیں کہ آپ کو معلوم نہیں تھا کہ [کہانی کا کیا اثر پڑے گا]… ہمیں الزامات عائد کرنے دیں، پھر آپ اپنا موقف پیش کر سکتے ہیں،” جج نے عباسی پر فرد جرم عائد نہ کرنے کی درخواست کے جواب میں کہا۔

جسٹس من اللہ نے کہا کہ عدالت کے لیے عوام کے حقوق سب سے اہم ہیں۔ کیس کی تفصیلات یاد کرتے ہوئے جسٹس من اللہ نے کہا کہ ایک جج نے مبینہ طور پر چیف جسٹس نثار سے بات کی تھی لیکن وہ نواز اور ان کی بیٹی کے خلاف کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ نہیں تھے۔

جسٹس کیانی اور جسٹس اورنگزیب بینچ کا حصہ تھے اور اپیلیں بعد میں میرے بینچ نے سنیں، جسٹس من اللہ نے نوٹ کیا۔ “یہ بیانیہ ہم تینوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ کہانی میں مذکور [ججوں] کے زیر سماعت مقدمات دو دن بعد (رپورٹ میں درج تاریخ سے) طے کیے گئے تھے۔

جج نے کہا، “عدالت نے آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ پوری سماعت کے دوران آپ نے کیا غلطی کی۔

متضاد بیانات
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ)
کے نمائندے
ناصر زیدی نے عدالت سے اپیل کی کہ الزامات عائد نہ کیے جائیں اور کوئی “درمیانی زمین” تلاش کی جائے۔

عباسی کو دوبارہ مخاطب کرتے ہوئے، آئی ایچ سی کے چیف جسٹس من اللہ نے نوٹ کیا کہ صحافی نے کہا تھا کہ اخبار ایک حلف نامہ شائع کرے گا “چاہے وہ جھوٹا ہی کیوں نہ ہو”۔

عباسی نے جواب دیا، “اگر ہم جانتے ہیں کہ یہ جھوٹا ہے، تو ہم اسے جھوٹا قرار دیں گے۔”

اس پر جسٹس من اللہ نے نشاندہی کی کہ عباسی کے پچھلے بیان اور تازہ ترین بیان میں تضاد ہے۔

صحافی عامر غوری نے کہا کہ اخبار ہر روز وزیراعظم اور وزراء کے بیانات بھی شائع کرتا ہے۔

جج نے نوٹ کیا کہ حلف نامہ شائع نہیں کیا جانا چاہیے تھا اگر صحافی نہیں جانتے کہ یہ درست ہے یا نہیں۔

جسٹس افتخار چوہدری کیس میں تمام حلف نامے شائع ہوئے، میں نے حلف نامے سے متعلق کہانی میں ہائی کورٹ کا نام نہیں لیا، میں محتاط تھا لیکن عدالت کا خیال تھا کہ تمام ججز کو مشکوک نظر آنے کے لیے بنایا گیا ہے۔

“[ڈان کے ایڈیٹر] ظفر عباس نے کہا کہ اگر وہ حلف نامہ حاصل کر لیتے تو وہ انصار عباسی جیسا ہی کرتے،” صحافی نے استدلال کیا۔

جسٹس من اللہ نے جواب دیا کہ یہ بھی ٹھیک ہے کہ عباس نے بیان حلفی شائع نہیں کیا ورنہ وہ بھی توہین بھی ہوتی اور ہم اس مقدمے میں انھیں بلواتے۔۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here