ملتان سے تعلق رکھنے والے پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینٹر رانا محمود الحسن نے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا پرائیویٹ بل پیش کیا ہے۔ اس طرح سے بل پیش کرنے سے کیا ایک پیچیدہ آئینی اور سرائیکی وسیب کے عوام کی زندگی اور موت کے مسئلے کا حل نکل پائے گا؟ خاص طور پہ کیا مسلم لیگ نواز کی مرکزی اور صوبائی قیادت اس بل کی مکمل طور پر حمایت کرئے گی؟ کیونکہ مسلم لیگ نواز جس کی ووٹ پاور کا مرکز وسطی پنجاب ہے سمجھتی ہے کہ اگر وہ متحدہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی مکمل حمایت فراہم کرتی ہے تو اس کا وسطی پنجاب میں ووٹ بینک متاثر ہوگا- اسی لیے اس نے پی پی پی کے دور میں پنجاب اسمبلی سے متحدہ جنوبی پنجاب صوبے کی قرارداد دو تہائی اکثریت سے منظور نہیں ہونے دی تھی اور اس نے سرائیکی صوبے کو بہاولپور صوبہ بنانے سے مشروط کردیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کی طرف سے 2019ء میں قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب کو دو صوبوں میں تقسیم کرنے کے لیے ایک آئینی ترمیمی بل بھی پیش کیا گیا تھا۔ اس لیے اس بات کا امکان کم ہی نظر آتا ہے کہ مسلم لیگ نواز ملتان سے تعلق رکھنے والے اپنے ہی سینٹر کے پیش کردہ پرائیویٹ بل کی حمایت کرے گی جو جنوبی پنجاب کے 11 اضلاع پر مشتمل الگ صوبہ کے قیام کی منظوری چاہتا ہے۔ سینٹ میں اس بل کے پیش ہوے کے وقت مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے مشاہد حسین سید نے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے عمل کو پنڈورا باکس کھولنے سے مترادف قرار دیا اور ان کا کہنا تھا کہ اس سے وفاق پاکستان کمزور ہوگا۔ مشاہد حسین سید کے خیالات اس حوالے سے وسطی پنجاب کے پنجابی اشراف حکمران طبقات کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔
دوسری طرف ملتان سے ہی تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس بل پہ اپنا ابتدائی ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت تو جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانا چاہتی ہے لیکن اس کے لیے درکار دو تہائی اکثریت اس کے پاس نہیں ہے اور دوسرا تحفظ انہوں نے یہ ظاہر کیا کہ اس انتظامی بنیادوں پہ دیگر صوبوں میں بھی نئے صوبوں کے قیام کے مطالبات سامنے آئيں گے۔ پاکستان تحریک انصاف پنجاب کے اراکین اسمبلی جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے پہ تقسیم نظر آتے ہیں۔ جن اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کا تعلق وسطی پنجاب سے ہے وہ اس ایشو کو مسلم لیگ نواز کی طرح ہی ڈیل کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نوازنے اپنے دور حکومت میں “جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ” کے قیام کا عندیہ دیا تھا لیکن اس طرف عملی قدم پاکستان تحریک انصاف نے بڑھایا جس نے گزشتہ عام انتخابات کے دوران پہلے 300 دنوں میں جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا عندیہ دیا تھا لیکن بعد ازآں وہ اپنی پارٹی کے اندر پائی جانے والی تقسیم کے سبب اس پر عمل درآمد کرنے سے رک گئی ۔ پاکستان پیپلزپارٹی اس وقت واحد پارٹی ہے جو جنوبی پنجاب کو مکمل الگ صوبہ بنانے کے حق میں ہے اور اس نے اپنے دور حکومت میں اس حوالے سے ایک کمیشن بھی قائم کیا تھا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے سینٹر اور سینٹ میں قائد حزب اختلاف سید یوسف رضا گیلانی نے سینٹ میں الگ صوبے کے قیام پہ ہونے والی بحث میں حصّہ لیتے ہوئے اپنی پارٹی کا دو ٹوک موقف بیان کیا- ان کا کہنا تھا کہ سرائیکی خطے کے عوام اپنا الگ صوبہ چاہتے ہیں اور یہ کوئی خیرات نہیں بلکہ ان کا حق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ الگ صوبائی سیکرٹریٹ اور محدود اختیار نہیں مانگ رہے۔ وہ کسی کی رعایا نہیں ہیں اور نہ نوآبادیات ہیں کہ ان کو یہ بتایا جائے کہ ابھی وہ اپنا صوبہ چلانے کے اہل نہیں ہوئے۔ وہ پورا صوبہ مانگتے ہیں – انھوں نے شاہ محمود قریشی کو بھی کہا کہ وہ الگ صوبے کے قیام کی حمایت کے لیے آگے آئیں پی پی پی اس کے لیے دو تہائی اکثریت بھی فراہم کردے گی- یہ بات تو طے ہے کہ جنوبی پنجاب کے اندر بھاری اکثریت الگ صوبے کی حامی ہے اور سمجھتی ہے کہ ان کا احساس محرومی اور ان کی شناخت کا سوال الگ صوبے کے قیام سے حل ہوگا۔ جنوبی پنجاب کے عوام کا الگ صوبے کا مطالبہ جتنی تاخیر کا شکار ہوگا اتنا ہی یہاں کی عوام میں غصّے اور نفرت کی آگ بھڑکے گی جس سے وہ نقصان ہوگا جس کا ازالہ سالوں تک نہیں ہوسکے گا

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here