بلوچستان : نوش کوہ (قسط اول)

بلوچستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر بارے پاکستان کے سرکاری زرایع کا کہنا ہے کہ یہ حملے نوشکی اور پنجگور میں ایف سی ہیڈکوارٹر کے باہر بنی چیک پوسٹوں پہ ہوئے۔ جبکہ بی ایل اے کے ترجمان نے دعوا کیا کہ انہوں نے ایف سی ہیڈکوارٹر پہ حملہ کیا اور کئی گھنٹوں تک ہیڈکوارٹر پہ اپنا قبضہ برقرار رکھا۔
تین فروری 2022ء بلوچستان کے رخشان ڈویژن کے ضلع نوشکئی اور مکران ڈویژن کے ضلع پنجگور میں پاکستان فوج کی بنی چیک پوسٹوں اور کیمپوں پہ بلوچستان لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ سے تعلق رکھنے والے درجنوں عسکریت پسندوں نے دھاوا بول دیا۔ اس حملے میں پاکستان کی مسلح افواج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے مطاب‍ق پاکستان کے پانچ فوجی نوجوان جاں بحق ہوئے جبکہ حملہ آور بی ایل اے مجید بریگيڈ کے 11 لوگ مارے گئے۔ نوشکی کا پنچگور سے فاصلہ تین سو کلو میٹر کا ہے اور ایک لنک روڈ سے یہ سفر کرنا پڑتا ہے۔
نوشکی کا افغانستان کی سرحد سے مختصر ترین روٹ 513 کلومیٹر اور پنجگور کا ایرانی صوبہ سیستان-بلوچـستان سے مختصر ترین روٹ 375 کلومیٹر ہے۔
پاکستان کی مسلح افواج کے ترجمان نےدعوی کیا ہے کہ بلوچستان لبریشن آرمی کے عسکریت پسندوں کو تحریک طالبان پاکستان اور داعش افغانستان نے تربیت دی اور ان تینوں تنظیموں کے بھارتی انٹیلی جنس را سے روابط ہونے کا دعوی بھی کیا گیا ہے۔

اس سے پہلے کہ میں اس دعوے کے بارے میں کچھ معروضات پیش کروں ،میں پاکستان کے بندوبست پنجاب کے اندر رہنے والے ان لوگوں کو ان دو اضلاع کی لینڈ سکیپ اور ان کے تاریخی پس منظر بارے آگاہی دینا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ انہیں میری بات سمجھنے میں آسانی ہوسکے۔

یہ 1546-47 کی بات ہے جب منڈائی اور رخشانی بلوچ قبائل کے لشکروں نے اپنے علاقے سے مغلوں کی عمل داری ختم کرنے کے لیے مغل بادشاہ ہمایوں مرزا کے بھائی کامران مرزا کو شکست فاش سے دوچارکیا۔ اور جب یہ بلوچ قبائلی لشکر میدان جنگ سے واپس ہوئے تو پيجھے رہ جانے والے لوگوں نے پوچھا،”کیا ہوا؟” تو انہوں نے جواب میں کہا، ” نوش کوہ (ہم نے انہیں ختم کردیا) اور اس طرح اس علاقے کا نام “نوشکی” پڑھ گیا۔ منڈائی اور رخشانی بلوچ قبائل نوشکی، چاغی، سیل گرام سمیت ایک بڑے علاقے پہ ایک ہزار سال تک حکومت کرتے رہے۔ سترہ سو چونسٹھ میں ریاست قلات کے والی میر نصیر خان نوری نے ایران میں احمد شاہ درانی افغان کی ایرانی فارسیوں کے خلاف فوجی مہم میں ایک لشکر کے ساتھ مشہد روانگی سے پہلے نوشکی، چاغی، سیل گرام سمیت ایک بڑے علاقے پہ عملداری رکھنے والے منڈائی اور رخشانی بلوچ قبائل سے مدد طلب کی ،انکار پہ اس نے اپنے لشکر سمیت ان علاقوں پہ حملہ کیا اور ان قبآئل کی عملداری ختم کرکے انہیں ریاست قلات میں شامل کرلیا۔ 1896ء میں یہ علاقہ برٹش زیر انتظام بلوچستان میں بطور لیز پہ شامل کرلیا گیا۔ نوشکی براہوی زبان بولنے والی بلوچ قبائل کی بھاری اکثریت کا علاقہ ہے اور یہ 1998ء میں ضلع چاغی سے الگ کرکے ڈسٹرکٹ بنایا گیا تھا۔
اسی طرح کبھی70ء کی دہائی تک بلوچستان کے مکران ڈسٹرکٹ کی ایک تحصیل کے طور پہ جانا جانے والا آج کا ضلع پنجگور ہے۔ یہ ہزاروں سال پرانی تہذیب کا مرکز ہے۔ ایران کے علاقے الاستخیار کا رہائشی ابو اسحاق کی تصنیف “کتاب الاقالیم” پھر الادریسی کا سفر نامہ اور ایسے ہی “چچ نامہ” ہے۔ ان میں ہمیں کنزبن یا کناربر شہر کا ذکر ملتا ہے۔ مورخین کا خیال یہ ہے کہ اصل میں یہ “گنج پور” تھا جو عربی میں گ اور پ نہ ہونے کی وجہ سے کنزبن یا کناربر بن گیا اور بعد ازاں مقامی لوگوں کے ہاں یہ بکڑتے بگڑتے “پنجگور” ہوگیا۔ اگرچہ ایک معروف روایت یہ ہے کہ پنجگور فارسی کے دو الفاظ سے مل کر بنا مرکب لفظ ہے۔ پنج اور گور مطلب پانچ قبروں والا شہر۔ لوگوں میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ پانچ بزرگوں کی قبروں کے سبب اس کا یہ نام پڑا- پہلے توپانچ کی پانچ قبور بے نام تھیں ماضی قریب میں ایک قبر کی نشاندہی ہوئی اسے پیر عمر جان کا مقبرہ کہا جاتا ہے۔ لیکن اس بات کا ریکارڈ ہمیں قدیم ترین تاریخ میں نہیں ملتا۔ پنجگور، کیچ(تربت) اور مکران یہ تین اضلاع جن کی زمینی سرحد ایران سے ملتی ہے اور کیچ سے 120 کلومیٹر کے فاصلے پر گوادر ضلع ہے جس کے 170 کلومیٹر کے فاصلے پہ ایران کا ساحلی شہر چاہ بہار ہے۔

نوشکی اور پنچگور ، خاران ، وشوک یہ 2018ء میں رخشان ڈویژن کا حصّہ بنادیے گئے۔ جبکہ مکران، پنچگور، کیچ اور گوادرچار اضلاع پہ مشتمل مکران ڈویژن ہے۔ آج کل یہی دو ڈویژن عسکریت پسندی اور پاکستان کی سیکورٹی فورسز کی کاروائیوں کے حوالے سے زیادہ ترخبروں میں رہتے ہیں۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو بلوچ قوم پرست تحریک کو سب سے زیاہ حمایت بلوچستان کےچار ڈویژنوں میں زیادہ ہے جن میں سبّی ڈویژن( یہاں پہ ڈیرہ بگٹی، کوہلو، زیارت اور سبّی کے اضلاع میں عسکریت پسندی کا زور ہے اور قوم پرست بلوچ سیاسی تحریک بھی کافی حمایت رکھتی ہے)، رخشان ڈویژن،قلات ڈویژن اور مکران ڈویژن شامل ہیں ۔ جبکہ کوئٹہ ڈویژن میں کوئٹہ کے بلوچ اکثریت علاقوں میں بلوچ قوم پرستی کا زور ہے جبکہ اس کے باقی اضلاع ویسے ہی پشتون اکثریت کے علاقے ہیں۔
جمعرات
بلوچستان لبریشن آرمی جس نے حالیہ حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے اس کا سربراہ حربیار مری کو بتایا جاتا ہے۔ جبکہ حربیار مری جو مرحوم نواب خیربخش مری کے پانچویں فرزند ہیں اس سے انکاری ہیں اور ایک برطانوی عدالت انہیں دہشت گردی کے الزامات اور ایل بی اے کے سربراہ ہونے کے الزام سے 2009ء میں بری کرچکي ہے۔ بی ایل اے کو پاکستان، امریکہ اور برطانیہ نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ ان حملوں کے بارے میں حربیار مری کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بالکل خاموش ہے۔

پاکستان کی حکومت کا بلوچ قوم پرست عسکریت پسندی کے پاکستان میں سرگرم پاکستان مخالف مذہبی عسکریت پسند تنظیموں سے تعلق اور اشتراک کا دعوا پہلی بار سامنے نہیں آیا ہے۔ یہ دعوا جنرل مشرف کی حکومت نے بھی کیا اور یہی دعوا بعد ازاں پی پی پی کی حکومت اور نواز لیگ کی حکومتوں کے ادوار میں بھی سامنےآیا۔ بلوچستان میں ایران کے قریب پڑنے والے ڈویژن مکران اور رخشان ڈویژن میں کئی بار سرکاری طور پہ دعوا کیا گیا ان علاقوں میں سرگرم جند اللہ، جیش رسول اللہ ، تنظیم الفرقان ، القاعدہ برصغیر، داعش خراسان، لشکر جھنگوی العالمی کے تعلقات ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی بی ایل ایف ، بلوچ لبریشن آرمی سے ہیں۔ لیکن بعد ازاں یہ دعوے مبینہ طور پہ اس وقت غلط ثابت ہوئے جب بی ایل ایف کی کیچ کےعلاقے میں جند اللہ، جیش رسول اللہ ، تنظیم الفرقان سے مسلح تصادم کی خبریں موصول ہوئیں۔ اور ڈاکٹر اللہ نذر کا ایک انٹرویو بھی سامنے آیا جس میں الٹا انہوں نے پاکستان کے عسکری حکام پہ الزام عائد کیا کہ وہ اسلامی عسکریت پسندوں کو اپنی پراکسی کے طور پہ استعمال کررہے ہیں۔ انھوں نے بلوچستان میں شیعہ ہزارہ کی نسل کشی اور ٹارگٹ کلنگ کے پیچھے بھی انہی پراکسیوں کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان کے سول اور عسکری حکام اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا یہ رہا ہے کہ بلوچستان میں فرقہ وارانہ بنیادوں پہ دہش گردی میں ملوث تنظیمیں جیسے لشکر جھنگوی العالمی وغیرہ ہیں ان کو بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را نے کھڑا کیا ہے۔

یہ بالکل ہوسکتا ہے کہ پاکستان کے خلاف بلوچستان میں مذہبی بنیادوں پہ دہشت گردی کے لیے لشکر جھنگوی العالمی جیسے گروپوں کو را نے ہائر کرلیا ہو اور ان میں اپنے ایجنٹس گھسادیے ہوں جیسے مودی کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈول کے بیانات اور تقاریر موجود ہیں جس میں وہ کہتا ہے کہ پاکستان نے جیسے جہادی پراکسیوں کو بھارت اور کشمیر میں استعمال کیا ویسے بھارت کو بھی کرنا چاہئیے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بلوچ علیحدگی پسندوں میں کئی ایک نام بھارت می موجود ہیں جیسے پروفیسر نائلہ قادری ہیں۔ بھارتی جاسوس کلبھشن کے اعترافات بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ بھارتی ایجنسی راء بلوچستان میں مداخلت کررہی ہس اور وہ یہاں پہ موجود مذہبی اور نسلی تضادات اور گروہی خلیج کو تیز کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

بھارتی مداخلت ایک حقیقت ہوسکتی ہے لیکن کیا یہ مداخلت بلوچستان کی قومی تحریک کی جنم داتا بھی بن سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب ہم اس کالم کی اگلی قسط میں تلاش کریں گے-

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here