میں صبح سویرے بیدار ہوا اور پہلا خیال جو مجھے آیا وہ یہ تھا کہ آج بہاءالدین زکریا یونیورسٹی جاؤں گا، پہلے قاضی عابد سے ملوں گا اور اسے “حلقہ زنجیر” اتار دینے پہ مبارکباد دوں گا- اسے بتاؤں گا کہ اس میں وہ سارے جراثیم موجود ہوں جو اسے اردو ادب میں ایک بڑا ناقد مضمون نگار بناسکتے ہیں – وہ ایک بڑے ٹراما سے باہر آیا لگتا تھا- ساری مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر اس نے اب جو طرز تحریر اپنایا تھا وہ مجھے بہت چونکا دینے والا لگا تھا۔ میں نے سوچا کچھ گھر کے کام بھگتا لوں پھر ملتان جاتا ہوں ۔ چنگ چی رکشے میں بیٹھ کر نیشنل بینک کی برانـچ آیا اور ابھی میں نعیم صاحب کی میز کے سامنے رکھی کرسی پہ بیٹھا ہی تھا کہ موبائل رنگ بجنے لگی- سکرین پہ آصف سیال کا نمبر چمک رہا تھا – کال ریسیو کی تو آصف نے بنا کوئی تمہید باندھے مجھے جو ایسے خبر سنائی مجھے لگا جیسے میرے سر پہ بم پھوڑ دیا ہو:

قاضی صاحب نہیں رہے

میں نے دل کو تسلی دینے کے لیے پوچھا، کون سے قاضی صاحب؟ ۔۔۔۔۔ “ہمارے مشترکہ دوستوں میں قاضی نام کے کوئی بہت سارے دوست تو ہیں نہیں ۔۔۔۔۔ قاضی عابد کی بات کررہا ہوں “۔، آصف کی یہ بات سنکر ایسے لگا جیسے میرے دل کو کسی نے اپنے ہاتھوں کی مٹھی بناکر دبا دیا ہو- آصف تو فون بند کرگیا، میں نے فوری طور پہ موبائل پہ انٹرنیٹ سروس آن کی اور فیس بک کھول کر قاضی عابد کی وال پہ گیا تو وہاں نوفل جاوید کا واحد تازہ اسٹیٹس پوسٹ تھا جو “مرگ یوسف ” کی خبر سچ ہونے کی تصدیق کررہا تھا – اس اسٹیٹس کے بعد قاضی عابد کا آخری اسٹیٹس موجود تھا (اس تحریر کو لکھتے وقت) 20 گھنٹے پہلے انھوں نے اپنی وال پہ اپ لوڈ کیا تھا

“زندگی نے کئی بار مجھے چتاؤنی دی مگر یہ مجھے آگے بڑھنے سے روک نہیں پائی جب کبھی میں گرا تو میں نے واپس کھڑے ہونے کی پوری کوشش کی – میں ہر دفعہ بچ نکلا اور لڑائی جاری رکھوں گا- اگرچہ میں پہلے بھی کئی بار دل شکستگی کے تجربے سے گزرا ہوں لیکن ہربار میں اور زیادہ مضبوط ہوا ہوں “

کل انہوں نے الیکٹرانک کرائمز ایکٹ میں ترمیم بارے اپنے ایک دوست کی پیشگی خبر کےے درست ہونے بارے کنایتا پوسٹ کی تھی جسے میں نے کل پڑھا تھا-

ابھی 12 فروری بروز ہفتہ ملتان ٹی ہاؤس میں علی اکبر ناطق اور زیف سید کے لکھے ناولوں کی تقریب پذیرائی ہوئی تھی ، میں جب ہال میں پہنچا تو سامنے سے قیصر عباس صابر مجھے سب سے پہلے ملے – پروگرام ابھی شروع نہیں ہوا تھا – میں نے کہا کہ بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے اردو ڈیپارٹمنٹ سے فکشن اور ناول پہ گفتگو کے لیے کسی کو بلانا بنتا تھا تو وہ ڈاکٹر قاضی عابد کو بنتا تھا- وہ آج کل فارم میں ہیں اگر وہ آج کی تقریب میں ناطق اور زیف سید کے ناولوں پہ معاصر فکشن کی روشنی میں بات کرتے تو ایک یادگار تقریر ہمیں میسر آتی – میں ابھی یہ بات کررہا تھا کہ سامنے سے خاور نوازش آگئے اور آتے ساتھ ہی مجھے کہنے لگے،”آپ یونیورسٹی آتے ہو ، اردو ڈیپارٹمنٹ بھی آتے ہو مگر ہم سے ملے بغیر چلے جاتے ہو، کیا وجہ ہے؟” ، میں نے کہا،”میں پرائے تنازع میں پڑنے سے گریز کر رہا ہوں ، آج کل بہت گرما گرمی ہے”، خاور کہنے لگا ،” گریزپا” ہونا ہی مقصود ہے تو پھر کسی سے نہ ملو” میں سمجھ گیا تھا کہ اشارہ کس طرف ہے، تو فوری جواب دیا،”جس سے ملتا ہوں، وہ کمبخت تو رقیب کے ‘مشکی’ رنگ پہ ایسے مضامین باندھتا ہے کہ حسن عسکری سے لیکر وارث علوی تک کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ پڑھ کر بڑا لطف آتا ہے۔ تمہارے ہاں جواب میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو ہمیں تمہاری طرف کھینچ لائے” میں مشکی رنگ کا اشتراک کہیں دیکھ چکا تھا اور مشکی رنگ پہ نشانہ باندھ کر قاضی نے ایک تیر میں دو شکار کیے تھے۔ اتنے میں ڈاکٹر انوار احمد بھی آگئے تو میں نے موضوع بند کردیا۔

قاضی عابد سے میری آخری ملاقات ان کے گھر پہ ہوئی تھی – صفدر نوید زیدی ہالینڈ سے پدھارے تھے ۔ ان کے ساتھ لاہور کی ایک دوست تھیں اور وہ رات آصف سیال کے گھر بی زیڈ یو میں ٹھہرے تھے ، میں نے صبح ناشتہ پہ انھیں جوائن کیا- ہم اندرون ملتان یاترا کے بعد شام مغرب کے وقت قاضی عابد کے گھر پہنچے۔ میں نے انھیں عباس زیدی کا ناول”کفار مکّہ” پیش کیا- اور اس کے بعد بہت ساری باتیں ہوئیں – میں نے کہا تھا کہ ایک یوٹیوب چینل بنالیں اور اس پہ اپنے ادبی خیالات کا اظہار کریں –

کچھ روز پہلے انھوں نے فون پہ رابطہ کیا اور کہا کہ کافی روز گزر گئے ہیں – یونیورسٹی آجاؤ مل بیٹھیں گے ۔ ساتھ ہی کہنے لگے اگر ایک خصوصی انٹرویو دوں تو کیا کسی قومی اخبار میں چھپ جائے گا؟ میں نے کہا، کیوں نہیں جی بسم اللہ ! پھر کہا جو باتیں کہنا چاہتا ہوں چھپ جائیں گی ؟ میں نے کہا اگر ڈاکٹر انوار احمد کی سرائیکی حریف دانشوروں بارے کہا گیا جملہ ” چرس پینے والے مراثی” چھپ سکتا ہے تو آپ و جو بات کہیں گے وہ ذومعنی ہوگی مبتذل نہیں ہوگی،ضرور چھپے گی – کہنے لگے “پھر تیار رہنا جلد ایک ایسے باغی کے انٹرویو کی جس نے غلامی کا قلادہ اتار پھینکا ہے اور وہ “سنت حر” پہ عمل کرنے والا ہے۔”

مجھے کافی حد تک اندازہ تھا وہ کیا باتیں کرنے والے تھے اور کن کے بارے میں لب کشائی کرنا چاہتے تھے- میں نے ان سے شرارتا سوال پھینکا،

“آپ دوسروں کے بارے میں ہی سچ بولیں گے کیا،یا پھر اپنے بارے میں بھی سچائی سے کام لیں گے؟ “
دھیمے سے لہجے میں کہا،”پہلے اپنی کشتی جلاؤں گا پھر دوسروں کی کشتیوں کی باری آئے گی”
مجھے یقین ہے کہ اگر اس وقت میں ان کے سامنے بیٹھا ہوتا تو ان کی آنکھوں میں شرارے صاف دیکھ سکتا جو بہت سوں کے نشیمن کو جلانے کو بے تاب تھے۔
انھوں نے اپنی آخری طویل پوسٹ میں “غلامی کا پٹہ اتار پھیکنے” کا ذکر کیا تھا- اور اس کے بعد ہی مجھ سے یہ ٹیلی فونک بات چیت ہوئی تھی –
قاضی عابد گہرے رازوں پہ مبنی باغیانہ انٹرویو دیے بغیر اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور “سنت حر” پہ عمل کی ایک مثال وجود میں آتے آتے رہ گئی ۔

میں اپنی یادوں کی زنبیل جب ٹٹولتا ہوں تو مجھے دسمبر کے پہلے ہفتے کی ایک دھندلی سی یاد آتی ہے – سابق ماؤاسٹ شیخ یوسف میرے ہمراہ تھے اور ہم بی زیڈ یو پہنچے تھے اور ہم نے پاکستان اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ سے شعبہ اردو کی طرف گئے اور وہاں ہم ڈاکٹر انوار احمد کے آفس میں پہنچے تو وہاں ہم نے ایک دھان پان سے نوجوان لڑکے کو دیکھا تھا- گندمی رنگ اور چھریرا بدن ، لمبا قد اور چہرے پہ اگر یاد رہ جانے والی کوئی چیز تھی تو وہ اس لڑکے کی آنکھیں تھیں – بہت مودبانہ انداز تھا- ڈاکٹر انوار احمد نے ہی اس لڑکے کا ہم سے تعارف کرایا تھا – یہ قاضی عابد سے ہماری پہلی ملاقات تھی – اس ملاقات کے بعد بھی کئی اور ملاقاتیں وقفے وقفے سے ہوتی رہیں – وہ قاضی عابد کے بعد “ڈاکٹر قاضی عابد” ہوئے اور پھر وہ اسی شعبے میں ملازم ہوکر شعبے کے سربراہ بھی بنے اور پھر سرائیکی سنٹر کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ ملتان میں کئی ادبی حلقوں میں ہماری ان سے ملاقایں رہا کرتی تھیں – انجمن ترقی پسند مصنفین ملتان اور پھر جنوبی پنجاب کا ہم نے مل کر احیا کیا- ایک وقت وہ آیا جب انجمن یہاں دو گروہوں میں بٹ گئی تو ایک طرف قاضی عابد تھے دوسری طرف ڈاکٹر خالد سعید تھے میں دونوں سے تعلق ختم نہیں کرنا چاہتا تھا تو میں نے دونوں گروہوں کے اجلاسوں میں شرکت سے گریز کرلیا۔
قاضی عابد نے ایک سفید پوش طبقے کے خاندان میں جنم لیا تھا اور اس کے سابقے و لاحقے میں کوغي قابل ذکر بات نہ تھی اسے جو بی کرنا اور بننا تھا اپنے بل بوتے پہ بننا تھا اور یہ جو بننے کا عمل ہے پیٹی بورژوازی اکیڈمک دنیا میں یہ سمجھوتوں اور مصلحتوں سے بھرا ہوتا ہے اور نمایاں ہونے، ممتاز بننے کے لیے انقلاب اور بغاوت کے نعروں کو ترک کرنا پڑجاتا ہے، ترقی پسندی کے جھنڈے بھی سرنگوں کرنے پڑتے ہیں – سرمایہ دارانہ سماج اور وہہ سرمایہ داری کی بہت ہی خام شکل رکھنے والا سماج جس میں قبیل داری ، جاگیرداری کا گند رکھنے والی باقیات اور اس کے کلچر کی کیچڑ بھی ملی ہو اس میں ایک سیٹلڈ لائف اور کمپراڈور کلاس کا رکن بننے کے لیے اپنے ضمیر کو تھپکیاں دیکر سلانا پڑتا ہے اور کئی لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے جانا ہوتا ہے۔ ایک جینوئن ادیب اس صورت حال میں بے ایمانی کر تو لیتا ہے لیکن اسے چین کسی کروٹ نصیب نہیں ہوتا – ضمیر بظاہر سلادیا گیا ہوتا ہے لیکن وہ نیند کے اس دور میں وقفے وقفے سے جاگ جاتا ہے اور کچوکے مارنے سے باز نہیں آتا- اصغر ندیم سید کا ناول دشت امکاں کا کردار دانش ضمیر کے ایسے ہی کچوچکے بار بار سہتا ہے اور اسے پڑھتے ہوئے میرا بار بار خیال قاضی عابد کی طرف جاتا تھا جو چھوٹے چھوٹے پیٹی جھگڑوں میں مبتلا ہونے کے دوران اپنے ضمیر کا قتل کرنے والے ایسے استادوں سے ٹکراؤ میں آگیا تھا جنھوں نے مصلحتوں کی افیم اسے کھانے کی عادت ڈالی تھی ، پہلے اس نے انہی کی طرح لڑائی کی اور ایک موقعہ پہ وہ جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ الیکشن پینل تک کا حصہ بن گیا اور میرے کچھ سینئر نے بہت کوشش کی کہ میں اس کے نظریاتی دعوؤں کے بخیئے ادھیڑ کر رکھ دوں اور وہ غلطی کروں جو میں نے ڈاکٹر انوار اور سرائیکی شاعروں و دانشوروں کے درمیان لڑائی کو نظریاتی لڑائی سمجھ کر کی تھی اور ان کی جنگ کا پیدل سپاہی بن گیا تھا – لیکن سابقہ تجربے سے سبق سیکھ کر میں نے غیرجانبدار رہنے کی ٹھانی اور پھر یہ بھی دیکھ لیا کہ جو قدم قاضی نے اٹھایا تھا اس پہ تیر دشنام چلانے والے وہی قدم ان کے اپنے لاڈلے نے حال ہی میں اٹھایا تو وہ اس کی تائید کرتے نظر ائے۔ یونیورسٹی میں اساتذہ کی سیاست میں خود کو دایاں کہنے والے اور خود کو بایاں کہنے والے دونوں کا ہدف اصل میں مفادات کے حصول کے سوا کچھ نہیں تھا۔ یہ سیٹلڈ کمپراڈور کی زیادہ سے طاقت حاصل کرنے کی لڑائی تھی ، اس کے سوا کچھ نہیں تھی-

قاضی عابد اس دوران ضمیر کو مارفین اور پتھوڈین کے انجکشن لگاتا لگاتا تھک گیا تھا اور اس کے ضمیر کی بحالی کا عمل شروع ہوچکا تھا لیکن شاید اس دوران اس کے دل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا تھا اور دل خستہ مزید ضمیر کے چابک سہہ نہیں پایا اور ایک دن وہ دھڑکنا بھول گیا –

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here