نوٹ: ‘بریف فار بہاولپور پرونس’ ریاض ہاشمی ایڈوکیٹ کی سرائیکی قومیت اور سرائیکی صوبے کے حق میں لکھی جانے والی  پولٹیکل سائنس کے اصولوں کے مطابق لکھی جانے والی پہلی بنیادی دستاویز ہے۔ جو انگریزی زبان میں ایک عرصے سے آؤٹ آف پرنٹ کتاب ہے۔ اس کتاب کا سرائیکی خطے کی نوجوان نسل کی آنکھوں سے اتنے لمبے عرصے تک اوجھل رہنا بذات خود ایک المیے سے کم نہیں ہے۔ امریکہ میں مقیم سرائیکی ورلڈ کانگریس کے صدر خواجہ عبید الرحمان نے اس کتاب کا اردو ترجمہ کیا اور حال ہی میں فکشن ہاؤس لاہور سے یہ ‘مقدمہ سرائیکستان۔۔۔۔۔۔’ کے نام سے فکشن ہاؤس لاہور سے چھپ کر سامنے آئی ہے۔ خواجہ عبید الرحمان ایڈوکیٹ جو کہ ریاض ہاشمی ایڈوکیٹ کے جدوجہد کے ساتھی سردار اکبر ایڈوکیٹ کے شاگرد بھی ہیں نے کیا ہے۔ ریاض ہاشمی ایڈوکیٹ نے اپنی کتاب کا انتساب جن دو شخصیات کے نام کیا تھا ان میں سے ایک سردار اکبر ایڈوکیٹ ہیں- میری نظر میں خواجہ عبیدالرحمان نے اس کتاب کا اردو ترجمہ کرکے پاکستان میں قومیتوں ، قومیتی تضادات ، سرائیکی قومی سوال اور سرائیکی قومی تاریخ کے طالب علموں پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ اس ترجمے کے سبب پاکستان کی سیاسی تاریخ کے طالب علم ان کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ یہ کتاب سرائیکی قوم کے ہر نوجوان کے زیر مظالعہ رہنی  چاہئیے- میرا یہ کالم اس کتاب پر تفصیلی تبصرے کے سلسلہ وار کالموں پر مشتمل پہلا کالم ہے اور مجھے امید ہے ان سلسلہ وار کالموں کو پڑھنے کے بعد سرائیکی خطے کے نوجوان اس کتاب کے مطالعے میں خود کو زیادہ سے زیادہ شریک کریں گے اور ان کے شعور پر یہ کتاب غیرمعمولی اثرات مرتب کرے گی – عامر حسینی

پاکستان برطانوی نوآبادیاتی ورثہ رکھنے والی ایک ایسی قومی ریاست ہے جس میں قومیتی تضادات آج تک حل نہیں ہوسکے ہیں حالانکہ اس ریاست کا حصّہ بننے والا مشرقی بنگال اس تضاد کو حل نہ کرنے کے سبب سولہ دسمبر 1971ء کو باقاعدہ طور پر ہم سے الگ ہوگیا- اسی قومیتی تضاد کو جمہوری طریقے سے حل نہ کرنے کے سبب بلوچ قوم کا ایک سیکشن ریاست کے خلاف علیحدگی پسند مسلح جدوجہد کررہا ہے۔ دوسرا سیکشن پرامن طور پر پاکستان سے آزادی کی مانگ کررہا ہے۔ جبکہ ایک سیکشن وفاقی پارلیمانی نظام کا حصّہ رہتے ہوئے اپنے صوبے کے لیے حقیقی خودمختاری کی مانگ کررہا ہے۔ موجودہ خیبرپختون خوا اور اس میں ضم کیا جانے والا سابق وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ (فاٹا) ، پشتون اکثریت کا علاقہ جنوبی بلوچستان اور کراچی میں آباد پشتونوں کی اکثریت آبادی کم از کم کے پی کے اور جنوبی بلوچستان کو ایک یا دو پشتون وفاقی اکائیوں بنائے جانے کی مانگ کررہے ہیں- پاکستان کا نافذ العمل آئین اس وقت وفاق کی چار اکائیوں کو انتظامی تقسیم قرار دیتا ہے اور کسی ایک اکائی کو مبی پر لسانی؛- ثقافتی اکائی تسلیم نہیں کرتا- اس آئین کے تحت پاکستان کثیر اللسانی-ثقافتی قوم نہیں ہے جس کی ذیلی قومیتیں پنجابی، سرائیکی، بلوچی ، سندھی بولنے والی ہیں- اس وقت اگر سب سے پيجھے اور پس پشت ڈالا جانا کسی مس‏لے کا ہے تو وہ سرائیکی قومیتی تضاد ہے اور سرائیکی قوم وہ واحد قوم ہے جو انتظامی طور پر بھی وفاق پاکستان کی اکائی نہیں بنایا گیا-  نوآبادیاتی دور میں اور پس نوآبادیاتی دور کے ابتدائی چند سالوں سرائیکی بولنے والی آبادی کی سب سے خوشحال ریاست بہاولپور تھی اور صوبہ پنجاب میں شامل ڈیرہ غازی خان ڈویژن اور نام نہاد شمال سرحدی صوبہ میں شامل ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن سب سے پسماندہ علاقے تھے۔ آج 75 سال گزرنے کے بعد بھی صوبہ پنجاب اور صوبہ کے پی کے میں شامل سرائیکی بولنے والوں کی اکثریت کے حامل ڈویژن صوبے کے باقی ڈویژنوں سے کہیں زیادہ پسماندہ اور احساس محرومی کا شکار علاقے ہیں- پنجاب میں انتظامی بنیادوں پر شامل کیے جانے والے سرائیکی اکثریت کے اضلاع جو تعداد میں 13 بنتے ہیں ان میں سے دو اضلاع (میانوالی اور بھکر) ریاست کی مقتدر طاقتوں نے اپنے تئیں باہر رکھ کر کل 11 اضلاع کو خودساختہ جنوبی پنجاب کا نام دے رکھا ہے۔ اور تخت لاہور و پنجابیوں کی سب سے بڑی نمائندہ سیاسی جماعت اس جنوبی پنجاب میں بھی دو صوبوں کی زبانی کلامی تشکیل کی بات کرتی ہے: صوبہ ملتان اور صوبہ بہاولپور – جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی 11 اضلاع پر مشتمل الگ صوبہ بنانے کی دعوے دار ہے جسے یہ سرائیکستان کی بجائے جنوبی پنجاب کا نام دیتی ہے۔ یعنی پاکستان پیپلزپارٹی کا آفیشل موقف بھی سرائیکی قوم کو ‘لسانی-ثقافتی’ بنیاد پر صوبہ دینے کی نفی کرتا ہے۔ سرائیکی قوم اپنی لسانی ثقافتی شناخت کی بنیاد پر وفاق پاکستان کی ایک اکائی کے قیام کی مانگ کرتی ہے جس کے لیے ریاست کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا لسانی -ثقافتی گروہ پنجابی اور حکمران طبقات میں سب سے بڑا نسلی ثقافتی حکمران طبقہ پنجابی قطعی تیار نظر نہیں آتا- پنجاب میں سرائیکی بولنے والی آبادیاں جن 11 اضلاع میں آباد ہیں وہاں پر انہیں سب سے پہلے تو شہری اور دیہی علاقوں میں آکر آباد ہونے والی پنجابی نسل سے ڈیموگرافک تبدیلی کا حقیقی خطرہ لاحق ہے اور دوسرا خطرہ اسے سرائیکی اکثریتی علاقوں میں آکر آباد ہونے والے پشتونوں سے ہے جو ان علاقوں میں شہروں و قصبات کی مارکیٹوں پر اپنا غلبہ بڑھارہے ہیں تو دوسری طرف بڑے پیمانے پر یہاں زرعی زمینیں خرید رہے ہیں- سرائیکی اکثریتی علاقوں میں پنجابی آبادکاری کا تعلق نوآبادیاتی دور میں برطانوی سامراج کی طرف سے پنجاب میں شامل سرائیکی اکثریت کے اضلاع اور ریاست بہاولپور میں اپنی تزویراتی اور معاشی مفادات کے تحت کی جانے والی کینالائزیشن ، کالونائویشن ، نئی ٹاؤن منڈیاں بنانے سے شروع ہوا اور یہ سلسلہ پاکستان بننے کے بعد بڑے پیمانے پر تقسیم پنجاب سے پیدا ہونے والی مسلم پنجابیوں کی مہاجرت اور بعد ازاں پنجابی اکثریتی اضلاع سے زمینوں کے الاٹمنٹ لیٹر لیکر آنے والے پنجابیوں کی سرائیکی زبان بولنے والوں کی اکثریت کے اضلاع میں آبادکاری کی شروعات سے جاری ہوا جو اب تک جاری ہے۔ ڈیموگرافی تبدیل ہونے کی ایک بڑی مثال ستلج ویلی پروجیکٹ کے بعد ریاست بہاولپور کے قابل کاشت رقبےکی اکثریت کی پنجابی اکثریت کے اضلاع سے آنے والے آبادکاروں میں تقسیم ہے جس نے بہاولپور ریاست میں سرائیکی بولنے والوں کو اکثریت سے اقلیت میں بدلنے کے حقیقی خطرے سے دوچار کررکھا ہے۔ دوسری مثال ریاست بہاولپور میں شامل چولستان کی ہے جہاں پر لاکھوں ایکٹر زمین پنجابی الاٹیز کو دے دی گئی ہے جن میں پنجابی بیوروکریٹ، پنجابی فوجی افسران، پنجابی سیاست دان، زرعی کاروبار سے جڑے پنجابیوں کی ہے۔ تیسری مثال تھل کے وہ اضلاع ہیں جہاں پر تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے اتنی بڑی تعداد میں پنجابی اکثریتی اضلاع سے آنے والے آبادکاروں کو زمین الاٹ کی ہے چوبارہ، چوک اعظم اور منڈا خالص پنجابی آبادکاروں کی اکثریت کے علاقے بن کر رہ گئے ہیں- سرائیکی خطے میں جو کینونمنٹ بورڑ ہے وہ بھی پنجابی توسیع پسندی کے غیراعلانیہ پروجیکٹ کا حصّہ ہے جس نے پنجابی فوجی اشرافیہ کی طرف سے سرائیکیوں کو ان کی زمینوں اور وسائل سے الگ کیے جانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ سرائیکی اکثریت کے اضلاع کی منڈیوں اور بازاروں ، صعنتی سیکٹر اور سروسز سیکٹر پر پنجابیوں اور پشتونوں کا غلبہ ایک حقیقت ہے۔ ایسے ہی صوبہ پنجاب ،وفاق اور ضلعی ایڈمنسٹریشن پر بھی پنجابی بیوروکریسی کا زبردست غلبہ ہے۔ سپریم کورٹ، لاہور ہائیکورٹ اور سیشن کورٹس میں ججز ہوں یا ان عدالتوں کے گزیٹڈ و نان گزیٹڈ افسران ہوں یا گریڈ ایک سے پندرہ کے ملازمین ہوں ان کی اکثریت کا تعلق بھی پنجابی نسلیاتی -ثقافتی گروہ سے ہے اور ان میں بھی اکثریت ان پنجابیوں کی ہے جن کا تعلق پنجاب کے پنجابی اکثریتی اضلاع سے ہے۔ سرائیکی خطے میں ابھرنے والے مین سٹریم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا گروپوں کے مالکان کی بھاری اکثریت بھی پنجابی نسلیاتی-ثقافتی/ایتھنسی سٹی گروہ سے تعلق رکھتی ہے۔ سرائیکی خطے کی جامعات ، میڈیکل اور انجنئرنگ کالجز کا ایڈمنسٹریٹو کنٹرول زیادہ تر پنجابی اتھنی سٹی سے تعلق رکھنے والوں کے پاس ہے۔ سرائیکی خطے پر پنجابی نسلیاتی-ثقافتی گروہ کا یہ کنٹرول پنجابی قوم میں کالونائزر ذہنیت کو جنم دینے والا ہے اور یہ ذہنیت سرائیکی قوم کے وجود کی نفی بلکہ ان کی توہین تک چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجابی درمیانہ طبقہ وفاق پاکستان میں سرائیکی قوم کے وجود اور وفاق میں سرائیکی وفاقی اکائی کے قیام سخت مخالف ہے چاہے اس کا تعلق پنجابی لبرل دانش سے ہو یا اس کا تعلق پنجابی لیفٹ سے ہو یا اس کا تعلق پنجابی قوم پرستانہ سیکشن سے ہو- ان کی اکثریت سرائیکی کو پنجابی کا ایک لہجہ اور اسے لہندی پنجابی کہتا ہے۔ بندوبست پنجاب میں سرائیکی اکثریتی علاقوں کو پنجابی قوم کے علاقے بتاتا ہے اور جب کبھی سرائیکی قومیتی شناخت کے تحت سرائیکی اکثریتی علاقوں کو ایک الگ صوبے کے قیام میں بدلنے کا مطالبہ سامنے آئے تو یہ اسے پنجاب کی تقسیم کی سازش کہتا ہے۔ پنجابی حکمران طبقہ اور پنجابی درمیانہ طبقہ سرائیکی خطے میں پنجابی آبادکاروں کے سرائیکی ثقافت میں انجذاب کا سب سے بڑا مخالف ہے اور یہ سرائیکی خطے کو پنجابیانے / پنجابائزیشن کے پروسس سے گزار کر خاص طور پر سابق ریاست بہاولپور کو ایک ایسے طریقے سے بندوبسست سے پنجاب سے الگ کرکے ایک ایسے صوبے کی تشکیل چاہتا ہے جو وفاق میں عملی طور پر ایک دوسری پنجابی اکائی کی تشکیل کا سبب بنے ۔ سابق بہاولپور کے پنجابی سیاست دانوں کی روش کا تاریخی اعتبار سے ایک جائزہ اس بات کی تصدیق کرسکتا ہے- جیسے ہم بہاولپور کے پنجابی آبادکار سیاست دان طارق بشیر چیمہ اور موجودہ گورنر پنجاب میاں بلیغ الرحمان ارائیں، رحیم یار خان کے میاں امتیاز، چوہدری جعفر اقبال گجر اور چوہدری ہدایت کی سیاست کے جائزے سے لگاسکتے ہیں- پنجابی آبادکاروں کے حکمران طبقے اور تعلیم یافتہ درمیانے طبقے کی نوآبادیاتی ذہنیت کی ٹھیک ٹھیک شناخت سرائیکی قوم میں جس شخص نے پہلے پہل کی تھی اور اسے تھیوریائز کیا اس کا نام ریاض ہاشمی ایڈوکیٹ تھا- اور یہی ہ شخص تھا جس نے سب سے پہلے سرائیکی قوم کے مقدمے کو ایک مختصر سی کتاب کی شکل دی – اس نے یہ کتاب ‘ بریف فار بہاولپور پرونس’ کے عنوان سے انگریزی زبان میں لکھی تھی- کتاب کے متن سے ہمیں بخوبی پتا چلتا ہے کہ ریاض ہاشمی ایڈوکیٹ نے یہ بریف / خلاصہ 1972ء میں اس وقت تیار کیا جب مغربی پاکستان کی سب سے بڑی پارلیمانی سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے ریاست بہاولپور کو وفاق پاکستان کے پانچویں صوبے کے طور پر بحال کرنے سے انکار کرتے ہوئے ریاست بہاولپور میں شامل علاقوں کو غلط طور پر پنجابی لسانی-ثقافتی وحدت کا حصّہ گردانا اور اس ریاست کو ریاست خير پور (سندھی لسانی -ثقافت کا جزو تسلیم کرتے ہوئے جو بالکل درسست تھا) ، ریاست امب و سوات (پشتون لسانی-ثقافت کا جزو تسلیم کرتے ہوئے) کو کے پی کے (سرحد) اور سندھ میں مدغم کرنے کے طریقے سے پنجاب میں ضم کرنا درست جانا تھا- ریاض ہاشمی ایڈوکیٹ نے اپنی کتاب ‘بریف فار بہاولپور پرونس’ کے دسويں باب “ون یونٹ  و بعد ازاں واقعات” کے صفحہ 173 پر لکھا،’ذوالفقار علی بھٹو نے 18 فروری 1971ء کو منٹوپارک/اقبال پارک لاہور میں بیان دیا کہ موزونیت اور سائنسی اعتبار سے بہاولپور پنجاب کا ناقابل علیحدگي حصہ ہے’۔ ریاض ہاشمی ایڈوکیٹ نے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے اسی صفحے پر لکھا،’اس سے باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے 18 فروری 1971ء کو بطور صدر پاکستان تصنیف ہذا میں بیان کردہ وجوہات کا قطعی طور پر علم نہیں تھا- یہ ملک کے لیے ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جس سے انحراف نہیں کیا جاسکتا-نئے صوبے کی تشکیل سے متعلق عقلی اور عملی دلائۂ معقول ہیں”۔      

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here