‘بنت داہر’ پاکستانی نژاد ڈچ ادیب صفدر نوید زیدی کا شایع ہونے والا تیسرا ناول ہے۔ اس سے پہلے انھوں نے ‘چینی جو میٹھی نہ تھی’ اور ‘بھاگ بھری’ کے عنوانات سے دو ناول لکھے اور شایع ہونے پر انہیں کافی سراہا گیا۔

” بنت داہر’ صفدر نوید زیدی کا ناول ہے جسے عکس پبلیکشنز لاہور نے شایع کیا ہے۔ ناول کی لینڈ اسکیپ راجا داہر کے دور کا سندھ اور بنوامیہ کی عرب میں قائم سلطنت ہے۔ موضوع سندھ پر بن قاسم کی فوج کا حملہ اور اس دوران پیش امدہ واقعات کی ادبی تشکیل ہے جس میں بہت سے کلیشے چیلنج ہوتے ہیں”

‘بنت داہر’ ایک ایسا ناول ہے جس نے خاص طور پر سندھ میں کافی بحث و مباحثہ کو جنم دیا ہے۔ فکشن کے راستے سے زیدی صاحب نے ‘تاریخ کی خالی جگہیں’ پر کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے سندھ پر بنوامیہ عرب بادشاہت کے قبضے سے پہلے یعنی 7ویں اور 8ویں صدی عیسوی کے سندھی سماج، ثقافت، تجارت ،زبان بارےکئی ایک مانے تانے مقدمات کو بھی چیلنچ کیا ہے۔ جن میں کچھ مقدمات تو سندھی قوم پرستوں کے ہیں اور کئی ایک مقدمات سیاسی اسلام پسندوں کے ہیں۔

صفدر نوید زیدی سے میری پہلی بار جب ملاقات ہوئی تو ان دنوں وہ اپنے دوسرے ناول ‘بھاگ بھری’ کا حتمی ڈرافٹ لکھ رہے تھے۔ اس ناول کا مرکزی خیال ‘عالمی جہادی اسلام ، ڈیپ اسٹیٹ ، تزویراتی گہرائی ، جہادی مدرسے ، ضیاءالحقی جرنیل اور بہت بڑی جہادی ایمپائر ‘تھے اور اس سارے عمل کو ‘بھاگ بھری’ ایک خاتون ماں اور اس کے بچے کی کہانی کے زریعے بیان کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ اتنے گھمبیر بڑے بڑے موضوعات کو فکشن میں ایسے سمونا کہ پڑھنے والے کو ادبی حظ اور ادبی مسرت بھی باقاعدہ فراہم ہو بڑی کاریگری کا کام ہے۔ ہم نے مل کر ہڑپہ کا دورہ کیا تھا۔ چیچہ وطنی بس اسٹاپ پر جب انہیں لاہور جانے والی بس کا انتظار تھا ، لکڑی کے ایک بنچ پر وہ اور میں بیٹھے ہوئے سگریٹ کے کش پر کش لگارہے تھے ،تو اچانک انہوں نے مجھ سے کہا وہ ‘محمد بن قاسم’ پر ایک ناول لکھنے جارہے ہیں اور چاہتے ہیں اس ناول کے زریعے سے وہ بنوامیہ کے سندھ پر حملوں اور اس کی فتح بارے بنائے گئے کلیشوں کو چیلنج کریں۔ اس وقت زیدی نے مجھ سے کوئی ایسی بات نہیں کی تھی جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا کہ وہ اپنے ناول میں خود راجا داہر کو ہیرو ماننے والے سندھی قوم پرستوں کے بھی کچھ بنیادی مقدمات کو چیلنج کرنے جارہا ہے جن میں سے اکثریت کی بنیاد برٹش نوآبادیاتی دور میں رکھی گئی تھی ۔

ہماری دوسری ملاقات پھر ایک سال بعد ہوئی – اس دوران وہ مجھے اپنی نے نئے آنے والے ناول بارے پیش رفت سے آکاہ کرتے رہے تھے۔ ہم ملتان میں اکٹھے ہوئے تھے اور وہ سابقہ اچ ریاست کے علاقوں کی سیر کرکے آئے تھے جو کبھی راجا داہر کی سلطنت کا حصّہ تھے اور بعد ازاں وہ بنوامیہ کی نوآبادیات میں شامل ہوئے۔ زیدی صاحب میرے ساتھ ملتان اور اس کے گردونواح میں محمد بن قاسم کے حملے اور اس کے بعد کے باقی رہ جانے والے آثار کی تلاش میں آئے تھے۔

میں نے زیدی صاحب کو اپنی کتاب ‘کوفہ : فوجی چھاؤنی بننے سے سماجی سیاسی تحریکوں کا مرکز بننے تک’ کے دو نسخے دیے اور ساتھ ہی انہیں بتایا کہ اس کتاب میں ایک شخصیت کا ذکر ہے جو شخصیت امام علی ابن ابی طالب کے متاخرین اصحاب میں سے ہے۔ کوفہ کی رہنے والی تھی ۔ اس شخصیت کا تذکرہ حجاج بن یوسف اور محمد بن قاسم دونوں کے بغیر پورا نہیں ہوتا۔ اس شخصیت سے جو سلوک حجاج اور محمد بن قاسم نے کیا اس سلوک کو تفصیل سے مسلم تاریخ کے ابتدائی اور مبادی متون میں جگہ ملی ۔ لیکن چونکہ اس سلوک کی داستان حجاج بن یوسف اور محمد بن قاسم کے ‘مجاہدین اسلام’ ہونے کی سارے قصّے کو من گھڑت ٹھہرا دینے والی ہے تو اس کا تذکرہ نہ تو مرزا قلیچ بیگ نے کیا،نہ ڈاکٹر نور نبی بخش بلوچ نے ، نہ ہی ابوالکلام آزاد نے ، نہ ہی ابوالحسن ندوی المعروف ‘علی میاں’ نے اپن کتاب ‘تاریخ دعوت عزیمت’ میں عطیہ اوفی کے ساتھ ہوئے سلوک کی بھنک تک نہ لگنے دی – نہ ہی نسیم حجازی نے اپنے نال ‘محمد بن قاسم’ میں حجاج بن یوسف اور بن قاسم کے حوالے سے اس واقعہ کا زکر تک نہیں کیا۔ ویسے نسیم حجازی اپنے مرشد سید ابوالاعلی مودودی کی کتاب ‘خلافت و ملوکیت’ کا بے باک دفاع کیا کرتے تھے جیسے ان کا ہر ایک عاشق کیا کرتا ہے لیکن اپنے ناول ‘محمد بن قاسم’ میں انہوں نے حجاج اور حکومت بنوامیہ کے اس کردار کی جھلک تک نہ دکھائی جسے سید مودودی نے خلافت و ملوکیت میں بہت کھل کر بیان کیا تھا۔

کوفہ سے ” لایعفوی ” کی کالک ہٹاکر اس کے روشن چہروں کو سامنے لانے کی کوشش کے دوران مرے سامنے تاریخ کے کئی بھولے بسرے کردار زندہ و جاوید ہوکر سامنے آئے-اور خاص طور پہ اربعین کربلاء کے ایونٹ کے تناظر میں جب میں یہ دیکھ رہا تھا کہ جابر بن عبداللہ الانصاری نے پیرانہ سالی میں مدینہ سے عراق تک کا مشکل اور مصائب سے بھرا سفر کیوں کیا اور 20 صفرالمظفر کو ہی کیوں وہ کربلاء پہنچے تو اسی دوران عطیہ کوفی متوفی 110ھ کا کردار اور روشن چہرہ مرے سامنے آگیا-میں کربلاء جانے والوں کی روداد سفر اور نوٹ پڑھ پڑھ کر جہاں محظوظ ہورہا تھا وہیں اس بات کا متمنی بھی تھا کہ کوئی تاریخ کے اس ایونٹ کی بنیاد بننے والی روایت کے راوی کے حالات بارے بھی کچھ کہتا ہے یا نہیں، یا اس کی اہمیت سے بھی وہ واقف ہے کہ نہیں-جس نے یہ اشعار کہے تھے رايت عليا خير من وط‏ى‏ء الحصى واكرم خلق اللّه من بعد احمد وصي رسول اللّه وابن عمه وفارسه المشهور في كل مشهد

زیدی صاحب میری طرف سے یہ بات سامنے آنے پر چونک اٹھے ۔ اور بعد ازاں انھوں نے تاریخ ابن کثیر سے ہٹ کر مزید متداول کتب ہائے تاریخ اسلام و عرب میں اس واقعے کی تلاش کی اور اپنے ناول میں ایک حاشیے پر کردار عطیہ اوفی کا بھی رکھا اور عطیہ اوفی کو لیکر حجاج بن یوسف کی دینداری، للہیت ، اسلام پسندی ، تقوی ، انسانیت پسندی کا پول کھول کر رکھ دیا۔

اس ناول میں صفدر زیدی صاحب بالواسطہ عربوں کے سندھ پر قبضے سے پہلے سندھ کے سماج کی ثقافتی روح کیا تھی؟ جیسا اہم سوال بھی اٹھایا اور اس کا جواب بھی دینے کی کوشش کی ہے۔ زیدی صاحب کا کہنا ہے کہ جب محمد بن قاسم اور اس کی فوج سندھ پر حملہ آور ہوئی راجا داہر کی زیرحکمرانی جتنے بھی علاقے تھے چاہے وہ اس زمانے میں سندھ کا دارالحکومت الور (آج کے سکھر کے نزدیک) ، چاہے وہ نیرون (حیدرآباد) ، برہمن آباد (سانگھڑ)، سہیون ، ملتان اور ساحلی شہر دبیل یہ سب کے سب بدھ مت ، جین مت کی اکثریت کے ماننے والوں کے علاقے تھے اور براہمن واد/ہندؤ مت یہاں پر اقلیتی حثیت کا حامل تھا- اور دبیل شہر میں جین مت کے ماننے والے تاجروں کا شہر تھا ۔
زیدی صاحب کا کہنا ہے کہ سیاسی اسلام پسند ہوں یا اکثر وبیشتر سندھی قوم پرست انہوں نے نوآبادیاتی دور میں مرزا قلیچ بيک کے ترجمہ کردہ ‘چچ نامہ’ کو بنیاد بناتے ہوئے سندھ کو 7ویں اور 8ویں صدی عیسوی میں بدھ مت اور جین مت کے مقابلے میں ہندؤ مت کی اکثریت پر مبنی سماج مان لیا- چچ نامہ کے مندرجات کو لیکر ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے ‘چچ’ کے حکمران بننے کو ‘ہندؤ مت’ کا جین مت اور بدھ مت کے خلاف سندھ میں ‘نرم کودتا’ قرار دیا اور یہ مفروضہ گھڑا کہ جس وقت محمد بن قاسم کی سربراہی میں بنوامیہ کی نوآبادیاتی سامراجی فوج نے سندھ پر حملہ کیا تو اس وقت راجا داہر سین کی سلطنت اور راجیہ ایک ہندؤ سامراجیہ تھا- سیاسی اسلام پسندوں کے نزدیک یہ امر مسلمہ ہے کہ چچ اور کے بھائی چندر راجا اور پھر چچ کے بیٹے راجا داہر سین نے سلطنت کی پرجا کو سناتن دھرم کے راج گرو اور ان کے پنڈتوں اور چیلوں کی مدد سے زبردشسستی ہندؤ بنادیا تھا۔ یہ عمل جاری و ساری تھا اور ساتھ ہی سیاسی اسلام پسند یہ بھی کہتے ہیں کہ راجا داہر سین نے اپنی بہن سے شادی کرلی تھی اگرچہ نوآبادیاتی دور کے کئی ایک ہندؤ لکھاری راجا داہرسینکی اپنی بہن سے شادی ‘علامتی’ بتاتے ہیں جیسے گڈومل ہے جو مرزا قلیچ بیگ کو ہی نقل کرکے اس حوالے سے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہیں –
زیدی چچ ، راجا چندر اور راجا داہر سین کے خلاف اینٹی بدھ مت، اینٹی جین مت ہونے کے پروپیگنڈے کو رد کرتے ہیں اور 7ویں و 8 ویں صدی کے سندھی سماج کو ‘صلح کلیت ‘ ، ‘آزاد روی’ اور مذہبی تنوع کو تسلیم کرنے والا سماج دکھاتے ہیں- وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جین مت کا پیرو کوئی غریب یہاں تک کہ متوسط طبقے سے ہو ہی نہیں سکتا -وہ تو بہت بڑا تاجر ہوتا ہے۔ اور جین مت ہندؤ مت سے نہیں نکلا بلکہ اس کی تاریخ تو ہندؤمت سے بھی بہت پرانی ہے۔ وہ اپنے دعوؤں کے ثبوت میں کئی ایک حوالے سامنے لیکر آتے ہیں اور ان کی بنیاد پر بننے والی سوچ کو انہوں نے اپنے ناول کی بنت میں استعمال کیا ہے۔ گزشتہ روز ناول پڑھنے کے بعد میں نے ان سے گفتگو کی تو انہوں نے جین مت ، بدھ مت اور ہندؤ مت کے باہمی رشتوں اور ان کے درمیان امتیاز کو لیکر اپنے لکھے گئے ناول بارے کہا،

“کچھ ایسے نکات جو اس ناول سے قبل کم از کم اردو ادب میں نہیں اٹھائے گئے۔ عرب توسیع پسندی کو کبھی سامراج نہیں کہا گیا، نوآبادیات قرار دینا تو دور کی بات۔ سندھ پر عرب قبضہ، بنی امیہ اور بنی عباس کا مسلسل گورنروں کے ذریعہ سندھ کو دمشق اور بغداد کا مطیع و باجگزار رکھنا نو آبادیات ہی تھا۔ نوآبادیات کی جدید تہذیب یوریپین نو آبادیات تک اس لئے محدود ہے کہ اس میں سرمایہ داری ایک شراکت دار ہوتی ہے۔ عرب توسیع پسندی خاص طور سے سندھ اور گجرات کی طرف تجارتی مفادات کے ہی تحت تھی۔ اس کی ایک مثال تاجکستان پر قبضہ کے وقت بھی نظر آتی ہے جب لوکل تاجک سرمایہ داروں نے عرب حملہ آوروں کو ہتھیار اور گھوڑے خریدنے کو قرضے دئیے تھے۔ سندھ کے کیس میں امیہ سامراج کی نظر جنوبی انڈیا اور سری لنکا تک تھی جہاں سے عرب تاجر سونے سے زیادہ قیمتی مصالحوں کی تجارت سے غنی ہوتے جارہے تھے۔
دوسری اہم بات سندھ کی ثقافت اور وہاں پر اہم مذاہب کی ہے جسے نوآبادیاتی مورخوں نے صرف نظر انداز کیا بلکہ مسخ کرکے بھی پیش کیا۔ برصغیر میں بدھ مت سمٹتے جارہا تھا، گجرات و سندھ کی اکثریت بدھ مت کی پیروکار تھی اس لئے یہ سرزمین ذات پات کے تعصب و تقسیم سے پاک تھی۔ خود راجا داہر برہمن راج کی دوسری نسل تھی، سندھ پر برہمن راج ایک اتفاق تھا جو بدھ راجا رائے کی موت کے بعد بیوہ رانی کے برہمن چچ کے ساتھ بیاہ کی وجہ سے تھا۔
ایک اور اہم نکتہ سندھ اور برصغیر کی زمین پر جنم لینے والے جین مت کے متعلق ہے۔ جین اس سرزمین کا انتہائی قدیم مذہب ہے جس نے اسی سرزمین سے جنم لیا ہے، برہمنوں نے بہت کچھ جین مت سے سیکھ کر اپنے نام کیا ہے، مثال کے طور پر نروان کو کچھ معمولی سے تبدیلی کرکے جین مت سے سیکھا، نرکھ اور سورگ کے تصورات جینیوں سے لئے، لنگم اور یونی کی تعظیم جینیوں سے لی۔ پاکستان میں عام طور پر جینیوں کے چوبیسویں تیر تھنکر جو بدھ کے زمانے کے تھے ان سے جین ازم کی ابتدا سمجھی جاتی ہے حالانکہ تئیس تیر تھنکر پہلے گزر چکے ہیں۔
جین ازم ہمیشہ سے اشرافیہ اور تاجروں کا مذہب رہا ہے یہ تاجر کتھری کہلاتے ہیں۔۔ جب برہمنوں نے ذات پات کا نظام مسلط کیا تو تاجروں کو کتھری نام ہی دیا۔ چونکہ ہر جین تاجر یعنی کتھری ہوتا ہے اور مہاویر بھی کتھری تھے تو عام لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ مہاویر سابق ہندو تھے-

نوآبادیاتی تاریخ نے دیبل شہر کو ہندو شہر لکھا ہے حالانکہ سندھ میں تمام تجارت جینیوں کے ہاتھوں میں تھی اس لئے دیبل ایک غیر فوجی جینی شہر تھا۔
پروین تالپور ایک ماہر آثار قدیمہ ہیں جو اب امریکہ میں رہتی ہیں۔ انہوں نے موہن جو دڑو کی مہروں پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ ہمارے تبادلہ خیال میں انہوں نے اس خیال سے اتفاق کیا کہ امکان غالب ہے کہ موئن جو دڑو سے نکلنے والا پریسٹ کا مجسمہ شاید بائیس ویں جین تیر تھنکر کا ہو۔ قدیم سندھ میں رعایا کا کوئی مذہب نہیں ہوتا تھا وہ صرف قدرتی مظاہر کی تعظیم کرتے تھے”۔

صفدر نوید زیدی نے اپنی بات یوں ختم کی:

“چونکہ اس ناول کا بنیادی موضوع سندھ، وہاں کی گم گشتہ ثقافت ہے اس لئے فارس کی سیاست کو موضوع نہیں بنایا اور کہانی سندھ کی گم شدہ ثقافت کو مرکز بنا کر آگے بڑھتے رہی۔ شاید اردو ادب میں یہ پہلا موقع ہے کہ مفتوح کے نکتہ نظر سے قلم اٹھا کر اردو کے دامن سے اشراف پرستی کا داغ مٹادیا گیا ہے نیز سندھیوں کو بھی اصل سندھو دیش کا تصور پیش کرنے کی کوشش کی ہے”۔

چچ نامہ جس کی بنیاد پر سندھ پر عرب نوآبادیاتی سامراج کے قبضے سے پہلے اور قبضے کے دوران بارے نظریات مدون کیے گئے کی اپنی حقیقت کیا ہے؟ اس حوالے سے ریفرنس بک کی حثیت رکھنے والی منان احمد کی کتاب

“Chachnama: A Book of Conquest and Muslim Origin in South Asia”

نے ان سب کی زـردست ردتشکیل کی ہے۔ انہوں نے تفصیل سے ثابت کیا ہے کہ ‘چچ نامہ کو سندھ پر اسلام کی فتح کی ایک اساطیری/ افسانہ طراز داستان کےسوا کچھ نہیں ہے۔ نہ تو یہ کسی کا ترجمہ ہے اور نہ ہی فتح نامہ ہے۔’
وہ کہتے ہیں ،

‘میں اس کتاب کے بنیادی بیانیے سے انکار کرتے ہوئے کہوں گا جو میرے اس متن کےے بارے میں طائرانہ اور تفصیلی مطالعے کا حاصل ہے کہ چچ ناوہ بس ایک سیاسی نظریہ کی کتاب ہے’۔

زیدی نے بالکل درست لکھا ہے کہ تاریخی ناول دو دھاری تلوار جیسا ہوتا ہے جو تاریخ کو مسخ بھی کرسکتا ہے اور تاریخ کے تار تار دامن کی پیوند کاری بھی کرسکتا ہے۔

اس ناول میں زیدی نے سندھ وادی میں جین مت کے زیر اثر مرد اور عورت کے باہمی رشتے کو بھی ‘راج کماری’ کے کردار اور محمد بن قاسم کے ساتھ اس کے مکالموں کے زریعے سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ قدیم سندھی سماج میں عورت جینی روایات کے اثر میں کس قدر براہمن واد سے مختلف تھی اس کا اندازہ ‘راج کماری’ کے کردار سے کیا جاسکتا ہے۔

راجا داہر کے سر کو نیزے پر تان کر ننگے بدن سندھی کنیزوں اور غلاموں کے ساتھ اموی سپاہی دمشق کی گلیوں سے کزر رہے ہیں – السٹریشن محسن زیدی برلن

سندھ پر بنوامیہ کی حکومت نے حملہ کیوں کیا؟ سیاسی اسلام پسندوں نے اس کی ایک ہنگامی وجہ تو چچ نامہ میں درج ایک مفروضہ داستان سے چنی ہے جس میں عرب تاجروں کی راجا داہر کی طرف سے یرغمال بنائی عورتوں میں سے ایک کی پکار پر ججاج خلیفہ ولید بن عبدالمالک سے سندھ پر حملے کی اجازت لیتا ہے اور دوسرا اس کا مقصد سندھ سے بت پرستی کا خاتمہ بتایا جاتا ہے۔ حالانکہ خود ابتدائی مسلم تاریخ کے ماخذ سے یہ بات ثابت ہے کہ بنوامیہ والے سے اس سے پہلے بھی کوئی پانچ سے 7 مرتبہ سندھ فتح کرنے کی کوشش کرچکے تھے اور ناکام ہوئے تھے۔ اموی عربوں کا سندھ پر حملہ ویسا ہی نوآبادیاتی سامراجی حملہ تھا جیسا روم اور فارس جیسی سامراجی ریاستوں کا ہوا کرتا تھا اور اس میں مقامی آبادی کو نوآبادیاتی محکوم باشندے بنانا، ان پر اپنی زبان، مذہب، ثقافت مسلط کرنا ، وسائل کی لوٹ مار کرنا، عورتوں اور مردوں کو غلام بنانا، قتل و غارت گری کرنا ، گھروں کو جلانا ، عبادت گاہوں کو مسمار کرنا سب شامل تھا۔

ولید بن عبدالمالک کے حرم میں سندھی کنیزوں کو پیش کیا جارہا ہے -السٹریشن محسن زیدی برلن

اردو فکشن میں تاریخی ناول اور کہانیوں میں عرب ، ترک ، تاتاری ، افغان حملہ آوروں کو مذہبی تقدیس اور اسلام کی جہاد فی سبیل اللہ ، شرک کے مٹانے جیسی اصطلاحوں کا سہارا لیکر ہیرو بناکر پیش کی؛ا جاتا رہا ہے اور ایسے ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ جیسے مقامی آبادیوں اور باشندوں نے ان حملوں کو اپنے لیے باعث نجات سمجھا اور انھوں نے بیرونی حملہ آوروں کو کامیاب بنایا ۔ اور ایسے ناولوں نے برٹش نوآبادیاتی سامراج کی طرف سے ماقبل برٹش کالونیل ہندوستان میں سب کے سب مسلمانوں کو غیر ملکی/بدیشی، ملیچھ ، قاـض، حملہ آور اور مقامی باشندوں کے دشمن قرار دینے کے مفروضے کو آگے بڑھایا۔ زیدی نے ہندوتوا برٹش نوآبادیاتی سامراج کے دعاوی کو بالواسطہ بڑھانے والے اس مسلم اشرافیت پسند ادبی رجحان کی ردتشکیل کی ہے اور اس کے الٹ بہاؤ رکھنے والا تاریخی فکشن کو تخلیق کیا ہے۔
زیدی نے اپنے تاریخی فکشن ‘بنت داہر’ میں ایک طرف تو یہ دکھایا کہ کیسے چچ، راجا چندر اور راجا داہر سین کے دور میں بنوامیہ کے ستائے ہوئے آل محمد سے تعلق رکھنے والے قریشی بنو ہاشم ، بنو فاطمہ کے لوگ ، بنوامیہ کی حکومت کے باغی ، آتش پرست فارسی بڑی تعداد میں آباد تھے- اور وہ چچ سے لیکر راجا داہر سین کے دور تک اپنی سلطنت کے باغیوں کی واپسی کا مطالبہ کرتے رہے تھے اور دھمکیوں کے ساتھ ساتھ حملہ آور بھی رہے۔ اس حملے کی سب سے بنیادی وجہ سندھ کی دولت اور وسائل کی فراوانی تھی جس نے معاشی پریشانیوں سے دوچار اور ایک بہت بڑی فوج کو ادائیگی میں پریشانی سے دوچار اموی سلطنت کو ایک راستا سجھایا۔ سندھ کی فتح سے اموی سلطنت کو جتنا مال غنمیت میسر آیا وہ اس ہی دور میں ہوئی دیگر فتوحات سے حاصل ہونے والے مال غنمیت سے کہیں زیادہ تھا۔
اردو فکشن میں صفدر زیدی ، عباس زیدی اور رحمان عباس ایسے نام ہیں جنھوں نے تاریخی ناولوں میں مسلم اشرافیت پسندی کے زیر اثر لکھے کئے انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے تاریخی ناول نگاری کی روایت پر ضرب لگائی ہے اور نئے مباحث کو جنم دیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here