اداریہ: آزاد پریس ہم سب کی ضرورت ہے مگر۔۔۔۔۔۔۔۔

0
1235

 

معاشی خودمختاری کے بغیر صحافی کی آزادی

ممکن نہیں تو صحافت کیسے آزاد ہوسکتی ہے؟

 

دی ایسٹرن ٹائمز کا آغاز ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب قومی اور بین الاقوامی سطح پہ ‘آزادی

صحافت’ کو سٹیٹ ایکٹرز اور نان سٹیٹ ایکٹرز سے ہی خطرہ لاحق نہیں ہے بلکہ اسے خود میڈیا

مالکان کی پالیسیوں سے بھی خطرہ لاحق ہے۔

اگست کے مہینے میں امریکہ کے 300 سے زائد اخبارات نے صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے آزادی

صحافت پہ کیے جانے والے حملوں کے خلاف ایک ہی دن میں اداریے شایع کیے تھے اور اس کی

وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ کو پسپائی کا راستا اختیار کرنا پڑا تھا۔

پاکستان میں ویسے تو ریاستی ادارے ہمیشہ سے صحافت کی آزادی میں روکاوٹیں ڈالتے رہے ہیں

لیکن صحافتی آزادی میں روکاوٹ ڈالنے کے لیے ریاستی اداروں کی جانب سے گزشتہ دو عشروں

میں ایک نئی پالیسی متعارف کرائی گئی ہے۔ اس پالیسی کا محور و مرکز میڈیا مالکان، ایڈیٹوریل

بورڈ،نیوز روم کو کنٹرول کرنا ہے۔ اس طرح کی کنٹرول کی پالیسی اپنانے کا زیادہ تر الزام پاکستان

کی ملٹری اسٹبلشمنٹ پہ لگتا رہا ہے۔

پاکستان میں ریاستی اداروں کی طرف سے سنسر شپ اور بے جا پابندیوں میں شدت اس وقت سے

زیادہ آئی ہے جب پاکستان کے تین بڑے میڈیا گروپوں سمیت طاقتور اشراف صحافیوں کی ایک بڑی

تعداد نے مسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کو اپنے تئیں اینٹی اسٹبلشمنٹ شخصیت

کے طور پہ پروان چڑھانا شروع کیا اور ان کی ایک لبرل حاکم کے طور پہ پروجیکشن شروع کی۔

اس پروجیکشن میں کافی حد تک صحافتی اقدار اور معروضیت کو پامال کرتے ہوئے نواز شریف

بمقابلہ اسٹبلشمنٹ کی مساوات بناکر اسٹبلشمنٹ کے نام پہ بہت سا جعلی پروپیگنڈا بھی کیا گیا۔ یہ

مقابلہ نام نہاد ڈان لیکس سے اپنے عروج پہ پہنچ گیا۔

اسٹبلشمنٹ کی جانب سے بھی اس پروپیگنڈے کا توڑ مبینہ طور پہ اسی طریقہ سے کیا جانے لگا

اور یہ ابتک جاری ہے۔ اس دوران جب تک مسلم لیگ نواز کی حکومت رہی اس وقت تک نواز

شریف کا حامی میڈیا گروپ اور صحافیوں کو اشتہارات سے لیکر عہدے و مراعات کے معاملے میں

خوب نوازا جاتا رہا اور تین بڑے میڈیا گروپ خاص طور پہ کافی ترقی کرتے گئے۔ لیکن جیسے ہی

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی تو حکومت نے اشتہارات کی تقسیم کے سابق حکومتی

طریقہ کار کو بدل ڈالا اور تین بڑے گروپوں کی جانب سے یہ الزام بھی لگایا گیا کہ ان کو سرکاری

اشتہارات کی ادائیگی بالکل بند کردی گئی ہے۔ اور اس کا الزام ہے کہ آزادی صحافت کا گلہ گھونٹا

جارہا ہے۔

اس وقت پاکستان میں میڈیا مالکان کے درمیان بڑی تقسیم مسلم لیگ نواز بمقابلہ پاکستان تحریک

انصاف کی مساوات کے گرد ہے۔ اور اس تقسیم کا مرکز و محور بہرحال مفادات کا تضاد ہی ہے۔

 ماضی میں آزادی صحافت، آزادی اظہار،جمہوریت،انسانی حقوق، شہری آزادیوں اور اقوام و مذہبی

برادری کی آزادیوں کے لیے کام کرنے والے صحافی،کالم نگار،تجزیہ کار،سماجی کارکن،سیاسی

دانشور ایکٹوسٹ میڈیا مالکان کی باہمی یا ریاست و حکومت سے مفادات کی لڑائی میں میڈیا مالکان

کے کیمپ میں شرکت نہیں کرتے تھے۔ پاکستان میں بائیں بازو کی ترقی پسند صحافت نے ہمیشہ

میڈیا مالکان اور حکومت و ریاست سے فاصلہ رکھ کر آزادی صحافت کی لڑائی لڑی اور اس دوران

صحافی کارکنوں کے حقوق کو بھی کسی میڈیا مالک کو غصب نہیں کرنے دیا۔

آج کا المیہ یہ ہے کہ آزادی صحافت کے حق میں اور سنسر شپ کے خلاف لڑنے کے دعوے کرنے

والے اشراف لبرل/لیفٹ صحافی اکثریت میں میڈیا مالکان کے ساتھ کھڑے ہیں اور میڈیا مالکان کی

عامل صحافیوں سے زیادتیوں کے خلاف ان کی جدوجہد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان میں سے کئی

ایک اب ہائر اینڈ فائر کے اختیارات رکھنے والی میڈیا انتظامیہ کا حصّہ ہے۔ یہ اشراف لبرل صحافی

جو کسی زمانے میں پاکستان میں بائیں بازو کی ترقی پسند صحافت کے پرآشوب دور میں بلاشبہ

بہترین فائٹر کے طور پہ سامنے آئے تھے اب ان کا طبقہ بدل گیا ہے اور اب ان کی ہمدردیاں نہ تو

اپنے صحافی مزدور بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ہیں نہ ہی دوسرے سرکاری و غیر سرکاری شعبوں

کے محنت کشوں سے ہیں۔ یہ پاکستان کی مظلوم مذہبی و نسلی برادریوں کے اوپر ہونے والے ظلم

اور جبر میں بھی مخصوص اور منتخب احتجاج اور غم و غصہ ظاہر کرتے ہیں۔

 

ان میں سے اکثر اب بائیں بازو کی انقلابیت کے ساتھ بین الاقوامی حالات پہ نظر نہیں ڈالتے اور

اسی وجہ سے امریکہ و برطانیہ سمیت عالمی طاقتوں کے دنیا بھر میں مداخلتوں کے مسائل پہ ان

کی نظر امریکی نیو لبرل کے ساتھ ہم آہنگ نظر آتی ہے۔

پاکستان میں سوشل میڈیا پہ بائیں بازو کی ترقی پسند صحافت کے احیاء کا سکوپ پھر بھی نظر آتا

ہے لیکن مین سٹریم میڈیا انڈسٹری میں اس کا مستقبل بہت مخدوش ہے۔

دی ایسٹرن ٹائمز بائیں بازو کی ترقی پسند صحافت کی درخشاں روایت اور عصرحاضر میں اس کے

تقاضوں کے ساتھ اپنی شروعات کررہا ہے۔ ہم کمرشل لبرل اور بوتیک لیفٹ طرز کی صحافت کے

مقابلے میں حقیقی ترقی پسند صحافت کو فروغ دینے کی کوشش کریں گے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here