سعودی عرب نے اب اعتراف کرلیا ہے کہ اس نے 2 اکتوبر کو استنبول میں سعودی سفارت خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے داخلے کے بعد ہونے والے واقعات بارے 17 روز تک جھوٹ بولتا رہا۔ لیکن شاہ سلمان اور سعودی ولی عہد کی قیادت میں چلنے والی سعودی بادشاہت نے جو کہانی بیان کی ہے وہ بالکل قابل اعتبار نہیں ہے۔ تازہ ترین موقف ہمیں یہ یقین کرنے کو کہتا ہے کہ خاشقجی کی موت سعودی سفارتی عملے سے مبینہ جھگڑے کے بعد ہوئی جن  کو اس سے ملنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ کئی صحافیوں کو سعودی حکام نے بتایا کہ اس کی لاش کو ایک مقامی معاون کے سپرد کردیا گیا تھا تاکہ اسے ٹھکانے لگایا جاسکے۔ صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ اس ناقابل اعتبار کہانی کو اگر دوھراتے ہیں تو وہ اس سے وہ اس رجیم کی قاتلانہ کوششوں میں تعاون کی اپنی پالیسی پہ عمل پیرا رہنے کی تصدیق کریں گے اور خاص طور پہ ولی عہد محمد بن سلمان کا ہاتھ بٹانے کی پالیسی کی تاکہ کسی نظر آنے والی جواب دہی سے بچا جاسکے۔

جیسا کہ ٹرمپ صاحب بخوبی واقف ہیں کہ سعودی عرب کی بیان کردہ نئی کہانی نہ صرف ترک حکام کے اور صحافیوں کے اب تک جمع کردہ شواہد سے متضاد ہے بلکہ خود امریکہ خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹس سے بھی متضاد ہے۔ یہ تمام رپورٹیں محمد بن سلام کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہی اس منصوبہ بند،سردمہری سے کیے گئے بہیمانہ قتل اور مسٹر خاشقجی کی لاش کے ٹکڑے کرنے کا ذمہ دار ہے۔ جیسے واشنگٹن پوسٹ کے رپورٹر شین ہیرس نے رپورٹ کیا کہ سی آئی اے حکام نے ترک حکام کی تحویل میں ایک آڈیو ٹیپ سنی جو اس بات کی تصدیق کرتی ہے خاشقجی کو سفارت خانے میں داخل ہونے کے چند منٹ بعد ہی 15 افراد کی ٹیم نے قتل کردیا تھا۔ اخبار نے ان میں سے پانچ افراد کی شناخت ولی عہد محمد بن سلمان کے ذاتی محافظوں میں شامل گارڈز کے طور پہ کی ہے۔

ایک دوسرا آدمی اس ٹیم میں صلاح الطبیقی کے طور پہ شناخت کیا گیا ہے جو کہ سعودی جنرل سیکورٹی ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ اور آٹوپسی سپیشلسٹ ہے۔ ترکش حکام کے مطابق اس نے ہیڈ فونز کو الگ کرنے کے بعد خاشقجی کی انگلیاں کاٹیں اور سر کو کاٹا اور دوسرے ساتھیوں کو بھی ایسا ہی کرنے کو کہا۔ سعودی حکام کا یہ کہنا کہ صالح الطبیقی کو اس لیے بھیجا گیا تھا کہ خاشقجی کا ارادہ واپس سعودی عرب آنے کا تھا تو اس کے ساتھ سعودی ولی عہد کے ذاتی محافظوں کی ٹیم وہاں کیا کرنے بھیجی گئی تھی؟ اصل حقیقت یہ ہے کہ خاشقجی جو کہ واشنگٹن پوسٹ کا کالم نگار تھا اس کا سعودی عرب واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا وہ تو سفارت خانے مطلوبہ کاغذات لینے گیا تھا کیونکہ اس نے ایک ترک خاتون سے شادی کرلی تھی اور اس کے ساتھ وہ استنبول میں ایک نیا گھر لے چکا تھا۔

بڑی صفائی سے ولی عہد سعودی عرب کو احتساب کے مطالبے سے بچانے کے لیے حاومت نے استنبول بھیجی جانے والی ٹیم اور متعدد سفارت خانے کے ملازمین کو گرفتار کرلیا ہے۔ چار سینئر انٹیلجنس اہلکاروں کو نوکری سے فارغ کیا گیا ہے اور سعودی ولی عہد کے اہم مشیر سعود القحطانی کو بھی فارغ کردیا گیا ہے جس نے ولی عہد پہ تنقید کرنے والوں میں سے بلیک لسٹ کردیے جانے والوں کی فہرست بنائی تھی۔ یہ سارے لوگ صاف ظاہر ہے کہ مسٹر خاشقجی کو ٹارگٹ کرنے کے لیے قربانی کے بکرے بنائے گئے ہیں۔ اس نے گزشتہ سال ایک ٹوئٹ میں کہا تھا:” کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ میں ایسا کسی سے حکم یا ہدائت لیے بغیر کرسکتا ہوں؟ میں ایک ملازم ہوں اور بادشاہ و ولی عہد کے احکامات پہ عمل کرنے والا قابل اعتماد آدمی ہوں۔”

مسٹر ٹرمپ جنھوں نے سعودی اقدامات کو ‘ پہلا اچھا قدم’ قرار دیتے ہو‏ئے یہ اضافہ کیا تھا کہ ان کے پاس کچھ اور سوالات ہیں پوچھنے کے لیے اور وائٹ ہاؤس سے جاری ایک بیان میں ‘المناک واقعے کی ہونے والی عالمی تحقیقات کا بغور جائزہ لینے’ کا وعدہ بھی کیا گیا تھا۔ یہ دونوں بیانات سعودی عرب کے حالیہ بيان اور ترک تحقیقات پہ کھلے عام پردہ ڈالنے کے مترادف ہیں اور اس کو بہت تیزی سے بند کیا جاسکتا ہے اگر اردوغان بھی اس سیاسی ملی بھگت میں شامل ہوگئے۔ مسٹر خاشقجی کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کی حقیقت جاننے کے لیے اقوام متحدہ کی ایک ٹیم کو بھیجا جائے جو حقیقی عالمی تحقیقات کرے۔ سیکرٹری جنرل یو این او انتینو گٹراس کو اس سلسلے میں پہل  کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی کانگریس کو خود اپنی تفتیش کا آغاز کرنا ہوگا۔ اور اسے یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا ٹرمپ انۃظامیہ سعودی حکام سے مل کر ایک ممتاز صحافی کے قتل کے حقائق کو چھپانے کی سازش کررہی ہے کہ نہیں؟

جبکہ اسی دوران سعودی عرب اور اس کی حکومت کو وہ تمام لوگ قانون شکن کے طور پہ دیکھیں جو انسانی حقوق اور آزادی اظہار جیسے اقدار کے علمبردار ہیں۔ وہ کاروباری ادارے جنھوں نے ریاض میں ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت سے معذرت کرلی ہے ان کو سعودی ولی عہد سے اپنے ہر قسم کے روابط ختم کرنے چاہيں۔ واشنگٹن میں لابی فرموں کو اس کی جانب سے رقوم لینے سے انکار کرنا ہوگا۔ کانگریس کو سعودی عرب کے ساتھ ہر طرح کے اسلحے کی فراہمی کے سودے اور ڈیلیوری کو بلاک کرنے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب سے تعلقات اور تعاون جاری رہنا چاہئیے مگر اس وقت جب وہ بدلے ہوئے موقف اور عمل کے ساتھ آئیں۔ اس کا پہلا قدم خاشقجی قتل اور اس کے ذمہ دار کے بارے میں پورا سچ سامنے کی ضرورت ہے۔جو محمد بن سلمان ہے اور اس سے مکمل پوچھ گچھ ہونی چاہیے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here