ایڈیٹر کا نوٹ: فاطمہ بھٹو کا دوسرا ناول ‘رن ایوئےز’ دنیا کے تین دور دراز گوشوں سے تین

زندگیوں کو اکٹھا کردیتا ہے جن میں سے ہر ایک مختلف طریقوں سے تشدد اور دکھ کا متاثرہ  ہے۔ انھوں نے ایک نیوز ویب سائٹ فرسٹ پوسٹ  کے نمائندے مانک شرما سے اس ناول بارے گفتگو کی۔ وہ پاکستان کے ممتاز ترین گھرانوں میں سے ایک گھرانے میں پلی بڑھی ہیں۔وہ پاکستانی سیاست سے ہٹ کر کوئی الگ سی شئے پانے اور پاکستان کے مستقبل بارے امید یا یاس کو تلاش کرنے کے لیے فکشن لکھتی ہیں۔  

برطانوی اخبار ‘دی گارڈین’ میں آپ نے اس سال کے شروع میں ایک مضمون لکھا اور پاکستانی الیکشن کو ایک ایسا سرکس قرار دیا جس کے رنگ ماسٹرز، پنجروں میں بند شیر،چاقو باز،جمنازسٹک کے بازی گر ایک جھولے سے اچک کر دوسرے جھولے تک جانے والے سب جانے پہچانے ہیں۔ اس سرکس کے اتنے تکلیف حدہ تک قریب رہنے کے باوجود آپ نے اپنے فکشن میں دور پار کے، زمین سے لگے کردار کیوں دکھائے؟ وہ پاکستان کی اشراف زدہ سیاست کے سامنے کیا چیز پیش کرتے ہیں؟

فاطمہ بھٹو: دل

جب نائن الیون ہوا تو آپ امریکہ میں تھیں۔ اس واقعے کے کتنے سالوں بعد ‘مغرب’ کے بارے میں آپ کے موجودہ تصور کے خدوخال بنے؟ اور وہ سب باتیں جو آپ نے کیں،ان سب جگہوں کے بارے میں آپ کے تصورات جہاں آپ گئیں اور جہاں آپ نہیں جاسکیں،ان کی تشکیل میں کتنا وقت لگا؟  کیا مسلم شناخت ایک وحدانی بیانیہ سے تب تشکیل پائی ہے اور کیا اس بارے کچھ کیا جاسکتا ہے؟

فاطمہ بھٹو: میں قطعی شناخت کے اس تصور پہ یقین نہیں رکھتی جس طرح سے اسے مغرب میں لیا جاتا ہے۔ ہم جو برصغیر  کے لوگ ہیں،ہماری ایک مختلف فلاسفی ،تجربات اور ورثے ہیں۔ ہمارا تصور زماں ویسا نہیں ہے جیسے مغرب میں اسے دیکھا جاتا ہے، ہم زندگی اور موت کو زرا ہٹ کر دیکھتے ہیں ۔۔۔۔ زیادہ پھیلاؤ کے ساتھ ۔ تو جس طرح سے مغرب  ‘حملہ کا شکار ہونے’ کا احساس رکھتا ہے اور جس طرح سے اس نے اپنی جگہوں کو تنگ کیا ہے اور جس طرح سے اس نے چیزوں اچھی/بری، ہم/وہ،تارک وطن/مقامی کی بائنری میں خود کو باندھنا شروع کردیا اس سے ٹوٹ پھوٹ کا احساس ایک آدمی میں اور بڑھ جاتا ہے۔ مسلم بیانیے، بالکل جیسے ہندؤ بیانیے یا مسیحی بیانیے ہیں کی طرح کسی ایک وحدانی بیانیہ کی صورت تک محدود نہیں کیے جاسکتے کیونکہ وحدانی مسلم/ہندؤ/مسیحی تجربے نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ یہ تو بہت سارے تجربات کا نام ہے جو مسلسل تغیر اور ارتقاء کے عمل سے گزر رہے ہیں۔

اپنے دو ناولوں میں آپ نے اپنی زاتی اور اپنے والد کی کہانی لکھی۔ اپنی زندگی کے اس قدر گہرے حصّے میں گم ہونے کے بعد آپ کیسے باہر آئیں ؟ آپ کیسے اس قابل ہوئیں کہ فکشن اور اس کے لوگوں کو مزید کھنگال کر یہ دکھاسکیں کہ یہ اور کیا پیش کرتے ہیں؟ اور یہ جو آپ کے ایک کاندھے پہ سیاست کا بوجھ دھرا ہے اور دوسرے پہ ادب کا ان دونوں کے درمیان آپ توازن کیسے رکھ پاتی ہیں؟

فاطمہ بھٹو: مجھے تو کسی قسم کا بوجھ محسوس نہیں ہوتا،کسی بھی کاندھے پر۔ میں نے اپنے بابا کے بارے میں ‘تلوار و خون کے نغمے’ لکھا اس سے پہلے کہ میں کوئی ناول لکھتی کیونکہ یہ میرے لیے بہت اہم چیز تھی۔لیکن میں فکشن میں بہت سکون محسوس کرتی ہوں۔ فکشن لکھنے کے تجربے کو کبھی بھی ‘بوجھ’ سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔ میں مستقل اس کے غلبے میں رہتی ہوں۔

آپ کا پہلا ناول اور اب یہ ‘رن اوےز’ دونوں میں آپ نے ایک کہانی بیان کرنے کے لیے مختلف زندگیوں کا انتخاب کیا ہے ناکہ آپ نے ایک مرکزی ہیرو /کردار کے زریعے کہانی کو بیان کیا۔ کیوں؟ کیا یہ تشدد کے بیانیہ کے اس راستے کا اشارہ ہے جسے قریب قریب مغرب کے ملٹی پل ریشوں میں کبھی پڑھا نہیں گیا؟

فاطمہ بھٹو: یہ بہت اچھا نکتہ آپ نے اٹھایا ہے۔۔۔۔۔ ہاں، ایک طرح سے تشدد کو ان دنوں ‘سیاہ اور سفید’ کی بائنری میں بیان کیا جاتا ہے اور میں اس بارے میں اس سے ہٹ کر الگ طرح سے سوچنا چاہتی تھی۔ جب آپ کو دنیا کے خلاف حالت جنگ میں ہونا پڑتا ہے تو آپ کسقدر تکلیف کا شکار ہوتے ہو؟ دنیا کے ہاتھوں  زخم خوردہ ہونے یا ذلیل ہونے یا الگ کردیے جانے  کے احساس کے معانی کیا ہوتے ہیں؟ جہاں تک کرداروں کا تعلق ہے بو میں کبھی پہلے سے طے نہیں کرتی کہ مجھے ملٹی پل کرداروں کے بارے میں لکھنا ہے۔۔۔۔ یہ دو لڑکوں کی کہانی کی کتاب تھی جب میں نے اسے لکھنا شروع کیا: مونٹی اور سنی۔ لیکن کہانی کی خود اپنی ایک زندگی ہوا کرتی ہے۔۔۔۔ یہ اطراف کی تمام اشکال میں گھوما کرتی ہے،میں نے تو جتنا ہوسکتا تھا خلوص سے اس کا تعاقب کیا ہے۔

آپ نے خود بھی وائلنس/تشدد کے نتائج و عواقب کو بھگتایا ہے۔ لکھنا لکھانا کیا چیز پیش کرتا ہے جو اس سے ہٹ کر ہو؟ جب آپ وائلنس کی کہانی مرتب کررہی ہوتی ہیں تو کیا ایسے لمحات میں آپ کو یہ بہت سی یادیں جو تکلیف دہ ہوتی ہیں کی دنیا میں لے جاتی ہیں؟ تو اس وقت آپ ماضی سے کیسے مخاطب ہوتی ہیں؟

فاطمہ بھٹو: میں ستم رسیدہ تشدد ہوں،میں نے اس کا تجربہ کیا ہے۔ آپ کو وائلنس کو روشنی اور ہوا کے سامنے ننگا کرنا پڑتا ہے ،اور صرف یہی وہ راستا ہے جس کے زریعے سے آپ اس کی طاقت کو چرا سکتے ہو۔

کراچی سے آپ کا تعلق اور آپ کی محبت ہمیشہ آپ کے کام میں جھلکتی ہے۔لیکن  کیا کبھی آپ نے اس شہر،ملک کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ جانے کی خواہش کی؟ آپ کو کیا شئے پیچھے کھینچتی ہے؟ اس شہر کے حوالے سے سب سے زیادہ بڑی یادیں آپ کی کونسی ہیں؟

فاطمہ بھٹو: کراچی بارے میری یادیں حقیقت میں تو ‘نقصان/رائيگانی’ کی یادیں ہیں۔ یہ ایک ایسا شہر ہے جس نے آگ میں میرے خدوخال تشکیل دیے ہیں۔۔۔۔میں بہت چھوٹی تھی جب میں اس کی لپیٹ میں آئي اور اس نے مجھے ایسے پالا جیسی آج میں ہوں۔میں ہر چیز کو قبول کرتی ہوں۔ میں اس کے لوگوں سے، اس کی وحشت سے ، اس کی ابتری سے، اس ناقابل شکستہ شدت سے پیار کرتی ہوں۔میں نے کبھی کراچی کو نہیں چھوڑا کیونکہ میں چاہ کر بھی ایسا نہیں کرسکتی تھی اور مجھے اس کے ساتھ ہمیشہ رہنا ہے۔

آپ بس ایک درجہ تک لبرل ازم اور کشادگی سے اپنی تحریروں میں تعاون کرتی ہیں۔ یقینی بات ہے کہ آپ کی سیاست بھی اسی طرح کی ہے۔ لیکن کیا آج کے پاکستان میں ایسے خیالات کے لیے جگہ موجود ہے؟کیا کبھی آپ نے اس موضوع پہ طبع آزمائی کرنے کی خواہش کا احساس اپنے اندر پایا یا کبھی اس بارے کچھ کرنے کی کوشش  کا؟

فاطمہ بھٹو: بہرحال ایسے خیالات کے لیے یہاں جگہ ہے۔ مجھ سمیت اور بہت سارے لوگ اس بات کا ثبوت ہیں۔ میں لکھاری ہوں کیونکہ یہ وہی ہے جیسا ہونا میں نے چاہا تھا۔ میں جو ہونا چاہتی تھی اور جو ہونا مجھے پسند تھا میں نے اس کے لیے لڑائی کی ہے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here