کیا آپ نے کبھی ایسا محسوس کیا کہ “رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو”؟ آپ سب مصروفیتوں سے، محبتوں سے، محبت کرنے والوں سے کچھ لمحے دور چلے جائیں؟ کچھ وقت اپنے ساتھ گزاریں؟ شاید ہوتا ہے، سبھی کے ساتھ ہوتا ہے۔۔مگر ہوتا کیا ہے کہ یہ محبتیں آپ کے پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہیں،آپ ان محبتوں کے اسیر ہوتے ہیں، غلام ہوتے ہیں، لاکھ کوشش پر بھی زنجیر توڑ نہیں پاتے ۔۔توڑنا تو دور کی بات۔۔زنجیر کھول بھی نہیں پاتے حالانکہ زنجیر کے تالے کی چابی آپ کے اپنے پاس ہوتی ہے کیوں کہ یہ محبتیں آپ کے دل و دماغ پر ہی نہیں سوچ پر بھی مسلط ہوتی ہیں۔۔آپ کے ذہن کو تالا لگا دیتی ہیں،آپ تالا کھولنا بھی چاہیں تو محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر کھول نہیں پاتے۔
رفتہ رفتہ یہ محبتیں ،چاہے والدین کی محبت ہو، اولاد کی ہو، دوستوں اور احباب کی محبتیں ہوں یا محبوب ہو، ہر رشتے میں آپ کو جکڑے چلی جاتی ہیں۔آپ کو احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ آپ قیدی بنتے چلے جا رہے ہیں۔آپ خوشی خوشی صیاد سے مانوس ہوئے چلے جا رہے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ رہائی ملے گی تو مر جائیں گے ۔۔ویسے رہائی تو مر کر ہی ملتی ہے۔
سچ کہوں تو میں ایسا ہی سوچتی اور محسوس کرتی ہوں کہ محبتوں سے جان چھڑا کر کسی گمنام جزیرے پر جا بسوں، جہاں نہ کوئی مجھے جانتا ہو نہ میں کسی کو جانتی ہوں ،نہ وہ میری زبان سمجھیں نہ میں ان کی زبان سمجھوں۔۔۔زبان یار من ترکی والا معاملہ ہو۔۔صبح سے شام تک کسی ساحل پر بیٹھ کر سمندر کو دیکھتی رہوں،اپنی مرضی کی کوئی کتاب پڑھوں۔۔ یا نہ پڑھوں،محض ایک ٹک بس ایک ہی جگہ دیکھے چلی جاؤں۔۔سمجھیئے پورا وقت اپنے ساتھ بتاؤں۔۔مگر کیا ایسا ممکن ہے؟ محبتوں سے جان چھڑا کر، زنجیر توڑ کر،تنہا رہ کر کیا کوئی خوش رہ پاتا ہے؟ممکن ہے رہ پائے۔۔خود سے ملنا ہو تو یہ برداشت کرنا ہی ہو گا، آپ اسے جبر کانام دے لیں۔۔یہ جبر برداشت کرنا ہو گا۔میں ان محبتوں سے آزاد ہونا چاہتی ہوں، چاہے کچھ وقت کے لئے ۔۔یا شاید ہمیشہ کے لئے۔ محبتوں کے سفر بہت تھکا دینے والے ہوتے ہیں۔ یہ وہ سفر ہے جس کے بارے میں فراز کہہ گئے ہیں
ایک سفر ہے وہ جس میں۔۔پاؤں نہیں دل تھکتا ہے
پاؤں تو تھک ہی گئے تھے اب لگتا ہے دل تھک گیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here