چاروں طرف سخت دھند چھائی ہوئی تھی اور اس دھند میں ہاتھ کے فاصلے پہ بھی کوئی چیز سجھائی نہیں دیتی تھی اور ایسے میں وہ شلوار قمیص کے ساتھ ایک پھٹا پرانا سوئیٹر پہنے اور پاؤں میں پھٹی پرانی چپل پہنے اور کمر پہ بستہ لادھے اپنے کچے سے گھر سے نکل کر اسکول کی جانب چلا جارہا تھا۔ اور وہ عجیب سے انداز میں اپنے ہاتھ کو ہوا میں ہلائے جاتا تھا۔ جیسے اس کے ہاتھ میں کوئی  برش ہو اور سامنے کوئی بورڈ اور اس پہ وہ کچھ نقش بنانے کی کوشش کررہا ہو۔ اس کی آنکھوں میں اس وقت عجب سی چمک تھی اور ایسے لگتا تھا جیسے وہ سخت سردی کو فراموش کرچکا تھا۔ ایسے خیالات میں ہاتھ کو برش کی طرح ہلاتا ہوا وہ چلتا چلا گیا اور آخرکار وہ ایک خستہ سی عمارت کے سامنے پہنچ گیا۔ اس عمارت کے عین ماتھے پہ مدھم سے نقوش کے ساتھ لکھا ہوا تھا

میلا رام مڈل اسکول 79/15 ایل سکھاں والہ

Established 1922

غور سے دیکھنے پہ نظر آتا تھا کہ دیوار پہ گنیش دیوتا کو پینٹ کیا گیا تھا اور کسی نے اس پینٹ کو مٹانے کی کوشش کی تھی یا امتداد زمانہ نے اس کے رنگ پھیکے کرڈالے تھے۔ وہ جب بھی اپنے اسکول کے سامنے پہنچتا تھا تو برش بنا حرکت میں آیا اس کا ہاتھ تھم سا جاتا تھا اور وہ کچھ دیر ٹکٹکی باندھ کر اسکول کی پیشانی کو تکے جاتا تھا۔ آج بھی وہ ایسے ہی کھڑا ہوگیا تھا۔ حالانکہ دھند اتنی تھی کہ اپنے سامنے کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی تھی لیکن لگتا تھا کہ اس کی چمکتی دمکتی نظروں کو سب دکھائی دے رہا ہو۔

‘کئیں دے دیوتا دے نقش کندھاں اوتے پھیکے کرن نال اونہاں کوں دلاں اوتے پھیکا نئیں وے کیتا جاسکدا۔’

‘ کسی کے دیوتاؤں کے نقش پیشانی سے مٹائے جانے سے بھلا دیوتا کہاں دلوں سے نکالے جاسکتے ہیں۔’

اس کے کانوں میں اپنے استاد کی آواز گونجنے لگتی تھی۔ اسے سمجھ تو کچھ نہ آیا لیکن نجانے کیسے اسکول کی عمارت کی پیشانی پہ پھیکے پڑگئے گنیش دیوتا کے رنگ روشن ہوگئے تھے۔

گنیش کے سر پہ پگڑی کا رنگ گلابی ہے

اس کی آنکھوں میں بڑے تیرتے ڈورے سیاہ رنگ والے

اس کی سونڈ ہے سفید رنگ والی

موٹا سا گول مٹول سفید سنگ مرمر سا پیٹ

 اور ناف سے نیچے لپٹی چادر کا رنگ گولڈن

ہاتھ دونوں سفید مرمریں

اور ان میں تھامے دو کالے رنگ کے پھنیر ناگ

اس کے ذہن میں گنیش کا سراپا سارے رنگوں کے ساتھ یوں مجسم ہوجاتا اور اس کا ہاتھ پھر حرکت میں آجاتا اور ایسا لگتا کہ وہ اسکول کی پیشانی پہ گنیش کے پھیکے رنگوں کو دوبارہ سے روشن کرنے کی کوشش کررہا ہو۔ جب وہ اپنا خیالی کام مکمل کرلیتا تو وہ اسکول میں داخل ہوجایا کرتا تھا۔

آج بھی اسی مشق کے بعد جب وہ تھوڑے سے کھلے لوہے کے آہنی گیٹ کو عبور کرکے اسکول میں داخل ہوا تو اسکول آج بہت ہی ویران نظر آرہا تھا اور وہ ایک راہداری عبور کرتا ہوا آخر میں بنے کمرے کے پاس پہنچا جس پہ لکھا تھا ‘کمرہ برائے جماعت ہشتم’ تو وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔کمرے میں اسے صرف اپنے استاد کرسی پہ بیٹھے نظر آتے ہیں۔

‘آ ونج وے پھیکا۔ اوتھاں کیوں کھلوتی ودا ایں’

‘آجا ، اوئے فیکا، وہاں کیوں کھڑے ہوئے ہو؟’

وہ اندر آجاتا ہے۔ اور استاد کو سلام کرتا ہے۔ اور استاد جوابی سلام کرتے ہیں۔

‘میکوں پتا ہئی، ایس پالے اچ پھیکا ای جو آسی۔ ایہو خیال نال میں وی چھٹی ناہی کیتی۔’

(مجھے پتا تھا کہ اس سردی میں بس فیکا ہے جس نے آنا ہے اور اسی خیال سے میں نے بھی چھٹی نہیں کی۔)

فیکے نے یہ سب خاموشی سے سنا، اس نے سامنے پڑے ڈیسک پہ اپنا بستہ رکھ دیا اور وہ بنا استاد کے کچھ کہے ایک کونے میں بنی الماری کی طرف گیا اور الماری کھول کر اس نے ڈسٹر اور چاک نکالا اور بلیک بورڈ کی طرف آگیا۔ اس نے ڈسٹر سے بلیک بورڈ کو صاف کرنا شروع کیا۔ وہ ڈسٹر بھی بلیک بورڈ پہ ایسے پھیر رہا تھا جیسے اس کے سامنے ایزل پہ کوئی بورڈ ٹنگا ہو اور وہ اس بورڈ پہ برش سے نقش و نگار بنانے میں مصروف ہو۔ ڈسٹر سے بلیک بورڈ کو صاف کرنے کے بعد اس نے چاک کو پکڑا اور بہت تیزی سے اسے بلیک بورڈ پہ پھیرنا شروع کردیا۔ آڑھی ، ترچھی، سیدھی، الٹی ،افقی عمودی،معکوس اور ثلث لکیریں بلیک بورڈ پہ پھیلتی چلی گئیں اور پھر ان لیکروں نے زلفوں کی شکل اختیار کرلیں اور اس دوران  پیشانی سے بھی پہلے اس نے دو بڑی بڑی گول مٹول آنکھیں بنائیں اور پھر ایک لمبی پتلی ناک اور اس کے نیچے نفیس سے پتلے ہونٹ اور پھر وہاں سے وہ پیشانی ابھارنے لگ گیا، سب سے آخر میں اس نے کان بنائے اور پھر ایک دم سے اس نے عین ٹھوڑی کے نیچے سے صراحی جیسی گردن بناڈالی اور پھر ناک میں اس نے بڑی سی نتھلی ڈال دی اور کانوں میں کافی بھاری دکھائی دیتے جھمکے نقش کردیے لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے پورے چہرے پہ چاک سے ایسے لکیریں بنائیں جو دیکھتے دیکھتے خراشوں کا روپ دھار گئیں اور پھر اس نے نچلے ہونٹ سے زرا اوپر ایک بڑا سا نوکیلا دانت باہر کو نکلا دکھایا اور اس نے چاک کو پھر حرکت دی اور نجانے کیسی لکیریں اس نےآنکھوں میں کھینچی کہ وہ آنکھیں جو پل بھر پھیلے کسی حسینہ کی معلوم ہوتی تھیں ایک دم سے خون آشام بلا کی آنکھیں نظر آنے لگیں۔اور پھر اس نےہونٹوں کے درمیان میں زبان باہر کو نکلی بناڈالی اور ساتھ ہی کاندھے بنائے اور ان سے بازو جوڑے تو ایک کاندھے سے کئی بازو جڑے دکھائے اور پھر اس نے چاک کی سفیدی کو اپنے بستے سے نکال کر لی گئی دوات کی سیاہی سے کالک میں بدلنا شروع کردیا۔ اس کے ہاتھ سیاہی میں بھرے ایک عورت کی شبیہ پہ پھیرنے شروع کرڈالے تو دیکھتے ہی دیکھتے کالی دیوی ہمارے سامنے بلیک بورڈ پہ نظر آرہی تھی۔

‘ مویا کافر تھی ونجنا ایں توں، مورتیاں بناؤن توں سوا تیکوں ہور کوئی کم نہیں۔’

‘مرجانے کافر ہوجائے گا تو، بت بنانے کے سوا تجھے کوئی کام نہیں ہے۔’

اس کے استاد کی آواز نے اس کے ہاتھوں کی حرکت روک دی۔ اور وہ رک گیا اور اس نے دیکھا کہ اس کا استاد اسے گھورے جاتا ہے۔ اور اچانک بلیک بورڈ پہ بنی کالی دیوی میں جیسے جان پڑگئی اور وہ لہو سے بھری لپلپاتی سرخ زبان باہر نکالے بلیک بورڈ سے باہر نکل آئی اور اپنے کئی ہاتھوں میں سے ایک ہاتھ میں پکڑے ترشول کو اس نے فضا میں بلند کیا تو اس کے منہ سے چیخ نکل گئی

اس منظر کی دہشت سے چیخ مارکر جب وہ اٹھ کر بیٹھا تو اس نے اپنے آپ کو اپنے گھر میں بنے چھوٹے سے اسٹوڈیو میں پایا جہاں آج وہ کام کرتے کرتے تھک کر کب سویا اسے کچھ یاد نہیں تھا۔

یہ خواب اسے اکثر نظر آتا تھا لیکن ہر بار کالی دیوی نہیں ہوتی تھی جو بلیک بورڈ سے نکل کر اس پہ حملہ آور ہوا کرتی تھی۔ کبھی بگڑے زاویوں کے ساتھ مینڈک جیسی آنکھوں کے ساتھ وہ ایسا چہرہ بناتا جس کے اوپرلے لب پہ نو تیرہ کی مونچھیں ہوا کرتی تھیں اور بدن پہ خاکستری وردی اور پیروں پہ یہ بڑے بڑے بوٹ جس کے سامنے اس کا باقی کا جثہ بہت ہی حقیر نظر آتا تھا اور وہ مسکراتا ہوا اس کی جانب بڑھتا جیسے اس سے گلے ملنا چاہتا ہو لیکن ایک دم سے وہ نجانے کہاں سے چھری نکال لیتا اور اس کے دل پہ وار کرنے کی کوشش کرتا۔ اور بس پھر اس کی آنکھ کھل جاتی۔

اسے یہ خواب 17 اگست 1988ء کے بعد سے مسلسل نظر آنا شروع ہوا تھا اور اب تک ایک دو راتیں چھوڑ کر ہر تیسری رات کو یہ خواب اسے نظر آتا تھا۔

وہ بعد میں بگڑے زایوں کے ساتھ مینڈک جیسی آنکھوں والے کے ساتھ حاشیے میں ‘یہ بڑی بڑی دو اور آنکھیں’ دیکھنا شروع ہوگیا تھا اور وہ جہاں بھی ہوتا اسے حاشیہ پہ پڑی یہ دو بڑی بڑی آنکھیں اپنے اوپر نگران نظر آتی تھیں۔ اور ان آنکھوں کو کے مدمقابل اسے  بڑی ہیل والی جوتیوں کی ٹک ٹک ٹک ٹک ٹک سنائی دینے لگیں جو بڑی ناک کے اوپر موٹے شیشوں کی عینک کے ساتھ ایک نسوانی ملیح چہرہ نظر آتا اور 27 دسمبر 2008ء میں اسے یہ چہرہ خون سے لتھڑا نظر آیا کرتا تھا۔

رفتہ رفتہ یوں ہوا کہ وہ جب بھی برش لیکر کینویس کے سامنے کھڑا ہوتا تو میکانکی کی حرکت کے ساتھ اس کا برش حرکت میں آتا اور دیکھتے دیکھتے ایک بڑا سا بوٹ کینویس پہ پڑا نظر آتا اور اس بوٹ کے سوا کہیں کچھ نظر نہ آتا۔

آج کل اس کے چہرے پہ وحشت پھیلی رہتی تھی کیونکہ اس سے برش اور رنگ چھین لیے گئے تھے اور اسے ایک کمرے میں بند کردیا گیا تھا۔ لیکن اس نے کمال فنکاری سے اپنے سر کے کھلے لمبے بالوں کے اندر نجانے کیسے دو تین رنگوں کی پنسلیں چھپالی تھیں۔ اس نے ان پنسلوں کو ایک دن نکالا اور سامنے دیوار کی طرف بڑھا اور اس کی انگلیاں حرکت میں آگئیں۔

پہلے جھاڑ جھنکاڑ، ون اور ریت کا سمندر دیوار پہ ابھرا اور پھر بیچ میں کہیں ایک جھونپڑا ابھرا اور اس جھونپڑے کے باہر راجھستانی لہنگے اور چولی میں ملبوس اور دونوں بازو کہنیوں تک چوڑیوں سے بھرے اور سر پہ اس طرح سے چنڑی لیے ہوئے ایک عورت کھڑی تھی اس کا چہرہ نظر نہیں آتا تھا اور وہ ہاتھوں کا چھجا بنائے دور کہیں تک رہی تھی اور اس ریت کے سمندر کے ایک طرف کنارے پہ نہ ختم ہونے والی پراڈو گاڑیوں کی قطار نظر آرہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ عورت ان کو دیکھ رہی ہے اور اس جھونپڑی اور پراڈو کی لائن کے درمیان ایک پردہ ایسے حائل دکھایا گیا جس سے جھونپڑی کے عین سامنے تھوڑے فاصلے پہ کھڑا ایک مرد اور چھوٹی بچی اس عورت کو دیکھ رہے ہیں اور ان کے دیکھنے کا زاویہ ایسا ہے جیسے ان کو پراڈو گاڑیوں کی لائن سرے سے نظر ہی نہ آرہی ہو۔

پھر وہ دوسری دیوار کی جانب آیا اور اس نےایک سورگباشی دیوتا سمان سماجی خدمتگار کی تصویر ایسے دکھائی کہ اس نے درجنوں بچوں کو ایک مخصوص انداز میں گود میں لیے اور ان کو چمکارتے کی منظر کشی کی گئی تھی۔اور پھر اس نے دوجملوں کو تصویر کا عنوان دے ڈالا

وہ کہتے ہیں تم ‘حرام زادے ‘ پالتے ہو

تم تو ‘ان وہ’ کی حیوانیت کا کفارہ ادا کرتے ہو

1 COMMENT

  1. ‘کئیں دے دیوتا دے نقش کندھاں اوتے پھیکے کرن نال اونہاں کوں دلاں اوتے پھیکا نئیں وے کیتا جاسکدا۔’
    سب توں وددھیاگل ایہو

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here