انیسویں صدی کے شمالی ہندوستان میں خاص طور پہ لکھنؤ میں، مسلم ثقافت مذہبی ثقافتی ریشوں اور مختلف مذہبی عقائد اور رسوم کے نفوز کے باہمی اختلاط سے ملکر ایک شکل اخیتار کیے ہوئے تھی۔ پھر بھی صدی مذکورہ کے آخر میں غیر ہم آہنگ علامتوں کو راستا دیا جیسے ہی فرقہ وارانہ شعور اور غیر ہم آہنگی شیعہ اور سنّی میں غالب آنا شروع ہوئی۔مشیر الحسن اس ریسرچ پیپر میں کالونیل دور میں مسلمانوں کے اندر بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ تقسیم کا جائزہ لیتے ہیں

“سچ تو یہ ہے کہ ان دنوں  سارا سال محرم کے انتظار میں کٹ جاتا۔۔۔ عید بکر کے بعد محرم کی تیاری شروع ہوجاتی تھی۔ ددّا،میری دادی نرم سی آاز میں شہداء کے لیے مرثیہ پڑھنا شروع کردیتی تھیں۔اماں ہم سب کے لیے کالے لباس سیاں کرتی تھیں اور میری بہن بہن نوحوں کی لکھی نوٹ بک نکال لیتیں اور ان کو پڑھنے کی مشق شروع کردیا کرتی تھیں۔مجھے لکھنؤ بارے کچھ پتا نہ تھا۔۔۔مجھے تو غازی پور کا کچھ نہیں پتا تھا ۔۔۔لیکن میں گنگولی کے سادات خاندان سے واقف تھا اور محرم ہمارے لیے کسی بھی طرح سے روحانی تہوار سے کم نہیں تھا”

Rahi Masoom  Reza,The Feuding  Families of Village  Gangauli. 

Translat by G illian Wrigh(De lhi1,994)p,p .9 -10.

جیسے ہی لکھنؤ میں رات کا اندھیرا پھیل جاتا تو کچھ لوگ ایک کیفے کے ٹیرس میں اکٹھے ہوجاتے اور دور افق پہ نظریں جمالیتے۔ ایک طویل فکر مند انۃطار کے بعد، شہر جاگ جاتا: گومتی ندی کے اوپر منڈلاتے سیاہ گھنے بادلوں کے عین درمیان چاند نظر آجاتا۔ نخاس کی طرف سے کانوں کو بہرہ کردینے والے کریکر پھٹنے کی آوازیں شاہ نجف سے آنے والی صاف اذانیں محرم کے مقدس مہینے کے آغاز کی نشانی ہوا کرتی تھیں۔ لکھنؤی اگلے دس دن بہت سنجیدگی سے مناتے۔ وہ ان اسلامی اصولوں کے لیے اپنی ناقابل تغیر وابستگی اور شیفتگی کو پھر سے تازہ کرنے کے ساتھ تجدید عہد کرتے جن کے لیے سبط پیمبر امام حسین اور ان کے 72 ساتھیوں نے 680ء میں دریائے فرات کے کنارے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ ایک مرتبہ پھر وہ اپنے تخلیل میں ان جری، بہادر مردان کربلا کے اجتماع کا منظر تازہ کرتے جنھوں نے برائی اور ظلم و جبر کی قوتوں کے سامنے سرنڈر ہوئے بغیر پرچم اسلام بلند کیا تھا۔ وہ ایک بار پھر ان کا کرب اور بلاء (آزمائش) کو شئیر کرنے کی خواہش کرتے۔ 

جیسے ہی محرم کا پہلا دن آتا تو لکھنؤ میں زندگی کی گاڑی تھم سی جاتی۔ عطر و خوشبویات اور پان سگریٹ کی دکانوں پہ ویرانی چھا جاتی۔ تجارت میں وہ سرگرمی نہ رہتی۔ کاروبار مندے پڑجاتے۔ امین آباد کے مصروف اور شور سے بھرے بازار اور نخاس بھی ٹھنڈے ٹھنڈے نظر آتے۔ شہر کی شوخی، تفریحی رنگ کاری اور ہمہ وقت متحرک رہنے والا موڈ جیسے کسی نے چرا سا لیا ہو ایسا لگتا۔ مسز میر علی حسن ایک انگریز خاتون جن کی شادی ایک شیعہ سے ہوئی تھی اور وہ 1820ء میں لکھنؤ میں رہا کرتی تھیں کا واسطہ ایک کنجان آبادی کے شہر میں اچانک سے ہوجانے والے سکوت سے پڑتا جہاں دوسرے اوقات میں تو خوب چہل پہل اور افراتفری کا سماں دیکھنے کو ملا کرتا تھا۔1  

1 Meer Hasan Ali, Observations on the Mussalmans of India (London, 1982), p. 30. 152 Mushirul Hasan]

شہر میں اس بدلاؤ کے کئی کارن تھے۔ عورتیں بشمول نئی نویلی دلہنیں اپنے زیورات، چوڑیاں اور چمکتے دمکتے لباس اتار دیتیں، بالوں کو کھلا چھوڑ دیتیں اور ان کو کھنگھی کرنا، چوٹیاں بنانا ترک کردیتیں۔ رنگدار پاجاموں، دوپٹوں اور بناؤ سنگھار کی دوسری چیزیں ہٹا کر ایسے رنگوں کے پاجامے اور قمیص کو پہنا کرتیں جس سے ماتمی رنگ جھلکتا ہو۔ ان میں سے کچھ سیاہ رنگ ، کچھ زرد رنگ ،کچھ سرمئی رنگ  اور کچھ سبز رنگ کا انتخاب کیا کرتیں۔2 پرآسائش، قیمتی اور آرام دہ کپڑوں اور اشیائے بناؤ سنگھار کو ایک طرف رکھ دیا جاتا۔ پلنگ، چارپائی اور مسند ہٹادی جاتیں۔ اس کی بجائے تمام طبقوں کی عورتیں کجھور کی بنی چٹائی یا خاک پہ سویا کرتی تھیں۔3مرد بھی ایسی ہی خاکساری کے ساتھ انگرکھا اور بے رنگ قمیص یا سیاہ رنگ کی اچکن پہنتے۔ شاعر جن کو بڑے مجمع کے سامنے غزلیں سنانے کی عادت ہوتی وہ مرثیہ و سوز لکھنے لگتے۔ ان کے سرترست اعلی راجے اور نواب اپنے مرغوب مشاغل ترک کرکے پاکبازی اور عاجزانہ طرز زندگی اختیار کرلیتے۔ ان کے محلات، حویلیاں اور قلعے محرم کے دوران سوبر نظر آنے لگتے تھے۔   

درباری اور چکلے میں ان کی ڈومنیاں  اپنے آلات موسیقی ، گھنگرو، پائل اور طبلہ ایک طرف ڈال دیا کرتی تھیں۔ امراؤ جان ادا کی خرطوم حسین کی شہادت کا غم لکھنؤ کے کسی بھی درباری سے کہیں زیادہ منایا کرتی اور اس کی جگہ سوگ و عزا کے بینروں، علم، گلوب اور ہنڈوں سے سج جایا کرتی تھی۔

امراؤ جان خود بھی ایک بہتریں سوز خواں تھی۔ بڑے بڑے پیشہ ور سوز خواں اس کی موجودگی میں اپنا فن دکھانے سے گریزاں ہوا کرتے۔4اس کی داستان عطیہ حسین نے ٹبّی گلیوں کے دورے کا احوال بیان کرتے ہوئے سنائی ہے کہ کیسے وہ ممنوعہ گلیاں ویران ہوجایا کرتیں اور محرم کے ابتدائی دنوں میں بالکونیمڑ پہ رنگ و غازہ سے محروم اور بنا کسی زیور کے عورتیں نظر آیا کرتی تھیں جب آنے والے ملاقاتی سیڑھیاں چڑھ کر تنگ زینے میں پہنچتے اور ان کو صرف عزاداری پہ مبنی مرثیہ و سوز سننے کو ملتا۔ شیشے کا بنا تعزیہ،پچکاری اور منی ایچر کا شاہکار روضے، جمکتے دمکتے اور کئی رنگوں کی روشنیوں کا انعکاس کرتے ہنڈولے وہاں نظر آیا کرتے تھے۔

شہر کے سیاہ لباس میں ملبوس مرد اور عورتیں عزاداری حسین میں اپنی روزمرہ کے اشغال زندگی ترک کردیتے تھے۔ وہ بے اختیار گریہ کرتے، یا حسین،یا حسین پکارتے، ایک ردھم میں سینہ کوبی کرتے، زنجیر زنی کرتے، امام حسین کے مزار کی شبیہ پہ مبنی تعزیے اور ان کا تابوت تھامے ہوئے، علم عباس بلند کرتے ہوئے، پنجہ اور ذوالجناح /دلدل کا جلوس نکالتے ہوئے لکھنؤ کی گلیوں اور بازاروں سے گزرا کرتے تھے۔

2 Ibid., p. 46.

3 Ibid., p. 43. 4 Attia Hosain, Sunlight on a Broken Column (Delhi: Penguin Books, 1992), p. 64. 5 MiRZA Mohammad hadi Ruswa, Umrao Jan Ada. Translated by Khushwant Singh and M.A.

Husain (Hyderabad, 1982), p. 48. 6 W. CROOKE. The North-Western Provinces of India: their History , Ethnology, and Administra-

مذہبی جلوسوں میں سے سب سے زیادہ متاثرکن قابل دید منظر ولیم کروک کے مطابق تعزیوں اور  لہراتے ہوئے علم کا جلوس تھا جو بہت بڑی تعداد میں جمع ہونے والے عزاداروں  سے بھرا ہوتا تھا جو سوز خوانی کرتے، یا حسین یا حسین کی آوازیں بلند کرتے اور سینہ کوبی و زنجیر زنی کرتے گلیوں و بازاروں سے گزرتا تھا اور یہ مجمع دکھ اور غم میں مدہوش ہونے کی حد تک ڈوا نظر آیا کرتا تھا۔ اس نے جو دیکھا اس کا بیان وہ یوں کرتا ہے:

” سورج کلیسا کے مینار سے بلند ہوچکا تھا جب ہم نے ‘حسن، حسین، حسن ، حسین، حیدر’ کے نعرے دور سے آتے ہوئے سنے۔ یہ آوازیں قریب تر ہوئیں اور پھر ہمیں سینہ کوبی کی آوازیں بھی سنائی دینے لگیں، ایک وحدانی طرز کی دھول پیٹے جانے کی آواز اور ساز جھانجھ کے سرتال نے میرے دن کی دھڑکن میں عجیب سا جوش بھردیا تھا۔ تب میری نظر میں ننگے پاؤں، ننگے سر آدمیوں پہ پڑی جو تعزیوں کے ساتھ چل رہے تھے جو ان کے کاندھوں سے اوپر تھے۔ مور کے پنکھ ، ششیوں ،شوگر اور چمکتے دمکتے کائذوں سے سے بنے تعزیہ ، پیچیدہ خوبصورت اور کڑھے ہوئے روضے کی شبہیں اور ٹیلی گراف جتنے لمبے بانس تھے۔ غریب گھروں سے آنے والے تعزیے اتنے چھوٹے ہوا کرتے تھے کہ وہ ایک آدمی کے سر پہ آسانی سے دھرے جاسکتے تھے اور یہ سب ایک خاص مقرر کردہ جلوس میں شریک ہوتے تاکہ تعزیہ ٹھنڈے کرنے اور دفنانے کی رسم میں شریک ہوسکیں۔”7  

ایسے عوامی جلوس محرم کی تقریبات کا ایک چھوٹا سا حصّہ تھے۔ امام باڑے جو لکھنؤ کے شیعہ ماضی اور حال کی علامت تھے کبھی بھی محرم کی رسومات و رواجوں کا بڑا مرکز نہیں رہے تھے۔ وہ تو مرکزی مجالس اور شہر کی آبادی کے ظاہری طور پہ متحد ہوکر جمع ہونے اور منظم ہونے کی جگہ تھے۔8

وہ (شیعہ) برادری کی یک جہتی اور انفرادی و اجتماعی تجربات کے ارتکاز کی علامت کا کام بھی کیا کرتے تھے۔ یہاں پہ مجالس کا انعقاد ہوا کرتا تھا جس کا پیٹرن وہی تھا جو اودھ کے شیعہ نوابوں نے وضع کیا تھا۔ سوز خوانی سے شروع ہوکر ایک مجلس خطاب یا مرثیہ خوانی پہ منتج ہوتی۔ مرثیہ خوانی کا سٹائل وہ تھا جو لکھنؤ کے لیجنڈری شاعر میر انیس (1802-1875) نے ایجاد کیا تھا۔

مجلس کا اختتام مختصر نوحوں پہ ہوا کرتا تھا معروف نثر نگار و ناول نگار عبدالحلیم شرر (1860-1926) نے لکھا،’جیسے ہی میر علی حسن اور میرے بندے حسن کے لکھے سوز کے دل کو تڑپادینے والے بند پڑھے جاتے تو سینکڑوں مرد اور عورتیں اشراف خاندانوں سے ان کو دوھرانا شروع کردتے اور پھر اشراف شیعہ خاندانوں کی عورتوں کی سر سے آزاد اور غیر آہنگ آوازیں بھی ان میں شامل ہوجایا کرتی تھیں۔

اور معاملات اب اس نہج پہ پہنچ گئے ہیں کہ محرم کے دوران اور عزا داری کے دنوں میں گریہ کی دل گرفتہ آوازیں اور سوز خوانی کی سر تال سے آہنگ صدائیں پرانے لکھنؤ کی ہر گلی کے ہر مکان سے آتی سنائی دیتی ہیں۔ ہر گلی میں خوبصورت اور سریلی آوازیں کوئی بھی سن سکتا ہے جن کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ یہ سب اس رثائی داستان کی اقساط کا حصّہ ہیں جو کربلا کی کہانی پہ مشتمل ہیں جوکہ اس درد، پریشانی اور مصائب کا متحرک بیانیہ ہیں جن کا سامنا حسین اور ان کے ساتھیوں کو کرنا پڑا۔ سالہا سال سے ذاکرین،مرثیہ خواں، سوز خواں اور مولوی واقعات کی ایک جیسی ترتیب کے ساتھ اور جس ترتیب سے خانوادہ حسین کے اراکین کی شہادت ہوئی کا بیان بار بار کرتے ہیں۔اور ان سب کو اس واقعے کے نمایاں شہیدوں کی روایتی اعتبار  سے درج کی گئی داستانوں سے جوڑنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اور یاد منائے جانے کی ترتیب بھی اسی ترتب سے جوڑی جاتی ہے۔

7 Attia Hosain, op. cit., p. 72.

8 J.R I. Cole, Roots of North Indian Shi’ism in Iran and Iraq: Religion and State in Awadh

1772-1859 (Berkeley and Los Angeles, 1988), p. 98, and Sandria Frietag, Collective Action and Com-

munity: Public Arenas and the Emergence of Communalism in North India (Delhi, 1990), p. 237.

9 A.H. SHARAR, Lucknow: The Last Phase of an Oriental Culture. Translated and edited by E.S.

Harcourt and Fakhir Hussain (London, 1975), p. 149.

اسی طرح سے 6 محرم کا دن امام حسین ک نوجوان بھتیجے کے ساتھ مخصوص ہے تو 8 محرم کا دن آپ کے وفادار اور شجاع بھائی غازی علم دار کے نام سے مخوص ہے اور نو محرم آپ کے چھے ماہ کے بیٹے علی اصغر کے ساتھ اور دس محرم امام حسین کی اپنی شہادت کے ساتھ مخصوص ہے۔ قاسم، علی اکبر، عباس، علی اصغر اور خود خسین ان سب سے کربلا کی ٹریچڈی مزین ہے۔ تو جو دن ان کی شہادتوں سے ربط رکھتے ہیں وہ گہرے معانی ، خاص وابستگی اور ربط و جڑت کے حامل بن گئے ہیں۔ ان کے مصائب  جو منبر پہ ایک آدمی بیان کرتا ہے عزاداروں کو سوگ منانے، آہ و زاری کرنے ، گریہ کرنے، سینہ کوبی کرنے اور شہداء محرومی و  مصیبت میں علامتی طور پہ شریک ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔ مندرجہ ذیل کہانی لکھنؤ کے موڈ کو ظاہر کرتی نظر آتی ہے:

یہ نویں محرم کی رات تھی۔ افق پہ ایسے ایک جمک تھی جیسے زوال قمر سے پہلے  بھلادیے گئے سورج کے طلوع ہوتے وقت ظاہر ہوتی ہے۔ لاکھوں چراغوں کی چمک روشن امام بارگاہوں سے آتی ہے جہآں تعزیے اور علم رکھے گئے ہوتے ہیں اور یہ آسمان کو روشن کر دیتے ہیں۔ اور شہر  عزا کے اس خوب روشن و خوبصورت مہینے میں ایک جیتے جاگتے مجمع میں تبدیل  ہوجاتا ہے۔۔۔ جب وہ (اسد) آل محمد کے بچوں کی پیاس کا ذکر کرتا ہے جن  پہ ان کے دشنموں نے دریا کا پانی بند کردیا تھا تو عورتوں کی ہلکی ہلکی سسکیاں ابھرتی ہیں۔  

استانی جی سینہ پیٹنا شروع کردیتی ہیں اور دھیمے ردھم کے ساتھ نرم آواز میں ‘حسن، حسین’ پکارنا شروع کردیتی۔ رمضانو اسے حیرانی سے پہلے تکنے لگتی اور پھر ان کے ساتھ شامل ہوجاتی تھی۔جبکہ دوسروں کی ہلکی ہلکی سسکیاں اب بھی ابھر رہی ہوتی تھیں۔

(جاری ہے)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here