کوئٹہ: جبری گمشدہ طالب علم رہنماء شبیر بلوچ کی رہائی کے لیے نکالی جانے والی ایک احتجاجی ریلی کو سی ایم ہاؤس کوئٹہ جانے سے روک دیا گیا۔ پولیس کی بدسلوکی پہ شبیر بلوچ کی بہن اور بیوی آبدیدہ ہوگئیں۔ دونوں کی آبدیدگی کے منظر کی تصویر سوشل میڈیا پہ وائرل ہوگئی۔ مین سٹریم میڈیا پہ اس خبر کا مکمل طور پہ بلیک آؤٹ کیا گیا۔ بی بی سی، وآئس آف امریکہ،ڈوئچے ورلڈ جرمنی، ڈان میڈیا گروپ سمیت لبرل پریس کی ویب سائٹس پہ بھی مکمل خاموشی۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابق ترجمان شبیر بلوچ کی دو سالہ جبری گمشدگی کے خلاف ان کے خاندان نے ایک احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا۔ اس ریلی میں انسانی حقوق کے کارکنوں، سیاسی جماعتوں کے کارکنوں سمیت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

ریلی مختلف شاہراؤں سے گزرتی ہوئی جب چیف منسٹر ہاؤس کوئٹہ کی جانب رخ کرنے لگی تو کوئٹہ پولیس نے اس ریلی کو روک دیا اور جب شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ اور بیوی زرینہ  بلوچ نے سی ایم ہاؤس جاکر چیف منسٹر بلوچستان سے ملاقات کرنے پہ اصرار کیا تو کوئٹہ پولیس کے اہلکاروں نے ان سے مبینہ طور پہ بدتمیزی کی اور ان کو ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ اس مبینہ بدسلوکی پہ سیما بلوچ اور زرینہ بلوچ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور دونوں خواتیں رونے لگیں۔ دونوں خواتین کی رونے کی تصویر سوشل میڈیا پہ وائرل ہوگئی۔

شبیر بلوچ کے خاندان کی اس احتجاجی ریلی اور خواتین کے ساتھ پولیس کی مبینہ بدسلوکی کی خبر مین سٹریم میڈیا پہ حسب معمول کوریج نہ پاسکی اور یہاں تک کہ بی بی سی و وائس آف امریکہ و ڈان میڈیا گروپ سمیت کسی لبرل نیوز ویب سائٹ نے بھی اس خبر اور وائرل تصویر کا بلیک آؤٹ کیا۔

شبیر بلوچ کی بہن، بیوی اور دو سالہ شیر خوار بچے نے کوئٹہ سے 600 کلومیٹر دور دراز آبائی گاؤں واقع ضلع تربت سے سفر کیا اور وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز کے احتجاجی کیمپ میں شریک ہوگئے ہیں۔ ایک ہفتے سے وہ اس احتجاجی کیمپ میں بیٹھے ہیں تاکہ شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی بارے قومی و بین الاقوامی رائے عامہ کو باخبر کرسکیں۔

سیما بلوچ اور زرینہ بلوچ کا کہنا ہے کہ دو سال پہلے ان کے بھائی کو سیکورٹی فورسز نے گھر سے اٹھاکر غائب کیا اور اس واقعے کی صرف وہ ہی نہیں بلکہ دیگر 40 لوگ عینی شاہد ہیں۔ پولیس دو سالوں سے شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کی ایف آئی آر درج کرنے تک کو تیار نہیں ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ عدالتیں بھی ان کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

Seema Baloch tweeted, ‘I am holding my infant child Meeras, he [doesn’t] know what’s going [on], what is happening but he knows one thing, his mother is struggling, struggling for justice. Justice is when my brother is back.’

سیما بلوچ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا،’ میں اپنے شیر خوار بچے کو لیکر یہاں بیھٹی ہوئی ہوں،جو نہیں جانتا کہ کہ یہاں کیا ہورہا ہے؟ لیکن وہ یہ جانتا ہے کہ اس کی ماں جدوجہد کررہی ہے، انصاف کے لیے جدوجہد۔ اور انصاف تب ہوگا جب میرا بھائی واپس آئے گا۔’

شبیر بلوچ بی ایس او آزاد کے ترجمان تھے۔ ان کی عمر 22 سال تھی جب وہ جبری طور پہ لاپتا کردیے گئے۔ جبری گمشدگی سے پہلے شبیر بلوچ سی پیک میں بلوچستان سے ہونے والی مبینہ زیادتیوں کے خلاف ایک مہم چلارہے تھے۔ وہ بلوچستان میں فوجی آپریشن کے دوران سیکورٹی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی مبینہ پامالی پہ بھی احتجاج کرتے نظر آتے تھے۔ اور اس دوران ان کو 4 اکتوبر 2016ء کو اس وقت جبری گمشدگی کا سامنا کرنا پڑا جب سیکورٹی فورسز نے تربت میں ایک سرچ آپریشن کیا اور ان کے اہل خانہ کے بقول شبیر بلوچ کو ایف سی بلوچستان کے اہلکار اپنے ساتھ لے گئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here