پاکستان وہ ملک ہے جہان قانون کی پائمالی طبقئہ اشرافیہ غریب طبقہ کی بنسبت بہت زیادہ کرتا ہے.بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ قانونی تقاضے صرف غریب پر ہی پورے ہوتے ہیں.امیر آدمی کے لیےقانون کو.چکمہ دینے کے ہزار راستے ہیں.اس ملک میں پولیس اور عدالتیں آج بھی انگریز کے بنائے ہوئے سامراجی نظام کے تحت چل رہی ہیں.جن کے نظام کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے.ایف آئی آر کے اندراج کا طریقہ بہت فرسودہ ہے.آپکی جیب میں جتنے بڑے نوٹ ہیں آپ ایف آئی آر میں اتنے ہی بڑے دفعے اندراج کرا سکتے ہیں.جھوٹی ایف آئی آر آپ کٹوا سکتے ہیں اس کے لیے آپکو ایم این اے ایم پی ایے یا باثر ہونا ضروری ہے. عدالتوں.میں جھوٹے گواہ وکیلوں کے پڑھائے ہوئے ہوتے ہیں جو شھادتیں دیتے ہیں بشمول عدالت کے سب کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ گواہ جھوٹ بول رہا ہوتا ہے.

پولیس کی نہایت کمزور تفتیش اور قانون شھادت کی کمزوری کی وجہ سے کنوکشن ریٹ نہ ہونے برابر ہے.مجرموں کو سزا نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں جرائم بڑھ رہے ہیں.یہ تو ہے عام صورت حال.

اب آتے ہیں 295-سی کے قانون کی طرف اس قانون میں بھی وہی کمزوریاں ہیں جن سے پولیس اور عوام دونوں فائدہ اٹھاتے ہیں.بجائےاس کے کہ یہ قانون اپنے مقاصد پورے کرتا اور مقدسات کا تحفظ ہوتا.اسکی افادیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں.اس قانون کا بھی غلط استعمال کیا گیا اور کیا جارہا ہے.اس قانون کے تحت غیر مسلموں سے زیادہ مسلمانوں نے ایک.دوسرے کے خلاف ایف آئی آرز کرائی ہیں.اشتھار پھاڑنے پر اس قانون کے تحت پرچے کرائے گئے ہیں.میاں بیوی کے درمیان گھریلو تنازعہ ہوا تو میاں نے بیوی یا بیوی نے میاں پر قران کی توہین کا لازام لگایا تو پرچہ کٹ گیا.اس طرح یہ قانون بازیچئہ اطفال بن گیا.اسی وجہ سے یورپین نے یہ الزام لگایا کہ یہ قانون صرف اقلیتوں پر عرصئہ زندگی تنگ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے.وہ اس قانون کو ختم کرانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں .یہاں جس بھی غیر مسلم کواس قانون کے تحت سزا ہوتی ہے وہ اسکی پشت پر کھڑے ہو جاتے اور اس گستاخی کرنے والے کو اپنا ہیرو بنا لیتے ہیں.حکومتوں پر پریشر ڈالتے ہیں اوریوں عوام.اور.حکومت کے درمیان.ایک بڑا کلیش پیدا ہوجاتا ہے.

میرے خیال میں اس قانون کے تحت جتنے بھی کیس سامنے آتے ہیں انہیں.مذہب یا مسلک کی بنیاد پر نہیں بلکہ حقائق کی بنیاد پر دیکھنا چاہیے.یہ نہ دیکھا جائے کہ جرم کس نے کیا ہے بلکہ یہ دیکھا جائے کہ جرم کیا ہوا ہے.ایک اور اس حوالے سے بڑی اہم بات ہے کہ ہمارے ملک میں افتاء کا کوئی مستقل ادارہ نہیں ہے.یہاں دیوبندیوں کا مفتی اعظم الگ ہے شیعوں کا الگ ہے اور بریلویوں کا الگ ہے.اگر مذہبی مسائل کے حل کے لیے ایک مفتی اعظم سرکاری.سطح پر مقرر ہوجائے اور اسکو ضلعی.سطح تک پھیلا دیا جائے تو میرے خیال میں ہم.اس بڑی پریشانی سے نجات حاصل کر سکتے ہیں.جس ضلع میں کوئی گستاخی ہو وہاں کے مفتی صاحب کو تحقیق کا ٹاسک دیا جائے اور وہ تمام.مذاہب کے رہنماوں.کو ساتھ لیکر چلے تو معاملات نچلی سطح پر ہی حل ہوسکتے ہیں اور ملک لاک ڈاون.کی.کیفیت سے بچ سکتا ہے.

اس کے علاوہ بھی میرے پاس بہت ساری تجاویز ہیں.جن کی وجہ سے ہم توہین رسالت اور توہین.مقدسات کو روک سکتے ہیں اور بے گناہ لوگوں پر اس قانون کے تحت ہونے والی نا انصافی کو بھی روکا جا سکتا ہے.ہمیں ایسا طریقہ کا اختیار کرنا ہوگا کہ مجرم ہماری کمزوری کی وجہ سے بچ کر نکل نہ سکے اور بے گناہ ہمارے پریشر کی وجہ تختئہ دار پر نہ لٹکا دیا جائے.

علمائے حق کو میدان عمل میں آنا ہوگا اور اپنے نبی کی ناموس کے تحفظ کے لیے حقائق پر مبنی کام دکھانا ہوگا.

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here