میری پیاری بہن سیما بلوچ!

میں آج شاید کئی مہینوں بعد اپنے آپ کی رسائی اور نارسائی کی جنگ سے نکل کر یہ خط آپ کو لکھ رہی ہوں۔ آج جہاں آپ بیٹھی ہو اس جگہ ہزاروں بے جان روحوں کی آوازیں سسک سسک کر خاموش ہوچکی ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں اب صحافی سے زیادہ مخبر موجود ہوتے ہیں، اور کوئی آواز جب اٹھنے کی کوشش میں ہو تو اس کا گلہ دبانے کے لیے سازشیں مرتب ہوتی ہیں۔

سیما میری بہن! ہم ایک سفاک عہد میں جی رہے ہیں، جہاں دو ارب انسانوں میں اور ریاست خداداد میں بسنے والی بائیس کروڑ آبادی میں آپ کو انسان ناپید ملے گا۔ آپ کے آنسو کیا ہیں، مجھ جیسے لوگ کیونکر اس پر سوچیں گے ، کیونکہ مجھ جیسے فیمنسٹوں نے اب تو آپ ہی جیسوں کے نام پر امپاورمنٹ کے لیے، کیپسٹی بلڈنگ کا سیشن کرنے کے لیے ڈونر ایجنسیزز سے نیٹ ورکنگ کرنی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ جس چادر سے تم اپنے آنسو پونچھ رہی ہو، اس کا ڈیزائن مجھے پسند آئے اور میں کسی قومی کلچر ایگزیبیشن پر وہ نمائش کے لیے لگا دوں۔

میری بہن سیما، آنسوؤں کی نمائش نہیں ہوسکتی، دکھوں کی برانڈنگ مارکیٹ میں نہیں ہے، اس لیے تم اپنے ان آنسوؤں کے لئیے کم از کم خریدار ان بازاروں میں ہرگز مت تلاشو، ہم دوسرے قسم کے فیمنسٹ ہیں کیونکہ تم ہمارے معیار کی عورت کی تعریف میں نہیں آتی، بقول شخصے “ہم تھوڑا سخت قسم کے لونڈے ہیں، ہم حساس اداروں پر حساس بات کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔”

میری بہن سیما! دنیا کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ شبیر دو سال سے گمشدہ ہے۔ شبیر کون ہے، کسی کا اس سے کیا تعلق۔ وہ جو سعدی نے کہا تھا کہ “بنی آدم اعضائے یک دیگرند” کہ “آدم کے بچے ایک دوسرے کے اعضا ہیں” شاید کیسی خوابدہ کیفیت میں بولا ہوگا۔ کھلی آنکھوں سے دیکھتا تو دنیا سے روپوش ہو کر کہیں جنگل میں بسیرا کرتا۔

میری بہن، جب تم ریاست سے سوال کرتی ہو نا کہ میرا بھائی جو کہ جبری گمشدہ ہے وہ کہاں پر ہے؟ تو بائیس کروڑ لوگو کو یہ ایک خطرناک سوال لگتا ہے ، کیونکہ ہمارے ہاں گمشدہ صرف اسی کو سمجھا جاتا ہے جب کوئی جرائم پیشہ کسی کو اٹھا کر لے جاتا ہے مگر کیونکہ ہمارے ادارے فرشتوں کے ادارے ہیں ، وہاں پر کوئی گنہگار نہیں بستا ، اس لیے جب تم کہتی ہو کہ میرے بھائی کو سن 2016 حساس ادارے اٹھا کر لے گئے ہیں تو یقین مانو سب سوچتے ہیں کہ یہ کہاں سے فنڈڈ خواتین ہر چھ مہینے بعد اس پریس کلب میں نمودار ہوتی ہیں ، آنکھوں میں آنسو سجاتی ہیں اور پھر جھوٹ موٹ کا انصاف مانگتی ہیں۔

پیاری بہن سیما،
تم جو سات دن اس کیمپ میں ماما قدیر اور حوران و بی بی گل و طیبہ کے ساتھ بیٹھی رہی، تمھیں پتہ ہے کہ جنگ جیتنے کے لیے لشکر کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ چند ہم خیال لوگوں کی ہی ضروت ہوتی ہے اور تمھار لشکر مکمل ہے۔ جب تمھارے آنسو ایوانوں کو جھنجھوڑیں گے تو یقین مانو بہت سارے برانڈڈ کپڑوں میں ملبوس خواتین تمہارے ساتھ سیلفی لینے آئیں گی۔ وہ غور سے دیکھیں گی کہ تمھاری جیت یقینی ہے اور شیبر اب پلٹ کر آنے والا ہے تو یقین جانو سب اپنا فیس بک اسٹیٹس ہیش ٹیگ شبیر بلوچ سے چلائیں گی ، اور پھر تمھاری فتح کا جشن سب منائیں گے، وہ بھی منائیں گے جو کہتے ہوں گے کیمپ میں کیوں جائیں، جان پیاری نہیں ہے کیا؟

مگر سیما جان، تم ان سب کو مسکرا کر خوش آمدید کہنا، کیونکہ یہی لمحے لٹمس کا کام کرتے ہیں اور سب کے رنگ آشکار کر دیتے ہیں۔ میری بہن، ہمت مت ہارنا، ڈٹی رہنا کیونکہ کوہ قاف سے دیو کی قید سے بچوں اور بچیوں کی آزادی کا ذمہ کسی دلیر چرواہے کے بیٹے نے ہی اٹھانا ہوتا ہے ، اس بار کیا پتہ دیو کی قید سے سارے بچے آواران و گوادر کی بہادر بیٹیاں آزاد کروائیں۔

میری بہن، دل کبھی چھوٹا مت کرنا کہ سیاسی جماعتیں تم سے یکجہتی کرنے نہیں آئیں، کیونکہ سچ تو یہی ہے کہ تمھارے آنسو اور اس گمشدہ جسم کے بغیر ان کے پاس سیاست کرنے کو بچا ہی کیا ہے۔ میری بہن یاد رکھنا، طاقتور طبقوں کا کام مظلوم کے نام پر سیاست کرنا ہوتا ہے ، مظلوم کے ساتھ سیاست قطعآ نہیں۔

میری بہن، حیران مت ہونا کہ صحافی حضرات خبر نہیں چھاپتے، یہ والا کام بھی اب سرکاری ادارے والے خود کرتے ہیں اور اس لیے پریس کلب میں صحافی سے زیادہ مخبر پائے جاتے ہیں اور اس کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ سرکار ان کی کے خبریں ضرور دیکھتی ہے بجائے اخبار پڑھنے کے۔

میری بہن، یاد رکھنا میں دعویٰ نہیں کرتی اگر اس دنیا میں کوئی بھی شخص تمہاری حمایت میں آخری رہ جائے تو اس قطار میں مجھے ضرور تلاشنا۔ میری بہن، جام کمال سے جب ملو تو گلہ مت کرنا کہ ان کے پاس آپ سے ملنے کا وقت کیوں نہیں تھا کیونکہ جام صاحب مجبور ہے اور ہمیں مجبور لوگوں سے ہمدردی سے ملنا چاہیے۔ میری بہن، جس دن جام صاحب کو اجازت ملے گی وہ آپ سے ملیں گے اور ضرور ملیں گے۔

میری بہن، میں بہت بورنگ خط لکھ رہی ہوں، جس میں نہ محبت کی شاعری ہے نہ قصیدہ گوئی۔ بس دل میں سوچ رہی ہوں کہ تم بھی ایک بار جاوید اختر کی یہ نظم ضرور پڑھو اور اپنے اردگرد بسنے والے قلم کاروں، سیاست داروں، تجزیہ نگاروں ، نسوانیوں ، اور دکانداروں کا اسی سے تجزیہ کر کے ہلکا سا مسکرا کر آگے بڑھتی رہو۔ جیت تمہاری ہی ہوگی۔

شہر کے دکاں دارو کاروبارِ الفت میں سود کیا زیاں کیا ہے، تم نہ جان پاؤ گے
دل کے دام کتنے ہیں خواب کتنے مہنگے ہیں اور نقدِ جاں کیا ہے، تم نہ جان پاؤ گے

کوئی کیسے ملتا ہے پھول کیسے کھلتا ہے آنکھ کیسے جھکتی ہے سانس کیسے رکتی ہے
کیسے رہ نکلتی ہے کیسے بات چلتی ہے شوق کی زباں کیا ہے، تم نہ جان پاؤ گے

وصل کا سکوں کیا ہے ہجر کا جنوں کیا ہے حسن کا فسوں کیا ہے عشق کا دروں کیا ہے
تم مریضِ دانائی مصلحت کے شیدائی راہِ گمرہاں کیا ہے، تم نہ جان پاؤ گے

زخم کیسے پھلتے ہیں داغ کیسے جلتے ہیں درد کیسے ہوتا ہے کوئی کیسے روتا ہے
اشک کیا ہے نالے کیا دشت کیا ہے چھالے کیا آہ کیا فغاں کیا ہے، تم نہ جان پاؤ گے

نامراد دل کیسے صبح و شام کرتے ہیں کیسے زندہ رہتے ہیں اور کیسے مرتے ہیں
تم کو کب نظر آئی غم زدوں کی تنہائی زیست بے اماں کیا ہے. تم نہ جان پاؤ گے

جانتا ہوں میں تم کو ذوق شاعری بھی ہے شخصیت سجانے میں اک یہ ماہری بھی ہے
پھر بھی حرف چنتے ہو صرف لفظ سنتے ہو ان کے درمیاں کیا ہے، تم نہ جان پاؤ گے

فقط

تمہاری ایک بے بس ہمدرد بہن

نوٹ: یہ خط بلوچستان کی معروف ویب سائٹ’حال احوال’ پہ شایع ہوا۔ جلیلہ حیدر ایڈوکیٹ ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں اور انسانی حقوق کی کارکن اور پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہیں اور کوئٹہ میں قانون کی پریکٹس کرتی ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here