حسن ناصر یکم جنوری 1928 کو حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک ممتاز قوم پرست گھرانے سے تھا۔ وہ ایک بہادر انسان، دلیر سیاسی رہنما اور گمنام شاعر تھے۔ حسن ناصر معروف رئیس نواب محسن الملک کے نواسے تھے۔ انہوں نے حیدر آباد سے سینئر کیمبرج کیا اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

وہ 20 سال کی عمر میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی ممبئی برانچ کے رکن بن چکے تھے۔ اس دوران انھوں نے اپنی تمام زمینیں کسانوں میں بانٹ دی تھیں۔ جب کلکتہ میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی فروری تا مارچ میں دوسری سالانہ کانگریس منعقد ہوئی تو اس میں پاکستان اور ہندوستان میں دو الگ الگ کمیونسٹ پارٹیوں کے قیام پہ اتفاق کیا گیا۔ اس کانگریس میں بطور ڈیلی گیٹ پنجاب سے ایرک سپرین اور سندھ سے جمال بخاری اور کے پی کے سے محمد حسین عطاء ڈیلی گیٹ کے طور پہ شریک تھے جبکہ ایرک رحیم کے بقول مشرقی پاکستان کا وفد تعداد میں بہت زیادہ تھا۔ مغربی پاکستان میں ہندؤ اور سکھ کامریڈ کے ہندوستان چلے جانے اور بہت کم تعداد میں مسلما کامریڈ ہونے کے سبب مغربی پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کی حالت بہت پتلی تھی۔ اس صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے مسلم کامریڈز کو رضاکارانہ بنیادوں پہ مغربی پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کی تنظیم نو کرنے کے لیے پاکستان جانے کو کہا گیا۔ سجاد ظہیر ،سبط حسن اور مرزا اشفاق بیگ لاہور میں پارٹی کے سنٹرل کمیٹی آفس پہنچے تو اغلب امکان یہ ہے کہ حسن ناصر نے بھی اپنے طور پہ پاکستان کراچی جاکر کمیونسٹ پارٹی کو منظم کرنے کا کام شروع کیا۔

کامریڈ ایرک رحیم نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ کراچی کی سندھ سے علیحدگی کے بعد کامریڈ سوبھوگیان چندانی سندھ تک محدود ہوگئے، پھول مل کامریڈ سیاسی سرگرمیوں سے دست بردار ہوگئے۔ کراچی آفس سیکرٹری کامریڈ ہنگل کو ہندوستان جانے پہ مجبور کردیا گیا تو ایسے میں کامریڈ حسن ناصر پہ کراچی یونٹ کو بنانے اور منظم کرنے کی ذمہ داری آن پڑی۔

کامریڈ حسن ناصر نے 1948ء سے کراچی یونٹ کو منظم کرنے کا کام شروع کیا اور اس دوران طلباء فرنٹ اور ٹریڈ یونین فرنٹ، ترقی پسند لکھاریوں کی تنظیم منظم کرنے اور پھر پاک-سوریت فرینڈشپ ایسوسی ایشن کی تشکیل کا کام بھی کیا۔

کامریڈ حسن ناصر کے ساتھ اعزاز نزیر نے اپنی یادداشتیں شئیر کی ہیں کہ کیسے وہ روپوش ہوکر بھی کراچی میں کمیونسٹ پارٹی کے مزدور فرنٹ کو منظم کرنے کے لیے دن رات محنت کررہے تھے اور حلیہ بدل کر وہ کام کرتے تھے۔

سن 1951ء میں کمیونسٹ پارٹی پہ لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹانے اور فوجی بغاوت کا منصوبہ بنانے کی سازش کا ذمہ دار ٹھہرا کر کالعدم قرار دے دیا گیا اور ساتھ ہی پارٹی کے تمام فرنٹ پہ بھی پابندی عائد کردی گئی۔ اس وقت حسن ناصر کراچی یونٹ کے سیکرٹری تھے۔ اور اس سلسلے میں ملک بھر میں پارٹی ممبران اور ہمدردوں کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں۔ حسن ناصر ان دنوں پھر انڈر گراؤنڈ ہوگئے۔ ایرک رحیم کے بقول سی آئی ڈی پولیس کے پاس حسن ناصر کی کوئی تصویر نہیں تھی اور وہ حسن ناصر کو پہچانتے بھی نہیں تھے۔ اور حسن ناصر1952ء کے آخر میں کہیں جاکر گرفتار ہوئے اور ان کو لاہور شاہی قلعے کی جیل میں بند کردیا گیا۔ حسن ناصر 1960ء میں لاہور شاہی قلعے کی جیل میں تھے اس بات کا انکشاف ان کے شاہی قلعہ لاہور جیل سے اپنی والدہ کو لکھے گئے خط سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے اپنی گرفتاری کا مہینہ نومبر 1952ء بتایا ہے۔1955ء کے آخر تک بہت سے گرفتار کامریڈز رہا کیے جاچکے تھے لیکن حسن ناصر کو رہا نہ کیا گیا۔ ان پہ شاہی قلعے کی جیل میں سخت تشدد کیا جاتا رہا اور 13 نومبر 1960ء کو کامریڈ حسن ناصر شاہی قلعہ کی جیل میں تشدد اور اذیتوں کی تاب نہ لاکر شہید ہوگئے۔ ان کے ریاستی قتل کو خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ شہادت کے وقت کامریڈ حسن ناصر کی عمر محض 32 سال تھی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here