سن 1990ء کا آغاز تھا جب پنکج مشرا شمالی ہندوستان کے ایک ایسے گاؤں میں منتقل ہوگئے جو ہمالیہ کے پہاڑوں میں آباد تھا۔ اس گاؤں میں انھوں نے خوب اچھے سے مطالعہ کیا اور پھر ہندوستان کے کئی ایک میگزین میں اپنے مضامین شایع کروائے۔ اس عشرے کے آخر میں، وہ نیویارک ریویو آف بکس اور دوسری پبلیکیشنز کے لیے لکھ رہے ہيں۔ وہ اکثر بالکل بھی لحاظ نہ کرتے ہوئے ایشیا میں نوآبادیاتی حکمرانی کے ورثہ پہ نظر ڈالتے ہیں اور متعدد طریقوں سے سابق مقبوضات میں مغربی مفادات جیسے داخل ہوتے ہیں ان کو بے نقاب کرتے ہیں۔ انہوں نے 2012ء میں ایک کتاب ‘ سلطنت کے آثار’ لکھی جسے بڑے پیمانے پہ قبول عام حاصل ہوا میں لکھا،’ دانشور جنھوں نے ایشیا کو پھر سے بنایا،وہ سامراجیت کی تاریخ کو اس کی طاقت کی رعیت کے نکتہ نظر سے بیان کرتے تھے’۔ ان کی حال ہی میں ایک کتاب ‘ طیش کا زمانہ: حال کی تاریخ(2017) سامنے آئی جو کہ متشدد نیشنلزم اور دوسرے نظریات کی کھوج لگاتی ہے۔ اسے 2018 کے آرویل پرائز کے لیے زیرغور لایا گیا ہے۔

فرانسس ویڈ: آپ ایمپائر اور آزادی و ترقی کے لبرل تصورات میں چھپی اس کی بنیادوں کے ممتاز ناقد بنکر سامنے آئے ہیں۔ کیا آپ اپنی سوچ کے ارتقا کا ایک خاکہ پیش کرسکتے ہیں کہ آپ کی ابتدائی تحریروں سے لیکر آج تک یہ کیسے تشکیل پائی، اور کیا آپ ایسے بڑے واقعات کا بیان کرسکتے ہیں جنھوں نے آپ کی اس سوچ کی تائید کی ہو یا آپ کے موقف میں بدلاؤ لایا ہو؟

پنکج مشرا: میں اپنے تجربے سے جانتا ہوں کہ ایک خاکستری چمڑی والے ہندوستانی لکھاری کا ایک احمق اینٹی امریکن/مغرب مخالف/ تھرلڈ ورلڈسٹ/ اینگری پوسٹ کالونیل کے طور پہ کیسے خاکہ چھیتا جاسکتا ہے۔ اور اسی لیے اس بات کی نشاندہی کرنا اہم ہے کہ میرے اور میرے جیسے پس منظر کے حامل بہت ساروں کا سامراجیت اور لبرل ازم کے بارے میں جو تفہیم ہے ان کی جڑیں ہندوستانی سیاست کی حقیقتوں میں گڑی ہوئی ہیں۔
میرے اپنے کیس میں، کشمیر میں میری ایک صحافتی اسائنمنٹ تھی جس نے میری سیاسی و فکری تعلیم کو آگے بڑھایا۔ میں جب سن 1999ء میں وہاں گیا تو میرے ساتھ بھی وہی تعصبات جڑے ہوئے تھے جو کس بھی لبرل ہندوستانی ‘سول لائزر'(تہذیب کا بوجھ اٹھائے ہندوستانی لبرل) کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ یعنی سادہ طور پہ کوئی ایسا ہندوستانی جو یہ سمجھتا ہو کہ وہ کشمیری مسلمانوں سے کہیں زیادہ سیکولر، لبرل، اور ڈیموکریٹک ہندوستان سے ہم آہنگ ہے بنسبت پاکستان کے کیونکہ ہندوستان اپنے تمام شہریوں کے لیے آزادی اور ترقی کو آگے بڑھانے میں کہیں زیادہ بہتر جگہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں،ہندوستان ایک مہذب بنانے کے مشن پہ تھا تو اسے کشمیر کے بہت زیادہ مذہب کے اثر میں مبتلا مسلمانوں کو سیکولر منطق کی روشنی دکھانا ہی تھی چاہے ضرورت پڑنے پہ طاقت کے ساتھ ہی کیوں نہ دکھائی جائے۔

ہندوستانی فوج کے کشمیر میں قبضے ،کھلی غلط بیانیوں اور فریب و دھوکے جو اس کے ساتھ شریک تھے کی ننگی حقیقتوں نے مجھے مغربی سامراجیت اور اس کی جانب سے ترقی کے بلند آہنگ نعرے پہ ہوئی پرانی تنقیدوں پہ نظر ڈالنے پہ مجبور کردیا۔جب انگریزی اخبار ‘ دی ہندؤ’ میں کشمیر پہ 25 ہزار لفظوں پہ مشتمل میرا کشمیر پہ ایک طویل مضمون 2000ء میں شایع ہوا اور پھر اسے نیویارک ریویو آف بکس نے شایع کردیا تو اس پہ سیخ پا ہونے والوں میں سے اکثر خودساختہ لبرل تھے جن کو یہ تصور ہضم ہی نہیں ہورہا تھا کہ ان کا مفروضہ سیکولر و جمہوریہ ہندوستان، جسے مغربی سامراجیت سے بہت مشکل سے جیتی ہوئی آزادی پہ فخر ہے وہ خود بھی ایک کٹھور سامراجی رجیم ہوسکتا ہے۔

کشمیر بارے لکھنا ایک عجیب اور درد سے بھرا ہوا الگ تھلگ تجربہ تو تھا مگر میرے لیے یہ بہت اہم تھا۔اس نے مجھے یہ دیکھنے کے قابل بنایا کہ، آپ ہندوستانی ہوں یا امریکن، سیاہ فام ہوں یا براؤن یا سفید فام،بہتر یہ ہے کہ آپ اخلاقی طور پہ سیکولر ازم اور لبرل ازم جیسے الفاظ کے نشے میں مدہوش نہ ہوجائیں یا سادہ طور پہ آپ یہ فرض کرکے مطمئن نہ ہوجائیں کہ زبانی طور پہ آن نے کسی خاص نظریاتی سچ سے وفاداری کا بھاشن دے دیا ہے تو بس سب ٹھیک ہوگیا۔ بلکہ آپ کو طاقت و اقتدار کے سفر، مفادات کے ٹکراؤ اور کسی سچ کو چھپانے کے لیے ایسے دعوؤں کی بازگشت کی اصل حقیقت جاننے کی کوشش کرنی چاہئیے؛ یہ پوچھنا چاہئیے کہ ‘سیکولر ازم’ یا ‘لبرل ازم’ جیسے الفاظ کون اور کس مقصد کے لیے استعمال کررہا ہے۔

ہندوستانی لبرلز کی کشمیر کے بارے میں مکاری اور منافقت اور یہاں تک کہ کچھ لیفٹ کے لوگ بھی اس میں شامل ہیں نے مجھے لبرل انٹرنیشلسٹوں سے مقابلے کے لیے بہتر طور پہ تیار کیا جنھوں نے بش ایڈمنسٹریشن کی عراق پہ حملہ کرنے کے لیے انسانیت پرستانہ نعروں جیسے آزادی، جمہوریت، ترقی ہیں کے ساتھ مدد کی۔ یہ ویسے ہی نعرے تھے جو ہم نے 19ویں صدی میں یورپی سامراجیوں سے سنے تھے،کشمیر میں اس چیزکے تجربے نے مجھے نیال فرگوسن جیسی شخصیات کا معائنہ کرنے کی طرف رہنمائی کی، جس نے اینگلو امریکن شہریوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی تھی کہ دوسروں کے علاقوں اور ثقافت پہ قبضہ کرنا اور ان کو محکوم بنانا سولائزیشن کی ترقی کا زیردست زریعہ ہے اور ہمیں اور زیادہ ایسی نجات دینے والی سامراجیت کی ضرورت ہے تاکہ ہم دیسی لوگوں کو ترقی یافتہ مغرب کے برابر لاسکیں۔

فرانسس ویڈ: ‘ لبرل ماڈرنٹی/جدیدت’ بارے آپ کا کہنا ہے،’اس نے ساری تباہی کے لیے زمین تیار کی ہے جس نے ایسی قوتوں کو جنم دیا ہے جو بے لگام ہیں’۔ کیا انہی قوتوں کا ان ممالک میں دائیں بازو کے پھر سے ابھار میں بھی کردار ہے جو معاصر لبرل ازم کی دین ہیں جو فرد کی آزادی کو سب سے اوپر رکھتا ہے؟

پنکج مشرا: اس سوال کے کئی جواب ہوسکتے ہیں، اور ان میں سے کسی ایک جواب کو منتخب کرنا آح کے سیاسی تناظر کے زیراثر انتخاب کہلائے گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ فرد کی آزادیاں لبرل ازم کی بنیاد ہے اور اس پہ اس کی تعریف بھی ہو اور ان کا تحفظ بھی کیا جائے۔ لیکن سوال کہ کیسے تحفظ ہو اور کن سے ہو؟ کیا بہت سارے خود ساختہ لبرلز فرد کے اختیارات و آزادیوں کے بہترین دفاع کار ہیں؟ جیسا کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بہت سے طاقتور اور اثر و رسوخ رکھنے والے لوگ جو اپنے آپ کو لبرل کہتے ہیں وہ اپنے پیشہ وارانہ عزائم اور مفادات کو آگے بڑھاتے رہتے ہیں جبکہ ان کی طرف سے اپنے لیے ترقی پسندی کے ایک برتر اخلاقی مراعاتی مقام کے حامل ہونے کا دعوی بھی مسلسل کیا جاتا رہتا ہے۔ وہ طاقت و اختیار کے موقعہ پرستانہ متلاشی کے طور پہ بہترین طریقے سے بے نقاب ہوتے ہیں اور ایسے لوگ ہندوستان میں بھی اتنے ہی زیادہ پائے جاتے ہیں جتنے وہ امریکہ و برطانیہ میں پائے جاتے ہیں۔ بش کے ‘ مددگار احمقوں’ (ٹونی جوڈت کی اصطلاح) کے ہم منصب ہندوستان میں بھی پائے جاتے ہیں۔ یہاں ہندوستان میں کچھ لبرل پرائم منسٹر مودی کو ‘عظیم جدت پسند’ قرار دے ڈالتے ہیں۔( پاکستان میں لبرل کی ایک بڑی اکثریت نے نواز شریف کو عظیم لبرل ماڈرنائزر قرار دے ڈالا)۔ وہ پاور رکھنے والوں کے کان بننا اور ان کو مشورہ دینا خوشی کی بات سمجھتے ہیں اور ان کی طرف سے یہ فریضہ اس وقت ترک کیا جاتا ہے جب پاور ان کو مسترد کردیتی ہے یا ان کو ذلیل کرتی ہے۔ جیسا کہ ٹرم اور مودی کے کیس میں ہوا کہ دونوں کے پاس جیسے دانشوروں کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ بے عزت کرکے الگ کیے گیا لبرل اس وقت ماکیزا( نازیوں کے خلاف لڑنے والے فرنچ دیہاتی گوریلوں کا نام) کی مزاحمت میں بن جاتا ہے اور ویسی زمین تیار کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے جہاں پہ اسے ‘ہیرو’ قرار دیکر عزت و احترام ملا کرتی تھی۔ یہ بہت نفیس اور شاندار ریکٹ/گروہ/کلٹ ہے اگر آپ اس میں گھس جائیں تو۔

جیسے ہی ٹرمپ ازم یا دوسری استبدادی نظام طاقتور ہوجاتے ہیں، تو ان کے لبرل ناقد ایک قسم کی اخلاقی بلیک میلنگ میں مصروف ہوجاتے ہیں جس کی بنیاد جعلی و بوگس تاریخ پہ کھڑی کی جاتی ہے،’ کیا تم ‘لبرل نظام’ کے خلاف ہو جو امن و استحکام اور دوسری شاندار چیزوں کا ضامن ہے؟’ اس کا صاف صاف جواب تو یہ ہے کہ تم جس لبرل نظام کی بہت تعریف کرتے ہو وہی تو ٹرمپ ازم کی نرسری بنا رہا ہے، وہی ٹرمپ ازم کے لیے انکوبیٹر بنا اور دیگر آمریتوں کے لیے بھی جب وہ حالت نزاع میں تھیں۔ اسی نظام نے تو انسانوں کے درمیان سماجی بندھونوں کو ہٹاکر منڈی کے رشتوں کو لاکر اور لالچ و حرص کو مقدس بناکر منڈی کا غلام بنایا۔ اسی نے انفرادی خودمختاری اور ذاتی ذمہ داری کی اخلاقیات کا پروپیگنڈا کیا جبکہ ادھر منڈی کی حملہ آوری نے لوگوں کے لیے مستقبل کی منصوبہ بندی اور بچاؤ کو ہی ناممکن بنادیا۔ اس نے لوگوں کو کمر توڑ قرضوں میں جکڑ کر ان کو سٹاک مارکیٹ میں جواری/سٹہ باز بنادیا۔ لبرل سرمایہ داری کے بارے میں فرض کرلیا گیا ہے کہ یہ بہت نفیس مڈل کلاس کو آگے بڑھاتی ہے اور سوبر ، مدبر اور دور اندیش سرمایہ دار(بورژوا) اقدار کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے جمہوری اچھائیوں اور احتساب کو آگے لاتی ہے۔ لیکن اس نے تو اس کے بالکل الٹ کیا۔ اس نے بالکل غیر یقینی کو جنم دیا جس میں کسی لانگ ٹرم تناظر کا وجود نہیں تھا اور ایسے دھوکہ باز پیدا کیے ہیں جو چاند تارے توڑ کر لانے کے بس دعوے ہی کرتے ہیں۔ بے قابو لبرل ازم دوسرے لفظوں میں خود اپنی بربادی کے لیے زمین تیار کرتا ہے۔

فرانسس ویڈ: تو کیا آزادی و ترقی کے لبرل تصورات 19ویں صدی میں انقلابی سائنس کی ترقی کے لیے کام نہیں آئے باوجود اس کے کہ انہوں نے ‘سولائزڈ/مہذب’ اور ‘نان سولائزڈ/غیر مہذب’ کی لائن بھی کھینچی؟

پنکج مشرا: جی ہاں، لبرل ازم بطور سفید فام مالکان کے نظریہ کے طور پہ نسلوں اور طبقہ کی انسٹی ٹیوشنلائز درجہ بندیوں کو ساتھ ملاکر اور سولائزڈ و نان سولئزڈ/ مہذب و اجڈ لوگوں کا ایک جعلی امتیاز پیدا کرکے وجود میں آتی ہے۔جان اسٹورٹ مل سے لیکر تھامس جیفرسن تک یہ بات بہت صاف ھی کہ فرد کے حقوق اور عالمگیر عقل یہ دونوں ایک چھوٹی سی اقلیت کی صوابدید تھے۔ اور وہ تھے نوآباد کار جنھوں نے اپنی آزادی کا دائرہ کار دوسرے لوگوں کی آزادیوں کو سلب کرنے کی قیمت پہ بڑھایا۔ ان کے ظلم کا نشانہ اور متاثرہ غیر سفید قام لوگ ان تباہ کن تضادات کی نشاندہی 10ویں صدی میں لبرل ازم کے شور میں مسلسل کرتے رہے۔

آج بہرحال، لبرل ازم سے سامراجیت کے تعلق کا سوال جلدی جواب کا متقاضی ہے کیونکہ غیرمغربی طاقتوں کا ابھار اور معاشی و سیاسی بحران کی قوتوں نے مغربی لبرل جمہوریاؤں کے اپنے نسل پرستانہ اور غیر مساوی و عوامی ڈھانچوں کو بے نقاب کردیا ہے اور مغربی لبرل جمہوریتیں پھر سے سفید بالادستی پہ مبنی افکار کو پرکشش خیال کررہی ہیں۔ میں نے 2016ء میں لبرل ازم کے غیر مغربی ملکوں میں ریکارڈ کے سروے میں لکھا تھا کہ لبرل ازم اب ایک ایسی ناقابل برداشت کھیل کی چیز ہوچکا ہے جو صرف امیر غرب زدہ لوگوں کا شوق ہے۔

اس لحاظ سے ہمیں ایشیائی یا افریقی مفکرین کی روایت کو یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ وہ سنیں جو 1906ء میں میکس ویبر نے کہا

سوال یہ ہے کہ مستقبل میں جمہوریت اور آزادی ایک بلند ترین تقی یافتہ سرمایہ داری کے غلبے کے زیراثر کیسے ہوں گی؟۔۔۔۔معاصر آزادی کی تاریخی اصل کی جو شرائط تھیں وہ کبھی خود کو دوھرائیں گی نہیں۔ آئیں ان میں سے جو سب سے زیادہ اہم ہیں ان کا شمار کرتے ہیں۔ پہلی بیرون منڈیوں تک توسیع۔ کرامویل کی فوجوں میں، فرانسیسی دستور ساز اسمبلی میں، ہمارا آج کی معاشی زندگی میں ، اس ٹھنڈی سمندری ہوا کو ہر جگہ محسوس کیا جاسکتا ہے لیکن اب کوئی اور برا‏عظم ہمارے پاس نہیں ہے جہاں اس کو ہم لیجائیں۔

فرانسس ویڈ: نائیجرین مفکر بدون جیفو نے ریاست کو ‘ گرفتار ڈی کالونائزیشن’ کہہ کر نوحہ پڑھا جس میں سابق نوآبادیاں اپنے آپ کو پاتی ہیں، جہاں ایک دیسی اشرافیہ نے سامراجی منصوبے کو مغربی معاشی توسیع پسندی کی معاونت سے آگے بڑھایا ہے۔ کیا لبرل سرمایہ داری نے سامراجیت کا خاتمہ نہیں کیا یا اسے بہت خاموشی سے اور بڑی چالاک ہنرمندی سے اسے آگے بڑھا؟

پنکج مشرا: پوسٹ کالونیل تجربہ بہت کامپلیکس/پیچیدہ ہے۔ ایشیاء اور افریقہ میں سامراجیت کے خلاف تحریکیں اگر اشراف دانشوروں کی قیادتوں میں چلیں اور جذباتی طور پہ اس کی صورت گری ان کے آقاؤں کی علمیاتی نظریات اور آئیڈیالوجیز سے ہوئی۔اور سب سے متضاد اور زعم سے بھرے جذبات کے ساتھ وہ مغرب کو اس کی اپنی گیم کے زریعے شکست دینا چاہتے تھے۔ دوسرے ایک ایسی دنیا میں اپنی بقا چاہتے تھے بم مغرب نے بنائی تھی۔ ان سب کو ماڈرنائز، انڈسٹرلائز، اربنائز ہونے اور کسی طرح سے مغربی طاقتوں جیسا ہونے کی جلدی تھی جو ان کے خیال میں ان کے ملکوں پہ اتنے لمبے عرصے تک برتری کا سبب بنی تھی۔

قریب قریب ان تمام لیڈروں کا مسئلہ کمیاب وسائل اور ایک تباہ شدہ ریاست تھی جس کے ساتھ انہوں نے سفر کا آغاز کیا تھا۔ اگر صدیوں نہ سہی تو عشروں کے استحصال نے ان کی حالت بہت پتلی کردی تھی۔ ان کا سماجی نظام مفلوج ہوچکا تھا اور دانشورانہ زندگی روبہ زوال ہوچکی تھی۔ ایک مربوط نیشن سٹیٹ کے لیے جس مصالحے کی ضرورت تھی وہی اکثر غائب تھا۔ اور تب پوسٹ کالونیل لیڈروں کی پہلی نسل اپنی تمام تر بہتریں کوششوں کے باوجود مغرب پہ اپنی معاشی محتاجی سے نجات نہ پاسکی اور اسی چیز نے سامراجیت کی دنیا کی ‘سنٹر اور حاشیہ’ جیسی تقسیم کو جنم دیا۔ ان میں سے اگٹر نے سوشلزم اور مضبوط ریاستی کنٹرول والی معشیت میں خیر سمجھی؛ ایشیا اور افریقہ میں مشکل سے کوئی ایک ملک ہوگا جس نے کساد بازاری کے تجربے کے بعد سرمایہ داری میں کشش محسوس کی ہو۔ تاہم 1980ء میں، ڈی کالولائزیشن کا عمل مشکلات سے دوچار ہوا۔ بہت سارے ایشیائی اور افریقی معاشروں کے سٹرکچرل سیاسی اور معاشی مسائل بہت بڑھ گئے۔ اس مرحلے پہ، کمیونسٹ ریاستوں کے ڈھے جانے غیر متوقع طور پہ مغربی دانشوروں اور پالیسی سازوں کا ایک ایسا جھمگٹا سامنے لایا جو کئی سالوں سے ایشیا اور افریقہ کی پروٹیکشنسٹ معاشیتوں کے خلاف سرمایہ اور اجناس کی آزادانہ نقل و حمل کے حق میں دلائل دے رہے تھے۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ ان کو حکمران طبقات کی نئی نسل نے مدد دی جو کہ منڈیوں اور ذاتی کاروبار کے امریکی خواب کو گلے سے لگانے کو تیار بیٹھےتھے۔

ہمیں آج بھی ان نئے اشراف کی سوشیالوجی کی ضرورت ہے۔۔۔ ان کے امریکہ اور یورپ سے کالجوں ، یونیورسٹیوں ، تھنک ٹینک، این جی اوز، فاؤنڈیشن اور فیلو شب کے زریعے سے روابط، اور ان کی کئی اداروں میں آئیڈیالوجیکل برین واشنگ، ٹریننگ اور ٹیچنگ کی سوشیالوجی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ واقعاتی اعتبار سے میں تصدیق کرسکتا ہوں کہ ہندوستان میں نئی امریکی تعلیم یافتہ یا امریکی محبت میں گرفتار طبقہ وجود میں آگیا ہے جو کسی بھی روکاوٹ سے آزاد منڈیوں کے حق میں اور اپنے خیالات کو انسٹی ٹیوشنلائز کرنے کے حق میں دلائل دیتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو اکثر لبرل کہتا ہے،لیکن وہ ہندؤ رائٹ کا بھی مدح سراح ہے اور دونوں کیمپوں کے درمیان ان کی گاڑیاں آتی جاتی رہتی ہیں۔

فرانسس ویڈ: آپ کی لبرل ازم پہ تنقید میں معاصر ہیومن رائٹس ڈسکورس اور اس کے لبرل فوی مارکیٹ ایجنڈے سے روابط کے بارے میں بہت گہری تشکیک پائی جاتی ہے۔ کیا یہ دونوں مکمل طور پہ ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں اور پہلا دوسرے کا اس قدر علمبردار کیوں بنتا ہے؟

پنکج مشرا: اچھا، اگر آپ کسی ایشیائی یا افریقی ملک میں رہتے ہو اور سامراجیت کی تاریخ سے بھی واقف ہو، تب آپ فرد کے حقوق کے بارے میں طاقتور ملکوں کی جانب سے آنےوالے اخلاقی بنت کے ساتھ ڈسکورس کی کسی بھی قسم کے بارے میں مشکوک ہی ہوں گے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ فرنچ اور برٹش 19ویں صدی میں اپنے آپ کو ‘وحشی اقوام’ میں عورتوں کے حقوق کے محافظ کہہ کر پیش کرتے تھے۔ تو آزاد تجارت اور آزاد منڈیوں کا شور بھی فرد کی آزادی کے بڑے ڈسکورس کا بہت زیادہ حصّہ تھا۔

ہمارے اپنے زمانے میں، یہ ڈسکورس نہ صرف پرانے طرز کی سامراجی پابندیوں کی مہم( بددیانتی سے اسے بھیس بدلاکر چلایا جاتا تھا جیسے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پہ دوسرے ممالک میں مداخلت) میں بہت فائدہ مند رہا بلکہ اسے اقوام کے درمیان اور بذات خود قوم کے اندر انصاف اور برابری کے لیے بھی فائدہ مند کہا جاتا رہا ہے۔ خاص طور پہ سیموئل موئن نے اسے ہیومن رائٹس کے لیے ایک فیٹش بنانے پہ بہت زور دیا۔ اس سینس میں،سیاسی اور کارپورید مفادات کے علمبرداروں کو ہیومن رائٹس کا چیمپئن بننا آسان بنادیا۔ یہ وہ کاز تھا جس نے نہ تو ان کی پاور کو چیلنج کیا اور نہ ان کے اثر کو بلکہ بہت سے طریقوں سے اس نے ان کو محفوظ ہی کیا۔

فرانسس ویڈ: آپ کہتے ہیں کہ معاشی ناہمواری نے انسانی حقوق کے وکیلوں کو فری پاس دیا،لیکن کیا یہ کام پہ ‘ایجنیسی’ کو بھی کسی حد تک ختم کرتا ہے؟ کیا اسے جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا ہے؟

ہاں، میں نہیں سمجھتا کہ عدم مساوات اتنا مرکزی سوال تھا تاوقتیکہ جب اس کے سیاسی اعتبار سے آفت بھرے نتائج و عواقب سامنے آنے لگے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہندوستان ہو یا امریکہ، سب سے اہم معشیت کا نمو پانا، پیدائش دولت ہوا کرتا ہے، جو خود بخود رس رس کر نیچے تک پہنچ جاتی ہے ۔ اصل چیز عدم مساوات اور عدم برابری جیسے گھمبیر مسائل کو دیکھنا نہیں ہوتا۔ یہ کیسے پیدا ہوتی اور اپنے آپ کو کیسے بڑھاتی چلی جاتی ہے اور ہم کیسے ختم کرسکتے ہیں ان سوالوں کو دیکھنا بھی اصل چیز نہیں ہے۔
ہندوستانی کی معاشی لبرلائزیشن کے مرکزی علمبردار لیڈروں میں سے ایک انڈین امریکن کے ساتھ گہرے سمبندھ میں تھا۔ ویسے سمبندھ جیسے کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ وہ کولمبیا یونیورسٹی سے پڑھا ہوا ماہر معشیت اور کونسل فار فارن ریلشنز کا فیلو تھا اور اس کا نام جگدیش بھاگوتی تھا۔
بھاگوتی، جو کو دنیا کا سب سے آزاد فری ٹریڈر ہونے کا زعم تھا کا ٹانکا مودی سے بھی اتنا ہی فٹ تھا جتنا اس کا سابق انتہائی مہان سیکولر ہندوستانی پرائم منسٹر سے تھا۔ یہ آدمی نہ صرف بے شرمی سے اس بات کا انکار کرتا کہ ہندوستان میں عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے یا ہندوستان ایک اولیگارشی / اشراف کے ملک میں بدلتا جارہا ہے بلکہ وہ امرتا سین جس نے عدم برابری کو بے نقاب کیا یا وناب روا پارکس جیسوں کو برا بھلا کہتا تھا، اس کا کہنا تھا کہ عدم برابری تو اصل میں ایک نعمت بن جاتی ہے اگر آپ موبائلٹی/نقل و حرکت رکھتے ہیں اور غریب اس کی خوشی مناتے ہیں۔
وہ محنت کشوں کے لیے کو تحفظ ہونے کا دفاع یہ کہہ کر کرتا کہ بنگلہ دیش کی مثال اس کا ثبوت ہے کہ فرم اپنے ورکرز کو رکھنے اور نکالنے کی سازگار ماحول میں اجازت ہے اور یہ ورکز اور مالکان کے حقوق میں توازل برقرار رکھتی ہے۔ اس نے یہ بات اپریل 2013ء میں ڈھاکہ میں ایک کارمنٹ فیکٹری کی عمارت کے ڈھے جانے سے ایک ہزار سے زیادہ محنت کشوں کی موت ہوجانے کے بعد کہی جس نے عالمگیر معشیت میں کئی طریقوں سے محنت کشوں کے غیر محفوظ ہونے اور ان کے محنت کے حالات کا غلام بن جانے کو ایکسپوز ہوجانے کے بعد دیا۔بھاگوتی کا ہندوستان میں ہندوستانی کی خوراک کی کیلوریز کی شرح میں کمی سے بھوک اور غربت کے بڑھ جانے کی تصدیق ہونے پہ ردعمل یہ دیا کہ غریب شاید زیادہ چاول اور فروٹ کھاجاتے ہیں اور غذائی کمی کا شکار خاندانوں کو اپنی خورای میں زیادہ دودھ اور فروٹ شامل کرنے کی ضرورت ہے۔

شاید محض بھاگوتی کو ہی نشان زد کرنا ٹھیک نہ ہوگا، لیکن اپ اس کے کلون کو ہر جگہ کے حکمران طبقات کے اندر پاسکتے ہیں۔ اس کے خیالات غیر معمولی کٹھورتا کے ساتھ پالیسی سازوں اور رائے عامہ بنانے والوں میں مقبول ہیں۔ بہرحال ایشیا، افریقہ اور لاطین امریکہ میں بہت چھوٹی، وسائل کی کمی کا شکار اور محاصرے میں گھری انسانی حقوق کی تنظیمیں نیولبرل سرمایہ داری سے پیدا بے انصافی اور عدم برابری کے خلاف جدوجہد کررہی ہیں۔ لیکن اچھے فنڈز وصولنے والی انسانی حقوق کی تحریک جس کی جلم بھومی مغرب میں ہے فری ٹریدرز کے کسی بھی دعوے کو چیلنج نہیں کرتی نہ آزاد منڈی والوں کو چیلنج کرتی ہیں۔ وہ نہ ان کے مظالم کو اس وقت تک چیلنج کرتی ہے جب تک خوب دیر نہ ہوچکے(جیسے ہم نے شام اور یمن کے معاملے میں دیکھا ہے) اور ایسا نہ کرنا ان کے لازمی فرض میں شامل ہوتا ہے۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ انسانی حقوق کی تحریک بہت زیادہ ایک اشراف مغربی عیاشی بن گئی ہے اور یہ مخصوص ایشوز پہ سوال اٹھاتی اور شرم دلاتی ہے جیسے ڈیوڈ کینڈی کہتا ہے۔ یہ بہت زیادہ مغرب کے سیاسی اور کارپوریٹ طاقتوں کے مفادات کے ساتھ متحد ہوچکی ہے اور اس نے اپنی شورش و بغاوت کی توانائی کو کھودیا ہے۔

فرانسس ویڈ: تو کیا اس خاص توانائی کو جگایا جارہا ہے؟ کیا ہم طاقتور کی انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف تحریک کو ابھرتا دیکھ رہے ہیں جو اس کے ساتھ یہ تسلیم کرتی ہے لبرل خیالات کیسے ناانصافی پھیلاتے ہیں چاہے وہ معاشی ہو یا نہ ہو؟

میرے خیال میں اس کا جواب ہاں ہے۔ انسانی حقوق کی تحریک میں کچھ بہت زیادہ خود آکہ لوگ اپنے کام کے قدرے زیادہ پھیلے ہوئے معنی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ لیکن آج کی جو سب سے زیادہ انکار کرنے والی منحرف توانائی ہے وہ بڑے اداروں اور اشراف نیٹ ورک سے آرہی ہے۔ میرے خیال میں ہم اس حد کی تلاس میں ہیں جہاں پہ آکے کچھ بہترین عزائم رکھنے والے لوگوں نے خود کو اسی پہ قانع کرلیا تھا ہم اسے ‘سرمایہ دارانہ نکتہ نگاہ’ جیسا مناسب لفظ دے سکتے ہیں۔ یہ نکتہ نظر رکھنے والے میڈیا، این جی اوز اور سیاست و کاروبار میں اندر تک گھسے ہوئے ہیں۔ لیکن پوسٹ ٹرمپ زمانے میں ان کے تجزے کام نہیں دے رہے اور ان کی دانشورانہ بالادستی بڑی حد تک کمزور پڑگئی ہے۔

وہ اتنی آسانی سے جگہ خالی نہیں کریں گے اور وہ بہت تیزی سے اپنے ذہن نہیں بدلیں گے۔ لیکن ۔ میں سوچتا ہوں کہ لبرل ازم کی تنقید کا جو سب سے تسلی بخش پہلو ہے وہ یہ ہے کہ حالیہ سالوں میں اس کا فوکس بنیادی نظام کی تبدیلی رہا ہے۔ اگر ہم حقیقی پوسٹ لبرل وژن کے عزائم کو سمجھنے کے لیے کہیں بھی واقعی طور قریب آجاتے ہیں اور اگر ہم انتہائی جمہوریائے جانے کو قبول کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں تو تب ہمیں انسانی حقوق کی تحریک کو انصاف اور برابری کا علم اٹھاکر دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

Francis Wade is a journalist and author of Myanmar’s Enemy Within: Buddhist Violence and the Making of a Muslim Other (Zed Books, 2017).

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here