HOW THE WAR IN YEMEN BECAME A BLOODY STALEMATE — AND THE WORST HUMANITARIAN CRISIS IN THE WORLD Saudi Arabia thought a bombing campaign would quickly crush its enemies in Yemen. But three years later, the Houthis refuse to give up, even as 14 million people face starvation

مترجم کا نوٹ: رابرٹ ایف ورتھ نیویارک ٹائمز کا صحافی ہے۔ یہ بیروت میں نیویارک ٹائمز کا بیورو چیف رہا ہے۔ اس نے یہ سن دوہزار میں نیویارک ٹائمز میں کاسموپولیٹن ڈیسک میں بطور رپورٹر بھرتی ہوا اور پھر یہ 2003ء سے 2006ء تک بغداد میں بیوروچیف بنادیا گیا اور اس کے بعد یہ 2007ء سے 2011ء تک بیروت بیورو آفس میں چیف رپورٹر رہا اور پھر یہ امریکی حکومت کی فنڈنگ سے چلنے والے معروف تھنک ٹینک ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سنٹر فار اسکالرز کے مڈل ایسٹ پروگرام میں پبلک فیلو رہا۔ نیویارک ٹائمز امریکی صحافت میں بظاہر خود کو لبرل صحافت کا علمبردار بتلاتا ہے لیکن یہ ہمیشہ سے امریکہ کی دنیا بھر میں پراکسی جنگوں اور فوجی مداخلتوں کو جوازفراہم کرتا رہا ہے۔رابرٹ ایف ورتھ کی صحافت بھی پاکستانی لبرل کمرشل صحافیوں کی طرح غلط بائنریوں کو پروان چڑھاتے گزری ہے۔ مڈل ایسٹ میں شام ہو کہ لیبیا یا پھر عراق ہو یا یمن رابرٹ ایف ورتھ نے امریکی سامراجی مداخلت پہ لیپا پوتی ہی کی ہے۔ یمن کی جنگ پہ امریکی اوبامہ ڈیموکریٹ ایڈمنسٹریشن کے مجرمانہ کردار ورتھ نے یہ کہہ کر جواز دینے کی کوشش کی ہے کہ اگر اوبامہ انتظامیہ یمن پہ سعودی حملے کی اجازت نہ دیتی اور اس جنگ میں اسلحے کی فروخت اور انٹیلی جنس تعاون فراہم نہ کرتی تو دونوں ممالک کے تعلقات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جاتا۔یمن پہ رابرٹ ایف ورتھ نے بہت کوشش کی ہے کہ معروضیت کے نام پہ وہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی بربریت اور ظلم کے ساتھ حوثیوں کو بھی اتنا ہی برابری کا حامل وحشی اور ظالم ثابت کردے لیکن وہ چاہنے کے باوجود یہ کر نہیں پایا۔ یمن میں سعودی عرب کے جنگی جرائم اور یمن کے لوگوں کی نسل کشی پہ امریکہ اور یورپ کے مین سٹریم اخبارات اور نشریاتی ادارے سعودی جنگی جرائم اور سعودی اتحادی فوج کی بربریت کے واقعات کو سنسر ہی نہیں کرتے رہے بلکہ ان کی کوشش رہی کہ حوثی قبائل کی مزاحمت کو بھی غلط رنگ دیا جائے۔ رابرٹ ورتھ یورپ اور امریکی میڈیا کی اس جنگ بارے حقائق سے عوام کو آکاہ نہ رکھنے کی وجہ شام کے ہولناک واقعات بتاتا ہے حالانکہ وہاں بھی فیک نیوز اور پروپیگنڈا کا بازار گرم رکھا گیا تھا اور حقیقی خبریں سنسر کی جاتی رہیں۔ فیک نیوز پھیلانے میں بی بی سی، وائس آف امریکہ، نیویارک ٹائمز، فوکس نیوز، سی این این، واشنگٹن پوسٹ کوئی بھی پیچھے نہ رہا۔ اتفاق کی بات ہے کہ یمن اور شام کی جنگوں پہ جو رویہ امریکی صحافت کا رہا وہی رویہ کئی پاکستانی لبرل صحافیوں کا رہا اور ان میں سے کئی ایک تو اسی وڈرو ولسن انٹرنکشنل سنٹر فار اسکالرز کے فیلو رہے۔ یمن پہ رابرٹ ایف ورتھ کی یہ خصوصی کور اسٹوری حوثی قبائل اور ان کی تحریک انصار اللہ سے قطعی انصاف نہیں کرتی بلکہ اس کہانی میں ان کے کردار کو کافی مسخ کیا گیا ہے۔ رابرٹ ایف ورتھ ایران فوبیا کا شکار ہے اور شام پہ اس کے اکثر خیالات شیعہ-سنّی بائنری اور ایران-سعودی فریم ورک سے باہر نہیں آتے۔ اس کا ٹھیک ٹھیک رنگ دیکھنا ہو تو آپ اس لنک پہ اس کا انٹرویو پڑھیں

https://slate.com/news-and-politics/2018/04/robert-f-worth-on-syria-and-the-worsening-sunni-shiite-cold-war.html

یمن پہ رابرٹ ایف ورتھ کی کور اسٹوری کو یہاں پہ مکمل دینے کا مطلب صرف یہ ہے کہ یمن کی بربادی جو سعودی اتحاد کی یمن پہ جنگ سے ہوئی اس سے تباہی کی جو تصویر ہے وہ اس جنگ کی امریکی حمایت کا جواز تلاش کرنے والے ایک کمرشل لبرل صحافی کے الفاظ سے ہو تو شاید پاکستانی لبرل اشراف کے پروپیگنڈے کے زیراثر کئی ایک سادہ لوح لوگوں کی رائے بدل جائے۔(عامرحسینی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

یمن کے شمال مشرق میں کسانوں کی آبادی پہ مشتمل ایک چھوٹا سا قصبہ دحیان ہے۔ سعودی عرب کی سرحد سے یہ دو گھنٹے کی مسافت پہ واقع ہے۔ اس کی ایک گرد آلود، ناہموار گلی میں، ایک بڑا سا کارٹر اب بھی ایک پھلوں اور سبزیوں کے ایک ٹھیلے کے نزد دکھائی دیتا ہے جس کے گرد لکڑیوں  کے ستون گڑے ہیں اور ان کے گرد سرخ فیتہ لپیٹ دیا گیا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں پہ ایک سعودی جنگی طیارے نے 9 اگست کی صبح طالب علموں کو لیجانے والی اسکول بس پہ لیزر گائیڈڈ بم مارا تھا۔اس درگھٹنا میں 44 بچے اور 10 بالغ مرد مارے گئے تھے۔ یہ جگہ اب مزار جیسی حثیت اختیار کرگئی ہس۔ کارٹر سے چند فرلانگ کے فاصلے پہ ایک پختہ دیوار پہ انگریزی اور عربی کے جلی حروف میں لکھا ہوا ہے’ امریکی یمنی بچوں کا قتل کرنے والے ہیں’۔

 

یہاں سے وہ قبرستان بھی زیادہ دور نہیں ہے جہاں پہ اسکول بس کے متاثرین دفن کیے گئے۔ ہر ایک قبر پہ تابوت کی شکل کی خشک اور چٹانی زمین پہ ایک پوٹریٹ کھڑی ہے جس میں صاحب/صاحبہ قبر کی تصویر لگی ہے۔ ایک خاکستری پتھریلی دیوارسے پرے اس بس کا ڈھانچہ ہے جو مڑی تڑی اور جلی ہوئی دھات پہ مشتمل ہے۔ جیسے ہی میں وہاں پہنچا تو ایک لڑکا خاموشی سے ایک قبر کے پاس کھڑا تھا،اور نیچے قبر کے کتبے کو گھورے جارہا تھا۔

اس نے مجھے بتایا،’ہم سب اکٹھے ایک ہی اسکول میں تھے۔’ وہ 14 سال کا تھا۔ وہ بھی آسانی سے اسی بدنصیب بس پہ ہوتا لیکن وہ پہلے اسکول ٹرپ سے ہوآیا تھا۔ جب بم پھٹا تو وہ اپنے باپ کا ہاتھ بٹانے بازار جارہا تھا۔ اس کا باپ زخمی نہیں ہوا۔لیکن جلد ہی اسے پتا لگ گیا کہ اس کے بہت سے ساتھی اور اساتذہ شہید ہوگئے۔ اب وہ ہر روز ان سے ملنے قبرستان آیا کرتا تھا، اس نے آہستہ سے مجھے بتایا۔

 

حوثی تحریک ایک طاقتور اور ناقابل تسخیر ملیشیا ہے جو یمن کے ایک بڑے حصّے پہ حکمرانی کررہی ہے۔اس کے نزدیک بس پہ بمباری ایک طرح سے فیصلہ کن موڑ ثابت ہوئی۔ گزشتہ کئی سالوں سے سویلین آبادی پہ ہونے والی بمبماری کے واقعات سے ہٹ کر یہ خبر پوری دنیا کے زرایع ابلاغ کی ہیڈ لائن میں تبدیل ہوگئیں۔ اور اس پہ انسانی حقوق کے گروپوں کا ردعمل بھی سامنے آیا۔ جم کیری جیسے ایکٹرز نے بھی اس پہ ردعمل دیا۔ اس جگہ کو دیکھنے کے بعد ایک اہلکار مجھے ایک پرہجوم آڈیٹوریم میں لے گیا جو نزدیک ہی واقع تھا، جہاں پہ اٹینڈنٹ نے ہمیں ایسے پمفلٹس تھمائے جن میں مرنے والے اور لہو لہان بچوں کی تصویریں تھیں۔ چند ایک یمنیوں نے اس موقع پہ اس جارحیت کے خلاف سخت ناراضگی پہ مبنی تقریریں کیں۔ ان تقریروں میں ان بلیٹسک مزائیلوں کا کوئی ذکر نہیں تھا جو حوثیوں نے ریاض پہ برسائے تھے۔ یا ان کے اپنے جنگی جرائم کا ذکر نہیں تھا۔ ایک چھوٹا سا لڑکا جو اس حملے میں بچ نکلا تھا اسے سٹیج پہ بلایا گیا، جہاں اس نے پہلے سے لکھا ہوا ایک متن بلند اور مضبوط آواز میں پڑھا۔جب میں اسے سن رہا تھا تو میں اس جنگ کے ایک اور دوسرے المیے بارے سوچنے سے اپنے آپ کو نہ روک پایا: جو اس جنگ کو لڑرہے ہیں ان میں ایک بڑی تعداد کم عمر لڑکوں کی ہے۔ جلد ہی سٹیج پہ کھڑا بچہ بھی ان کا حصّہ بن سکتا تھا۔ 

 

مارچ 2015ء میں سعودی عرب نے حوثیوں کے خلاف پوری طاقت سے بڑے پیمانے پہ فوجی مہم شروع کی جبکہ حوثی اس سے چند ماہ پہلے یمن کے اکثر علاقوں کا کنٹرول حاصل کرچکے تھے۔ سعودی عرب نے نو ریاستوں کا ایک فوجی اتحاد تشکیل دیا اور انہوں نے واضح طور پہ کہا کہ حوثی ایران کے اتحادی ہیں اور ان کی جنوبی سرحدات کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ جنگ نے یمن کے اکثر علاقے کو بنجر زمین میں بدل ڈالا ہے اور ابتک دس ہزار لوگ مارے گئے اور زیادہ ہلاکتیں بے رحم ہوائی حملوں کا نتیجہ ہیں۔ ہلاکتوں کی اصل تعداد شاید اس سے بھی زیادہ ہو کیونکہ یمن کے دور افتادہ علاقوں میں اموات کی تصدیق انتہائی مشکل ہے۔

 

ایک کروڑ چالیس لاکھ یمنی باشندوں کو بھوک کا سامنا ہے اور اقوام متحدہ کا کہنا ہے یہ بحران ایک ایسے بدترین قحط میں بدل سکتا ہے جو گزشتہ سو سالوں میں کبھی کہیں دیکھنے کو نہیں ملا۔ بیماریاں پھیل رہی ہیں ، خاص طور پہ دور حاضر کے سب سے بدترین ہیضے کی وبا بھی یہیں پھوٹ پڑی ہے۔

حوثی جن کا نام ان کے جد قبیلے پہ ہے جنوب کا بیشتر علاقہ کھوچکے ہیں جو پہلے ان کے قبضے میں تھا۔ لیکن جنگ نے کئی اعتبار سے ان کو اور ز؛ادہ طاقتور کردیا ہے۔ لڑائی نے ان کی مہارتوں کو تیز کیا ہے۔اور ان کے عزم کو اور پختہ کردیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی گرفت اس آبادی پہ اور زیادہ گہری ہوئی ہے جو بغاوت سے مایوس ہے اور کسی بھی طرح سے نظم و ضبط کی بحالی چاہتی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ کچھ خاندان کے پاس چندہ باکس ہوتے ہیں جن پہ چھپا ہوا ہے’ انفاق فی سبیل اللہ’ہر نوجوان، بوڑھا جنگ کے لیے جو نقدی دے سکتا ہے دیتا ہے۔مجھ سے آنے سے تھوڑی دیر پہلے صنعاء سے کچھ فاصلے پہ موجود ایک شمالی قبیلے نے کئی سو گاڑیوں پہ اںگور، سبـزیاں، بھیڑیں، بچھڑے، نقدی اور ہتھیار لادھے تاکہ بحراحمر کی بندرگاہ حدیدہ کے نزدیک لڑنے والے حوثیوں کی مدد کی جائے۔

 

حوثیوں کے سعودی عرب کے خلاف انتقام سے بھرے غصّے کو ایک خاص شاعرانہ انصاف میں دیکھنے کی لالچ ہر شخص کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ ان کی تحریک کا جنم تین عشروں پہلے ہوا۔ اور یہ تحریک سعودی عرب کی جانب سے حوثیوں کی سرزمین میں جو شمال مغرب کی طرف ہے میں سلفی وہابی اسلام پھیلانے کا ردعمل تھی۔ تب سے لیکر ابتک، سعودی عرب یمن کے سابق مرحوم بادشاہ علی عبداللہ الصالح کی مدد سے ہر اس سیاسی قوت کو کرپٹ بناکر سمجھوتہ کرنے پہ مجبور کرتا چلا آرہا تھا جو اس کے لیے کسی قسم کے خطرے کا سبب بنتی۔ خوثی بے خوف جنگجوؤں کا ایک ایسا گروہ ہیں جو سوائے لڑنے کے کچھ اور نہیں جانتے۔ وہ خدائی مینڈیٹ رکھنے کے دعوے دار ہیں اور انہوں نے اپنے ناقدین کو اذیت دینے سے لیکر مارنے تک کے سب کام کیے ہیں۔ رائٹس گروپ کہتے ہیں کہ ان کے پیش رو جو کرتے آئے وہ بھی یہی کرتے ہیں۔انہوں نے بچوں کو بطور سپاہی بھرتی کیا، بھوک کو ایک ہتھیار کے طور پہ است،مال کیا اور میڈیا پہ کسی اختلافی آواز کو نشر نہیں ہونے دیا۔ ان کے پاس جدید سلطنت کو چلانے کی صلاحیت اور اہلیت بالکل نہیں ہے، اور بعض اوقات تو وہ امن مذاکرات کرنے پہ بھی رضامند نظر نہیں آتے۔ لیکن اس میں سعودی عرب کا اپنے ہمسایہ کی جانب انتہائی متکبر اور نخوت سے بھرے اقدامات کرنے کی طویل المعیاد پالیسی کا بھی جزوی کردار ہے جس کا مقصد یمن کو کمزور اور تقسیم رکھنا تھا۔

 

یہی پالیس اب سعودیوں کے خدشات کو حقیقی خوف کے طور پہ سامنے لاچکی ہے۔ حوثی حکام کا کہنا کہ انھوں نے ویت کانگ ہتھکنڈوں کا بخوبی مطالعہ کیا ہے اور وہ اس جنگ کو ایسی دلدل کہتے ہیں جس میں آل سعود دھنس کر تباہ ہوجائے گی۔” ہمیں توقع ہے کہ یہ جنگ بہت طویل ہوگی”۔ مجھے حوثی ڈی فیکٹو وزیر خارجہ حسین العزی نے بتایا۔ ” یہ ایک ایسی جنگ ہے جو کمر توڑنے والی ہے، یا وہ ہمیں توڑ دیں گے یا ہم ان کو توڑ دیں گے۔

 

مارچ 1915ء کے آخر میں بم گرائے جانے کے پہلے مرحلے کے بعد، ایک شاندار سا سوئی سوئی آنکھوں والا شخص واشنگٹن میں آکر کھڑا ہوا اور اس نے کہا،’ سعودی عرب نے یمن میں فوجی آپریشن شروع کردیے ہیں۔ یہ عادل الجبیر سعودی سفیر تھا۔ کئی امریکیوں کے نزدیک واشنگٹن کے مقام کو اس بڑی جنگ کے اعلان کے لیے چننے کے کوئی معانی نہیں تھے۔ لیکن یمن میں لوگ اکثر وبیشتر اس کا ذکر کرتے ہیں۔ انھوں نے اسے امریکہ اور اس کے کلائنٹ سعودی عرب کے درمیان شر پہ مبنی پیچیدہ تعلق بارے سوچا سمجھا اشارہ قرار دیا۔ بلکہ اسے ایک بڑے توسیع پسندانہ سامراجی منصوبے کا اعلان خیال کیا۔ جبیر نے اپنی تقریر میں اس بات پہ زور دیا تھا کہ سعودی عرب نے دنیا بھر میں اپنے بہت سے اتحادیوں سے بغور مشاورت کی تھی اور خاص طور پہ امریک بہادر سے جو اس جنگ میں سعودی عرب کو انٹی جنس ، اہداف بنانے میں تعاون اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کررہا تھا۔

 

 

 

 

سچائی تھوڑی مختلف تھی۔ اوبامہ ایڈمنسٹریشن سعودی عرب کے آپریشن فیصلہ کن طوفان میں تعاون پہ کافی شش و پنج دکھانے کے بعد رضامند ہوئی تھی اور وہ اسے ایران کے خلاف نہ جیتی جانے والی پراکسی جنگ خیال کررہی تھی۔سابقہ ایڈمنسٹریشن کے ایک اہلکار نے مجھے بتایا کہ یہ فیصلہ ریاض کے ساتھ ایران نیوکلئیر ڈیل پہ موجود تناؤ کا حصّہ تھا۔ اگر سعودی مہم جوئی کی حمایت سے انکار کیا جاتا اہمیت کے حامل سعودی عرب-امریکہ تعلقات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا تھا۔ اس لیے اس معاہدے کی حمایت سعودی حکام کو خوش کرنے کے لیے کی گئی۔ اس کی حمایت سے جو خطرات تھے وہ پہلی نظر میں کم از کم قابل قبول تھے۔ لیکن حوثی افواج تو غیر متوقع طور پہ ناقابل شکست ثابت ہوئیں۔ چند ہفتوں میں، پینٹاگان حکام نے سعودی بمباری کے اندھادھند ہونے اور کسی قسم کی واضح جنگی حکمت عملی کے موجود نہ ہونے کی شکایت شروع کردی۔ جان کیری اوبامہ کا سیکرٹری برائے سٹیٹ نے کوشش کی لیکن وہ صلح کا کوئی معاہدہ کرانے میں ناکام ہوگیا۔

 

دو سالوں تک یمن کی جنگ شام میں ہونے والے خوفناک واقعات کے سائے میں چھپی رہی۔ جب ٹرمپ صدر بن گئے، تو انھوں نے محمد بن سلان کو سعودی عرب کا ابھرتا ریجنٹ ، جنگ کا آرکیٹکٹ اور سب سے سے چہیتے بیٹے کے طور پہ پیش کیا۔گوشتہ سال جب جیرڈ کشنر نے 110 ارب ڈالر کے اسلحے کے فروخت کا معاہدہ محمد بن سلمان سے کیا تو بہت کم لوگوں نے ان ہتھیاروں کے یمن کی جنگ میں استعمال ہونے کے امکان کو بنیاد بناکر سوال اٹھائے تھے۔ لیکن قحط، ہیضہ، شادی بیاہ کی تقریبات پہ بمباری کی خبریں بہرحال کسی نہ کسی طرح امریکی شعور تک رس رس کر پہنچتی رہیں۔ مارچ میں 44 سینٹرز نے امریکہ کی یمن کی جنگ کی حمایت ترک کرنے کے حق میں ووٹ دیے اور یہ قرار داد 11 ووٹوں کی کمی سے منظور ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اگست میں اسکول بس پہ بمباری نے ان آوازوں میں اور اضافہ کردیا۔ پھر اکتوبر میں سعودی صحافی جمال خاشقجعی کے قتل اور لاش کے ٹکڑکے ٹکڑے کرنے جیسا واقعہ پیش آیا جس میں بظاہر محمد بن سلمان کا ہاتھ تھا تو اس نے سعودی ولی عہد اور یمن کی جنگ کو نئے حقائق کی روشنی میں دیکھنے پہ مجبور کردیا۔

 

یمن کا نمائشی صدر اب بھی عبد ربہ منصور ھادی ہے، یہ 73 سالہ بوڑھا پیالے کی طرح گنجے سر کا مالک ہے۔ یہ اس حکومت کا سربراہ ہے جسے سعودی عرب اور امریکا بین الاقوامی طور پہ منظور حکومت کہتے ہیں۔ ایک ایسا فقرہ جو شرمناک جواز پیش کرتا ہے۔ ان الفاظ کے پیچھے مالیخولیا کردینے والی یہ حقیقت چھپی ہے کہ یمن بطور ایک قوم کے اب موجود نہیں ہے۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ قوم تو یہ کبھی بھی رہا ہی نہیں۔ جب 2011ء میں بہار عرب شروع ہوئی تو امید پرستی کے لیے وہ قابل اطمینان لمحہ تھا۔ اور اسی نے یمن کے مرد آہن علی عبداللہ صالح کا اقتدار ختم کیا تھا۔لیکن یہ امیدیں تخلق خانہ جنگی میں بدل گئیں۔ اب یمن بہت سے دھڑوں اور جنگی لارڈز کے درمیان ایک ایسے صدر ھادی کا نظارہ کررہا ہے جسے عالمی طور پہ ایک مکار کٹھ پتلی کے طور پہ جانا جاتا ہے۔ حقیقی طاقتیں یمن کے جنوب اور مشرق میں اس وقت غالب ہیں وہ کئی ایک مسلح گروہوں اور جہادیوں کا مجموعہ ہیں جن میں القاعدہ بھی شامل ہے جسے زیادہ تر سعودی عرب یا یو اے ای کی حمایت و سپانسر شپ حاصل رہی ہے۔ ان گروپوں کے قبضے میں وہ جگہ ہے جہاں سے آپ اس ملک میں داخل ہوسکتے ہو ، جبکہ اس ملک کی فضاؤں اور سمندر کی سخت ناکہ بندی جاری ہے۔  

میں عدن کی طرف گیا، جو کہ جنوبی ساحلی بندرگاہ ہے کسی زمانے میں یمن کا سب سے بڑا کاسموپولیٹن شہر تھا جہاں جابجا نوآبادیاتی دور کی باقیات تھیں۔ کچھ سال پہلے تک، عدن میں بڑی کشش تھی۔ وہاں پہ ایک بہت اچھا چینی ریستوران تھا جسے ایک ایسا آدمی چلاتا تھا جس کا باپ 1940ء میں عدن آیا تھا اور اس ریستوران میں ہر وقت چینی، ہندوستانی، عرب، افریقی بھرے رہتے تھے۔

 

یہاں پہ شیعہ مساجد، مسیحی کلیسا  تھے اور حجاز میں یہی واحد جگہ تھے جہاں یہ موجود تھے۔آپ اب بھی ساحل پہ بئیر پی سکتے ہیں اور اس گھرکے پاس سے گزر سکتے ہیں جہاں فرانسیسی شاعر رم بو نے اپنے آخری ایام گزارے تھے یا  آپ اس انگلش پارک کا دورہ کرسکتے ہیں جہاں کوئین وکٹوریا کا مجسمہ تھا جس پہ ہر وقت پرندے سایہ کیے رکھتے تھے۔ عدن نام کے طور پہ تو یو اے ای کی حمایت یافتہ فوج کے زیر کنٹرول ہے، لیکن اصل میں کوئی انچارج نہیں ہے۔ یہ تباہ شدہ کھنڈرات بنی عمارتوں کا شہر ہے۔ ہوٹل بند ہوچکے۔خود ساختہ ‘اصلی مسلمان’ سلفیوں کے گروہ گلیوں میں گھومتے پھرتے ہیں اور اغواء و قتل عام سی بات ہے۔ میرے یمنی دوستوں نے مجھے گھر کے اندر رہنے کی تلقین کی۔

 

حوثی اس کے برعکس ایک پولیس سٹیٹ کی شکل کی ریاست کا انتطام و انصرام سنبھالے ہوئے ہیں۔ ہماری ويزہ دستاویزات پہ حوثی انفارمیشن منسٹری کی مہریں لگیں، ہر ایک چیک پوائنٹ سے گزنے یے بعد بغیر نشان زدہ باڈر کو کراس کرکے وہاں پہنچنے پہ میں سکھ کا سانس لیا۔ حوثیوں نے اپنے علاقے سے القاعدہ کا صفایا کردیا ہے۔ یہ ایک ایسی کامیابی ہے جس کا اعتراف ان کے دشمن بھی حسد سے کرتے ہیں۔

 

میں ساڑھے چار سے صنعا نہیں آیا تھا۔اور یہاں آئی تبدیلیوں ہلادینے والی تھیں: بکھری ہوئی برباد عمارتیں وقفے وقفے سے ظاہر ہوتیں ، خاص طور پہ شہر کے گردو نواح میں۔ صنعاء شہر پہ فضائی حملے اب کمیاب ہیں۔میں نے صرف ایک حملہ دیکھا، ہدف آدھا میل دور تھا: ایک جیٹ طیارے کی کان پھاڑدینے والی باز گشت آتی اور دور کہیں پہ دھویں کے بادل اٹھتے دکھائی دے جاتے۔ سورج غروب ہوتے ہی شہر کا زیادہ تر حصّہ تاریکی میں ڈوب جاتا۔ اب وہاں پہ کوئی پاور گرڈ اسٹیشن نہیں بچا اور بجلی زیادہ تر گیس فیول سے چلنے والے جرنیریٹر سے حاصل کی جاتی ہے۔جنوبی صنعاء میں حددہ سب سے امیر ترین شہر ہوا کرتا تھا وہاں غیر ملکی سیاحوں کی تواضح کرنے والے ہوٹل اب قصہ پارینہ تھے۔ اور ایسے ہی تمام دولت مند یمنی جو آنے والے مغربی باشندوں کو اپنے سیلون میں سنگل مالٹ اسکاچ کا گلاس بھر کر پیش کرتے اور ایسے ان کو خوش آمدید کہا کرتے تھے یہاں سے چلے گئے تھے۔

 

 

حوثیوں کے دارالحکومت میں نشانات واضح ہیں۔ صدر صالح کی بڑی بڑی تصویریں کب کی گم ہوکیں اور ان کی جگہ حوثیوں کا ٹريڈ مارک لے چکا ہے جسے ‘سرخا / چیخ کہا جاتا ہے اور اسے سرخ اور سـبز رنگ کے ساتھ سفید پس منظر میں پینٹ کیا جاتا ہے اور یہ ہے: اللہ اکبّر، امریکہ مردہ باد، اسرائیل مردہ باد، صہیونیت پہ لعنت، اسلام کی فتح ہو’۔ تحریک کا سرکاری نام’انصار اللہ’ بھی جگہ جگہ آنرشپ سٹمپ کی طرح پینٹ ہے۔ حوثی شہداء کے چہرے ہر ہآئی وے پہ بڑے بڑے بل بورڈز پہ جھلکتے ہیں اور ریڈیو پہ جنگی ترانے دن رات چلتے رہتے ہیں۔ بدحالی کا شکار مرد اور لڑکے بعض تو مشکل سے ٹین ایج لگتے ہیں سارے شہر میں بنی چیک پوسٹوں پہ کاروں کو روک کر تلاشی لیتے نظر آتے ہیں۔

ایک رات صنعا میں،میں نے ایک کم عمر سکاؤٹ لڑکی کو دیکھا وہ زور سے چلارہی تھی،” یمن کسی کی غلامی قبول نہیں کرے گا۔” اور وہ ایک یوتھ پریڈ مارچ کا حصّہ تھی۔ بیرونی غلبے کے خلاف مزاحمت حوثیوں کی تحریروں، تقریروں، بینرز پہ لکھی عبارتوں اور ترانوں تک کا مرکزی خیال ہے۔ اس سے آگے جاکر، ان کا جو سیاسی پروگرام ہے وہ خالی سا نظر آتا ہے۔وہ اپنی ساخت کے اعتبار سے ایک ایسی ملیشیا ہیں جن کی مذہبی جڑیں ہیں جو ان کو وراثت میں ملی ہیں۔ ان کے سربراہ عبدالمالک حوثی کو ایک روحانی سربراہ کی حثیت دی جاتی ہے۔ لیکن وہ ایرانی طرز کی مذابی پیشوائیت کی حکمرانی پہ یقین نہیں رکھتے۔

حوثیوں نے ایک نئی انتظامی ادارہ متعارف کرایا ہے ،یہ 10 رکنی سپریم پولیٹکل کونسل ہے، جو کہ اپنا زیادہ وقت فوجی اور سیکورٹی مسآئل پہ غور و فکر میں گزارتی ہے۔ انہوں نے پرانی بیوروکریسی کو اپنی جگہ پہ برقرار رکھا ہے اگرچہ وہ ابتک ان کے لیے کچھ زیادہ نہیں کا اور سرکاری ملازمیں کو تنخواہوں کی مد میں کچھ نہیں ملا کیونکہ کٹھ پتلی صدر ہادی منصور سنٹرل بین 2016ء میں عدن لے گیا۔ حوثی کے مالی معاملات ابتک پردہ غیب میں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق وہ کسٹم محصولات کی مد میں 30 ملین ڈالر وصول کرتے ہیں جو بندرگاہ، زمینی تجارت پہ لگے محصولات سے وصول ہوتے ہیں۔ اور یہ آمدنی زیادہ تر جنگ پہ خرچ ہورہی ہے۔یمن کا تیل جو کہ حکومت کے لیے سب سے بڑا زریعہ آمدنی تھا حوثی کے زیر کنٹرول علاقوں سے باہر کا ہے۔ صعدہ کے گورنر نے مجھے بتایا صوبائی حکومت کا سالانہ بجٹ 2 لاکھ ڈالر ہے۔میں نے حوثی اشرافیہ کے اندر اسمگلنگ وغیرہ سے امیرہوجانے  کے الزامات سنے ہیں۔لیکن ان کے آپس کے درمیان سودے بازی کا حجم کسی بھی نحاظ سے صالح کی اقربا پروی پہ مبنی لوٹ کھسوٹ سے موازانہ نہین کیا جاسکتا۔ حوثی یونیسیف ،ورلڈ فوڈ پروگرام اور دوسری امدادی ایجنسیوں کے محتاج ہیں تاکہ اپنے ملک کو قحط سے بچا سکیں۔

 

میں نے حسن زید سے پوچھا جو اس تحریک کے بانیوں کے بہت قریب رہا اور اب یوتھ منسٹر ہے کہ حوثی چاہتے کیا ہیں؟ اور ان کا سیاسی وژن کیا ہے؟ اس نے بنا ہچکچائے ہوئے جواب دیا کہ کوئی نہیں، اس کے مطابق حوثیوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کے رویوں کا ردعمل ہیں۔

 

دو ہزار آٹھ میں، میں صنعا کے ایک کورٹ ہاؤس گیا تاکہ اس کیس کو رپورٹ کرسکوں جس میں شمالی یمن کے دور دراز علاقے کے ایک گروپ پہ بغاوت کا الزام تھا۔ اس وقت ، حوثی ایک گمنام گروہ کا نام تھا،یہاں تک کہ یمن میں بھی ان کا نام کم سننے کو ملتا تھا۔ ان کے ٹھکانے سعودی عرب کی سرحد کے نزدیا تھے اور چار سالوں سے وہ یمنی افواج سے لکن چھپی کھیل رہے تھے۔ یہ ساری لڑائی سر تا پا راز تھی۔ کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یمنی حکومت نے ان کو اتنا بڑا خطرہ کیسے سمجھا اور حوثیوں نے اتنے عرصے اپنی طاقت کو چھپائے کیوں رکھا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ چند ہزار مضبوط جنگجوؤں کا ٹولہ تھے۔ حوثی چاہتے کیا ہیں؟ یہ سوال میں اکثر سنا کرتا تھا۔

 

اس زمانے میں انفارمیشن منسٹری دہشت گردی کے بارے میں پمفلٹ بانٹتی جن یں القاعدہ اور حوثی کا ذکر ہوا کرتا۔ ان پمفلٹوں میں حوثیوں کو ایرانیوں کے کٹھ پتلی بتایا جاتا اور ان پہ ایرانی پاسداران انقلاب سے اسلحہ لینے کا الزام عائد کیا جاتا۔میں نے جب اس وقت صنعا میں تعینات امریکی سفیر سے ان الزامات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا تھا کہ ایرانی فوجی سپورٹ کے کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں۔ اصل میں امریکہ کا یہ اصرار تھا کہ یمن کو القاعدہ سے لڑنے کے لیے جو ھتیار فراہم کیے گئے ان کو حوثیوں کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا جو دہشت گرد نہیں سمجھے جاتے تھے۔

میں  اوس صبح عدالت کے احاطے کے باہر ایک گلی کے کونے پہ یمنی صحافیوں کے ایک جھنڈ میں کھڑا ہوا تھاجب ایک آرمڈ گاڑی چلتی ہوئی آئی۔ اس کی کھڑیاں بند تھیں، اور جیسے ہی یونیافارم پہنے گارڈز باہر نکلے، تو ہم نے گاڑی کے اندر سے لوگوں کو ایک آواز ہوکر ‘سرخا’ نعرہ لگاتے سنا۔’ اللہ اکبّر، امریکہ مردہ باد،اسرائل مردہ باد،صہیونیت پہ لعنت، فتح اسلام کی ہوگی’۔ مرد پابازنجیر تھے اور ان کو احاطہ عدالت میں لایا گیا تو تب بھی وہ نعرے لگارہے تھے۔ اس منظر کو لوگ ہنسی مذاق میں دیکھ رہے تھے۔ ایک چیز جو ہم سب حوثیوں کے بارے میں جانتے تھے وہ یہی نعرہ تھا اور یہ یمن کا نائن الیون کے بعد امریکہ سے اتحاد سوچا سمجھا اشتعال انگیز نعرہ تھا اور جنگ کی ایک حقیقی وجہ بھی تھا۔ حوثیوں نے اس نعرہ لگانے کو قریب قریب مقدس فریضہ بناڈالا تھا اور حکومت اسے ایک سیاسی اختلاف اور حربہ سمجھنے کی بجائے اسے بہت بڑا جرم سمجھا کرتی تھی۔

یہان تک کہ حوثی کے اس نعرے یا ان کے بارے میں رپورٹنگ کرنا بھی جرم سمجھا جاتا تھا۔ اسی صبح ایک یمنی صحافی جس کا نام عبدل کریم الخیوانی تھا پہ حوثیوں کی حمایت کے الزام میں چارج شیٹ کیا گیا کیونکہ اس نے حوثیوں کے علاقے کا دورہ کیا تھا اور ان کے بارے میں ہمدردانہ طور پہ لکھا تھا۔ بعد میں ، میں خیوانی سے واقف ہوگیا اور میں نے ایک دوپہر اس کے ساتھ بسر کی۔وہ پہلا آدمی تھا جس نے واقعی حوثی بارے بات کی تھی۔

 

 

 

خیوانی ان لوگوں میں پہلا آدمی تھا جنھوں نے پہلے پہل مجھے حوثی تحریک کے جنم بارے بتایا تھا۔ حوثی خاندان سید خاندان ہیں اور ان کا آبائی علاقہ سعودی سرحد کے نزدیک ایک قصبہ مرّان ہے۔ ایک ہزار سال پہلے سید پس منظر کے حامل زیدی مسلمانوں نے شمالی یمن میں ایک طرح سے شاہی ذات جیسی شئے قائم کی، ان کے نمایاں ممتاز اشراف خاندانوں نے بادشاہ فراہم کیے جنھوں نے اس زمانے میں زیادہ تر حکمرانی کی۔1962ء کے انقلاب کے نتیجے میں بادشاہت جو امامت کہلاتی تھی کا تختہ الٹ دیا گیا اور یہ گروہ جمہوریت مخالف گروپ کہلوایا۔ ان کی حکومت میں شراکت داری پہ پابندی لگادی گئی۔

 

تب 1980ء میں، ایک اور جھٹکا لگا۔ سعودی حکمران جو ایران کے اسلامی انقلاب سے ڈرے ہوئے تھے یمن کے زیدیوں کو بھی مشکوک سمجھنا شروع کردیا۔ سعودیوں نے اپنے سخت گیر سلفی نظریات کو سرحد کے اس پار فروغ دینا شروع کردیا۔ ان ہی کوششوں کا نتیجہ دماج شہر میں ایک سلفی اسکول کا اجراء تھا۔ اسی مدرسہ سے بعد میں القاعدہ یمن کی بڑی قیادت پڑھی۔اس کے ساتھ آل سعود نے یمن کی سیاست کو قابو میں رکھنے کے لیے قبائلی سرداروں، فوجی افسروں اور دوسری اشراف شخصیات کو باقاعدگی سے پیسے دینے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

 

سعودیوں نے دوسرے لفظوں میں فرقہ واریت کی زھریلی شراب اور بدعنوانی کی ایکسپورٹ یمن کو جاری رکھی۔ یہاں تک کہ زیدی جو کہ یمن کی آبادی کا ایک تہائی ہیں کبھی بھی سنّی اکثریت سے نہیں جھگڑے تھے۔ لیکن جلد ہی زیدی ملّاؤں نے بھی اپنے مذہبی خیالات کا احیاء کرنے کی ضرورت محسوس کی تاکہ سعودی پروپیگنڈے کا مقابلہ کیا جاسکے۔ انھوں نے صدہ میں پہلے سمر پروگرام کی بنیاد رکھی اور کہا جاتا ہے کہ اسی نے اولین حوثی لڑاکے پیدا کیے۔ اب وہ جس مذہب کا پرچار کرتے وہ زیدی اسلام کا ایک ایسا چہرہ تھا جو آل سعود اور اس کیے اتحادیوں بشمول امریکہ کے خلاف سخت غصّے میں تھا۔ ان باغی زیدی نوجوانوں میں جو سب سے زیادہ کرشماتی چہرہ تھا وہ حسین الحوثی کا تھا جس نے ستمبر الیون کو ایک مغربی پلاٹ کہہ کر مسترد کردیا تھا اور چند ماہ بعد اس نے اپنی تقاریر میں حوثیوں کا روایتی نعرہ شامل کیا تھا۔ اس نعرہ کا مقصد صدر صالح کو غضب ناک کرنا تھا جو کہ بے تابی سے امریکی کیمپ میں شامل ہونے کے لیے بے تاب تھا اس نے فوری حوثیوں کو ریاست کا دشمن قرار دے ڈالا۔

 

جب میں نے پہلی بار صنعا کی عدالت میں حوثی نعرے کو سنا 2008ء میں تو حسین الخوثی کئی سال پہلے یمنی فوج کے ہاتھوں مارا جاچکا تھا۔ لیکن اس کا نوجوان بھائی عبدالمالک اس کی جکہ لے جگا تھا اور تحریک کی عسکری قوت دن بدن مضبوط ہورہی تھا۔ اس کو ایندھن یمنی حکومت کی اجتماعی سزا کی پالیسی سے کے خلاف پیدا ہونے والے غم و غصے سے ملا۔ صعدہ میں بڑے پیمانے پہ گرفتاریاں ہوئیں جسے دشمن صوبہ خیال کیا جارہا تھا۔2004ء سے 2010ء کے دوران محاصرے کی سی اس کیفیت کا نتیجہ کھلی جنگ میں نکلا۔ راستوں کی ناکہ بندی کی گئی اور فارم تباہ کردیے کئے۔ خوراک کی کمی ہوئی۔ حکومتی ٹینک اور جنگی طیارے نیم بھوک مری کا شکار حوثی جنگجوؤں ‎ کے خلاف استعمال ہورہے تھے۔ حوثی لڑاکے چھوٹے گروپوں میں آزاد یونٹ کی شکل میں لڑررہے تھے اور ایک یونٹ پکڑا بھی جاتا تو اس سے دوسرے خطرے کا شکار نہ ہوتے۔

 

حوثیوں کے ایک ابتدائی لڑاکے دفاع اللہ شامی نے مجھے بتایا کہ وہ درختوں کے پتے کھایا کرتے تھے۔وہ ان دنوں اس جنگ کے ابتدائی دنوں کی تاریخ لکھنے میں مصروف ہے۔ زخموں کے لیے دوائیں نہیں تھیں۔ ہم مقامی جڑی بوٹیوں سے زخموں کا علاج کرنے کی کوشش کرتے  اور اکثر یہ کوشش ناکام ہوجاتی۔ بچے بھوک سے مرجاتے۔ میں خود ایک ایسے گھر میں گیا جس پہ ٹینک کا گولا لگا تھا اور وہاں عورتیں کچن میں ماری گئی تھیں ان کا خون اوون سے رس کر نیچے بہہ رہا تھا۔

شامی اب یمن کی سٹیٹ نیوز ایجنسی کا ڈائریکٹر ہے  جس نے ایک بار اسے ایک حوثی دہشت گرد قرار دیکر اس کی کرفتاری پہ انعام رکھا تھا۔ میں اسے ایجنسی میں صبح ساتھ بجے ملا

 

چھے جنگیں حوثیوں کے لیے بہت سے اسباق لیکر آئیں۔ ان کے لڑاکوں کے اپنی صلاحتیوں کو صقیل کرنے کے بہت سارے مواقع ملے لیکن زیادہ اہم بات یہ ہےکہ یمنی فو ج کی نااہلی نے غیر حوثی سویلین کی اموات میں بھی بڑا اضافہ کیا اور اس سے یمنی قبائل میں اس تحریک کے لیے ہمدردی پھیلی۔ حوثیوں نے ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ کمزور یمنی افواج کے اسلجہ ڈپو لوٹ کر اکٹھا کیا۔2009ء تک حوثی پوری طرح سے  سعودی افواج کو سرحدی جھڑپوں میں روک کر رکھنے بارے پراعتماد تھے۔ حوثیوں نے سعودیوں کو سرحد پار حملے کرکے اور یہاں تک کہ سعودی اسلحہ چھین کر حیران کردیا۔ یہ سعودیوں کے لیے نا بھلائی جانے والی ذلت تھی۔

 

 

دوہزار بارہ میں،جب عرب بہار کا احتجاج یمن تک پہنچ گیا تو حوثیوں نے اسے ایک موقعہ سمجھا۔ دوسرے احتجاجوں سے ہٹ کر، وہ ایک تجربہ کار ملیشیا تھے جو لڑائی میں آزمائی ہوئی تھی۔جوں ہی حکومت گری اور وائلنس بڑے پیمانے پہ پھیلی تو فوج اور حکومت کے وہ متزلزل اراکین جن کو طوائف الملوکی کا خطرہ تھا وہ حوثیوں کے ساتھ مل کئے۔ صدر صالح 2012ء میں استعفا دینے پہ مجبور ہوا اور وہ بھی بتدریج اپنی افواج کے ساتھ حوثیوں سے مل گیا۔ حوثیوں کے لیے یہ اقدام ہلادینے والا تھا جنھوں نے صلح کی اپنے خلاف جنگوں میں بہت کچھ سہا تھا۔ لیکن وہ اپنے ساتھ بہت سارا پیسا اور یمنی فوج کے ایلیٹ دستے بھی لایا تھا۔

 

ایران نے حوثیوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو نوٹ کیا۔ حوثیوں اور ان کے شیعی کزن میں ایک نظریاتی اشتراک بھی تھا۔ اور خاص طور پہ حزب اللہ کی طرز پہ حوثیوں کی ریلیاں منظم ہونے لگیں اور عبدالمالک حوثی کی قد آور تصاویر نظر آنے لگیں۔2013ء میں ٹھوس ثبوت مل گیا کہ ایران اور حزب اللہ حوثیوں کی مدد کررہے تھے۔ لیکن اس مدد کا سعودی عرب کی جانب سے کئی عشروں پہ محیط امداد اور پراکسی سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔2015ء میں جب سعودی عرب نے یمن پہ جنگ شروع کی تو کچھ عرصے بعد ہم نے حوثیوں کی جانب سے سعودی عرب پہ بیلسٹک مزائل داغتے دیکھا جس کا مطلب یہ تھا کہ ایران یا حزب اللہ نے حوثیوں کو بیلسٹک مزائیل فراہم کردیے تھے۔اور اینٹی ٹینک ہتھیار بھی جو انہوں نے شمالی سرحد پہ موثر طریقے سے استعمال کیے۔

 

 

 

 

 

ان روابط کو دیکھتے ہوئے،سعودیوں نے یہ سمجھ لیا کہ حوثی تحریک اب حزب اللہ کی طرح ایرانیوں کا بازو بن چکی ہے۔جب میں نے دفاع اللہ شامی سے اس الزام بارے پوچھا تو وہ دبیز مسکراہٹ کے ساتھ بولا،’ انصار اللہ نے کسی بھی کامیاب تجربے سے سیکھنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔’ ” ویت نامیوں سے ہم نے سیکھا۔ کیوبا والوں سے بھی کہ کیسے جم کر کھڑے ہونا ہے اور مزاحمت کرنی ہے۔ وینزویلا سے بھی۔ تو حزب اللہ بھی کامیاب رہی سو ہم نے ان سے بھی سیکھا”

 

حوثیوں نے ہمیشہ اپنی خودمختاری کی جوانمردی کے ساتھ حفاظت کی ہے، اس کا کہنا تھا کہ وہ ایرانیوں کی جانب سے ان کی پالیسی پہ اثر انداز ہونے کی کوشش کو بھی کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ یوتھ منسٹر حسن زید، نے مجھے بتایا کہ بدرالدین خوثی عبدالمالک حوثی کے مرحوم والد نے شاہ ایران کا تختہ الٹائے جانے کے فوری بعد ایران کا سفر کیا تھا لیکن ان کو وہاں بہت تلخ تجربہ ہوا۔بہت سالوں بعد جب حسین الحوثی نے اس بات کا پتا چلایا کہ ایران نے ان کی سیاسی جماعت جو ‘الحق’ کہلاتی ہے کو کچھ پیسے چندے کے طور پہ دیے ہیں، تو انہوں نے اپنی پارٹی کو اسے واپس کردینے پہ مجبور کردیا۔ زید نے یہ بھی کہا کہ حوثی رہنماء جنھون نے 2013ء اور 2014ء میں تہران اور بیروت کے دورے کیے تھے وہ وہاں سے بہت منف تاثر لیکر لوٹے تھے۔ ان کو لگا کہ حزب اللہ اور ایران ان کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں۔

 

حوثی سیاسی طور پہ نوآموز ہیں، اور یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا ایران ان کے فیصلوں پہ اثر انداز ہوسکتا ہے کہ نہیں۔ ایک خلیج فارس کے سفیر نے انٹیلی جنس زرایع کا حوالہ دیتے ہوئے،مجھے بتایا کہ ایران نے حوثیوں کو اقوام متحدہ کی طرف سے سپانسرڈ امن  بات چیت جو ستمبر میں جینوا میں ہوئی شرکت نہ کرنے کو کہا تھا۔

حوثیوں کا کہنا تھا کہ انھوں نے شرکت سے اس لیے انکار کیا کیونکہ سعودی عرب ان کو اپنی فضائی حدود سے حفاظت سے گزرنے کی ضمانت دینے سے انکار کردیا تھا۔ ایسے اشارے موجود ہیں کہ حوثیوں نے اپنی پالیسیوں کے خدوخال بنانے میں ایرانیوں کے اثر و رسوخ کے خلاف بھی مزاحمت کی ہے اور بعض اوقات اپنی مرضی چلائی۔

علی البختی، حوثیوں کا سابق سیاسی ترجمان ہے اس نے مجھے بتایا کہ ایران اور حزب اللہ نے بہت مرتبہ حوثیوں کو جلد بازی سے روکنے کی کوشش کی۔ جیسے ایران کی حواہش تھی کہ حوثی 2014ء میں صنعاء پہ قبضہ مت کریں اور ان کو اس سے اگلے سال یمن کے جنوبی حصّے پہ حملہ کرنے سے رک جانے کو کہا۔ ان علاقوں میں حوثیوں کو کبھی خوش آمدید نہیں کہا گیا،اور وہاں سے جلد ہی سعودی اتحادی افواج نے ان کو پیچھے دھکیل دیا۔ البختی نے بتایا، 2017 کے آخر مین،حسن نصراللہ نے عبدالمالک حوثی کو بلایا اور اس سے کہا کہ وہ صالح عبداللہ سابق صدر یمن سے تعلقات ختم نہ کریں۔ یہ مشورہ بھی نظر انداز کردیا گیا،حوثی افواج نے صالح عبداللہ کو قتل کردیا، اس کے کئی وفادار ساتھی بھی ما ڈالے گئے، یہ سب گزشتہ سال اس وقت ہوا جب اس نے حوثیوں سے جھگڑا کیا اور یہ اشارہ دیا کہ وہ ان سے ٹوٹ کر سعودی اتحادی فوج سے جاملے گا۔

 

 

میں نے ایک دوپہر ایک درمیانی سطح کے حوثی کمانڈر کے ساتھ گزاری جو میدان جنگ میں لڑنے کے ساتھ ساتھ صنعاء میں اپنے پڑوس میں بطور سپروائزر بھی ڈیوٹی سرانجام دیتا ہے۔ اس کا نام باقل عبداللہ الخولانی ہے۔ ہم ایک دوست کے لیونگ روم میں فرش پہ رکھے کشن پہ بیٹھے تھے اور وہ یمنیوں کی مشہور سوغات گھات کے پتّے چبارہا تھا۔ وہ یمن کی رضاکار فوج کی وردی میں ملبوس تھا۔باقل فارغ اوقات میں اپنے مشاغل بتارہا تھا۔ اس میں گھریلو کام کرنا،فوجی کاموں میں ہاتھ بٹانے کے لیے نوجوانوں کو ریکروٹ کرنا اور ساتھ ساتھ حوثیوں کے فلسفہ پرہیز گاری اور نیکی کی تلقین کرنا جیسے لوگوں کی مدد کرنا، ان کی خوشی غمی میں شریک ہونا، لوگوں کو تعلیم دینا، ان کو قرآن سکھانا” وغیرہ۔ اس نے کہا،” ہم ان کو فحاشی پہ مبنی ثقافت سے اپنی ثقافت کو گندا کرنے سے بچاتے ہیں اور ان کو انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے روکتے ہیں اور غلط قسم کے اثرات سے متاثر ہونے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں”۔باقل نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے وہ معمولی سا سرکاری نوکر تھا۔ حکومت کی وزرات کنسٹرکشن میں اکاؤٹنٹ تھا۔ اس کے پاس پہلے سے کوئی فوجی یا مذہبی ٹریننگ نہیں تھی، اور اس نے بھی وہی بتایا جو اس کے اکثر ساتھی کمانڈرز نے بتایا تھا۔”وہ بھی میرے جیسے ہیں،”،” وہ بھی یا تو کسان ہوتے تھے یا کاروباری یا پھر ٹیچر وغیرہ۔یہاں تک کہ کجھ دیہاڑی دار مزدور تھے۔وہ بہت سادہ لوح ہیں۔”

 

حوثیوں کی میدان جنگ کی حکمت عملیوں کو سختی سے خفیہ رکھا جاتا ہے، لیکن ان کی حربی قابلیتوں کے مناظر پہ مشتمل ویڈیوز سیل فون کے زریعے سارے یمن میں پھیلی ہوئی ہیں اور یہ قابل ذکر حد تک باعث فخر بن گئی ہیں۔ ان میں سے کچھ میں حوثیوں کو سعودی ٹینکوں، آرمڈ گاڑیوں کو کاندھے پہ رکھ کر چلائے جانے والے مزائیلوں سے تباہ کرتے دکھایا گیا ہے۔چند کلپس میں سعودی فوجیوں کو اپنی گاڑیوں سے چھلانگیں لگاتے واپس بھاگتے دکھایا گیا ہے، اور پھر ایک سعودی اسکواڈ پہ گھات لگاکر مارتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ایک دوسری ویڈیو میں، ایک خوثی سپاہی گرجتے ہوئے کہتا ہے،’ اپنے ہاتھ اٹھالو، سعودی،تمہیں گھیر لیا گیا ہے،” اور یہ الفاظ پھر ایک مقبول گانے کی بنیاد بن جاتے ہیں جو کورس میں گایا جاتا ہے۔

 

باقل نے مجھے بتایا کہ 13 افراد پہ مشتمل چھے چھوٹی جنگجو پلاٹون کی کمان اس کے پاس ہے۔ وہ کئی محاذ پہ لڑچکا ہے،اور وہ معنی خیز ہنسی کے ساتھ دشمن اتحادیوں ٹینکوں اور آرمڈ گاڑیوں کو تباہ کرنے کی کہانی سناتا ہے مگریہ نہیں بتاتا کہ ان کے زیر استعمال اسلحہ کون سا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جنگ کی ابتداء میں وہ اتنے مضبوط نہیں تھے جتنے وہ آج ہیں۔ اب ہمیں جن ہتھیاروں کی ضرورت تھی وہ ہمارے پاس ہیں۔ دوسرے حوثی لڑاکوں جن سے میں ملا کی طرح،اس نے بھی کافی بھاری نقصان اٹھائے ہیں۔ اسکا بھائی اور 19 سالہ اس کا بیٹا اس وقت سنائپر کی گولیوں کا نشانہ بن گئے جب وہ اس سے محض  چند قدم آگے تھے۔ ان کا خاندان ابتک سخت صدمے میں ہے مگر اس کی بیوی نے اس سے کہا کہ اب اس کا 17 سالہ دوسرا بیٹا جنگ کے اگلے مورچوں پہ جاکر لڑے گا اور اپنے شہید بھائی کی موت کا بدلہ لے گا۔اس نے مستقبل کے ایک اور فوجی کو جنم دینے پہ اصرار کیا اور نو ماہ بعد ایک اور بیٹا پیدا ہوچکا تھا اور اس کا نام اپنے شہید بھائی کے نام پہ رکھا گیا تھا۔

 

میں نے باقل سے پوچھا کہ وہ کرہ ارض کی سب سے دولت مند اقوام کے خلاف اس لڑائی کو جاری رکھنے کے قابل کیسے ہوئے؟ اس نے جواب میں مجھے ایک کہانی سنائی۔ گزشتہ دسمبر میں، اس نے کہا، وہ صنعا کی ایک گلی میں تھا جب اس نے ایک انتہا خستہ حال بوڑھے کو دیکھا جو اس سے چمٹ گیا اور اس سے کہنے لگا کہ اسے لڑائی کے اگلے مورچوں پہ بھیجا جائے۔ آدمی کی عمر 62 سال تھی اور وہ لڑائی کے لیے اہل نہیں لگتا تھا۔اس کے ایک بازو پہ ابھی تک پرانی جنگ میں لگے زخم کا نشان تھا اور اس نے دل کی تکلیف میں مبتلا ہونے کا اعتراف بھی کیا۔ باقل نے اسے جنگ پہ جانے سے باز آنے کو کہا لیکن وہ آدمی جس کا نام حسین تھا باز نہ آیا اور بار بار ایک ہی فقرہ دوھراتا رہا،” مجھے ایک اچھے راستے پہ اپنی زندگی کا اختتام ہوتے دیکھنے کی اجازت دو۔’

باقل کے بقول آخرکار اس کی بات ماننا پڑی اور حسین اپنے سے کہیں زیادہ کم عمر نوجوانوں کے اس سیلاب میں شامل ہوگیا جو محاذ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ جب دوسری بار اس کو تعینات کیا گیا تو یہ کزشتہ سردیوں کا زمانہ تھا، حسین باقل کے نوجوان بھتیجے کے ساتھ تھا جب سعودی فضائی حملے میں وہ نشانہ بن گیا،وہ شہید ہوگیا۔ باقل نے بھرائی ہوئی آواز میں آہستہ سے کہا۔ اس نے ہاتھ میں گریپ فروٹ کے سائز کی ایک سرخ رنگ کی پلاسٹک کی تھیلی پکڑے ہوئے کہا ہم نے اسے اس تھیلی کے سائز جتنے ٹکڑوں میں پایا اور مزائیل امریکن ساختہ تھے۔

 

جب وہ مجھے یہ قصّہ سنا چکا تو وہ آواز نکالے بغیر آنسو بہاتا رہ،اس کی سیاہ سنجیدہ آنکھوں کے کناروں سے آنسو بہہ کر نکل رہے تھے۔ باقل کے لیے بوڑھے آدمی کا بطور شہید مرنے پہ اصرار ایک خدائی عظمت،اور حوثی تحریک کے مشن کی عند اللہ قبولیت کا اشارہ ہے۔ یقین، باقل نے کہا کہ اللہ پہ یقین، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و علی المرتضی (کرم اللہ وجہہ الکریم) پہ یقین اور اپنے رہنماؤں پہ یقین جیسے سید حسین اور سید عبدالمالک حوثی ہیں اس جنگ میں کامیابی سے کھڑے رہنے کا سبب ہیں۔

 

 

باقل اور دوسرے حوثی لڑاکے جن سے میں نے بات چیت کی وہ سب اپنے آپ کو ایک بلااشتعال جارجیت کے خلاف اپنی سرزمین کا جائز طور پہ دفاع کرنے والا کہتے ہیں۔ لیکن حوثی جنگی پروپیگنڈا بعض اوقات اس سے آگے جاکر یہ کہتا ہے کہ ان کی جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک ول ریاض پہ قبضہ نہیں کرلیں گے اور یہاں تک کہ یروشلم پہ قبضے تک اس جنگ کے جاری رہنے کا پروپیگنڈا بھی کیا جاتا ہے۔ حوثیوں نے سکڈ مزائیل جیسے کئی بلیسٹک مزائیل ریاض،جدہ اور دوسرے شہروں پہ برسائے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے فراہم کردہ پٹریاٹ ڈیفینس مزائل سسٹم ان میں سے اکثر مزائیلوں کو ناکارہ بناتا آرہا ہے۔مارچ میں ان میں سے ایک مزائل ریاض میں پھٹ گیا تھا اور ایک مصری نژاد ہلاک ہوگیا اور متعدد زخمی ہوگئے۔ سعودی عرب اور یو اے ای ان مزائیل حملوں کو اپنی جارحیت کے جاری رکھنے کا جواز بناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے اگر حوثیوں پہ سے چیک اٹھالیا گیا تو یہ اتنے طاقتور ہوسکتے ہیں کہ سعودی عرب کو تباہ کردیں۔شاید مزائیل بیٹریوں کا ایک نیٹ ورک سعودی عرب کی سرحد کے اندر سرنگوں کے زریعے پہنچادیں جیسے حزب اللہ نے لبنان میں قائم کیا ہے۔

 

سعودی عرب کی جنگ کا کیس کسی ایسی جنگی حکمت عملی کے ساتھ نہیں جوڑا جاسکتا جو جنگ جیتنے کی حقیقت پسندانہ سٹریٹجی کہی جاسکے۔ دوسرے  بہت سے عرب ملکوں کی طرح، سعودی عرب نے بھی کبھی ایک طاقتور زمکن فوج تیار نہیں کی کیونکہ اس کے حکمرانوں کو یہ خدشہ رہا ہے کہ ایک مضبوط فوج ان کا تختہ الٹانے کے لیے اسعمال ہوسکتی ہے۔ تمام تر بمباری کے باوجود سعودی عرب حوثیوں کو اپنی سرحد سے دور دھکیلنے میں ناکام رہا ہے بلکہ حوثی حملہ آور اسکواڈ باقاعدگی سے حملہ کرتے اور سعودی عرب کے اندر سعودی زمینی افواج سے لڑتے ہیں۔

 یو اے ای مقامی یمنی گروپوں کو حوثیوں کے خلاف فوجی تربیت دینے اور ان کو مضبوط کرنے میں اتحادیوں میں سب سے زیادہ آگے ہے۔ انہوں نے اس ملک کے لیے ایک متبادل ماڈل کو سامنے لانے میں قدرے بہتر مثال قائم کی ہے۔ مقالہ شہر میں انہوں نے نارمل شہری زندگی بحال کرکے دکھائی ہے۔ لیکن اماراتی اتحادیوں میں کچھ کرپٹ اور انتہا پسند ہیں جو آپس میں ہی لڑنے کی تاریخ رکھتے ہیں۔ ان پہ اپنے اتحادیوں میں سے مقامی یمنی شحضیات کے قتل کا الزام بھی ہے جو ان کے ایجنڈوں کی مخالفت کرتے ہیں۔

 

امارات کی سب سے اولین فوجی ترجیح حدیدہ کا زمینی کنٹرول حاصل کرنا ہے لیکن یہ مہم بہت مشکل اور اب سست روی کا شکار ہوگئی ہے۔ حدیدہ ایسی بندرگاہ ہے جو 70 فیصد خوراک اور ادویات کی سپلائی کا زریعہ ہے اور حوثیوں کا انحصار زیادہ کسٹم محصولات اور تجارتی راہداری پہ ہی ہے۔ امارات کو امید ہے کہ اس پورٹ پہ قبضہ ہونے سے وہ حوثیوں کو اپنی شرائط پہ صلح کرنے پہ مجبور کرسکتے ہیں۔ ایسا معاہدہ جس میں صعنا شہر کا قبضہ چھوڑنے، بھاری اسلحے سے دست بردار ہونے اور ایرانی اثر کو نہ ہونے دینے کی ضمانت کی فراہمی جیسی شرائط بھی ہوں۔ لیکن اکثر تجزیہ کار یمن کے اندر اور باہر جو ہیں ان کے خیال میں حدیدہ پہ اگر یو اے ای زمینی کنٹرول حاصل بھی کرلے تو اس جنگ کا خاتمہ نہیں ہوگا بلکہ اس سے سویلین پہ اور مصیبت ٹوٹے گی جو پہلے ہی بھوک مری کی بہت بڑی آفت کا شکار ہیں۔

 

حوثیوں کے زیرکنٹرول جو علاقہ ہے وہ تباہ و برباد اور کھنڈر بنا نظر آتا ہے۔ خاص طور پہ آپ صنعیا سے جب شمال کی طرف اور شمال مغرب کی پہاڑیوں کی طرف جاتے ہو۔ صعدہ صوبہ، جو کہ حوثی تحرک کے ابھار کا بڑا مرکز ہے اس ملک کا بمباری سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ ہے۔ اس کے مرکزی شہر سے گزرتے ہوئے اس پورےصوبے میں اسمدر تباہی آپ کو نظر آتی ہے کہ اس سارے منظر کی ایک مکمل تصویر بنانے میں آپ چکرا کر رہ جائیں گے۔ کوئی ایک سرکاری عمارت ایسی نہیں جو مسمار نہ ہوچکی ہو۔ کیا ڈاکخانہ، کیا عدالتیں، کیا کلچرل منسٹری اور کیا امیگریشن آفس سب کے سب پتھروں کے ڈھیر اور کھنڈرات بن چکے ہیں۔ یونیورسٹی تباہ ہوچکی ہے، ایسے ہی کتابوں کی دکان جو تھی وہ بھی تباہ ہوچکی ہے۔ بہت ساری دوسری عمارتیں اب بس پتھروں کا ڈھیر ہیں، اسکول، گیس اسٹیشن، ریستوران اور پرائیویٹ ہاؤسز کی بڑی تعداد سب کھنڈر بن چکے ہیں۔

 

بمباری نے 20 لاکھ لوگوں کو اپنے گھروں سے فرار ہونے پہ مجبور کردیا اور ان کو اب ہر جگہ دیکھا جاسکتا ہے۔ایک کیمپ جو داخلی مہاجر یمنیوں کے لیے بنایا گیا ہے صنعا میں شمال کی جانب،میں نے لوگوں کے ایک ہجوم کو دیکھا جو حال ہی میں ان شمالی علاقوں سے فرار ہوکر آئے تھے جہاں پہ بم برس رہے تھے۔ وہ خار دار جھاڑیوں کے گرد لگائے گئے عارضی خیموں میں رہ رہے تھے، اور وہ  ان شامی پناہ گزینوں سے کہیں بدتر حالت میں تھے جن کو میں نے اس ملک کی سرحدوں پہ دیکھا تھا۔ ان خیموں کے ساتھ کچھ اجاڑ خستہ حال کاریں بھی میں نے دیکھیں، اور ان میں سے ایک میں، میں نے ایک پورے خاندان کو پایا۔ وہ ایک ایک کرکے رینگ کر باہر آتے تھے۔ ان سب کی ہڈیاں بہت کمزور اور حالت بہت گندی تھی،بچے ننگے پیر تھے اور ان کے چہرے ایسے ہورہے تھے جیسے زرد مٹی ہو۔ایک بوڑھا آدمی اپنی مصنوعی ٹانگ کے ساتھ چلتا ہوا آیا اور اس نے مجھے بتانے کی کوشش کی کہ کیسے اس نے اپنے گاؤں میں مزائیل حملے کے متاثرین کی مدد کی جب اسے کہیں سے بم کا ٹکڑا لگا۔ وہ محض دس دن پہلے اپنے خاندان کے ساتھ یہاں پہنچا تھا۔ ایک بوڑھی خاتون خیمے کے آگے بیٹھی بار بار آواز لگاتی تھی۔” ہمارے پاس نہ پانی ہے نہ کھانا’ چند ایک بچے مجھے اپنی چوڑی مگر سنجیدہ آنکھوں کے ساتھ خاموشی سے گھور رہے تھے۔ میں نے ایک 12 سالہ لڑکے سے پوچھا کہ وہ یہاں کیوں آئے ہیں تو اس نے کہا،’کیونکہ انھوں نے ہمارے گھروں کو تباہ کردیا ہے۔’

یمن زیادہ تر ایسے پہاڑی علاقوں پہ مشتمل ہے جہاں نیچرل واٹر سورس نہیں ہے۔ وہاں پہ بہت خوبصورت قدرتی مناظر ہیں،لیکن لینڈ اسکیپ اس کے بارانی، مٹی کے ٹیلوں اور اس کے خاکستری کوئلے جیسی چوٹیوں کے ساتھ آتش جہنم کا منظر پیش کرتی ہے۔ ایک مطلق بے آب و گیاہ وادی کا منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ صرف نشبی وادیوں میں درخت دیکھنے کو ملتے ہیں اور کیکر و ببول پتھریلی زمین پہ چھتری سے تانے ملتے ہیں۔    

مرکزی سڑک کے ساتھ شمال کی طرف صنعا شہر سے میں جو سفر کیا تو اس دوران میں نے ہر پل بمباری سے تباہ دیکھا اور ایسا لگتا تھا جیسے جان بوجھ کو یمن کی اقتصادی شاہ رگ سمجھے جانے والے شمالی یمن کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔ اس بمبای کا بڑا اثر تنگی کی شکل میں نکلا ہے گرد کے بادلوں کو آڑاتے ہوئے چٹانی زمین پہ اچھلتی کودتی گاڑیوں کی ایک لمبی قطار نظر آتی ہے۔ اور ہر تباہ شدہ پل کے قریب نقاب ڈالے بہت سی عورتیں پاس سے آہستہ آہستہ گزرتی کاروں کے شیشوں پہ دستک دیتیں، منہ کی طرف اشارہ کرکے بھوکا ہونے بارے بتاتیں اور بھیک مانگتی ہیں۔ ان میں سے کچھ کی چھاتیوں سے بچے لگے ہوتے ہیں۔

 

سعودی اتحادی افواج کی یمن کی ناکہ بندی جو کہ جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی کی وجہ سے اکثر خوراک اور ناگزیر ادویات کی سپلائی میں تعطل کا سبب بنتی ہے۔ اسے ایک جنگی جرم بھی کہا جاتا ہے جیسا کہ انسانی حقوق کے لوگ کہتے ہیں۔ میں نے ایک یمنی برآمدکنندہ سے بات کی جن سے میں سالوں سے واقف ہوں اس نے سعودی عرب کی مستمل اور غیر ضروری گندم کی شپمنٹ پہ روکاوٹ ڈالنے کی شکایت کی ۔ وہ اسے جان بوجھ کر پہلے سے بھوک کا شکار آبادی کی حالت کو اور خراب کرنے کی سوچی سمجھی حرکت قرار دیتا ہے۔ پھر یمنی کرنسی کی قدر بالکل ہی گرگئی ہے اور خوراک کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ سعودی عرب نے صنعاء سے پرروازوں پہ بھی پابندی لکائی ہے اس کی وجہ سے سنگین بیماری کے شکار مریض کا کسی دوسرے ملک علاج کے لیے لیجانا ناممکن ہوگیا ہے۔

 

اس جنگ اور مصنوعی نایابی اشیاء کے مجوعی اثرات پورے ملک کے ہسپتالوں پہ دیکھے جاسکتے ہیں۔ صعدہ میں جمہوریہ ہسپتال کے باہر کے خارجی دروازوں پہ میں نے بہت سے ڈھانچے بنے لوگوں کو زمین یا سٹریچر پہ پڑے دیکھا۔ہسپتال کا کوئی کمرہ ایسا نہ تھا جو مریضوں اور زخمیوں سے بھرا ہوا نہ ہو۔ صوبے کے اکثر ہیلتھ کلینکس بمباری شے تباہ ہوگئے ہیں۔ بلڈنگ کے اندر، داخل ہوتے ہی مجھے خراب ہوگئی فوڈ، پیسنے، پیشاب اور ادویات کی بو کا سامنا ہوا۔ دوسرے فلور پہ ایک کھلے دروازے سے گزرتے ہوئے، میں نے اندر جھاانکا تو براؤن قے کا ڈھیر نظر آیا۔ یہان تک کہ دیواروں پہ بھی ان کے نشان تھے۔ ہر جگہ سر سے پاؤں تک کالے برقعے پہنے عورتوں کو میں نے شیر خواروں کو تھامے دیکھا۔ ان میں سے ایک نے انتہائی نحیق آواز میں مجھے بتایا کہ اس کا بجہ 20 ماہ کا ہے اور سب سے زیادہ خطرے میں ہے۔ ہمارے گھر کے پاس بمباری ہورہی ہے اور ہم خوراک بھی حاصل نہیں کرپاتے۔ ہم آلو کھاکر گزارا کرتے رہے۔ ایک سٹاف ممبر نے مجھے بتایا کہ اکثر مائیں خود غذائی کمی کا شکار ہیں اور وہ اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلا سکتیں۔ کچھ خاندان تو پتے کھانے پہ مجبور ہیں۔ .

ایک ڈاکٹر مجھے ائی سی یو میں لے گیا، جہاں بدترین غذائی کمی کا شکار مریضوں کو ڈیل کیا جارہا تھا۔شیر خوار اور کم عمر بچے میٹریس پہ لیٹے ہوئے تھے اکثر کے پیٹ ان کی کمر سے لگ چکے تھے اور ان کے منہ بری طرح سے کھلے ہوئے اور آنکھیں ویران تھیں۔ ہمارے اردگرد مکھیاں بھن بھی کررہی تھیں۔۔ ایک سٹاف نے مجھے بتایا کہ جولائی سے ابتک انتہائی تشوشناک حالت کا شکار بچوں کے کیسز میں اضافہ ہوگیا ہے پہلے ہر ماہ 30 سے 50 کیس آرہے تھے اب ہر ماہ 100 کیس آرہے ہیں۔ ہیضہ، اسہال اور قے کی بیماریاں آسمان کو چھو رہی ہیں اور ہم نے ایسی صورت حال اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ صعدہ صوبے میں غذائی کمی کا شکار بچوں کی شرح 70 فیصد ہوگئی ہے۔اور یہ بجران کئی عشروں تک چلے گا۔

اس جنگ کا ایک اور اثر ہے جس پہ ابتک کم توجہ دی گئی ہے اور وہ ہے پیدائشی نقص اور چائلڈ کینسر۔ میں نے جن ہسپتالوں کا دورہ کیا ان میں نومولود بچوں میں پیدائشی نقص اور چائلڈ کینسر کی بڑی شرح پائی۔ایک حوثی فوجی نے مجھے اپنے نوملود بیٹے کی پرنٹ رپورٹ دکھائی جس میں اس کے بیٹے کے ایک گردے کو پیدائشی ٹیومر کا شکار بتایا گیا تھا جسے ہٹانا تھا۔ اس فوجی کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان میں کینسر کی بیماری کبھی نہیں رہی تھی۔

 

 

چند دنوں کے بعد میں یمن کے ہیلتھ منسٹر ڈاکٹر طہ متوکل سے ملنے میں کامیاب ہوگیا اور میں نے ان سے جو سن چکا تھا اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے زور سے اثبات میں اپنا سر ہلایا اور پھر مجھے تین صفحوں کا ایک پرنٹ آؤٹ پکڑا دیا جو جنگ کے آغاز سے لیکر ابتک کینسر کی بیماری کے بدتر شکلوں میں اضافے کے ساتھ سامنے آنے کی نشاندہی کررہے تھے۔ کینسر کا مرض پہلے ہی ویادہ تھا لیکن اب اس میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ کینر کی ہر ایک قسم خاص طور پہ بچوں میں ظاہر ہورہی ہیں۔ پیدائشی طور پہ بیماری کا شکار بچوں میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ بمباری سے مٹی اور ہوا میں جو زھر پھیلا ہے اس کا یہ نتیجہ ہے لیکن وہ اسے ثابت نہیں کرسکتے۔ انہوں الارمنگ اعداد و شمار پیش کیے۔ اس جنگ میں 85 میڈیکل ورکرز ہلاک اور 231 زخمی ہوئے ہیں۔ بہت سی ادویات اب دستیاب ہی نہیں اور کئی ایک بہت تھوڑی ہیں۔ گردے کے امراض میں مبتلا 1200 مریض ڈائلسز نہ ہونے کی وجہ سے مرگئے۔ڈھائی لاکھ شوگر کے مریض انسولین نہ ہونے کے سبب مرنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اور یہ نایابی ان کے لیے بھی ہے جن کے پاس پیسہ اور وسیع تعلقات ہیں۔ ڈاکٹر متوکل کے نوجوان معاون ڈاکٹر نے بتایا کہ اس کا کزن زیابیطس کا مریض تھا اور میں نے اس کے لیے انسولین کی فراہمی نہ ہوے بارے وزیر صحت کو بتایا تھا لیکن وہ بھی یہ نہ دلاسکے اور وہ میر کزن مرگیا۔

 

جنگ نے بہت تیزی سے کم عمری کی شادی میں پھر سے اضافہ کردیا ہے۔ کم عمری میں لڑکیوں کی شادیوں میں کمی یمن میں سول سوسائٹی کی بڑی کوششوں کے بعد آئی تھی لیکن جنگ نے اس کو پھر سے تیز کردیا ہے۔ یونیسیف کے مطابق 2015ء سے کم عمر بچیوں کی شادی کی شرح تین گنا ہوگئی ہے اور اب یہ 65 فیصد ہے۔ اور اس کی ایک وجہ ماں باپ کی جانب سے ان کو کھانا نہ کھلا سکنا ہے۔

 

ستمبر 21،2018 میں حوثیوں نے صعناء میں تحریک کے صعنا پہ کنٹرول کی چوتھی سالگرہ منانے کے لیے ایک بڑی عوامی ریلی کا انعقاد کیا۔ اس ریلی تک پہنچنے کے لیے مجھے کلاشنکوفیں کاندھوں پہ لٹکائے نوجوان لڑکوں کی ایک کے بعد ایک حفاظتی حصار سے گزرنا پڑا۔ سیکورٹی معمول سے کہیں زیادہ سخت تھی۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ ہر کوئی اس خدشے کا شکار تھا کہ القاعدہ کا کوئ خودکش بمبار ان کے اندر آسکتا تھا اور پھر اپنے آپ کو اڑانے کی کوشش کرتا۔ ایک زیدی مولوی لاؤڈ اسپیکر پہ آیات قرانی کی تلاوت کررہا تھا۔ اور گاہے بگاہے وہ مجمع سے لبیک ، یا عبدالمالک’ کے نعرے بھی لگواتا۔ ایک بہت بڑے ہجوم کے اندر سے گزرتا ہوا میں نے لوگوں کو ایک سرخ علم پکڑے ہوے پایا جن پہ ایام عاشورہ کا نشان کندہ تھا جو کہ اسی دن آیا تھا۔

 

ریلی میں مذہبی اور سیاسی علامات گھل مل گئی تھیں اور ان کا مطلب ان مصائب اور تکالیف پہ مبنی چیزوں کو سامنے لانا تھا جس سے مظلومیت کا تاثر ابھرے۔اور اس سے حوثیوں کے بارے میں ظالم ہونے کے تاثر کی نفی ہو۔ مواطنہ ان چند ایک آزاد انسانی گروپوں میں سے ایک ہے جو یمن میں اب بھی کام کررہے ہیں، انھوں نے گزشتہ سان صعدہ صوبے میں جنگی جرائم کی 18 مثالوں کو ریکارڈ کیا تھا جس میں خوثیوں نے ادویات یا فوڈ ایڈ شپمنٹ کی سپلائی لوگوں تک پہنچنے نہ دی۔حوثیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ خوراک و ادویات کی سپلائی میں امتیازی سلوک روا رکھتے ہیں اور وفاداروں کو نوازتے اور اختلاف کرنے والوں کو سزا دیتے ہیں۔

 

بہت سے سیکولر ذہن رکھنے والے یمنی اس بارے میں تاحال یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ حوثیوں کو اپنے ممکنہ اتحادی سمجھیں یا جابر قوتیں۔ جب میں صنعا میں تھا، میں نے بشری المقطری کی طرف سے دیے گئے ایک ظہرانے میں شرکت کی۔وہ ایک ناول نار اور سیاسی کارکن ہیں جن کو میں بہت پہے سے جانتا ہوں۔ وہ بائیں بازو کی ہیں اور عورتوں کے حقوق کی ابتدائی سرگرم علمبرداروں میں سے ہیں۔ انہوں نے حجاب ایک ایسے وقت میں ترک کیا تھا جب ایسا کرنا خطے سے خالی نہیں تھا۔ اورپھر 2011ء میں انہوں نے حفاظت کی غرض سے اسے دوبارہ پہننا شروع کردیا۔ بشری ایک منحنی سی خاتون ہیں جن کا ملیح گول چہرہ ان کی موجودگی کو نمایاں کرتا ہے۔ مچھلی، چارل اور سلاد کی دعوت ظہرانہ پہ گنے چنے دوستوں ، دانشوروں کے ساتھ،انہوں نے اداسی کے ساتھ بتایا کہ ان کو کیوں اپنے آبائی قصبے تعز سے جانا پڑا، جو حوثی کنٹرول سے باہر ہے اور اسے اب اصلاح والے کنٹرول کررہے ہیں جو کہ ایک یمنی اسلام پسند پارٹی ہے جو اصل میں القاعدہ اور سلفیوں کے لوگوں پہ مشتمل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گلیوں میں لڑائی اور قتل و غارت گری عام ہیں، اور شہر کے دسیوں ہزکر لوگ صنعا فرار ہوچگے ہیں۔

 

 

 

 

بشری المقطری کا کہنا ہے کہ اس کو حوثیوں سے کوئی محبت نہیں ہے، لیکن وہ  تعز اور باقی جگہوں پہ شتر بے مہار بندوق برداروں سے بہتر نظرآتے ہیں۔ وہ حوثیوں کو جہادیوں سے علاقے پاک کرنے اور کسی حد تک لوگوں کو سکون سے رہنے کی اجازت کا کریڈٹ دینے کو تیار ہیں۔ دوسرے اکثر دوست بھی اس نکتہ پہ متفق تھے۔اور یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔سابق صدر صالح عبداللہ کے زمانے سے القاعدہ ایک مستقل درد سر کے طور پہ موجود ہے۔ اور 2011ء میں صورت حال اور برتر ہوگئی۔

اس کے بعد 2013ء میں القاعدہ کے عسکریت پسند صنعا میں وزرات دفاع اور ہسپتال میں گھس گئے اور انہوں نے ڈاکٹروں،نرسوں اور مریضوں سمیت کئی افراد کو مار ڈالا۔اور صدر ہادی جن کا سخت گیر اسلام پسندوں سے اتحاد تھا وہ ان کو روکنے میں بے بس نظر آئے۔

 

دوپہر کے کھانے کے بعد ہم بشری کے گھر کے لونگ روم میں کشن پہ بیٹھے تھے اور مہمانوں کے درمیان حوثیوں کے حتمی اہداف اور رجحان بارے گرما گرم بحث چل رہی تھی۔” خدا سے جواز تلاش کرنا ان کی ساری کوششوں کو کم تر کردیتا ہے” ایک ماہر سیاسیات نے حوثیوں کے بارے میں رائے دی۔”وہ درحقیقت ریاست نام کی کوئی شئے نہیں چاہتے۔ان کا بہت زیادہ انحصار قبائل پہ ہے،جو ریاست نہیں چاہتے۔” اس کا کہنا تھا کہ جدید دکھائی دینے والے حوثی ایسی سیاسی شخصیات اور فوجی رہنماء رکھتے ہیں جو بہرحال انسان ہی ہیں۔ایک دوسرے مہمان کا خیال تھا کہ حوثی کسی بھی وقت ہم سے سب کچھ چھین سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک کھلی بحث جس میں ایک دوسرے سے کراس ٹاک بھی تھی شروع ہوگئی اور یہ بات بھی سامنے آئی کہ حوثیوں کے بارے میں یقین سے کچھ نہ کہنا بھی مسئلہ کا حصّہ ہے۔” ایک نچلی سطح کا اہلکار آپ کو جیل میں ڈال سکتا ہے اور پھر کوئی اس سے بڑا اہلکار بھی آپ کو باہر نہیں لاسکے گا۔

 

بشری کے ایک مہمان نے پرزور انداز میں کہا کہ حوثیوں کو مغربی معیارات پہ پرکھنا غلط ہے۔ وہ متبادل سے کہیں بہتر ہیں اور انہوں نے حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی لچک دکھائی ہے۔ اب وہ اور لچک دار ہوکئے ہیں_ وہ ہماری سنتے ہیں۔ سول سوسائٹی کا ان پہ دباؤ ہے اور یہ صعدہ ان کا مضبوط گڑھ نہیں ہے۔

 

یہ ہے وہ مرکزی خیال جو میں نے بہت سے اور لوگوں سے بھی سنا جب میں صنعا میں تھا۔ یمنی صحافیوں کی یونین کے ایک عہدے دار نے دو سال پہلے ہونے والے ایک اجلاس کا ذکر کیا جس میں حوثیوں کی ہائی کمان سے ایک افسر بھی شریک تھا اور وہ ریڈیو اسٹیشنز کے بارے میں چلایا کہ وہ تباہ کن میوزک چلارہے ہیں۔ ان کو صرف جنگی ترانے چلانے چاہيں۔اس موقعہ پہ خاموشی تھی اور کمانڈر نے اس بات کا نوٹس لیا کہ یونین کے سبھی عہدے دار اس کی طرف مشکوک نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ پھر کمانڈر نے پسپائی اختیار کی اور کہا،” ہم طالبان نہیں ہیں۔” ریڈیو اسٹیشن میوزک چلانا جاری رکھیں اور پھر کوئی شکایت نہیں کی گئی۔

 

 

ظہرانے کے وقت ہونے والی بحث چاہے کے آنے تک جاری رہی اور بعد از دوپہر سورچ کی روشنی بشری کے لونگ روم کی کھڑکیوں کے رنگین شیشوں سے چھن کر آرہی تھی وہ بھی کم ہونے لگی۔ بحث و مباحثہ کا زور کم ہوا اور قہقہوں کی جگہ آہستہ آہستہ سرگوشیوں اور پھر خاموشی نے لے لی۔ یمن کی سوگوار حالت زار نے ایسا لگتا تھا کہ ہر ایک کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ میں کھڑا ہوا، خدا حافظ کہتا ہوا رخصت ہوگیا۔

 

بعد میں جب رات چھا گئی تو ،میں نے خود کواس نوجوان حوثی گوریلے بارے سوچتا ہوا پایا جس سے میں چند دن پہلے ملا تھا۔ اس کی بیوی اور آٹھ کا بیٹا سعودی فضائی حملے میں اس کے چار اور عزیزوں کے ساتھ مارے گئے تھے۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ حوثی قیادت امن قائم کرنے پہ اگر راضی ہوگئی تو وہ اس کی پابندی کرے گا،لیکن وہ اس بات پہ راضی نظر نہیں آتا تھا۔ اس نے ماری گئی عورتوں اور بچوں کے نام لیےتو اس کا چہرہ بالکل خالی اور پتھریلا ہوگیا تھا۔ انھوں نے میرے ساتھ جو کیا اس پہ میں ان سے روز قیامت تک لڑائی لڑوں گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here