یہاں لکھنؤ اور دیگر جگہوں پہ بھی، شیعہ-سنّی تعلقات فرقہ وارانہ خطوط پہ استوار نہ تھے۔ کچھ لوگوں میں فرقہ وارانہ تعصبات پائے جاتے تھے، لیکن اکثر نے شعوری طور پہ وسیع پیمانے پہ ایک متحد اور ہم آہنگی کے سماجی و ثقافتی طرز زندگی کے نمونے میں رخنے ڈالنے کی کوششوں کی مزاحمت کی۔

علماء اور مشنری مبلغین کے مناظروں سے ہٹ  کر دوستی اور افہام و تفہیم کے رشتے برقرار رہے کیونکہ تمام طبقات کے شیعہ اور سنّی زبان، ادب اور ثقافتی ورثہ میں اشتراک رکھتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شرر نے اگرچہ قدرے مبالغہ سے کام لیا مگر یہ کہا کہ لکھنؤ میں کبھی کسی نے اس بات پہ توجہ نہیں دی کہ کون شیعہ اور کون سنّی ہے۔28

لکھنؤ نوابی دور میں اور اس سے پہلے قدرے مذہبی تعصبات اور فرقہ وارانہ شاؤنزم سے آزاد تھا۔ لکھنؤ کے شیعہ نواب دہلی میں سنّی حاکموں سے سند نوابی لیتے اور اس طرح سے ایک وسیع المشرب سیاست اور ایک کاسموپولیٹن ثقافتی اور دانشورانہ اخلاقیات کو جنم دینے کا سبب بنتے۔ ان کو 16 ویں صدی میں مغل بادشاہ  جلال الدین اکبّر کے ہاں سے جاری ہونے والی ‘صلح کل’ کی پالیسی وراثت میں ملی تھی۔ واجد علی شاہ کے حوالے سے ایک قول بڑا مشہور ہے، وہ کہتے تھے کہ ان کی ایک آنکھ سنّی اور ایک انکھ شیعہ ہے۔ واجد علی شاہ کے دربار میں وزیر اور دیوان سمیت بلند تر عہدوں پہ سنّی لوگ فائز تھے۔ سنّی افسران سبطین آـاد امام باڑا اور بیت قبہ کا انتظام سنبھال رکھا تھا29 عام طور پہ بات کی جائے تو اودھ کے حکمرانوں کی شیعیت نے جہاں اودھ کی ثقافت کو چمک عطا کی وہیں پہ اس نے شیعہ-سنّی ممکنہ تصادم یا ٹکراؤ سے بچنے کے لیے راستا بھی ہموار کیا۔30

شیعہ-سنّی تنازعے نے دیسی ریاستوں کے اکثر حکمرانوں یا اودھ کے تعلقہ داروں کے اندر فرقہ پرستانہ طاعون نہیں پھیلایا۔ اودھ کے بہت سے شیعہ خاندان، جیسے بلگرام کے سید تھے ان کو حیدرآباددکن کی ریاست میں اہم عہدوں پہ فائز کیا گیا۔ شیعہ-سنّی باہمی شادیاں دیسی ریاستوں میں عام تھیں جیسے رام پور ریاست میں، اور ان شادیوں کا رواج تعلقہ دار خاندانوں میں بھی تھا۔ سیاسی اور ادبّی تنظیموں میں شیعہ اور سنّی ایک مخاذ پہ ہوا کرتے تھے۔ دونوں نے اپریہ 1900 میں متحدہ صوبہ جات کی ناگری قرارداد کے خلاف اردو ایجی ٹیشن میں اکٹھے شرکت کی تھی۔ دونوں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پہ اکٹھے ہوگئے تھے۔وہ مسجد کانپور کے معاملے میں ایک تھے۔ ان کا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مسئلے پہ مشترکہ کاز تھا۔ خلافت کے ایشو پہ انہوں نے متحد ہوکر ہر ایک کو حیران کردیا تھا۔ راجا آف محمود آباد جو کٹّر شیعہ تھے انہوں نے ان مقاصد کو زندہ رکھا۔ انھوں نے نوجوانوں کی سرپرستی کی اور ان کے اخبارات اور ایجی ٹیشن کو مالی مدد بھی دی۔جمیس میٹسن لیفٹنٹ گورنر آف متحدہ صوبہ جات نے رپورٹ دی کہ کیسے ینگ پارٹی کۓ شور مچانے والے جارج مسلمانوں نے راجا صاحب کے گھر کو اپنا مرکز بنارکھا ہے اور ان کے خرچے پہ ایجی ٹیشن چلارہے ہیں۔31

اردو نثر اور شاعری میں بھی ہمیں شیعہ-سنّی کی تقسیم کرنے والے جذبات نہیں ملتے۔ سر سید احمد خان، الطاف حسین حالی ، شبلی نعمانی، مولوی ذکاء اللہ ،مولوی نذیر احمد اور عبدالحلیم شرر فرقہ واریت کے جال سے آزاد تھے۔

28 Sharar, op. cit., pp. 74-5.

29 IBID. This is not to suggest that the Awadh rulers did not express their solidarity with the

Shias or that the Shias were not given preference in appointments. See Michael H. Fisher, A Clash of

Cultures: Awadh , The British, and the Mughals (Delhi, 1987), pp. 65-66.

30 Frietag, op. cit., p. 250

31 Meston to Chelmslord, 20 August 1917, Meston Papers (1), IOLR.

سن 1898ء میں شرر نے ایک ناول ‘حسن اور انجیلینا’ تحریر کیا جس کا مرکزی خیال شیعہ-سنّی تعلقات تھے۔ شیعہ-سنّی کی درجہ بندی اردو کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کے لیے بہت ہی اجنبی تھی۔ انہوں نے کوئی فرقہ وارانہ بیج نہیں لگایا اور نہ ہی کوئی فرقہ وارانہ رنگ اختیار کیا۔ ان کو خالص موحد اور خالص مومن ہونے کا سودا تھا۔ تو وہ اپنے آپ کو یہی سمجھتے تھے۔  کچھ نے ان کو شیعہ کہا اور کچھ نے ان کو تفضیلی کہا ہے۔ غالب اپنے آپ کو اس قسم کے متضاد غیر متوازن دعوؤں میں گھیسٹے جانے پہ خوش تھا۔ ایسے عظیم لوگوں کی وسیع المشربی کے سبب یہ کنفیوژن ضرور ابھرتا تھا کہ ان کا جنازہ کس طرح سے ادا ہو۔

دکھنی اور جدید اردو شاعری دونوں میں منقبت امام علی اور مرثیہ بھرے ہوئے ہیں اور ان کو شیعہ اور سنّی دونوں نے لکھا ہے۔حسین ہر شخص کا ہیرو ہے اور اسلامی تقوی ، ہمت اور کمٹمنٹ کی  علامت ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی قربان کردی مگر ایک ایسے خون آشام ذہنیت کے مالک خون خوار حاکم سے سمجھوتہ نہیں کیا جو کہ ایک تباہ کن سیاسی و سماجی نظم پہ حکمرانی کررہا تھا۔ ان کی مثالی شہادت نے مولانا محمد علی جوھر کو متاثر کیا جو کہ شعلہ انگیز خلافتی لیڈر تھے۔ ان کا یقین تھا کہ یزید تو دریائے فرات کے کنارے جیتا تھا، لیکن حسین انسانی مخلوق کے دلوں دماغ مسخر کرگئے۔ اور روح انسانیب کربلاء کے مظلوموں کی فتح اور کامیابی کی گواہی دیتی ہے اور یہ دی جاتی رہے گی۔32

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

محمد اقبال ( متوفی 1938ھجری) نے بھی ایسے خیالات کا اظہار کیا ہے

غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم

نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل

حسین ایک انسان کامل کا نمونہ تھے جو اللہ کی وحدانیت کے دفاع کی کوشش میں دنیاوی حکمرانوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوجاتے ہیں۔ ہر زمانہ ایک نئے یزید کو سامنے لیکر آتا ہے، لیکن ظلم کے خلاف مزاحمت کے حوالے سے حسین ایک اساطیری مثال ہیں اور وہ ہر ماننے والے پہ اسے لازم کرتے ہیں33۔ امام حسین اور کربلا کے پیراڈائم کا اطلاق کرتے ہوئے اقبال یہ پیغام سناتے ہیں

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری

32 Mohamed Ali to A.A. Bukhari, 19 November 1916, in MUSHIRUL Hasan (ed.), Mohamed Ali

in Indian Politics: Select Writings 1906-1916, vol. 1 (Delhi, 1985), p. 301. 33 Quoted in A. Schimmel, Gabriel’s Wing: A Study into the Religious Ideas of Sir Muhammad

Iqbal (Leiden, 1963), p. 167.

یہ سب امام حسین، محرم، کربلاء کے بطور ایک زندہ اور متحرک ہندوستان کے مشترکہ ثقافتی عمل کے علامتوں  کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور مختلف مذہبی ثقافتوں کے باہم گھل مل جانے اور مختلف مذہبی عقائد اور رسومات کے باہمی اختلاط کو نمایاں کرتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here