ادارتی نوٹ:56 سالہ واحد بلوچ لیاری کے قدیم ترین علاقے کالا کوٹ کے رہائشی ہیں۔ لیاری کی سیاسی،سماجی اور ادبی زندگی کے اہم ترین گواہوں میں سے ہیں۔ بلوچ شعر و ادب میں دبستان لیاری کی تدوین میں ان کا نام جلی حروف سے لکھا جائے گا۔ 70 سے زائد کتابیں ابتک انھوں نے مدون کرکے شایع کی ہیں۔ وہ لیاری میں رہنے والے ممتاز ترین بلوچ شاعروں، ادیبوں، سیاسی کارکنوں اور سماجی شخصیات کے انٹرویوز کا ایک انسائیکلوپیڈیا تیار کررہے ہیں اور وہ لیاری کی سماجی و سیاسی و ادبی تاریخ کا ایک ریکارڈ مرتب کرنے کی کوشش میں ہیں۔ وہ ایک فعال سماج واد بھی ہیں۔ کراچی شہر کی اکثر ادبی و سماجی سرگرمیوں میں وہ عملی طور پہ شریک نظر آتے ہیں۔ وہ جبری گمشدگی کے تجربے سے بھی گزر چکے ہیں جو بقول ان کے ‘نامعلوم’ کی غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔ ایسٹرن ٹائمز نے ان سے بات چیت کا خصوصی اہتمام کیا۔ اس بات چیت کے کچھ حصّے ہم یہاں اپنے قارئین کے ساتھ شئیر کررہے ہیں۔

ای ٹی : آپ کی ابتدائی زندگی کہاں پہ بسر ہوئی؟

واحد بلوچ: میری والدہ نے مجھے بتایا کہ وہ لیاری کے واحد ہسپتال ہولی فیملی  میں داخل ہوئیں اور 10 جنوری 1962ء شام چار بجے وہیں پہ میرا جنم ہوا تھا۔ اس زمانے میں کتھرین ڈی اینگلو کرسچن وہاں پہ ہوا کرتی تھیں۔ ان کا تعلق گوا کیرالہ انڈیا سے تھا۔ وہ پورے لیاری میں اس زمانے میں بھی سائیکل پہ گھوما کرتیں اور لوگوں کو کہتیں کہ گھر پہ بچہ پیدا مت کریں، ہسپتال آئیں اور اس سے زچہ بچہ دونوں کی جان محفوظ رہے گی۔ اپنی والدہ سے میں نے ان کے بہت قصّے سنے۔ اور میں نے بعد میں ہولی فیملی ہسپتال جاکر ان کے بارے میں معلوم کیا تو مجھے پتا چلا کہ ان کو تو فوت ہوئے ایک عرصہ گزر گیا اور ان کی قبر گورا قبرستان میں ہے۔ میں گورا قبرستان گیا  اور وہاں پہ ان کی قبر تلاش کی اور کتبہ بھی پڑھا۔

میں نے جب شعور سنبھالا تو میرے گھر کا ماحول ادبی و سیاسی دونوں ہی تھا۔ میرے والد پاکستان بننے سے پہلے جمعیت علمائے ہند میں تھے اور انہوں نے تحریک خلافت میں بھی حصّہ لیا تھا۔ پھر ان کا رجحان آل انڈیا نیشنل کانگریس کی جانب ہوگیا۔جب پاکستان بنا تو وہ قوم پرست سیاست کی طرف مائل ہوگئے اور نیشنل عوامی پارٹی-نیپ کا حصّہ بن گئے۔ میرے چچا تھے وہ بھی نیپ میں تھے اور بھائی وغیرہ بھی نیپ میں تھے۔ سب سے مجھے سیاست اور ادب پہ بہت کچھ سننے کو اور پڑھنے کو ملا کرتا تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میرے اندر پڑھنے لکھنے اور سیاسی و ادبی لٹریچر کو پڑھنے کا شوق گھر کی فضا سے ہی پروان چڑھا ہوا تھا۔

ای ٹی : باقاعدہ ترقی پسند ادب و سیاست سے کیسے جڑے؟

واحد بلوچ: میں جب فرسٹ ائر کے طالب علم کے طور پہ لیاری کالج میں پہنچا تو میری بائیں بازو کے ساتھیوں سے ملاقاتیں شروع ہوگئیں۔ اس میں سب سے زیادہ میری ملاقاتیں رند بخش لال کامریڈ سے رہیں۔ لیاری میں پاکستان بننے سے پہلے یہاں سب سے مضبوط سیاسی جڑیں کانگریس اور جمعیت علمائے ہند کی تھیں۔ اور اس زمانے میں کمیونسٹ انڈر گراؤنڈ کام کرتے تھے تو ان کے رابطے بھی کانگریس سے ہوتے تھے اور وہ کانگریس سے مل کر کام کرتے تھے۔ غوث بخش بزنجو بھی یہیں لیاری میں ہوا کرتے تھے۔ یہیں وہ فٹبال کھیلتے اور یہیں سیاست کیا کرتے تھے۔ تو لیاری نیپ کا گھر تھا۔ مولانا محمد علی جوہر پہ جو کراچی میں کیس چلا تو وہ قید کے بعد لیاری میں 21 روز رہ کر گئے تھے۔ ایسے ہی نیپ بھاشانی کے سربراہ مولانا عبدالحمید بھاشانی جب کراچی میں آتے تو لیاری آکر ٹھہرتے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ لیاری ہی کراچی میں ایک ایسا علاقہ ہے جہاں پہ سیاسی کارکنوں کی کمی نہیں ہے۔ایسے ہی بنگلہ بدھو شیخ مجیب الرحمان نے بھی کراچی میں جب رہنا ہوتا تو وہ لیاری میں آکر رہا کرتے تھے۔ ان کا تو لیاری میں اپنا مکان تھا۔

ای ٹی: لیاری میں بلوچی ادب کی کیا صورت حال تھی؟

واحد بلوچ : سب سے بنیادی بات میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ لیاری صرف لیاری میں رہنے والے بلوچ ادب و شاعری کے شایع ہونے کا مرکز نہ تھا بلکہ بلوچستان میں بھی جتنے شاعر و ادیب تھے ان کی کتابیں لیاری سے ہی چھپا کرتی تھیں۔ گل خان نصیر کی  کتابیں یہیں لیاری سے چھپ کر ملک بھر میں لوگوں تک پہنچی تھیں۔ اور پھر ایرانی بلوچستان کے لوگوں کی کتابیں بھی یہیں سے شایع ہوتی رہیں۔ مجید گوادری کی کتب یہیں سے شایع ہوئیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لیاری میں 1929ء میں بلوچ لیگ کے نام سے ایک موثر نمائندہ تنظیم بن گئی تھی۔ غلام محی الدین نور بلوچ اس کے بانیوں میں سے تھے۔ ان کے ساتھ مولوی عثمان اور مولوی عبدالصمد سربازی تھے۔ سربازی بعد ازاں ریاست قلات کے قاضی بنے۔ میرے والد سربازی کے شاگرد رہے۔ انہوں نے کریما، بوستان و گلستان از شیخ سعدی سے ہی پڑھے تھے۔ ریڈیو پاکستان کراچی اسٹیشن میں پہلی بار بلوچی زبان و ادب پہ پاکستان بننے کے بعد جو پہلا پروگرام ہوا،اس میں بھی لیاری کے عالم فاضل لوگوں نے شرکت کی تھی ان میں مولانا خیر محمد بلوچ ندوی کا نام بہت نمایاں ہے۔

ای ٹی: آپ کی باتوں سے مجھے ایسا تاثر مل رہا ہے کہ لیاری کی ماقبل تقسیم سے پہلے کی سیاسی فضا میں جمعیت علمائے ہند، دار العلوم دیوبند، دار العلوم ندوہ سے وابستہ مولویوں کا خاصا اثر تھا تو کہیں آج کی لیاری میں فرقہ پرستوں کی آبیاری میں لیاری کی سیاسی فضا میں ملاّؤں کے عمل دخل کا ہاتھ تو نہیں بنتا؟

واحد بلوچ : (ہنستے ہوئے) نہیں، اصل میں آپ کا ایسے سوچنا بنتا ہے کیونکہ آج ملّاؤں کے اندر ڈھونڈے سے بھی ویسے کشادہ دل نہیں ملتے جیسے ملّا،میری اور مجھ سے پہلی نسل نے دیکھے تھے۔ مولوی عثمان ہوں کہ مولوی عبدالصمد سربازی یا پھر مولانا خیرمحمد ندوی ان میں سے کوئی بھی کٹھ ملّا نہیں تھا۔

مولوی خیر محمد ندوی تو ہمہ جہت شخصیت تھے۔ وہ ایک طرف مسجد میں امامت کراتے، دوسری جانب ان کو اداکاری کا بھی شوق تھا اور وہ کالج میں ہونے والے تھیڑ ڈراموں میں حصّہ بھی لیا کرتےتھے۔ اور علاقے کے تمام کمیونسٹ، سوشلسٹ اور سیکولر سیاسی و سماجی کارکنوں سے ان کے روابط تھے۔ وہ پہلے شخص تھے جو زیڈ اے بخاری کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ اگر سندھی، بنگالی  و پشتو میں ریڈیو پاکستان پہ پروگرام ہوسکتے ہیں تو بلوچی زبان میں کیوں نہیں؟ زیڈ اے بخاری نے ان کو کہا کہ اگر بلوچی زبان میں کوئی میگزین جتنا مواد موجود ہو تو بلوچی زبان میں پروگرام شایع ہوجائیں گے۔مولانا خیر محمد ندوی نے خود ہی یہ ماہنامہ میگزین بلوچی زبان میں ‘اومان’ کے نام سے شایع کرنا شروع کردیا۔11 سال وہ اس شمارے کو باقاعدہ طور پہ شایع کرتے رہے۔

لیاری میں قوم پرست مولوی سب کے سب سیکولر مزاج کے تحت تھے اور ان کے کمیونسٹوں اور سیکولر قوم پرستوں سے تعلق بہت گہرے تھے۔ وہاں پہ مذہبی منافرت اور فرقوں کی باہمی لڑائی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ میں نے بھی آنکھ کھولی تو کم از کم میری یادداشت میں کوئی ایسا ملّا نہیں ہے جو فرقہ وارانہ منافرت پھیلاتا ہو وہاں اس وقت۔

مولانا خیر محمد ندوی سیکولر قوم پرستانہ سیاسی خیالات رکھتے تھے۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایرانی بلوچستان میں داد شاہ نامی ایک بلوچ باغی انقلابی کو شاہ ایران نے پھانسی چڑھایا اور اس کا خاندان وہاں سے ہجرت کرکے پاکستانی بلوچستان کے علاقے مند میں آگیا اور اس زمانے میں داد شاہ کے بھائی اور بہن کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔ مولانا خیر محمد ندوی داد شاہ بلوچ کے بھائی اور بہن سے ملے اور ان سے داد شاہ کے حالات و واقعات کی تفصیل لی اور انھوں نے داد شاہ پہ بلوچی رسالے ‘اومان’ کا خصوصی شمارہ بھی نکالا۔

ای ٹی: لیاری بقول آپ کے تقسیم ہند سے پہلے اور بعد میں بھی بڑی حد تک فرقہ پرستی سے پاک رہا، یہاں جمعیت علمائے ہند کی روایت کے ملّا تھے یا ندوہ کے تھے وہ بھی ترقی پسند اور نیشلسٹ سیکولر تھے تو لیاری میں مذہبی رائٹ ونگ کب پروان چڑھنا شروع ہوا؟ اور آج لیاری کے اندر جہادی اور فرقہ پرست عسکریت پسندوں تک کی جو موجودگی دیکھتے ہیں، یہ کب اور کیسے آئی؟

واحد بلوچ: لیاری کی صلح کل،رواداری اور سیکولر پرامن فضا میں پہلی بار بدلاؤ ایوب خان کے زمانے میں آیا۔ ایوب خان نے متاثرین منگلہ ڈیم سمیت بہت بڑی تعداد میں ہندکو اور سرائیکی بیلٹ سے لوگوں کو یہآں لاکر بسایا۔ اور ایوب خان نے لیاری کے بلوچوں کو محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کرنے کی سزا دی۔ یہ لوگ لیاری ندی کے آس پاس لاکر بسائے گئے اور آج لیاری کا چئیرمین تک میاںوالی کا پس منظر رکھتا ہے۔یہ ہندکو اور سرائیکی بیلٹ سے آنے والے زیادہ تر دائیں بازو کی فکر اور مذہبی رجعت پرستی کے حامل تھے۔لیکن اس وقت مذہبی عسکریت پسندی نہیں ابھری تھی۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں یہ نئے آباد ہونے والے زیادہ تر سنٹر رائٹ مذہبی خیالات و رجحانات کے حامل تھے۔لیکن یہ صورت حال جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں بدل گئی۔

لیاری نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کو خوش آمدید نہیں کہا اور یہاں کی اکثریت نے اپنا وزن سیکولر جمہوریت پسندوں کے حق میں ڈال دیا۔ اور یہاں پہ پی پی پی اور دیگر ترقی پسند جماعتوں کی مقبولیت کا توڑ جنرل ضیاء الحق نے گینگ بنائے جانے کی حوصلہ افزائی کرکے کیا۔اس زمانے میں یہ گینگز تھے جن کا منشیات اور اسلحے کا کاروبار تھا اور انھوں نے ہی سرائیکی اور پوٹھار بیلٹ سے بڑی تعداد میں مولویوں کو بلایا۔لیاری میں جو غریب مولوی تھے ان کو گینگز نے پیسا دیا اور ان کو مالا مال کردیا۔ اور لیاری میں جنرل ضیآء کے زمانے میں مولویوں کی ایک ایسی بریڈ تیار ہوئی جو تنگ نظر، فرقہ پرست، جہادی مائینڈ سیٹ کی حامل تھی اور اس بریڈ کا بھی زیاد اثر لیاری میں آکر بسنے والے  سرائیکی اور ہندکو بولنے والے والوں میں تھا۔ لیکن خود بلوچ اکثریتی آبادی کے اندر بھی جمعیت علمائے ہند اور پھر ابتداء کی جے یو آئی کی جو ترقی پسندانہ اسلامی سوشلسٹ اور قوم پرستانہ سیکولر ازم کی روش تھی وہ دائيں بازو کی رجعت پرست اور فرقہ پرست نام نہاد جہادی روش سے بدل گئی۔ اج لیاری کے بلوچوں کے اندر بھی جہادیوں،فرقہ پرست عسکریت پسندوں  کی پاکٹس موجود ہیں۔ سپاہ صحابہ/ اہلسنت والجماعت، جماعت دعوہ، تحریک لبیک پاکستان جیسی تنظمیں لیاری کے اندر چھوٹی چھوٹی پاکٹس بناچکی ہیں۔ اس عمل میں پاکستانی حکمران طبقات نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اور ریاستی سرپرستی  لیاری میں مذہبی دائیں بازو کے ابھار میں مرکزی کردار ادا کرتی رہی ہے۔ لیاری میں فرقہ پرستانہ عناصر کے ابھار میں ایک کردار ایرانی بلوچستان سے آنے والے ایسے مولوی حضرات کا بھی ہے جو فرقہ وارانہ بنیادوں پہ کہیں نہ کہیں سعودی نواز رویہ رکھتے ہیں اور وہ ایرانی بلوچستان سے بھاگ کر پاکستان یہاں لیاری میں آگئے۔اور ایران میں انقلاب کے بعد سے اس صورت حال میں زیادہ تیزی دیکھنے کو ملی ہے۔

 لیاری پاکستان کا حصّہ ہے اور جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے مذہبی رجعت پرستی، فرقہ پرستی، گروہ بندی اور افغان جہاد سے جڑی منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ سے بننے والے کالے دھن کی ایک کھپت لیاری میں بھی ہوئی اور ایسے شواہد موجود ہیں کہ جنرل ضیاء الحق اور اس کی باقیات نے لیاری میں اپنے خلاف معاندانہ فضا کو دیکھتے ہوئے اس دھندے کو یہاں پہ بڑھنے دیا اور آج ہم سب نے اس کا نتیجہ بھگتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود لیاری کے اندر آج تک کسی امام بارگاہ یا کسی مزار کو نقصان نہیں پہنچا۔ فرقہ پرست جہادی اور عسکریت پسند بھی شاید یہ سمجھتے ہیں کہ لیاری میں اگر انھوں نے کسی مذہبی عبادت گاہ پہ حملہ کیا یا نقصان پہنچایا تو لیاری میں ان کا رہنا مشکل ہوجائے گا۔

ای ٹی: آپ ایک عرصے تک جبری لاپتا بھی رہے، اس کی کیا وجہ تھی؟ کیا آپ کا تعلق کالعدم تنظیموں سے تھا؟ یا انجانے میں آپ ان کا آلہ کار بن گئے تھے؟

واحد بلوچ: (ہنستے ہوئے) میں جبری لاپتا ‘نامعلوم’ صاحبان بہادر کی غلط فہمی کے سبب ہوا تھا۔ اور یہ غلط فہمی اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ میں باقاعدگی سے جبری لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے ہونے والے احتجاجوں اور بھوک ہڑتالی کیمپوں میں شرکت کرتا تھا۔ میں بلوچی زبان کا رسالہ بھی نکالتا ہوں، بلوچ شاعروں، ادیبوں کے ساتھ میرا اٹھنا بیٹھنا بھی بہت ہے، بلوچ شعر و ادب اور تاریخ کی کتابوں کو اشاعت بھی کرتا ہوں۔ آپ کہہ لیجیے کہ یہ میرا پارٹ ٹائم کاروبار بھی ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ میں سول ہسپتال کراچی میں نوکری بھی کرتا ہوں۔ اندرون سندھ، بلوچستان، خیبرپختون خوا،پنجاب سمیت میرے روابط قوم پرستوں اور کمیونسٹوں سے بھی ہیں۔میں یہاں لیاری میں بھی زمانہ طالب علمی سے بائیں بازو کی سیاست سے جڑا رہا ہوں لیکن میں سیاست کو بھی شعر و ادب کے راستے سے ہی کرتا رہا ہوں اور شاید عملی سیاست سے میرا اتنا لینا دینا نہیں ہے جتنا ایک فعال سرگرم سیاسی کارکن کا ہوا کرت ہے۔ لیکن پھر بھی ‘فرشتوں’ کو نجانے یہ گمان کیسے ہوا کہ میں کوئی ‘بلوچ کرانتی کاری’ ہوں یا پہاڑوں پہ لڑرہے گوریلوں کا سہولت کار ہوں۔ خیر مجھے انھوں نے اندرون سندھ سے واپس کراچی آتے ہوئے ٹول پلازے سے اٹھالیا اور اپنا مہمان بنالیا۔ اور پھر چھوڑ دیا۔

ای ٹی: جبری لاپتا ہونے کے دوران کن حالات میں آپ کے روز و شب کٹے؟ کیا اور بھی لوگ تھے وہاں؟

واحد بلوچ: ابتداء میں رویہ کافی سخت تھا۔ روایتی حربے بھی استعمال کیے گئے۔ لیکن پھر بعد میں تھوڑا ٹھیک ہوگئے۔ وہاں جہاں مجھے رکھا گیا چھے سے سات کمرےتھے اور ایسا لگتا تھا کہ سب میں ہی میری طرح لوگ رکھے گئے تھے۔ مجھے جس کمرے میں رکھا گیا تھا اس کمرے میں میرے ساتھ ایک مبینہ مذہبی شدت پسند کو بھی رکھا گیا تھا۔وہ پہلے تو میرے ساتھ بات بھی نہیں کرتا تھا اور میرے ساتھ کھانا تو اس نے آخری دن تک نہیں کھایا۔وہ مجھے بے دین کہتا تھا حالانکہ میں وہاں بھی پانچ وقت کی نماز پڑھا کرتا تھا جیسے میں قید میں جانے سے پہلے پڑھا کرتا تھا۔ میں نے اسے بتانے کی کوشش بھی کہ سوشلزم، سیکولر ازم کا بے دین ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسے بتایا کہ میں نے ترجمے کے ساتھ قرآن پاک پڑھا ہوا ہے۔مگر وہ مجھے کھنچا کھنچا ہی رہا۔ مجھے قید میں لانے والوں کا رویہ بڑا عجیب تھا انہوں نے مجھے شیو بالکل نہیں کرنے دی اور ‘اندرونی صفائی’ کا بطور خاص پوچھا اور اس پہ زور بھی دیا۔ایسے ہی نماز،روزے کی بڑی تلقین کی جب میں نے بتایا کہ میں پہلے ہی یہ پابندی کرتا ہوں تو ایک صاحب نے کہا،’تو تم ان بے دینوں میں کہاں پھنس گئے۔’اس دوران میری داڑھی کے بال بہت بڑھ گئے تھے۔ ان کو جو معلومات درکار تھیں وہ میرے پاس تھی ہی نہیں۔ اور شاید وقت گزرنے پہ ان کو احساس ہوا کہ وہ غلط بندے کو اٹھا لائیں ہیں جبکہ بعد میں مجھے پتا چلا کہ باہر تو میری جبری گمشدگی پہ کافی آوازیں اٹھیں اور کافی دباؤ بنا۔اور میں رہا کردیا گیا۔ مجھے ابتک سچی بات ہے کہ یقین نہیں ہوتا کہ میں رہا کردیا گیا ہوں۔جبری گمشدگی تو مجھے لگتا ہے بلوچ قوم کا اجتماعی تجربہ بنتا جارہا ہے۔

ای ٹی: آپ جبری گمشدگی کے بعد شاید پہلے سے بھی زیادہ ادبی،سماجی سرگرمیوں میں حصّہ لینے لگے ہیں۔ اب تو آپ کا سارا گھر ہی بلکہ سرگرم نظر آتا ہے۔ کیا رہائی کے بعد آپ کو ‘نامعلوم’ یا یا کسی معلوم قوت نے بلوچ شعر و ادب پہ کام کرنے، بلوچی زبان میں کتابیں شایع کرنے سے یا بلوچی زبان میں رسالہ نکالنے سے منع کیا؟ کوئی دباؤ؟

واحد بلوچ: نہیں ایسا کوئی دباؤ مجھ پہ نہیں پڑا۔ میں آزادی سے اپنا کام کررہا ہوں۔

ای ٹی: لیاری پی پی پی کا گڑھ کیسے بنا اور کیا آج بھی یہ گڑھ ہے؟

واحد بلوچ: لیاری پاکستان بننے سے پہلے اور 60ء کی دہائی تک سیکولر نیشنلسٹ سیاست کا گڑھ تھا اور اس میں بدلاؤ 70ء میں آیا جب یہاں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی کو عروج ملنا شروع ہوگیا اور پیپلزپارٹی کو جب اقتدار ملا اس نے پہلی بار لیاری کو سیوریج سسٹم کی سہولت دی، میٹل روڑ بنوائے اور بڑے پیمانے پہ نوکریاں لیاری کے لوگوں ملیں اور لیاری کے لوگوں کی اکثریت نے پہلی بار خوشحالی آتے دیکھی، بڑی تعداد میں لوگ مڈل ایسٹ روزگار کے سلسلے میں گئے اور وہاں سے آنے والے پیسے نے بھی لیاری کو فائدہ پہنچایا۔ جس وقت جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا تو لیاری کے لوگوں نے پی پی پی کا ساتھ دیا۔ جنرل ضیاء نے لیاری میں جمہوری سیاست کرنے والے سیاسی کارکنوں کے مقابلے میں تاجر، ٹرانسپورٹر، ملّا اور منشیات و اسلحے کی اسمگلنگ کرنے والے گینگ کو راستا دیا اور لیاری کے اندر جان بوجھ کر بدامنی کو راستا دیا۔ پی پی پی کو مسلح جتھوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن عوام کی اکثریت پی پی پی کے ساتھ کھڑی رہی۔

اٹھاسی میں جب بے نظیر بھٹو دوبارہ برسراقتدار آئیں اور سندھ میں بھی پی پی پی کی حکومت بنی تو لیاری کے لوگ پی پی پی کے 88ء کے اقتدار کو 70ء کے زمانے جیسا اقتدار خیال کررہے تھے۔70ء میں پی پی پی کو سنٹر رائٹ سیاست کا سامنا تھا،اگرچہ غنڈا گردی تھی لیکن وہ دہشت گردی کی حد تک نہیں بڑھی ہوئی تھی۔ لیکن 80ء کے بعد پی پی پی کو لسانی اور مذہبی متشدد فار رائٹ گروہوں کا سامنا تھا جو گولیوں اور بموں سے بات کرتے تھے اور اسٹبلشمنٹ میں ضیاء الحق کی باقیات فار رائٹ لسانی و مذہبی جماعتوں کے عسکری ونگز کو جڑ سے اکھاڑنے کی بجائے ان کی سرپرستی کرنے میں مصروف تھی۔ اس صورت حال میں میری نظر میں پی پی پی نے ایک غلطی یہ کی کہ اس نے لیاری میں جن لوگوں کو ایم این اے، ایم پی ایز بنوایا اور لیاری کی تنظیم جن کے حوالے کی انہوں نے پرتشدد سیاست سے نمٹنے کے لیے گینگز میں سے ہی اپنے ہمدرد تلاش کرنا شروع کردیے اور یہ روش اتنی بڑھی کہ ہم نے دیکھا کہ ایک زمانے میں گینگز ہی پی پی پی کو چلانے لگ پڑے اور ان کی مرضی کے خلاف پارٹی ٹکٹ بھی نہیں دیے جاسکتے تھے۔ اس عمل نے لیاری میں سیاسی کارکنوں کو آہستہ آہستہ یا تو نمک کی کان میں نمک بن جانے کا راستا سجھایا یا پھر خاموش ہوکر گھر بیٹھ جانے کا راستا سجھایا۔ عوامی سیاست جو پیسے کی بجائے کمٹمنٹ پہ بنیاد رکھتی تھی وہ زوال پذیر ہوگئی اور آج لیاری کا منظرنامہ کراچی کے سیاسی منظر نامے سے الگ نہیں ہے۔

ای ٹی: حالیہ انتخابات میں بلاول بھٹو چئیرمین پی پی پی لیاری سے ہار گئے اور پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک یہاں سے جیتی ہیں۔ تو کیا لیاری کے عوام نے پیپلزپارٹی کی حمایت کرنا چھوڑ دی ہے؟

واحد بلوچ: لیاری میں اگرچہ پی پی پی کے حوالے سے لوگوں میں 70ء اور 80ء والا جوش تو نہیں ہے لیکن لیاری اب بھی پیپلزپارٹی کا گڑھ ہے اور پی پی پی کے سوا یہاں سے کوئی اور اب بھی جیت نہیں سکتا۔ تحریک لبیک، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کی یہاں بہت تھوڑی سی حمایت تو موجود ہوسکتی ہے لیکن اتنی بھی نہیں ہے کہ ان کے امیدوار پی پی پی کے امیدوار کے مقابلے میں ان کے ووٹوں کا ایک حصّہ بھی لے پائیں۔ عبدالشکور شاد ہو یا کوئی اور سب اصل میں جتوائے گئے ہیں جیتے نہیں ہیں۔ پیپلزپارٹی سے لوگ شکوہ کناں تو ہیں اور لیاری کے مسائل حل نہ ہونے پہ ان کے اندر فکرمندی، غصّہ اور رنج موجود تو ہے لیکن ان کو پی پی پی کا متبادل فی الحال نظر نہیں آتا۔ اور جماعت اسلامی، تحریک لبیک جیسی جماعتیں تو بالکل بھی نہیں ہیں۔ لیکن اس سے پی پی پی کو خوش نہیں ہونا چاہئیے۔ اس مرتبہ پی پی پی کو لیاری کا سماجی خدمات کا انفراسٹرکچر بہتر بنانا ہوگا اور لیاری کی سڑکوں، گلیوں، نالیوں، سیوریج کا نظام اور پینے کا صاف پانی کی فراہمی اور نوجوانوں کو روزگار مہیا کرنے جیسے ایشوز پہ سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔ جیسے جیسے وقت گزرے گا محض بھٹو-بے نظیر کے نام پہ ووٹ لینے مشکل ہوتے چلے جائیں گے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here