Image result for asad alvi poet
اسد علوی

وہ خود کو مڈ نائٹ چائلڈ کے طور پہ پیش کرتی تھیں: وہ بچے جو بدقسمتی سے اس رات کے وسط میں جنمے تھے جس نے برصغیر میں شگاف ڈال دیا تھا اور دو جدید نیشن سٹیٹ پاکستان و بھارت وجود میں آئیں تھیں۔

ایک لمحے میں انسانوں کو باہمی جل کر رہنے والا دھاگہ جو تھا وہ ٹوٹ گیا: ایاک ملک جہاں بہت سی ثقافتیں گھلی ملی کئی صدیوں سے رہ رہی تھیں اچانک سے کمیونل اختلاف کا نشان بن گئیں: ہندؤ ایک طرف،مسلمان دوسری جانب۔ قرون وسطی کی ہندوستانی تاریخ کی یہ کمیونلائزیشن/فرقہ وارانہ تقسیم کالونیل ہسٹریوگرافی/نوآبادیاتی تاریخ نویسی کے زریعے سے کی گئی تھی۔ اور یہ فرقہ وارانہ تقسیم نے اس لمحہ کو فطری بنادیا جب دونوں کمیونٹیز نے اس اسطور/متھ کو اپنے اندر سمولیا اور فیصلہ کیا کہ ان کے الگ الگ وطن ہونے چاہيں۔

میرٹھ کی سرزمیں، جہاں پہ رامائن کی جڑیں ہیں، کو چھوڑ کر فہمیدہ ریاض کے والد ریاض الدین جو پیشہ کے اعتبار سے استاد تھے کو سندھ بھیجا گیا تاکہ وہ نوزائیدہ مملکت کے قومی تعلیمی نظام کی اسکیم بناسکیں۔نئے ملک کے مرد ایک مسلم قومی ثقافت کے لیے مرے جارہے تھے، بالکل ویسے ہی جیسے پڑوسی ایک ہندؤ قومی کلچر کے لیے مرے جارہے تھے۔

فہمیدہ اور دوسری عورتیں، جلد ہی جاننے والی تھیں کہ نئی قوم کی حفاظت کی مردوں کی خواہشیں اس کا ایک استعارہ عورت کے بدن میں پانے والی تھیں۔

سرحد کے دونوں اطراف اصل میں یہی تو ہوا تھا۔ سب سے پہلے اس کا آغاز تقسیم کی وائلنس سے ہوا تھا۔ مرد چاہے کسی بھی طرف کے تھے ان عورتوں کا اغواء کررہے تھے جو ‘دوسروں’ کی تھیں۔ مقصد یہ اشارہ دکھانا تھا کہ انہوں نے دوسری قوم کو ذلیل کرکے رکھ دیا ہے۔ ریپ ایک استعارہ بن گیا: دشمن کی قوم میں دخول، جیسے عورت کے بدن میں دخول ہوتا ہے۔ بتدریج، ایک قوم کودوسرے کے خطرے سے بچانے کا مطلب اس قوم کی عورت کو بچانا تھا۔

ستر اور اسّی کی دہائی ایسے پوسٹ کالونیل ٹراما میں رہنے کی انتہا کی دہائیاں تھیں۔ اندرا گاندھی کی موت پہ ہندوستان میں ان کے ایسے پوسٹر جاری ہوئے جس میں ان کو ایک لہو میں شرابور ماں کو ایک ہندوستانی فوجی کے کاندھوں پہ دکھایا گیا تھا۔

سن 1971ء کے دوران، لتا منگیشکر نے سٹیج پہ ایک ایسی ساری پہنے جلوہ افروز ہوئیں کہ اس کے باڈر پہ ہندوستانی جھنڈا تھا اور انہوں نے ‘ اے میرے وطن کے لوگوں’ گیت گانا تھا۔ عورت کا بدن مجسم ہندوستان بنادیا گیا تھا۔ پاکستان میں بھی اسی سے ملتی جلتی چیزیں پیش کی جارہی تھیں: ضیآء پاکستانی منظرنامے پہ مسلم نیشنلزم کی ایسی خاص سج دھج کے ساتھ ابھرا جس کی طرح کی سج دھج ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ حدود قوانین 1979ء میں منظور کرلیے گئے تھے۔ عورتوں کو ثقافتی طور پہ مستند رعایا کے حامل نظم میں ڈھالا جارہا تھا۔ فہمیدہ ریاض کی عمر اس وقت 32 سال تھی۔ محض پانچ سال پہلے اس کی نظموں کا مجموعہ ‘دریدہ بدن’ شایع ہوا تھا۔ اس وقت تو گویا ایسے لگا جیسے جہنم کے راستے میں ساری روکاوٹ ٹوٹ گئی ہوں۔

بدن دریدہ کو فحش نگاری کہا گیا، جو ‘مسلم ثقافت’۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے جو بھی مرد مراد لیتے تھے کی اقدار کے خلاف گرادانی گئی۔

فہمیدہ نے یہ مجموعہ لندن میں لکھا تھا، جہاں اس نے خود کو ایک ناخوش ازواجی زندگی میں گرفتار پایا۔ یہ گرفتاری سندھ یونیورسٹی سے ان کی فراغت کے فوری بعد ہوگئی تھی۔ اس وقت وہ خود کو سیاسی شعور کا حامل شخص نہ سمجھتی تھیں۔ وہ زندگی اور شادی میں خود کو ایسے گم کربیٹھیں جیسے کوئی مسافر خاموشی سے چلتی ٹرین میں ایک خالی کرسی پہ جاکر بیٹھ جائے۔

فہمیدہ نے لندن میں وقت گزارنے کے لیے کئی شغل اختیار کیے: وہ بی بی سی ریڈیو پہ خبریں پڑھا کرتی تھیں، اور انہوں نے لندن فلم اسکول میں فلم سازی کا کورس کرنے کے لیے داخلہ لے لیا تھا۔ لیکن جلد ہی ایک مڈل کلاس خاتون کی جو شادی زندگی کی مصروفیات ہوا کرتی ہیں نے فہمیدہ کو گھیرلیا۔ 1969ء سے 1974ء کا زمانہ ان کے ذاتی المیہ کے طور پہ دیکھا گیا۔ بدن دریدہ ان چھے سالوں کے دوران غیر معمولی تخلیق کے سوتوں کے پھوٹ پڑنے کے نتیجے میں لکھی گئی۔ ان چھے سالوں کے اخیر میں آخرکار فہمیدہ طلاق حاصل کرنے اور پاکستان پلٹ کر ادبی حلقوں کے لائم لائٹ میں آنے قابل ہوئیں۔

لیکن لائم لائٹ کی کچھ چھائی ہوتی ہیں، جیسے ٹرومین کاپوت نے لکھا،جو آپ کی جلد کو تباہ کردیتی ہیں۔ یہی فہمیدہ کے ساتھ ہوا۔ اس کی نظموں کے موضوعات سخن جنس،مذہب،نسائیت،حمل اور حیض وغیرہ تھے۔ پاکستان ابھی ‘بدن دریدہ’ جیسی کتابوں کے لیے تیار نہیں تھا: تیزی سے جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے تحت بدلتا ہوا پاکستان تھا جس نے قوم کی عزت و عصمت کو عورتوں کے بدن میں رکھنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ فہمیدہ کو بلیک لسٹ کردیا گیا۔ لیکن وہ پاکستان میں ہی رہنے کے لیے پرعزم تھیں، اور جیسے وہ اس کتاب کو لکھنے اور اپنی شادی سے باہر آنے کے پروسس کے دوران بدلی تھیں۔

ضیاء الحق کی طرف سے عورتوں کے بدن کو اسلامی قوم کی عصمت و عزت کی تجسیم بنادینے کے عمل کے دوران فہمیدہ کی ایک کے بعد ایک کاٹ دار تنقید کی حامل نظم ادبی رسالوں میں شایع ہوئی۔ جب ضیاء الحق نے ملک بھر کی عورتوں کے لیے کالی چادر لینا لازمی قرار دیا، فہمیدل ریاض نے اس کا جواب نظم کی صورت دیا جس کا عنوان تھا،’چادر اور چار دیواری’۔
چادر اور چار دیواری

حضور میں اس سیاہ چادر کا کیا کروں گی

یہ آپ کیوں مجھ کو بخشتے ہیں بصد عنایت
نہ سوگ میں ہوں کہ اس کو اوڑھوں

غم و الم خلق کو دکھاؤں

نہ روگ ہوں میں کہ اس کی تاریکیوں میں خفت سے ڈوب جاؤں

نہ میں گناہ گار ہوں نہ مجرم

کہ اس سیاہی کی مہر اپنی جبیں پہ ہر حال میں لگاؤں

اگر نہ گستاخ مجھ کو سمجھیں

اگر میں جاں کی امان پاؤں

تو دست بستہ کروں گزارش

کہ بندہ پرور

حضور کے حجرۂ معطر میں ایک لاشہ پڑا ہوا ہے

نہ جانے کب کا گلا سڑا ہے

یہ آپ سے رحم چاہتا ہے

حضور اتنا کرم تو کیجے

سیاہ چادر مجھے نہ دیجئے

سیاہ چادر سے اپنے حجرے کی بے کفن لاش ڈھانپ دیجئے

کہ اس سے پھوٹی ہے جو عفونت

وہ کوچے کوچے میں ہانپتی ہے

وہ سر پٹکتی ہے چوکھٹوں پر

برہنگی تن کی ڈھانپتی ہے

سنیں ذرا دل خراش چیخیں

بنا رہی ہیں عجب ہیولے

جو چادروں میں بھی ہیں برہنہ

یہ کون ہیں جانتے تو ہوں گے

حضور پہچانتے تو ہوں گے

یہ لونڈیاں ہیں

کہ یرغمالی حلال شب بھر رہے ہیں

دم صبح در بدر ہیں

حضور کے نطفہ کو مبارک کے نصف ورثہ سے بے معتبر ہیں

یہ بیبیاں ہیں

کہ زوجگی کا خراج دینے

قطار اندر قطار باری کی منتظر ہیں

یہ بچیاں ہیں

کہ جن کے سر پر پھرا جو حضرت کا دست شفقت

تو کم سنی کے لہو سے ریش سپید رنگین ہو گئی ہے

حضور کے حجلۂ معطر میں زندگی خون رو گئی ہے

پڑا ہوا ہے جہاں یہ لاشہ

طویل صدیوں سے قتل انسانیت کا یہ خوں چکاں تماشہ

اب اس تماشہ کو ختم کیجے

حضور اب اس کو ڈھانپ دیجئے

سیاہ چادر تو بن چکی ہے مری نہیں آپ کی ضرورت

کہ اس زمیں پر وجود میرا نہیں فقط اک نشان شہوت

حیات کی شاہ راہ پر جگمگا رہی ہے مری ذہانت

زمین کے رخ پر جو ہے پسینہ تو جھلملاتی ہے میری محنت

یہ چار دیواریاں یہ چادر گلی سڑی لاش کو مبارک

کھلی فضاؤں میں بادباں کھول کر بڑھے گا مرا سفینہ

میں آدم نو کی ہم سفر ہوں

کہ جس نے جیتی مری بھروسہ بھری رفاقت

یہ نظم ضیاءالحق کے خلاف حجت بن گئی اور بحالی جمہوریت کے لیے ہونے والے احتجاجوں کے دوران پڑھی جانے لگی۔ فہمیدہ، جنھوں نے فرانز فینن اور آسیہ ڈجیبار کو سندھ یونیورسٹی میں پڑھا تھا، واقف تھی کہ پردہ کئی تناظر میں ڈی کالونائزیشن کے لیے بہت اہم محرک ہے۔ انھوں نے اس مردانہ ڈی کالونائزیشن کومسترد کردیا۔ فینن نے خود بھی مرتے ہوئے کالونیل ازم میں ‘ بے نقاب الجزائر’ کے طور پہ کالونیل پروجیکٹ کی بات کی تھی، جب اس نے الجزائر کو ایک حجاب پوش عورت سے تشبیہ دی جسے کالونائزر/نوآباکار بے حجاب کرنے کی دھمکی دے رہا ہو، جیسا کہ بعد میں ریتا فالکر نے اسے ریپ کا استعارہ قرار دیا۔

اس طرح کی ڈی کالونیل مردانہ تکرار کے ساتھ الجزائر کو ایک ایسی عورت کے طور پہ پیش کیا گیا کہ جسے کالونیل ازم کے ردعمل میں لازمی باحجاب ہونا چاہئیے۔ عورپ سوائے ایک شئے کے کچھ نہ تھی،مردوں کی بنائی ہوئی قوم میں ایک کاموڈیٹی/جنس۔

تو فہمیدہ کی اولین نظمیں، اس چیز کی طرح تھیں جن کو گیاتری سپیوک نے ‘اپنی صنفیت کے اندر کا ایک فہم’ کہتی ہے، اور یہ کہ قوم اور شناخت بہت ہی کسے ہوئے معانی میں محض کاموڈیٹی ہیں: محض تبادلے کی چیز۔ اور عورتیں اس تبادلہ کا میڈیم/زریعہ ہیں۔

‘بدن دریدہ’ ڈی کالونائزیشن کا پہلا اظہار بن گئی جو کہ بہرحال مردانہ اظہار نہیں تھی: جس نے عورت کو بطور موضوع خارج نہیں کیا۔ فہمیدہ نے، بالکل ادبی طریقے سے اور ہر لحاظ سے خود ہی اردو زبان میں ایک نئی تحریک کو پیدا کیا: انہوں نے عملی طور پہ اس چیز کو شروع کیا جسے میری نسل نے ‘ڈی کالونیل فیمنزم/ نوآبادکاری سے پاک نسائی نظریہ’ کہنا تھا۔ لیکن ضیاء خوش نہیں تھا۔ ان کی اس کتاب کے شایع ہونے کے بعد، اور پھر اس دوران درجن بھر ان کی نظمیں جو ادبی رسالوں میں شایع ہوئیں کے ساتھ ہی ان پہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 124 اے کے تحت بغاوت اور ہندوستانی ایجنٹ، غدار ہونے کا الزام عائد کرکے مقدمہ درج کرلیا گیا۔

اور اس طرح سے باقی تمام غداروں کی طرح، وہ بھی جلاوطن ہوگئیں، بالکل ویسے ہی جیسے ذات ، برادری اور قبیلے سے نکال باہر کردیے جانے والوں کو ہونا پڑتا ہے: قبیلے، برادریاں ‘ایک جیسا ہونے’ کی لاجک/منطق کو فعال رکھتے ہیں۔ اور جبکہ ‘دوجا’ ان جیسا نہیں ہے۔ ‘دوجا’ اصل میں ان کے اندر سے ایک ہونے کے وہم کے تاروپود ادھیڑ کے رکھ دیتا ہے۔

لیکن وہ ہندوستانی ایجنٹ تو تھیں نہیں: ہندوستانی بھی پوسٹ کالونی کے طور پہ اسی پروسس سے گزر کر آیا تھا جس سے پاکستان۔ اور مردانہ ڈی کالونائزیشن کی ویسی ملتی جلتی شکلیں وہاں بھی ابھرنا شروع ہوگئیں تھیں جیسی پاکستان میں تھیں تو فہمیدہ نے ان کے خلاف بھی مزاحمت کی۔

فہمیدہ ریاض اپنی ہندوستانی فیمنسٹ ادیبہ دوست امرتا پریتم کی مدد سے ہندوستان جلاوطنی کاٹنے آگئیں۔ یہاں پہ وہ جامیہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی دہلی میں بطور شاعرہ منسلک ہوگئیں اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں وہ سینئر ریسرچ فیلو کے طور پہ وابستہ ہوئیں۔ یہیں پہ فہمیدہ نے سنسکرت سیکھی۔ اور انہوں نے جب 2018ء میں دوبارہ ہندوستان کا دورہ کیا تو بطور ایک ناظر کے وہ حیرت زدہ رہ گئیں اور اسی پہ انہوں نے ہندوستان میں ہندؤ نیشنلزم پہ تنقیدی نظم کہی ۔ نظم کا عنوان تھا،’ تم بھی ہم جیسے نکلے’۔

تم بالکل ہم جیسے نکلے

اب تک کہاں چھپے تھے بھائی

وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن

جس میں ہم نے صدی گنوائی

آخر پہنچی دوار توہارے

ارے بدھائی بہت بدھائی

پریت دھرم کا ناچ رہا ہے

قائم ہندو راج کرو گے

سارے الٹے کاج کرو گے

اپنا چمن تاراج کرو گے

تم بھی بیٹھے کرو گے سوچا

پوری ہے ویسی تیاری

کون ہے ہندو کون نہیں ہے

تم بھی کرو گے فتویٰ جاری

ہوگا کٹھن یہاں بھی جینا

دانتوں آ جائے گا پسینا

جیسی تیسی کٹا کرے گی

یہاں بھی سب کی سانس گھٹے گی

بھاڑ میں جائے شکشا وکشا

اب جاہل پن کے گن گانا

آگے گڑھا ہے یہ مت دیکھو

واپس لاؤ گیا زمانہ

مشق کرو تم آ جائے گا

الٹے پاؤں چلتے جانا

دھیان نہ دوجا من میں آئے

بس پیچھے ہی نظر جمانا

ایک جاپ سا کرتے جاؤ

بارم بار یہی دہراؤ

کیسا ویر مہان تھا بھارت

کتنا عالی شان تھا بھارت

پھر تم لوگ پہنچ جاؤ گے

بس پرلوک پہنچ جاؤ گے

ہم تو ہیں پہلے سے وہاں پر

تم بھی سمے نکالتے رہنا

اب جس نرک میں جاؤ وہاں سے

چٹھی وٹھی ڈالتے رہنا

ایک ایسا ملک جو کبھی کسی شخص کی جلاوطنی کے زمانے کا میزبان رہا ہو، اس کے خلاف ایسے ردعمل دینے کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ لیکن فہمیدہ اسی نایاب قسم میں سے تھی۔ ان کا کوئی ملک نہیں تھا۔ زبان ہی صرف ان کا ملک تھا۔ انہوں نے زبان میں خود اپنے لیے ایک دنیا تخلیق کرڈالی۔

وہ اپنی معاصر ہندؤ عورتوں جیسی ہی تھیں: وہ سب اپنی صنفیت کے اندر جان گئیں تھیں کہ بدن اور خون میں وہ اپنے مردوں سے یا اپنی قوم کے مقابلے میں ایک دوسرے سے زیادہ تعلق رکھتی تھیں۔
جنرل ضیاء طیارے کے حادثے میں ہلاک ہوگیا۔ فہمیدہ ریاض 1988ء میں واپس کراچی آگئیں۔ انہوں نے دو ناول اور شاعری کے کئی مجموعے شایع کیے۔ اس موقعہ پہ وہ عالمی فیمنسٹ سرکٹ کا حصّہ بن گئی تھیں اور انہوں نے یورپ و امریکہ کے ادبی قرآت کے کئی اجلاسوں میں شرکت کی۔ جہاں پہ وہ ڈی کالونائزیشن کے تناظر میڑ ابھرنے والی اسلامو فیلیا اور ہندؤ فیلیا کی کئی شکلوں پہ تنقید کرتی دکھائی دیں۔ اس کے مساوی وہ سفید فام سیکولر لبرل فیمنسٹوں کے اندر نائن الیون کے بعد ابھرنے والے اسلاموفوبیا کی اشکال پہ بھی تنقید کرتی نظر آئیں۔ اس دور میں وہ آئی ایم ایف، امریکہ کی سامراجیت کے خلاف نظموں کا ایک سلسلہ لیکر آئیں جو ان کے مجموعہ کلام ‘آدمی کی زندگی’ میں شامل ہیں۔

دو ہزار گیارہ میں وہ پین امریکہ ایشیا سوسائٹی کے ایک ادبی قرآت کی مجلس میں بطور مہمان مدعو تھیں، وہاں پہ منتظمین نے ان کو ‘اسلامی دنیا کی ‏عظیم نسائی آوازوں’ میں سے ایک آواز کے طور پہ متعارف کرایا تو انہوں نے اس موقعہ پہ جس انداز سے اس پہ گرفت کی اس نے سامعین کو ششدر کردیا۔ اس انداز کو کون بھلا سکے گا۔

فہمیدہ نے سٹیج سنبھالا اور بہت ہی طنزیہ انداز میں جواب دیا: ” میں یہ کہنے سے خود کو باز نہیں رکھ سکتی کہ میرے لیے بڑی خوشی کی بات ہے کہ میں ایک پربیسٹرین کرسچن ملک میں آئی ہوں،اور یہ دیکھ کر سہمت ہوں کہ پروٹسنٹ رومن کیتھولک کے ساتھ امن سے رہتے ہیں اور ان کو ذبح نہیں کرتے”۔ یہ ایک ایسا جواب تھا جس سے ہال میں زور دار قہقہہ ابھرا۔انھوں نے یہیں پہ بس نہیں کیا بلکہ مزید کہا،’ آپ کو معلوم ہے، ہم امریکہ کو ایک مسیحی ملک نہیں سمجھتے۔ لیکن آپ ہمیں بطور مسلمان کے دیکھتے ہیں۔’ انہوں نے ایڈورڈ سعید کا حوالہ دیا اور کہا: ” یہ شاید ویسی ہی چیز ہے جسے ایڈورڈ سعید اورئنٹل ازم کہا کرتا تھا، درست؟ پہلے آپ ان کو ایسے، ایسے بتاتے ہو، پھر آپ ان کو ایسا،ویسا وغیرہ وغیرہ سمجھنے لگتے ہو۔” اس تقریب کے منتظمین نے فہمیدہ سے اعلانیہ معافی مانگی۔

اس طریقے سے فہمیدہ نے ہر اس سیکولر/ ریلجس بائنری کے خلاف مزاحمت کی، جس کو انہوں نے کالونیل ازم کے کام میں مرکزی حثیت کا حامل پایا۔

کالونیلزم ایک ایسا پروسس ہے جو اورئنٹل ازم کے زریعے سے فعال ہوتا ہے جو فوبک/منافرت کے جنون پہ بھی مبنی ہوسکتا ہے اور فیلک/ جنون کی حد تک عشق پہ مبنی بھی ہوسکتا ہے۔ فوبک اورئنٹل ازم کی نمائش اس وقت ہوتی ہے جب سفید فام فیمنسٹ ‘تیسری دنیا کی مسلمان عورت’ کو بچانا چاہتی ہیں، اور اسے پسماندہ، روایتی ، رجعتی بتاتے ہوئے اس کو بچانے کی ضرورت پہ زور دیتی ہیں۔

فیلک اورئنٹل ازم اس کے الٹ ہے: اس کا مظاہرہ مرد پوسٹ کالونیلسٹ کرتا ہے جو زرد فیمنسٹ کو قائل کرنا چاہتا ہے کہ فیمنزم ایک ماڈرن تصور ہے اور اس لیے اس (عورت) کو اپنے ‘مقامی کلچر’ کی طرف لوٹ جانا چاہئیے۔

نظریاتی اعتبار سے فہمیدہ دونوں محاذوں پہ لڑیں تھی، انہوں نے خود کو ایک خطرناک پوزیشن میں دوھرے بندھن میں پایا،جیسے سپیوک ایک منقسم وفاداری بتاتی ہے: ایک عورت ہونا، ایک قوم میں ہونا بغیر مغرب کو اجازت دیے کہ وہ اسے بچائے

تو کیسے فہمیدہ نے اس ظاہری تضاد کو حل کیا؟ ان کو اس کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ ہم بھول رہے ہیں، کہ فہمیدہ آخرکار ایک مترجم بھی تھیں، اور ایک مترجم جانتا ہے کہ کلچر بہت کسے ہوئے معنی میں کوئی مغز نہیں رکھتا۔ اور سوائے زبان کے کلچر کیسے اپنا اظہار کرسکتا ہے؟ زبان تو حرکت میں رہتی ہے تو ثقافتیں بھی متحرک رہتی ہیں۔

فہمیدہ کے خیالات کا جمال نہ صرف ترجمے میں ان کی ترجیحات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کیسے انہوں نے عطیہ داؤد، شاہ لطیف بھٹائی، مولانا رومی اور فروغ فرخ زاد کو ترجمے کے لیے منتخب کیا بلکہ ان کے چشم کشا انٹرویوز سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔

ان کو انگریزی،اردو،سندھی اور فارسی پہ عبور تھا اور ان زبانوں کو انہوں نے اس حد تک سمولیا تھا کہ ان کی ایک کلچر یا زبان میں جڑ تلاش کرنا قریب ناممکن ہوگیا تھا۔

ان کا انٹرویو کرنے والے اکثر یہ کرنے کی کوشش کرتے اور ایک نیشنلسٹ نظریہ غایت ان کے کام پہ مسلط کرنا چاہتے۔ ان انٹرویوز کو اگر ٹرنسکرائب کیا جائے اور ان کی متنی قرآت ہو، یہ انٹرویوز انٹرویو کرنے والوں اور جس سے انٹرویو ہورہا ہے کے درمیاں ایک تناؤ کی نشاندہی کریں گے۔ انٹرویو کرنے والا ان کو جس تصویر/عکس میں بٹھانا چاہتا تھا وہ اس سے انکاری ہوا کرتی تھیں، وہ ان کو جس آئینے میں منعکس کرتا، وہ اس میں منعکس ہونے سے انکاری ہوجاتیں، بالکل ویسے ہی جیسے ایک جیسے ہونے کی منطق کے ساتھ جڑی قوم کے آئینے میں منعکس ہونے سے انھوں نے انکار کیا تھا۔

اس تناؤ کا ایک صنفی سبب بھی تھا: مرد انٹرویو کرنے والے ان کو قائل کرنے کی کوشش کرتے کہ وہ ایک مقامی کلچر کا دعوی کریں؛ وہ اس کوشش کو سبوتاژ کردیتی تھیں۔ سبوتاژ وہ بلند آہنگ ڈیوائس ہے جو ان انٹرویوز کی حرکت کی رہنما ہے۔ یہ فہیمدہ کے لیے شطرنج کے کھیل کی طرح تھا۔ وہ ہماری باہمی بات چیت میں ایسے کھیل کھیلنا پسند کرتی تھیں۔ ایسی بات چیت ہمیشہ بہت انانیت پسندانہ اور طنز و مزاح سے بھری ہوا کرتی تھیں۔ میں ان کے بارے میں خاموش رہنا پسند ہونا چاہئیے۔

فہمیدہ کا کہنا تھا، ‘آپ کو سمجھنا پڑتا ہے کہ کلچر کا کوئی ایسنس نہیں ہوا کرتا، کلچر سیال ہوتے ہیں، ایک دوسرے کی طرف ان کا بہاؤ ہوتا ہے اور وہ نئے کلچر بناتے رہتے ہیں۔ کلچر اسی طریقے سے جنم لیتے ہیں۔ ثقافتوں کا کوئی باہم تصادم نہیں ہوا کرتا۔’
میں سبوتاژ کی جانب واپس پلٹا ہوں: ماسٹر مشین کی اندر سے ارادی طور پہ تباہی۔ فہمیدہ اپنا انٹرویو کرنے والے کو ایسے طریقے سے جواب دیتی جو اس کے سوال کے اندر چھپی غلط منطق کو بے نقاب کرتے ہوئے اسے سبوتاژ کردیتا۔ یہ ایک ردتشکیلیت پہ مبنی مشق تھی۔ مثال کے طور پہ ریختہ کے ساتھ ایک سیمنار میں ہوئے انٹرویو کو کون بھول سکتا ہے، جہاں پہ فہمیدہ سے ایک مرد پوسٹ کالونیلسٹ نے پوچھا: ” آپ نے ابتدائی طور پہ جدیھ نظمیں کیوں لکھیں؟ آپ غزلیں بھی لکھ سکتی تھیں۔۔۔۔۔ مسئلہ ہے، ‘مشرقی کلچر خود اپنی کلاسیکل اشکال رکھتا ہے،کیوں ‘مغربی’ اصناف نقالی کیوں؟” اس موقعہ پہ فہمیدہ سوال کرنے والے پہ اتنا نظر نہیں ڈالتیں جتنا وہ اس کے اندر جھانکتی ہیں۔ یہ ایک وجدانی چیر دینے والی نظر ہے جو ایک ایسی ذہانت سے بھری مسکان کے ساتھ ہے جو ان کے ہونٹوں پہ بکھیری ہوئی تھی۔ یہ وہ تباہ کن نظر ہے جسے جاننے والے ہی جانتے ہیں۔

” دیکھیں بات یہ ہے، وہ یہاں سے شروع ہوجاتی ہیں،’اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ اصناف سخن کا تاریخ سے تعلق ہے ہی تو آپ دیکھیں گے کہ یہ سفر ان پابندیوں سے لیکر ان کے خاتمے تک کا سفر ہے۔ خود مغرب میں پہلے نظموں کا جو میٹر تھا وہ اور تھا اور پھر انھوں نے اسے دوسرے طریقے سے لکھنا شروع کردیا۔ یہ بات نقالی کی وجہ سے نہیں ہوئی۔ مغرب نے کس کی نقالی کی تھی؟ غالبا مشرق نے مغرب کی نکالی کی تھی۔ جہاں تک تہذیب کا تعلق ہے تو ایک چراغ سے دوسرا چراغ جلا کرتا ہے اور تہذیبیں ایک دوسرے پہ اثر انداز ہوتی رہتی ہیں۔ اپنے آپ میں اسے ایسا ہی ہونا تھا۔ اگر آپ ماضی میں جائیں تو ہم قیصدے سے آگے نہ جاپاتے، سنسکرت میں چند ماترے تھے ان سے کیسے آگے جاپاتے۔ فرانس سے، اور فرانسیسی اشکال جو اسپین سے آئیں اور ہسپانوی اصناف عربی اصناف سے ترقی پاتی رہیں۔ چودھویں صدی کے ہسپانیہ کو مثال کے طور پہ دیکھ لیں۔ یہ تاریخی حقیقت ہے۔ اب اگر نفوذ ایسے ہوا ہے تو یہ جو ‘مغرب اور مشرق’ کی تکرار ہے یہ کیا ہے؟ آپ کیسے اصناف کی اصل کا سراغ پائیں گے؟’

“اور آپ کی منطق کے مطابق تو ‘پارلیمانی جمہمویت’ بھی مغربی طرز حکمرانی ہے۔ تو کیا اسے بھی ہمیں مغرب کو واپس لوٹا دینا چاہئیے؟ نہیں۔ کیونکہ ہم اسے برت سکتے ہیں۔ ہم رف کسی مسئلے کے بعیر اسے 60 سال برتا ہے۔ ہم اس کو اس لیے برت رہے ہیں کہ یہ مفید طرز حکمرانی ہے۔ آپ کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ تہذیبیں متحرک رہتی ہیں، ایک دوسرے کے اندر ان کا بہاؤ ہوتا رہتا ہے اور نئی تہذیبیں بنتی رہتی ہیں۔ ثقافت ایسے ہی بنتی ہے۔ تہذیبوں کہ باہم کوئی تصادم نہیں ہے”۔
https://youtu.be/cVUkg-6N46M

شاندار دیباچوں اور انٹرویوز کے زریعے سے فہمیدہ نے کلچر اور ترجمہ بارے نظریات پیش کیے جو اب وسیع آرکائیو کا حصّہ ہیں۔ کلچر ایک زبان کی طرح ہے جو ہمیشہ حالت ترجمہ میں ہوتی ہے۔ ریمنڈ ولیمز بھی اس سے واقف تھا۔ فہمیدہ ایک مخلص تہذیبی نظریہ ساز اور فیمنسٹ کے طور پہ خود اپنے کام کے ساتھ اس تحریک میں اپنی پہچان بنا پائیں۔ ترجمہ سازی ایسی ہوگئی جیسے یہ ڈی کالونیل،فیمنسٹ آلہ ہو جس کے زریعے تاریخ اور تہذیبوں کی کالونیل درجہ بندی اور ادوار میں بانٹنے کے عمل پہ سوالات اٹھائے گئے جیسے تاریخ اور تہذیب کو روایتی/جدید ، ہندؤ/مسلمان، مشرق/مغرب اور پھر فیلک /فوبک استشراقی ادوار میں تقسیم کرنا۔ ترجمے کے زریعے فہمیدہ زمانی وقفوں اور جغرافیوں کے آر پار حرکت کرسکتی تھیں۔

جب وہ قریب المرگ تھیں تو انہوں نے ایک نظم ‘ انقلابی عورت’ لکھی۔ اس نظم میں، ایک بوڑھی عورت اس بات کا ملال کرتی ہے اس کی زندگی کے کئی سال اسے تنازعوں، سیاست اور مزاحمت میں گھسیٹ کر اس سے چھین لیے گئے۔ لیکن اس نظم کی کی جو جوہر لائن ہے وہ اس ملال کو اس حقیقت سے بدل ڈالتی ہے کہ تاریخ ذاتی گڈ ول سے بہرحال کہیں بڑی چیز ہے۔ یہی جمہوریت کا معنی ہے: اپنی ذات کو ہٹاکر دوسروں کی زندگی بن جانا۔ اجتماعی بھلائی کے لیے کام کرنا۔ عورت مصروف انقلاب، عورت بطور انقلاب۔
انقلابی عورت

رن بھومی میں لڑتے لڑتے میں نے کتنے سال

اک دن جل میں چھایا دیکھی چٹے ہو گئے بال

پاپڑ جیسی ہوئیں ہڈیاں جلنے لگے ہیں دانت
جگہ جگہ جھریوں سے بھر گئی سارے تن کی کھال

دیکھ کے اپنا حال ہوا پھر اس کو بہت ملال

ارے میں بڑھیا ہو جاؤں گی آیا نہ تھا خیال

اس نے سوچا

گر پھر سے مل جائے جوانی

جس کو لکھتے ہیں دیوانی

اور مستانی

جس میں اس نے انقلاب لانے کی ٹھانی

وہی جوانی

اب کی بار نہیں دوں گی کوئی قربانی

بس لاحول پڑھوں گی اور نہیں دوں گی کوئی قربانی

دل نے کہا

کس سوچ میں ہے اے پاگل بڑھیا

کہاں جوانی

یعنی اس کو گزرے اب تک کافی عرصہ بیت چکا ہے

یہ خیال بھی دیر سے آیا

بس اب گھر جا

بڑھیا نے کب اس کی مانی

حالانکہ اب وہ ہے نانی

ظاہر ہے اب اور وہ کر بھی کیا سکتی تھی

آسمان پر لیکن تارے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے

رات کے پنچھی بول رہے تھے

اور کہتے تھے

یہ شاید اس کی عادت ہے

یا شاید اس کی فطرت ہے

ہم ان میں سے ہیں جو مراعات کو سوغات کے طور پہ لیتے اور مستفید ہوتے ہیں۔ ہمیں سمجھنا پڑتا ہے کہ ہمارا جو اس قدر سکون اور تحفظ ہے وہ ان فیمنسٹ ماؤں کے کرب اور قربانیوں کی دین ہے جو ہم سے پہلے آئیں۔

فہمیدہ کسی دوسرے فرد کی طرح اپنی زندگی جی سکتی تھیں،جو اسقدر انقلاب کی دعوت دینے کے جنون سے بھری نہ ہوتی، لیکن شاید اس صورت میں ہم میں سے بہت سے اس ادبی فضا میں سانس نہ لے رہے ہوتے نہ لکھ رہے ہوتے ، نہ ڈی کالونائز ہوکر سوچ رہے ہوتے۔ اور نہ ہی اس قدر آزادی سے سوچ رہے ہوتے۔ فہمیدہ نے اپنی عمر کا ایک حصّہ اس فضا کو جنم دینے کے لیے قربان کردیا۔

میں اس مضمون کا انتساب ان کی یاد سے کرتا ہوں۔

2 COMMENTS

  1. فہمیدہ ریاض کی فکری تربیت ان کے لندن کے قیام کے دوران لاطینی امریکا کے ادیبوں سے ملاقات کے دوران ہوئی ۔۔
    اسی لئے بقول ان کے دوسرا انتخاب ایک کامریڈ تھا
    جو دھرتی سے جڑا تھا اور پسے ہوئے طبقات کے دکھ درد سے آشنا تھا
    ہندوستان میں جامعہ ملیہ کے قیام کے دوران وہ باقاعدہ سی پی آئی،کے جلسوں میں شریک بھی ہوئیں
    خدائی فوجداروں سے انہیں جو کد تھا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے
    فیمنسٹ تحریک تو ایک طرف رہی وہ ضیاء الحق کی چانکیائی دوغلی پالیسیوں کی سخت ناقد تھیں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here