نوٹ: مفتی محمد حسن شام کے معروف شہر حلب کی مرکزی جامع مسجد کے امام اور شام کے مفتی اعظم کے منصب پہ فائز ہے۔ان سے یہ فکر انگیز انٹرویو کینڈین نژاد صحافی ایوا بارٹ لیٹ نے کیا۔

ایوا بارٹ لیٹ: سب سے پہلے تو میں آپ کا شکریہ ادا کرنا پسند کروں گی کہ آپ نے آج ملاقات کا وقت دیا۔

مفتی حسن: میں بھی آپ کا شکریہ ادا کرنا پسند کروں گا کیونکہ آپ نے میڈیا کے جھوٹ کو پکڑا، اور کئی بار شام آئیں تاکہ شام کے بارے میں اسے رپورٹ کریں جس سے بننے والی تصویر قابل یقین ہو اور جو بھی شام میں ہورہا ہے اس بارے آپ ٹھیک ٹھیک خبر دے سکیں۔ کیونکہ میڈیا کے بارے جیسا خود صدر ٹرمپ کہتا ہے اسے خریدا جاسکتا ہے۔ میڈیا وہی لکھتا ہے جو ان کو بتایا جاتا ہے ناکہ وہ سچائی عیاں کرتا ہے۔

جبکہ آپ نے سچائی اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور شام و غزہ میں جو ہورہا ہے اسے رپورٹ کرنے پہ زور دیا۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں جنگوں کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔
آپ نے اپنے دماغ کو لیز پہ دینے سے انکار کیا۔ آپ سچ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتی ہیں، اور یہ وہ کام ہے جو میں دنیا بھر کے صحافیوں کو کرتا دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں ایسے صحافی چاہتا ہوں جو اقدار و اصولووں کی تجارت نہ کرتے ہوں، ان کی عظمت اور اقدار کو خریدا نہ جاسکتا ہو۔ تو کئی صحافی ہیں جو وہی لکھتے ہیں جو ان کو بتایا جاتا ہے اور جبکہ ان کوجو بتایا جارہا ہوتا ہے وہ سچ نہیں ہوتا۔

سچ لوگ تاریخ کے زریعے جان لیں گے اور سچائی چھپانے پہ خدا ہم سے باز پرس کرے گا، اگر ہم خدا پہ یقین رکھتے ہیں تو۔ اور تاريخ بھی ہمیں سچ چھپانے پہ قصوروار ٹھہرائے گی۔

تو اس لیے ایوا، میں آپ کی پہلے دن سے انتہائی عزت کرتا ہوں،جب آپ یہاں آئی تھیں۔ آپ گلیوں میں جاکر لوگوں سے گھل مل گئیں، حلب گئیں، لٹیکیا گئیں، اور گھروں میں جاکر لوگوں کا حال دیکھا۔

آپ موافق و مخالف دونوں کا موقف لیتی رہیں ،دونوں فریقوں کو سنا اور سچ لکھا کہ شام مجبور و محکوم ہے اور شام کے لوگ شاندار ہیں۔ اور شام میں عوام اور حکومت میں تصادم نہیں ہے۔

شام میں تصادم اگر ہے تو وہ دو قسم کے لوگوں میں ہے۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جو شام کی اقدار اور تہذیب کے علمبردار ہیں، دوسرے وہ ہیں جو لوگوں کو واپس پسماندگی میں لینے جاتے ہیں۔ وہ ایسے اسلام کے طرف لیجانا چاہتے ہیں جو اسلام نہیں ہے اور ایسی اقدار کی طرف لیجانا چاہتے ہیں جو شامی اقدار نہیں ہیں۔ یہ لوگوں کو غلام بنانا چاہتے ہیں۔

شکریہ ایوا۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ صحافت، معزز، غیر جانبدار میڈیا، لوگوں کے مصائب اور ان کی امیدوں کو رپورٹ کرنے کے حوالے سے رول ماڈل بنیں گے۔ آپ کا اور آپ کے والدین کا شکریہ جنھوں نے آپ کی ایسی پرورش کی کہ آپ سچائی کی متلاشی کرنے والی بنیں اور دوسروں کی اندھی تقلید کرنے والی نہیں بنیں۔

ای بی: سعودی عرب اور دیگر خلیج ٹی وی چینلز، ان کے شیوخ اور مفتیان نے شام پہ جس فرقہ واریت کو مسلط کیا ہے، اس کا کیسے مقابلہ کیا جاسکتا ہے؟

ایم ایچ: شام ایک مہذب ملک ہے- اس نے دنیا کی تمام تہذیبوں کو قبول کیا کیونکہ یہ مشرق کا دروازہ ہے۔ تو تاریخی اعتبار سے جو یورپ سے چین جانا چاہتا تھا وہ شام سے گزرتا تھا۔ اور جو واپس یورپ جانا چاہتا وہ بھی شام کے راستے جایا کرتا تھا۔ایک سو سال پہلے کا شام آج کے شام سے کہیں زیادہ بڑا تھا۔ 1900ء میں، 118 سال پہلے، فلسطین، لبنان، اردن اور شام ایک ہی ملک تھے۔ ایک بینک، ایک کرنسی، ایک صدر اور ایک قوم۔ کوئی مذہبی برادری اقلیتی برادریوں میں شمار نہ ہوا کرتی۔ وجہ یہ تھی یہ ابراہیم کی سرزمین ہے، اور ابراہیم تمام پیغمبروں کے جدامجد تھے۔ وہ حضرت موسی و عیسی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھی جدامجد تھے۔

اس لیے، شام نے خدائی پیغام کو قبول کرلیا۔ تو ایک خاندان میں ، آپ کو کرسچن بھی مل جائے گا، تو مسلمان بھی، سیکولر بھی مل جائے گا اور ایسے ہی آپ کو ایک سرمایہ دار بھی ملے گا تو وہیں سوشلسٹ بھی مل جائیں گے۔

شام نے ہر ایک کو قبول کیا۔ اس نے جیسے عرب، کرد، سریانی۔ اسارین اور آرمینی ہیں سمیت سب نسلی گروہوں کو قبول کیا۔ یہاں پہ بیک وقت شامی، آرمینیائی، امریکی، کلاڈین اور آرامی سمیت کئی زبانیں سنائی دے جاتی ہیں۔ دنیا بھر سے لوگ یہاں مل جاتے ہیں۔ اگر آپ فلسطین کے کلیساؤں میں جائیں جو کبھی شام کا حصّہ تھا وہاں پہ آپ کو یونانی پیشوا، فرانسیسی بشپ، آرمینی بشپ، ایک کلاڈین ، ایک عرب ، وہ سب اکٹھے دعائیں کرتے مل جائیں گے۔

اور اگر آپ مسجد اقصی چلے جاتے ہیں، تو آپ عرب، کرد، اور دوسرے تمام خطوں کے نسلی گروہ ، جیسے مصری ، لیبیائی مسجد اقصی میں مل جائیں گے۔ تو شام میں اقلیتیں کوئی نہیں ہیں۔ شام ایک قوم ہے جس میں سب قومیتیں اکٹھی ہیں۔اس لیے جب سامراجی اقوام ان کو تقسیم کیا تو چار ملکوں میں بانٹ دیا۔ وہ نسلی و مذہبی بنیادوں پہ ملک بناکر ان بنیادوں پہ ان کو باہم دست و گریباں کرنا چاہتے تھے۔

تقسیم کے بعد بھی، ہم لبنان سے نہیں لڑے۔ نہ ہم عراق سے لڑے، نہ ہی اردن سے لڑے اور ہم نے فلسطیینوں سے بھی جنگ نہیں کی

وہ دنیا کے پاس گئے اور ان کو بتایا کہ سیلمان کا ہیکل فلسطین میں تھا۔ سلیمان کے ہیکل میں آؤ۔۔۔۔ میں ان الفاظ پہ بہت حیران تھا کہ ہیلکل سلیمانی یا کینیسۃ القیامۃ یا مسجد اقصی یا کعبہ اس مذہب کے تمام لوگوں کو اس شہر میں اکٹھا کردیتے ہیں۔

اس کا مطلب ہوتا کہ ہر یہودی کو فلسطین میں، ہر مسیحی کو بیت اللحم میں اور ہر مسلمان کو الاقصی میں ہونا چاہیے تھا۔ یہ درست بات نہیں ہے۔ اللہ عزوجل تو میرے دل میں ہے، ہر ایک یہودی اور مسیحی کے دل میں ہے۔ اللہ عزوجل ہمارے دلوں میں رہتا ہے۔ وہ محض کلیسا و ہیکل و کعبہ میں نہیں رہتا۔ تو یہ جو مذہبی انتہا پسند نظریہ ہے جو ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف سینکڑوں سال تک لڑواتا اور ایک دوسرے کو خدا کے نام پہ قتل کرواتا ہے۔

مذہب کے نام جنگ اور زر یا تیل کے نام جنگ میں فرق یہ ہے کہ جب آپ تیل کے کنوؤں کے نام پہ جنگ کرتے ہیں تو جب تیل کے کنوئیں ہاتھ آچاتے ہیں تو جنگ ختم ہوجاتی ہے۔ جب آپ سیاست پہ کنٹرول حاصل کرلیتے ہیں تو جنگ ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن جب مذہب کے نام پہ جنگ لڑی جاتی ہے تو مسئلہ جنم لیتا ہے: لڑائی سینکڑوں سال چلتی رہتی ہے۔

اس کا سبب یہ ہے کہ جنگیں مذہب کے نام پہ مقدس بن جاتی ہیں۔ یہی کچھ تو ہوا توا جب یورّ والے 500 سال قبل شام اور فسلسطین میں جنگ کرنے آئے تھے۔ اگر آپ نے ناروے، اٹلی، فرانس اور برطانیہ سے آنے والوں سے پوچھا ہوتا کہ وہ کیوں شام آئے؟ تو وہ کہتے: “ہم مقبرہ مسیح کے لیے آئے ہیں۔” کینسۃ القیامۃ کو بچانے آئے ہیں۔ ہماری منزل جنت ہے۔ اور ہم ان سے پوچھ سکتے تھے:” کیا یسوع مسیح علیہ السلام وہاں دفن ہیں؟ وہ کہتے،’نہیں،وہ تو آسمانوں میں ہیں۔’ تو ہم کہتے پھر آپ ایک خالی مقبرے کے لیے کیوں لڑرہے ہو؟”

لیکن مذہبی پیشواء تو ان جنگوں سے اپنے آپ کو فائدہ پہنچانے کے لیے بطور انیدھن کے استعمال کیا کرتے تھے، اور سیاست دان ان کے ساتھ ملکر کام کرتے تاکہ وہ قائدین اور بادشاہ ہوسکیں۔

شام میں گزشتہ آٹھ سالوں سے جو جنگ لڑی جارہی ہے، اس کا آغاز بھی انہی جیسی وجوہات کے سبب ہوا۔ یہ جنگ شام کو نسلوں اور فرقوں میں بانٹ کر کمزور کرنے کی ہے۔

جیسے انہوں نے لبنان میں کیا۔1960ء میں لبنان کے اندر اور 1960ء سے پہلے، صدر میرونائٹ ہوتا تو وزیراعظم سنّی ہوتا اور صدر پارلیمنٹ شیعہ ہوا کرتا تھا۔لیکن وہ لڑتے نہیں تھے۔ ایک خاندان جیسے رہا کرتے۔

لیکن لبنانی جنگ کے بعد، لبنان چار ڈویژن میں تقسیم ہوگیا: ایک سنّی اکثریتی ڈویژن تھا، ایک دیرویزی اکثریتی علاقہ، ایک شیعہ اکثریتی علاقہ تو ایک میرونائٹ علاقہ، گویا لبنان کی ریاست کے اندر چار ریاستیں بن گئیں۔ یہ بہت بڑا جھوٹ تھا۔ شام لبنان میں داخل ہوا، سرحدوں کو ختم کیا لیکن پھر اسے دستبردار ہونا پڑا۔

ہم عراق پہ جنگ مسلط ہونے پہ حیران تھے۔ بہت پہلے،عراق میں سنّی، شیعہ، کرد، اسارین، کلاڈین، سریانی رہ رہے تھے۔ وہ عراق میں تھے۔ عراق ان اقوام کا گھر تھا۔ وہ ہمیشہ ایک دوسرے سے مربوط اور اکٹھے ملکر رہ رہے تھے۔

پال بریمر آیا اور اس نے ان کا آئین بنایا۔ وہ آئین فرقہ وارانہ اور نسل پرستانہ تھا۔ دستور کے مطابق صدر ریاست کرد ہونا چاہئیے، پرائم منسٹر شیعہ ہو اور صدر پارلیمنٹ سنّی ہو۔

میں ایک کلیسا کے لیے ایک بشپ یا ایک امام مسجد کے واسطے اس لیے منتخت کرسکتا ہوں کیا کہ وہ کرد ہے، ایک سنّی ہے یا ایک شیعہ ہے؟میں ریاست چلانے اور خدمت عوام کے لیے ایک شخص چن رہا ہوں۔ تو جب میں یہ کہتا ہوں کہ صدر پارلیمنٹ لازمی شیعہ ہوگا، اور وزیراعظم سنّی ہوگا۔۔۔۔ کیوں سنّی یا شیعہ؟

اسے عراقی شہری ہونا لازم ہو۔ وہ شامی شہری ہو، قطع نظر اس کے کہ وہ مسیحی ہے یا مسلمان۔

آج شام کی پارلیمنٹ کا صدر/سپیکر مسیحی ہے۔ اس میں مسئلہ کہاں ہے؟ 82 سال پہلے ایک مسیحی وزیرا‏عظم تھا، فاوس الخوری: اس میں کیا مسئلہ ہے؟

شام اس انسانی سوچ کے ساتھ کھڑا ہے کہ اس کے ملک کے بچے اقلیتیں نہیں ہیں۔ دسویں یزیدی دیہات ہیں، ان کی اصل زردشتی ہے۔ مسیحیت کے قریب قریب تمام فرقے موجود ہیں۔ سنّی مذاہب ہر طرح کے موجود ہیں اور ایسے ہی شیعہ مذاہب بھی ہیں۔ تمام نسلی ثقافتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے تمام فرقے موجود ہیں۔

ان سارے مذہبی و نسلی گروہوں سے ملکر 23 ملین /دو کروڑ 30 لاکھ شہری بنتے ہین۔ ان سب کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے۔ وہ حکومت میں کسی بھی عہدے کے لیے اہل ہیں چاہے وہ وزیر دفاع کا منصب ہی کیوں نہ ہو۔ کسی سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ وہ مسلمان ہے یا مسیحی، یا یہودی ہے، سنّی، شیعہ یا عرب ہے کہ کرد یا اسارین ہے۔بس اس کا شامی شہری ہونا ہی کافی ہے۔

شام کی اسی خوبی کے خلاف جنگ شروع کی گئی۔ کیونکہ یہ ایک مہذب سیکولر ریاست ہے لیکن یہ لامذہب نہیں ہے۔ شام مذاہب کی عزت کرتا ہے اور ہر ایک کے مذہب کو تسلیم کرتا ہے، اور یہاں ایک قانون ہے جو ہر ایک شخص کے مذہبی و نسلی ثقافتی حقوق کا تجفظ کرتا ہے۔

آرمینی،جو آرمینیا میں جنگوں کے بعد شام آئے،ہم نے ان سے کبھی نہیں کہا: ‘ اپنی زبان ترک کردو۔’ ان کے لیے آرمینی اسکول ہیں۔ سریانی اسکول بھی ہیں۔ عربی کے ساتھ،وہ آرمینی اور سریانی زبانیں بھی سیکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی شناخت کو کھویا نہیں۔

شام سے یہ ساری نفرت اس سبب ہے کہ اس نے یورپی یا امریکی تقسیم کو قبول نہیں کیا جو اس نے عراق اور لبنان پہ مسلط کی۔ فرانس نے یہ نسلی و مذہبی تقسیم لبنان پہ مسلط کی۔

جہاں تک سعودی عرب، قطر، بحرین اور کویت کا تعلق ہے، تو ان کے ہاں بھی ویسا تنوع نہیں ہے جو شام میں موجود ہے۔ وہ قبلیوں پہ استوار ریاستیں ہیں۔ آئیں الحجاز، ریاست حجاز کو لیتے ہیں۔ حجاز پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے لیکر ایک سو سال پہلے تک نجران سے دمام تک، ابہا سے خمیس مشطاط تک اور آگے معان تک تمام عرب قبائل کا گھر تھا۔ تمام قبیلے وہاں رہتے تھے، اور وہ تمام قبیلے مسلمانوں کے تھے۔

جب آل سعود اقتدار میں آئے، تو انہوں نے الحجاز ملک کا نام ہٹاکر اپنے خاندان کے نام پہ ‘ سعودی عرب’ کردیا۔ تو اس وقت سے ملک قوم کی بجائے ایک خاندان کے مساوی ہوکر رہ گیا۔

شام ایک نیشن- سٹیٹ ہے اور یہ اسد خاندان کا نام نہیں ہے۔ شام سے نکلی ہے شامی قوم اور یہ کسی القوتلی خاندان کا نام نہیں ہے۔ یہ امین الحافظ کا نام بھی نہیں ہے۔( قوتلی اور امین دونوں شامی صدر تھے)۔ شام ایک قوم ہے،

جبکہ سعودی عرب۔۔۔ حجاز کا بدلا ہوا نام۔۔۔ جو کبھی سارے عربوں کا وطن تھا، اب اس پہ ایک قبیلے کا نام مسلط ہے۔

اس لیے یہ ممالک مذہبی و نسلی تنوع سے آگاہ نہیں ہیں جس تنوع سے ہم شام میں واقف ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جو آپ کو امیر کرتی ہے۔ کرد، آرمینی، مسیحی، مسلم ، یہودی اور سیکولر، وہ سج کے سب اپنے ہی طریقے سے سوچتے ہیں۔

تو، جب وہ ایک ساتھ بیٹھتے ہیں تو تصورات و ثقافت کی دولت پیدا کرتے ہیں۔ وہ ایک مختلف خیال قبول نہیں کرتے۔ مثال کے طور پہ،میں الحجاز حج کا فریضہ اداکرنے شامیوں کے ایک گروپ کے ساتھ جایا کرتا تھا۔ میں ان کے سامنے تقریر کرنا چاہتا تو مجھے اس کی اجازت نہیں ملا کرتی تھی۔ وہ کہتے،’ آپ نہیں بول سکتے ، خطیب سعودی ہونا چاہئیے۔

جبکہ ہم سعودی عرب ، مصر، برطانیہ اور امریکیوں کو خوش آمدید کہتے ہیں اور ہم ان کو اپنے کلچرل سنٹرز میں سنتے بھی ہیں۔ ان کی تقریریں سنتے ہیں۔

میں حلب شہر میں اپنی مسجد کے اندر پوری دنیا سے ممبران اسمبلی کا استقبال کرتا ہوں۔ یہاں تک کہ فلپائنی صدور یہاں آئے۔ آسٹریا کے وزیر خارجہ نے مسجد کا دورہ کیا، خطبہ سنا ، اور ہم نے ان کی تقریر بھی سنی۔

ہمیں دوسروں کے سنانے پہ اعتراض نہیں ہے۔جبکہ جو ممالک نسل پرست اور مذہبی تعصب سے بھرے ہوئے ہیں۔ وہ نہ تو دوسرے مذاہب کو قبول کرتے ہیں اور دوسرے نظریات بھی قبول نہیں کرتے۔

مثال کے طور پہ، وہابی نظریہ کسی اور نظریہ کو برداشت ہی نہیں کرتا۔ شام میں، ہمارے پاس ایک شافعی مفتی ہے، ایک مفتی جعفریہ سے ہے، ایک حنبلی مفتی ہے اور مالکی مفتی بھی ہے۔ ان سب کا اپنا مذہبی فقہی مکتب فکر ہے۔
اسی طرح ایک آرتھوڈوکس کے لیے الگ پادری، سریانی مسیحیوں کے لیے الگ سے اور کیتھولک کے لیے الگ پادری ہے۔ یہ سب کا بنیادی حق ہے۔
سعودی عرب میں، ایسا کرنا ممنوع ہے،وہاں تو بس سنّی سلفی مفتی ہی یہ کرسکتا ہے۔ایام حج میں تین سے چار ملین مسلمان حاجی دنیا بھر سے حج کرنے آتے ہیں۔ ان حجاج میں سنّی، شیعہ ،صوفی سبھی ہیں۔ تو اپنے اپنے گروپوں میں ان کے اپنے مفتیان کو خطاب کی اجازت ملنا چاہیے۔ یہ ان کا حق ہے۔ تو آپ (سعودی) ان کو ایسا کرنے سے روکتے کیوں ہیں؟

شام میں، یہ دانشورانہ آزادی ہے کہ وہ اس فرقہ وارانہ جنگ سے نکلنا چاہتے تھے، ایسا میدان جنگ جہاں کہا جاتا ہو،’یہ علوی ہے، یہ سنّی ہے’،۔۔۔۔ اور شام میں حکومت علویوں کی ہے

جاری ہے 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here