سیاسی علیحدگی پسندی کی جانب اس قدم کی مثالی شکل سید احمد اور علی گڑھ کی پہلی نسل کی سرگرمیوں میں متشکل ہوئی اور اس کا مقابلہ ایک ایسی مرتکز کوشش سے تھا جو ایک منظم، متحد اور مربوط مذہبی کمیونٹی اسلامی پیراڈائم کے اندر پیدا کرنے کی کوشش تھی سے ہوا۔ یہ مقصد دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العملاء لکھنؤ کے بانیوں کا تھا۔ ان اداروں کے بڑے مذہبی پیشواؤں نے اپنے آپ کو زیادہ طاقتور اور زیادہ استقلال کے حامل شارح اور مبلغ کے طور پہ پیش کیا۔ان کے اصرار میں زیادہ مستقل پن تھا اور اپنے جاری کردہ فتوؤں کے زریعے مذہبی اور اخلاقی ضابطوں کو نافذ کرتے ہوئے ان کے ہاں قرآنی آیات اور کی زیادہ آزادانہ تشریح اور تہہ داری معانی کا استعمال زیادہ اعتماد کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔
لندن کی انڈیا آفس لائبریری کے کیٹلاگ میں 200 کے قریب ایسی کتابوں کی فہرست ہے جن میں مذہبی رسوم و رواج پہ مبنی تقریبات سے معاملہ کیا گیا ہے اور اس فہرست کو جے ایم بلمبراٹ نے مدون کیا ہے۔ ان میں مذہبی فرائض، قانونی معاہدے، غیر قانونی افعال کے مجموعے اور مذہبی ادراک کے مجموعے شامل ہیں۔ الغرض چھاپے خانوں میں اضافے، ورنا کیولر اخبارات کی اشاعت میں اضافہ ، ایجوکیشنل نیٹ ورک کے پھیلاؤ نے ایک آدرشی برادری/فرقہ کی تنظیم نو کے لیے ایک طاقتور آلے کا کردار ادا کیا۔ ایسی کمیونٹی جو کہ اسلامی اخلاق کی عکاس ہو اسلاف کے زمانے میں پایا جاتا تھا۔ اور اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے۔
اسلامی احیائیت، ابتدائی طور پہ شمالی ہندوستان تک محدود رہی تھی لیکن پھر یہ دوسرے علاقوں میں بھی تیزی سے پھیلی۔ مذہبی احیاء پرستی فرائضی تحریک کے پیروکاروں کے زریعے سے بنگال کے دیہی علاقوں میں دیہاتی مسلمانوں کو اپنے اثر میں لے چکی تھی۔ اس طرح کی اسلامائزیشن کی مہم کا پہلا دباؤ کمپوزٹ اور ایک دوسرے سے گھلے ملے ثقافتی رجحانات کو مسترد کرنے پہ تھا اور اس کی جگہ پین اسلامی یا خصوصوی پین ہندی مسلمان شناخت کو جنم دینا تھا۔
رفیع الدین احمد نے دکھایا ہے کہ کیسے مذہبی مبلغوں نے عوام کو اپنے مفروضہ اسلامی ماضی کی تلاش میں بنگال کی سرحدوں سے باہر جاکر دیکھنے اور اپنی مقامی یا علاقائی شناخت کے مخالف اپنی مسلمان شناخت کو زیادہ اہمیت دینے کی ترغیب دی۔اس نئے طرز کے زور نے متنوع اور یہاں تک کہ بٹی ہوئی برادری میں سماجی ارتباط اور جڑت کے نئے اقدامات کو جنم دیا،70
70 Rafiuddin Ahmad, The Bengali Muslims 1871-1906: A Quest for Identity (Delhi, 1981),
p. 184.
ہندؤں کے ساتھ تعلق میں، انیسویں صدی کے آخر میں مذہبی اور سیاسی محاوروں کے زریعے ایک مسلمان ہونے کا مطلب دوسرا ہونا سمجھا جانے لگا۔دوسری طرف شیعہ اور سنّیوں نے بھی الگ قبرستان، الگ مساجد، الگ اسکول،الگ مذہبی اور امداد باہمی کی تنظیموں کی شکل میں شناخت کرنے کی نئی علامتیں دریافت کیں۔71ان اداروں نے شیعہ اور سنیوں کے اندر ایسی سرحدوں کو متعین کیا جو ان کو الگ الگ رکھنے کے لیے درکار تھیں۔ وہ الگ الگ وجود کے ساتھ ایسی دنیا میں رہتے تھے جو ان کی مذہبی-سیاسی قیادت نے بنائی تھی۔ اس طرح کے سٹیٹس کو کو بدلنے کی کوششوں کی سخت مزاحمت کی گئی۔
سنّی اسلام کے بارے میں یہ زیادہ پروپیگنڈا ہوا کہ وہ ہندؤ عقائد کے دخیل ہونے اور شیعہ رسوم کو زیادہ قبولیت دینے کی وجہ سے گدلا ہوچکا ہے۔ اس لیے ایسی مہم انیسویں صدی کے آخر میں چلیں جو مشترکہ ثقافتی، مذہبی اور دانشورانہ پیراڈائم پہ سوال اٹھاتی تھیں اور ان تنازعوں کو دوبارہ زندہ کرتی تھیں جو کئی عشروں سے خاموش پڑے تھے۔
مثال کے طور پہ مدح صحابہ کے جلوس فتح پور میں زیادہ میلے ٹھیلوں کے طرز پہ نکالے گئے، جہاں مولانا سید عابد حسین نے 1901ء میں اسے پہلی بار شروع کیا تھا۔اور لکھنؤ میں 1908-9 کے درمیان مولانا سید عین القضاۃ کی حمایت سے یہ شروع ہوئے اور مولانا سید عین القضاۃ نہ صرف مولانا عبدالباری فرنگی محل کے استاد تھے بلکہ یہ مولوی عبدالشکور دیوبندی کے بھی استاد تھے جو کہ لکھنؤ اور دار المبلغین میں سنّی(دیوبندی) ایجی ٹیشن کا معمار تھا-72
اس کے علاوہ شیعہ-سنّی شادیوں کی حوصلہ شکنی کرنے کی مہم بھی شروع ہوئی اوراس مہم کے دوران شیعہ کو اخلاق باختہ، کافر اور اسلام و ملک کے دشمن کے طور پہ بھی پیش کیا گیا۔اکثر ٹیپو سلطان سے بے وفائی کرنے والے میر صادق، میر عالم، دیوان حیدر آباد،میر جعفر، دیوان سراج الدولہ یا بلگرامی خاندان کی مثالیں پیش کی جاتی تھیں۔ ان کو فرنگیوں سے گٹھ جوڑ کرنے یا ہندوستانی حکومتوں سے ملکر سنّی نوابوں کے خلاف سازشیں کرنے کا الزام دیا جاتا تھا۔73ظفر الملک نے لکھا کہ جو لوگ آج مسلمانوں کی صف میں شمار کیے جاتے ہیں ان میں شیعہ اور احمدی دو ایسے فرقے ہیں جن کے ساتھ مسلمانوں کے اسلام کے بنیادی اصولوں پہ اختلاف ہے۔ اور یہ دونوں فرقے مسلسل پرییشانی اور انتشار کا سبب بنتے ہیں۔ اسلام کی سیاست پہ صحت مند اثر پڑے گا اگر ان دونوں فرقوں کو نکال باہر کیا جائے اور ان کو الگ الگ اقلیت میں شمار کیا جائے۔74

71 As early as 1871, Shias and Sunnis, in separate formal repre sentations, demanded ‘distinct and separate burial grounds’. V.T. OLDENBURG, The Making of Colonial Lucknow, 1856-1877 (Princeton, 1984). 72 Zafarul Mulk Shia-Sunni Dispute, cit., p.11.
73 Omar Khalidi, op. cit. pp. 39-40.
74 Zafarul Mulk op. cit.

محرم کی رسوم اس حملے کا بڑا نشانہ تھیں۔ ندوۃ العلماء کے ایک عالم دین(ابوالحسن ندوی) نے کئی سالوں بعد اس طرح کی کوششوں کا مقصد ماضی میں ہوئے ایک واقعے پہ جس طرح سے آہ و زاری و عزادری کو چیخنے چلانے اور نوحہ و مرثیوں کے زریعے راستا دیا جارہا تھا اس کی نشاندہی کرنا تھا۔سن 1933ء سے 1939ء میں عزادری کے خلاف مناظرانہ لٹریچربڑی تعداد میں سامنے آگیا۔76 سنّی پریس(جس میں زیادہ حصّہ دارالعلوم دیوبند اور اہلحدیثوں سے وابستہ پریس کا حصّہ بہت زیادہ تھا) نے تعزیہ داری کو بدعت اور حرام قرار دے کر اس کی مذمت شروع کردی۔ فروری 1939ء میں تحفظ ملت نامی تنظیم نے چھوٹے جلوسوں کی اجازت مانگی تاکہ تعزیہ داری کے خلاف جو شدت پسند سنّی پریس کی جانب سے شایع کیا جارہا تھا اس کی عملی طور پہ تردید کی جاسکے۔78 شرر جو شیعہ-سنّی اختلاف پہ افسوس کا اظہار کرتا ہے اس نے مشاہدہ کیا کہ کیسے مولوی عبدالشکور دیوبندی نے شیعہ معاصرین کے ساتھ مناظرے کے عمل کو ایک عوامی بحث و مباحثے کے فن میں بدل ڈالا تھا۔79

رسومات محرم پہ ایسے الزامات کوئی نئی پیش رفت نہیں تھے؛لیکن جس شدت کے ساتھ لکھنؤ میں 1930ء کی دہائی میں یہ لائے گئے وہ شدت معمول سے ہٹ کر تھی اور اس کی تاریخ میں چند ایک مثالیں پائی جاتی تھیں۔ یہ سچ ہے کہ قدامت پرست سنّی کتابیں شیعہ بارے تنقید اور ان کی مخالفت میں بھی لکھی جاتی رہیں تھیں۔ جیسے سولہویں صدی میں، شیخ احمد سرہندی جو کہ ہندوستان میں سلسلہ نقشبندیہ کی مجددی شاخ کے بانی تھے، اپنے علمی دور کا آغاز شیعہ کے خلاف ایک رسالہ ‘رد روافض ‘ لکھ کر کیا تھا۔
شاہ ولی اللہ (1702-1763) جو کہ ہندوستانی اسلام کی تاریخ کے سب سے زیادہ حقیقی مفکرین میں سے ایک تھے، نے شیعہ کے کفر، ارتداد یا محض بدعتی ہونے کے سوال پہ بحث کی تھی۔ شاہ عبدالعزیز(1746-1824) نے 1889ء میں شیعہ سے مناظروں کے دوران سنّیوں کو شیعی عقائد کی جانب جانے سے روکنے کے لیے ایک انتہائی مناظرانہ کتاب تحریر کی تھی۔
دارالعلوم دیوبند والے شاہ ولی اللہ اور ان کے تلامذہ سے خود کو انسپائرڈ بتلاتے تھے تو وہ بھی شیعہ عقائد اور رسوم کا بہت رد کیا کرتے تھے۔ سرسید احمد خان نے جب دیوبند کے بانیوں کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی تو انہوں نے سرد مہری کے ساتھ اس دعوت کو رد کردیا ان کا کہنا تھا کہ وہ ایسے کالج سے اپنے آپ کو نہیں جوڑ سکتے جس میں شیعہ کے لیے بھی جگہ رکھی گئی ہو۔80 اس مدرسے کے ہی ایک بڑے عالم، حسین احمد مدنی شیعہ کی جانب ایسی ہی مخاصمت دکھائی، اگرچہ اس وقت وہ سیکولر نیشنل ازم کے بہت بڑے داعی تھے۔ لیکن ایک عالم یا متکلم کی مخالفت نے ان اقدار اور رسوم کی اہمیت کو کم نہیں کیا تھا جو لوگوں نے کئی نسلوں تک باہم ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کی تھیں۔ سنّی اسلام کے اندر ہی ایسے مکاتب فکر موجود تھے جو صلح کل اور اتحاد و یگانگی کی حمایت کرتے تھے۔ مولوی دیدار علی سمیت بہت سے شیعہ مجتھد فرنگی محل لکھنؤ کے پڑھے ہوئے تھے۔ دوسری قوتیں فعال تھی، خاص طور پہ جو صوفی اسلام سے جڑی ہوئی تھیں، انہوں نے اتحاد اور انجذاب کو مضبوط کیا۔
انیس سو تیس کی فرقہ واریت کی تاہم ایک نمایاں فطرت کی حامل تھی ۔ یہ حلافت تک محدود نہ تھی۔ نہ ہی یہ پڑھے لکھے، عالم فاضل لوگوں کے درمیان متنازعہ موضوعات پہ گفتگو تک محدود تھی۔
75 S. Abul Hasan Ali Nadwi. The Mussalman (Lucknow 1974 edn.), p. 65. 76 See, for example Proscribed Publications (Urdu). 52. 93. 139. IOLR. 77 SNNR, UP, for the week ending 19 December 1936 and 20 March 1937. 78 Tasbir Singh to G.M. Harper 10 February 1939 op. cit. 79 Sharar, op. cit., p. 95. 80 DAVID Lelyveld, Aligarh’s First Generation : Muslim Solidarity in British India (Princeton, 1978). p. 134; see alsoS.A.A. Rizvi Shah Abd Al- Aziz: Puritanism, Sectarianism, Polemics and Jehad (Canberra, 1982), p. 256. For Deoband, see B.D. Metcalf, Islamic Revival in British India: Deoband. 1860-1900 (Princeton, 1982). See also, SHARAR, op. cit ., p. 95, for a brief history of public debates in Lucknow.
اس عشرے کے دوران جو (فرقہ وارانہ) توانائی خرچ ہوئی، وہ سنّی اور شیعہ نکتہ ہائے نظر کو الگ الگ دکھانے والی نئی تشکیل پانے والی تنظیموں کی قوت بنی اور انہوں نے سماجی رشتوں کے ڈھانچے کو بڑی حد تک بدل ڈالا۔ انہوں نے مجموعی طور پہ اتفاق اور مفاہمت پہ زبردست دباؤ ڈالا۔ ایسی مفاہمت اور ہم آہنگی جو عرصہ دراز سے چلے آرہے سماجی،ثقافتی اور معاشی نیٹ ورک کے زریعے سے حاصل ہوئی تھی۔ لوگوں کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ روایتی کوڈ آف کنڈکٹ اور رویوں کو جھٹک کر اپنے آپ کو ‘دوسرے’ کی مخالفت میں ایک الگ وجود کے طور پہ منظم کریں۔
یہ شدت اور فرقہ وارانہ ٹکراؤ،مسابقت اور حریفانہ کشاکش اپنے نوعیت کے اعتبار سے بالکل نئی تھی۔ شیعہ بھی اپنے دعوؤں کو مضبوط بنانے میں پیچھے نہ رہے۔ پہلے تو انہوں نے اپنے تعلیمی اداروں کو دوبارہ سے زندہ کرنے کی کوشش کی جو نوابی سرپرستی سے محروم ہوجانے کے بعد ڈھے گئے تھے۔
انہوں نے ایم اے او کالج علی گڑھ کو ایک سنّی ادارہ خیال کرنا شروع کردیا، حالانکہ سید احمد خان نے شیعہ-سنّی اختلافات کو تسلیم کرتے ہوئے شیعہ دینیات کو پڑھانے کا اختیار دیا تھا۔ ان کا اپنا کوئی دینی مدرسہ نہ تھا۔ کیونکہ ندوہ اور دیوبند میں صرف سنّی طلباء داخل ہوسکتے تھے اور وہ شیعا جو مذہبی رہنماء بننا چاہتے تھے انہوں نے ہندوستان کی بجائے ایران اور عراق میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ جیسے سید ابو قاسم رضوی متوفی 1906ء نے لکھنؤ، نجف عراق سے تعلیم حاصل کی تھی۔

لاہور واپس آکر، انھوں نے انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں اصولی شیعیت کی ترویج کی۔ انہوں نے نواب علی رضا قزلباش ایرانی النسل امیر شیعی زمیندار کی مدد سے شہر میں جامع مساجد، امام بارگاہیں اور پھر پشاور میں بھی ایسی مساجد بنائیں۔81 مولانا سید علی نقی (1903-1988)، جن کا تعلق غفران مآب خاندان سے تھا جو بہت پڑھا لکھا گھرانہ تھا،نے بھی عراق میں پڑھائی کی۔ وہ لکھنؤ واپس 1932ء میں آئے اور انہوں نے امامیہ مشن کی بنیاد رکھی اور ہفتہ روزہ رسالہ پیام اسلام نکالا۔ انہوں نے 300 کے قریب کتابیں لکھیں۔ ان کی اکثر کتابیں 1930ء کے درمیانی عشرے میں لکھی گئیں اور یہ عزاداری کے دفاع میں تھیں۔82
ندوۃ العلماء کے قیام سے لیکر لکھنؤ میں شیعہ اسکول کے قیام تک سب اسی دور کی کڑیاں تھیں۔ شیعہ کالج کا منصوبہ مارچ 1914ء میں سامنے آیا، یہ نواب فتح علی خان آف رام پور(1875-1930) اور یو پی حکومت کا برین چائلڈ تھا۔ اس منصوبے نے تیزی پکڑی۔ جون 1916ء کے وسط میں، تین لاکھ 17 ہزار چار سو دس روپے اکٹھے ہوگئے۔ چونکہ زیادہ حصّہ یو پی صوبہ سے آیا تھا تو اس کالج کو یو پی میں ہی بنانے کے مطالبات سامنے آئے۔ مظفرنگر ضلع کے جنستھ کے سیدوں نے میرٹھ کو ترجیح دی۔ رام پور کے نواب نے ایسا ہی کیا حالانکہ نواب کے اپنے حلقہ اثر سے دور شہر میں اس کالج کو بننے پہ نواب کی رضامندی سمجھ سے بالاتر ہے۔

81 See, introduction in J.R.I. Cole and Nikkie R. Keddie (eds.), Shiism and Social protest (Yale University Press, 1986), pp. 667; COLE, op. cit., pp. 288-9, and Frietag, op. cit., p. 263, for the contribution of Maqbul Ahmad in giving impetus to reformist tendencies among Shias.
82 This information is based on Salamat RlZVl, Sayed alulama’: Hayat aur Karname (Luck- now, 1988).
بعض نے آگرہ کی تجویز دی تاکہ اس کچی عمر میں طلباء سیاسی خیالات سے آراستہ ہوکر حکومت کے لیے پریشانی کا سبب نہ بنیں۔ لیکن اکثر نے لکھنؤ پہ اتفاق کیا، جہاں پہ کالج کے دروازے 1917ء میں کھول دیے گئے-83
شیعہ سوسائٹی لکھنؤ کے ہر نکڑ پہ کھمبیوں کی طرح اگ پڑیں اور یہ شیعہ دانش و ثقافتی زندگی کا مرکز بن گئیں۔ یہ سوسائٹی اعظم گڑھ میں شبلی نعمانی اکیڈیمی کی طرز پہ بنائی گئیں۔ ان میں مدرسۃ الوا‏طین راجا آف محمود آباد کے فنڈ سے بنی، امامیہ مشن مولانا علی نقی نے بنائی اور تنظیم المومنین جو کہ تحفظ ملت کے جواب میں شیعہ نے بنائی تھی اور اسے بااثر تمباکو اور پرفیوم بنانے والے شیعہ مینوفیکچرر جیسے محمد عمر، اصغر علی اور محمد علی وغیرہ کی سرپرستی حاصل تھی۔ ان تنطیموں کو ایک جارح شیعہ ملکیت کے حامل پریس جریدوں ‘دی سرفراز’ ( جوکہ شیعہ پولیٹکل کانفرنس کا ترجمان تھا جو کہ لاہور سے شایع ہوتا تھا) اسد، نظارہ اور اخبار امامیہ جوپندرہ روزہ تھے کی حمایت حاصل تھی۔84
ملک میں جوں جوں ہندؤ-مسلم تنازعے میں بڑھوتری ہورہی تھی ویسے ویسے فرقہ وارانہ مسابقت بھی (مسلم) انٹر کمیونٹی (برادری کے اندر) تنازعات جیسا لگنے لگی۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے کہ فرقہ وارانہ تنازعوں کی پروسس سٹرکچرنگ صوبہ جات متحدہ کے دوسرے شہری مراکز میں ہندؤ۔مسلم لڑائی کے متوازی ہوگئی تھی۔
جزوی طور پہ یہ ایسے اس لیے ہوئی کیونکہ لکھنؤ کے سنّی اور شیعہ اس دور میں برصغیر کے اندر ترقی پاگئے تجربے اور نمونوں کے ذخیروں سے بہت کچھ اخذ کرسکتے تھے۔ دستیاب مواد سے کسی ایک کی کمیونٹی کو مشخص کرنے کے لیے یہ ایک ملک گیر مہمیز اور تحرک تھا جسے مسلمانوں کے دونوں گروپ استعمال کرسکتے تھے۔85 ایسے رجحانات کو ایک متوازی نظریاتی جنگ کے زریعے سے کاؤنٹر نہ کیا جاسکا۔ اگرچہ افراد جیسے مولانا ابوالکلام آزاد تھے نے اس تقسیم کے رخنوں کو بھرنے،زخموں پہ مرہم رکھنے اور بے قابو گروہوں کو قابو میں رکھنے کی اپنی سی کوششیں کیں۔86
کانگریس نے یو پی میں لکھنؤ کے اندر فرقہ وارانہ تناؤ کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ایک بار جب شیعہ- سنّی فساد پھوٹ پڑے، اس کے رہنماؤں نے غیر متوازن موقف اور پوزیشن لے لیں۔ ان میں سے اکٹر نے ‘تقسیم کرو،حکمرانی کرو’ کی پالیسی کو اپنالیا اور پہلے شیعہ کو رعایت دی تو پھر سنّیوں کو۔ شیعہ رہنما جو ماضی میں کانگریس کے گرد جمع تھے، ان کو اپنے وفاداری کے صلہ کی امید تھی۔ شیعہ قیادت کی اکثریت دوسری طرف تیس مارچ 1939ء کو پنڈت کے بیان اور اشارے پہ ٹکی ہوئی تھی اور انہوں نے کانگریس پہ ہی آسرا کیا۔ لیکن ایسی سپورٹ جو قلیل المعیاد گروہی مفادات سے جڑی ہوئی تھی اس وقت ختم ہونا شروع ہوگئی جب مسلم لیگ نے 1940ء میں نئی امیدوں اور توقعات کو ابھارا۔ آخرکار، کانکریس کی شیعہ اور سنّی دونوں میں بنیادیں ختم ہوگئیں۔

83 «Establishment of a Shia College at Lucknow», 25 October 1917 UP Government (Educa- tion) file no. 398, 1926, UPSA;Fateh Ali Khan to Meston, 21 October 1915, file no. 136/15. Meston Papers. The Raja of Mahmudabad and Syed Wazir Hasan were the only two prominent Shias who were initially opposed to the Shia College. They believed that it would weaken the Aligarh Muslim Uni- versity movement and accentuate Shia-Sunni differences.
84 For a summarv of «Shia Awakening», see RlZVI. A Socio-Intellectual Histnrv. cit.. chanter5.
85 Frietag, op. cit., p. 249. 86 Azad was deputed by the Congress High Command to resolve the impasse. His personal stature aided the process of reconciliation The Shia ulama in particular agreed to suspend the tabarro’Agitation at his instance .
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیعہ اور سنّی رہنماؤں کا جو پوائنٹ آف ریفرنس تھا اس کی جگہ بہت تیزی سے مسلم لیگ کی الگ قوم کی مہم نے لے لی۔ آپشن اچانک سے ختم ہوگئے، کیونکہ ایک انتہائی تیز رفتار اور غالب مسلم نیشنلزم فرقہ وارانہ صف بندیوں کو اپنے اندر مدغم کرلیا تھا۔ ایک برٹش اہلکار نے شیعہ سے 1946ء میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنی قسمت کو سنيوں کے ساتھ رکھیں اور ان کو بطور مسلمان ہی ٹریٹ کیا جانا چاہئیے۔87 تو انہوں نے ایسا ہی کیا۔ ایک بار جب پاکستان کی تخلیق ناگزیر نظر آنے لگی تو شیعہ اور سنّی دونوں نے اپنے بھالے دفن کرڈالے،اپنی قسمت کو مسلم لیگ کے ڈبے سے نتھی کردیا اور موعود دار السلام کی طرف جانے والے لمبے ٹریک پہ چڑھ گئے۔ وہ تاریخ جھگڑوں سے نکل کر اس طاقت کو پانے کے لیے ابھرے جو ان کے آگے پڑی تھی اور وہ مستقبل کے وطن میں نئی چوائس اور آپشن دریافت کرنا چاہتے تھے۔ وہ ایک نئے لیڈر کے پیش کیے گئے نئے آدرش کے اسیر ہوگئے تھے۔ تاہم نظریاتی تنازعات نئی قوم کے ساتھ چلے آئے، جہاں نتیجے کے بغیر لاحاصل بحثیں اسی شدت اور جوش و خروش کے ساتھ پھر سے شروع ہونے والی تھیں۔
چودہ اگست 1947ء کو، پاکستان مسلم یک جہتی کے اصول پہ معرض وجود میں آیا۔ لیکن اس کی منظق کو سال بہ سال آزمائش سے گزرنا پڑا جب شیعہ اور سنیوں نے کراچی اور لاہور کی گلیوں میں ایک دوسرے سے لڑنا جاری رکھا۔ فروری 1995ء میں بی بی سی کی ایک رپورٹ میں ایک سنّی لیڈر کی وڈیو تقریر کا کلپ دکھایا گیا جس کا تعلق صوبہ سرحد (خیبرپختون خوا) سے تھا جو شیعہ کے خلاف سرعام منافرت پھیلا رہا تھا۔
ایک جنونی مجمع اسلام کے نام پہ مسلمانوں کے لیے بنائے گئے ملک میں شیعہ کے خلاف نعرے بلند کررہا تھا۔ ایک خبر رساں ایجنسی نے بڑے پیمانے پہ فرقہ وارانہ تشدد کے پھیلنے اور پنجاب میں بڑے پیمانے پہ گرفتاریوں کی خبر دی۔ پنجاب کو باہم دست و گریباں شیعہ-سنّی ایکٹوسٹوں کی جنگ کا بڑا میدان ہے۔88 اور ایک دن بعد ہی، بندوق بردار کراچی کی شیعہ مساجد میں داخل ہوگئے اور 18 افراد کو مار ڈالا۔ عورتیں انتہائی دکھ میں بین کرتی نظر آئیں اور نوجوان غصے میں بدلے کی مانگ کرتے نظر آئے۔89 ایسے واقعات ان گہرے رخنوں کی یاد دلاتی ہیں جو برصغیر میں اسلام کو لاحق ہیں۔ اور بعض اسے دو قومی نظریہ کی بدترین تعبیر قرار دیتے ہیں۔
سماجی علوم کے ماہرین کو برصغیر میں اسلام کی اقسام اور تنوع کو سمجھنے اور ان کو سراہنے کے لیے اس طرح کی پیش رفت کے مضمرات کا خاکہ کھینچنے کی ضرورت ہے۔

87:16D ecember L/,P &J/8/693.
88:Times of India,25 Februar1y99 5.
89:Ibid.25 February 199 5.

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here