اداریہ: شمالی وزیرستان میں پاک فوج کی میزبانی میں مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کا دورہ اور خدشات

0
1168

افواج پاکستان نے مختلف مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کو شمالی وزیرستان کے علاقے میرانشاہ ،میرعلی اور مقامی گریژن کا دورہ کرایا۔ اس دورے میں ان رہنماؤں کو پاکستانی فوج کے آپریشن کے بعد لوگوں کی آبادکاری اور بحالی کے کام کی بریفنگ دی گئی اور ساتھ ساتھ ان کو اس علاقے میں کام کرنے والے دہشت گردوں کی بنائی کئی سرنگوں اور خفیہ ٹھکانوں اور ان سے برآمد ہونے والی چیزیں اور مواد بھی دکھایا گیا۔

میڈیا میں شایع ہونے والی خبروں سے یہ پتا چلتا ہے کہ جن مذہبی رہنماؤں کو دورے کی دعوت دی گئی ان میں کالعدم مذہبی جماعتوں کے سربراہ بھی شامل تھے۔ حرکت المجاہدین کے بانی سربراہ کمانڈر فضل الرحمان خلیل، جماعت الدعوہ ، لشکر طبیہ کے بانی پروفیسر ساجد میر اور اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان کے سربراہ مولوی محمد احمد لدھیانوی اس وفد میں شامل تھے، جن کی جماعتیں وزرات داخلہ کی جانب سے سپریم کورٹ کو جمع کرائی گئی کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل ہیں۔

پاک فوج کی جانب سے علمائے کرام کے وفد میں کالعدم تنظیموں کے سربراہوں کی شمولیت کو کئی حلقوں کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اور ہمیں بھی ان کالعدم تنظیموں کے سربراہوں کی شمولیت پہ اور ان کو پروٹوکول دیے جانے پہ سخت تشویش ہے۔

کمانڈر فضل الرحمان خلیل اور پروفیسر حافظ سعید کی تنظیموں کو عالمی سطح پہ دہشت گرد قرار دیا جاچکا ہے۔ جبکہ اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان کو امریکہ و برطانیہ کی جانب سے دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ہے۔

حرکت المجاہدین اور لشکر طیبہ ہندوستان، کشمیر، افغانستان کے اندر کئی سویلین کے خلاف دہشت گردی کے اقدامات میں ملوث پائی گئی ہیں۔ ان تنظیموں کے سربراہان نے اگرچہ کبھی اعلانیہ پاکستان کے اندر مسلح جدوجہد کرنے کا اعلان نہیں کیا لیکن یہ دنیا بھر میں مذہبی منافرت کی بنیاد پہ دوسری مذہبی برادریوں اور دوسرے ممالک میں مسلح جدوجہد کرنے اور دہشت گردی کا ارتکاب کرنے کو جہاد کے نام سے انجام دینا درست خیال کرتی ہیں۔ ان تنظیموں کی دوسرے ممالک میں جہاد کے نام پہ مسلح جدوجہد کرنے کی حمایت پاکستان کی اعلانیہ خارجہ پالیسی کی خلاف ورزی ہے۔

اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان ایک ایسی کالعدم فرقہ پرست جماعت ہے، جو پاکستان میں شیعہ مسلک کو کافر قرار دیتی ہے اور پاکستانی ریاست سے ان کو کافر قرار دیے جانے کے مطالبے پہ استوار تنظیم ہے۔ اس تنظیم کے رہنماء اور کارکن بڑے پیمانے پہ شیعہ کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث رہے ہیں۔ جبکہ اس تنظیم کے غیر اعلانیہ مسلح ونگ لشکر جھنگوی نہ صرف شیعہ کے خلاف دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث رہا ہے بلکہ یہ ونگ صوفی سنّی ، کرسچن، ہندؤ، احمدیوں کے خلاف بھی دہشت گردی میں ملوث رہا ہے۔

اہلسنت والجماعت پہلے سپاہ صحابہ کے نام سے کام کرتی تھی۔ اس پہ مشرف دور میں پابندی لگائي گئی تو یہ ملت اسلامیہ کے نام سے کام کرنے لگی۔ ملت اسلامیہ کالعدم ہوئی تو یہ اہلسنت والجماعت کے نام سے کام کرنے لگی ۔2012ء میں پی پی پی کے دور حکومت میں اسے کالعدم قرار دیا گیا تو اس نے ‘ سنّی رابطہ کونسل’ اور ‘راہ حق پارٹی’ کے نام سے کام جاری رکھا اور ‘راہ حق پارٹی ‘ کے نام سے اس تنظیم کو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بھی رجسٹرڈ کرلیا گیا۔ یہ تنظیم آفیشل طور پہ خود کو دہشت گردی کا مخالف بتلاتی ہے لیکن اس کے جلسے ، جلوسوں اور تنظیمی نیٹ ورک میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ منافرت پھیلائی جاتی ہے اور اس تںظیم کی بنیاد ہی شیعہ کی تکفیر پہ استوار ہے ۔ جبکہ پاکستان کا آئین فرقہ وارانہ منافرت پہ مبنی سرگرمیوں کو جرم قرار دیتا ہے چہ جائیکہ ایک ایسی تنظیم ہو جس کا مقصد ایک دوسرے مسلک  کی تکفیر کو ریاستی سطح پہ منوانے پہ استوار ہو۔

پاک فوج کی جانب سے کالعدم جہادی و فرقہ پرست متشدد تنظیموں کے سربراہوں کو پروٹوکول دینا اور ان سے مذہبی انتہا پسندی، عسکریت پسندی اور منافرت کے خلاف مدد مانگنا، ان خدشات کو تقویت دے رہا ہے کہ اسٹبلشمنٹ میں ایسے عناصر موجود ہیں جو اب بھی 80ء کی دہائی میں ڈیپ سٹیٹ اور جہادی و تکفیری پراکسیز کو چلارہے ہیں۔

علمائے کرام کے وفد میں جہادی و تکفیری عناصر کی شمولیت سے پاک فوج کی بدنامی ہوئی ہے۔ اس شمولیت نے بین الاقوامی برادری کو پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف ہونے کے دعوے پہ سوالیہ نشان لگایا ہے۔

پاکستان میں جہادیوں اور تکفیریوں کا حامی طبقہ کالعدم تنظیموں کی مین سٹریمنگ کی حمایت میں یہ دلیل لاتا ہے کہ ان تنظیموں نے پرانا راستا ترک کردیا ہے۔ ہم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا وہ ہمیں ان تنظیموں کے سربراہوں کی جانب سے پرانا راستا ترک کرنے کا کوئی ایک اعلانیہ حتمی بیان دکھاسکتے ہیں؟

کیا کمانڈر فضل الرحمان خلیل اور حافظ سعید نے دوسرے ممالک بشمول افغانستان و ہندوستان و کشمیر میں مسلح جہاد کو غیر شرعی، غیر اسلامی قرار دے دیا ہے؟ کیا محمد احمد لدھیانوی نے یہ اعلان کردیا ہے کہ اہلسنت والجماعت اب شیعہ مسلمانوں کی تکفیر نہیں کرتی اور ریاست سے ان کو غیرمسلم قرار دینے کے مطالبے سے دست بردار ہوگئی ہے؟

اس سے پہلے جماعت احرار وتحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے مبینہ طور پہ پاک فوج کے مہمان بننے کے معاملے پہ آج تک ابہام کو دور نہیں کیا گیا۔

سب سے بڑھ کر اس شمولیت نے دہشت گردی سے متاثر ہونے والی مذہبی و نسلی برادریوں کو سخت تشویش اور دکھ میں مبتلا کردیا ہے۔

کچھ ناقدین نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ پشتون حقوق کی تحریک پی ٹی ایم کو دبانے کے لیے جہادیوں اور فرقہ پرستوں کو بطور آلہ کار کے استعمال کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔

 ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باوجوہ کو اس طرح کے اقدامات کی سنجیدگی سے روک تھام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے اقدامات سے پاک فوج کے امیج پہ برا اثر پڑتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here