وفاق کی جانب سے وزیراعلیٰ سیدمرادعلی شاہ اورچندوزراءکےنام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالےجانےکےبعدپی ٹی آئی کی وفاقی حکومت اورپی پی پی کی سندھ حکومت کےدرمیان کشیدگی میں اضافہ ہورہاہے۔ پی پی پی اوروزیرِاعلیٰ نےمنی لانڈرنگ اورجعلی اکائونٹس پرجےآئی ٹی رپورٹ کومستردکردیاہے، یہ رپورٹ اگردرست ثابت ہوگئی تو پی پی پی کی لیڈرشپ اوران کی سندھ حکومت کیلئےسنگین نتائج پیداہوسکتےہیں۔ اگریہ غلط ثابت ہوئےتو اس سے ’احتساب کے عمل‘ پر سنجیدہ سوالات اٹھیں گے کیونکہ پی ایم ایل(ن) پہلےہی نواز شریف کیخلاف تمام عمل کوتعصبانہ اوریک طرفہ کہہ کرمسترد کرچکی ہے۔ لہذا یہ بھی جعلی جمہوریت بمقابلہ جعلی احتساب ہے۔ تقریباًایک ماہ قبل وزیراعظم عمران خان کے کراچی دورہ کے موقع پر وزیراعلیٰ سندھ نےمجھےبتایا کہ نیب اور ایف آئی اے کےدبائو کی وجہ سےسرکاری افسران بہت زیادہ دبائومیں ہیں حتٰی کہ ایک فائل کو بھی یہاں سے وہاں کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ گورنرسندھ عمران اسماعیل کی موجودگی میں وزیراعظم کےساتھ 18سے20منٹ کی ملاقات کےدوران وزیراعظم نے بھی ان کےگورنر کےساتھ تعلق پرسوالات اٹھائےاورشاہ نےجواب دیاکہ جب تک وہ سرکاری کاموں جن میں ’’امن و امان‘‘بھی شامل ہے،ان میں مداخلت نہیں کرتےتب تک انھیں اُن کےساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

 اب دودن قبل گورنرنےوزیراعظم کےساتھ لمبی ملاقات کی اورگزشتہ چھ ہفتےکی’’امن وامان‘‘ کی صورتحال اورجعلی اکائونٹ پربننےوالی جےآئی ٹی کےنتیجےمیں ممکنہ سیاسی آپشنزاورپیرکوسپریم کورٹ میں سماعت پرگفتگو کی۔ ملاقات کا اختتام سندھ میں گورنر راج سے متعلق افواہوں کی صورت میں نکلا اور پی ٹی آئی کے کچھ رہنمائوں نے وزیراعلیٰ سندھ کے استیفےکا مطالبہ بھی شروع کردیاہے اور حتٰی کہ اگر پی پی پی کی لیڈرشپ گرفتار ہوجاتی ہے توسندھ میں ’اِن ہائوس چینج‘ کےبارے میں بات کررہےہیں۔ جمعےکووزیراعظم عمران خان کےمنی لانڈرنگ سےمتعلق بیان اورسندھ میں شوروغوغےسےوزیراعظم ہائوس یاپی ٹی آئی کی ہائی کمانڈ کی جانب سےزیرِغورممکنہ’’متبادل‘‘منصوبوں کاپتہ لگتاہے۔ پانامہ پر بنی پچھلی کانتیجہ سابق وزیراعظم نوازشریف کی برطرفی کی صورت میں نکلاتھا، وہ نااہل اورمجرم قرارپائے۔ لہذا دوسری جے آئی ٹی کےبعد یہ یا تو پی پی پی اور پی ایم ایل(ن) کے ماتحت’’جعلی جمہوریت‘‘ کاکیس ہوگایانیب اور ایف آئی اے کی جانب سے جعلی احتساب کا کیس ہوگا لیکن اس کیلئے ابھی ہمیں کچھ وقت انتظارکرناہوگاکیونکہ قانونی عمل میں کچھ وقت لگے گا۔ اس ٹرائل کا حتمی نتیجہ پی پی پی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹوکا مستقبل بھی طےکرےگا کیونکہ نواز شریف کے حتمی فیصلے سے ان کی بیٹی مریم نواز کالہجہ بھی طے ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نےجعلی اکائونٹس کیس کے ساتھ پیرکواصغر خان کیس بھی مقرر کررکھا ہے۔ میرےمطابق اصغرخان کیس کرپشن کے تمام مقدمات کی ماں ہے کیونکہ اس سے 80 کی دہائی میں سیاست میں کرپشن کی بنیاد پڑی اور کس طرح سے1990کے انتخابات میں دھاندلی کیلئے پیسے کواستعمال کیاگیاجسےسپریم کورٹ پہلےہی دھاندلی شدہ قراردے چکی ہے۔ بلاامتیاز احتساب کیلئے یہ ایک لٹمس ٹیسٹ ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کی اپوزیشن یاکسی اور سے کوئی فوری خطرہ نہیں ہوسکتا اور غالباً اس سے جارحانہ اقدام کیلئےانھیں قوت ملتی ہے لیکن کیا اس سے سیاسی اور معاشی استحکام آئے گا یا افراتفری پھیلے گی۔ سال 2019 حکومت اور اپوزیشن کیلئے مشکل ہوگا کیونکہ اس سے نہ صرف شریف اور زرداری کی قسمت کا فیصلہ ہوگایاوہ کم از کم کسی نتیجے پرپہنچ جائیں گے بلکہ یہ بلدیاتی انتخابات کا سال بھی ہوگاجو پنجاب کیلئے کافی مشکل ہوگا اور پی ٹی آئی اس محاذ پراپنی کمزوریوں کو جانتی ہے کیونکہ حال ہی میں ہوئے ضمنی انتخابات کےآفٹرشاکس انھیں مل چکےہیں۔ آئندہ چند ماہ میں اپوزیشن کی اندرونی اور بیرونی حکمتِ عملی بھی سامنے آجائےگی اور اسی طرح پی ٹی آئی کی بھی مخالف حکمت عملی اورپالیسیوں کا پتہ لگ جائےگا۔ جبکہ آئندہ تین سے چھ ماہ میں شریف کاٹرائل بھی یقیناًختم ہوجائےگا، جعلی اکائونٹ کیس میں زیادہ وقت لگ سکتاہے کیونکہ باقائدہ ٹرائل ابھی تک شروع ہی نہیں ہوا۔ اپوزیشن جماعتیں بھی جانتی ہیں کہ مارچ 2020تک سینٹ میں ان کی اکثریت ختم ہوجائےگی اورپی ٹی آئی کی زیرِ قیادت اتحاد کویہ جگہ مل جائےگی۔ لہذا قومی اسمبلی اور سینٹ میں جو بھی دبائو وہ ڈال سکتے ہیں وہ 2019میں ہی ہوگا۔ یہ سچ ہے کہ پی پی پی اور پی ایم ایل(ن) کی طرح کی مرکزی جماعتیں جو ابھی تک اتحاد کرنے میں ہچکچارہی ہیں لیکن ان پاس ابھی تک پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کیلئےسنجیدہ نوعیت کی مشکلات پیدا کرنےکی صلاحیت ہے۔ لیکن وفاقی حکومت کیلئے سندھ میں کوئی بھی مہم جوئی پی ٹی آئی کیلئے بے سود ہوگی اور اس سے سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوگایہ اسی بات ہے جس سے پی ٹی آئی کی بجائے پی پی پی کو فائدہ ہوگا۔ لہذا عمران خان اور ان کی ٹیم کیلئے بہترین راستہ یہ ہے کہ قانون کو اپنا قدرتی راستہ اختیار کرنے دیاجائے۔ سندھ میں سیاسی مہم جوئی کے ماضی کے تجربات کا نتیجہ برا ہی نکلا چاہے یہ مرحوم جام صادق علی، سید مظفر حسین شاہ، لیاقت جتوئی یا ارباب غلام رحیم کی صورت میں ہی ہو جنھوں نےسیاسی انجینئرنگ کےذریعےحکومت بنائی لیکن پی پی پی کےگڑھ کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ پانامہ اور منی لانڈرنگ پر بنی دو جے آئی ٹی کی رپورٹوں سے پی ایم ایل(ن) اور پی پی پی کےطرزِحکومت کےبارے میں کئی سنجیدہ نوعیت کے سوالات اٹھے ہیں۔ لہذا، پی پی پی اورپی ایم ایل(ن) کےاحتساب عمل کےبارے میں تحفظات اور اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے اس کا خیال رکھےجانے کےباوجودجب قانون اپنا قدرتی راستہ اختیارکررہاہے، پی ٹی آئی رہنما کیوں اتنےخواہش مندہورہےہیں کہ انھوں نے سندھ میں حکومت بنانے کے بارے میں باتیں بھی کرنی شروع کردی ہیں۔ یہ دیکھنا بھی دلچسپ ہوگا کہ یہ صورتحال کتنی دیر تک رہے گی اور پی ٹی آئی، اپوزیشن اور وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کی حکمت عملی اور مخالف حکمت عملی کیاہوگی۔ سپریم کورٹ میں پیر کی کارروائی سے عدالتی عمل اور سیاسی درجہ حرارت جو ’’نئےسال‘‘میں بڑھےگا،دونوں کا تعین کرےگا

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here