غیرجانبدار (کہانی) عامر حسینی

0
1205

دسمبر کل رخصت ہوجائے گا،اور نیا سال 2019 آجائے گا،بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی پارٹی نے انتخابات جیت لیے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیاں دھاندلی کا شور مچارہی ہیں۔پاکستانی وزیراعظم ‘سندھ سے بلند چیخوں کی آوازیں سن کر خوشی سے باؤلے ہوئے جاتے ہیں۔ کوئٹہ کی منجمد کردینے والی سردی میں چند لکڑیوں کا الاؤ سلگا کر بیٹھی نوجوان، بوڑھی عورتوں کی آنکھوں میں امید کے سائے کسی کو دکھائی نہیں دے رہے۔ اس دوران سپاہ سالار عزت مآب جنرل قمر باوجوہ وزیراعلی بلوچستان جام کمال کو بہترین کارکردگی پہ شاباشی دے رہے ہیں۔ ادھر کراچی میں علی کو قتل کرنے کے الزام میں تین ماہ پہلے سے زیرحراست عرف جبری جبری گمشدہ عباس کو تھام لیا گیا ہے۔ ہر طرف داد و تحسین کے ڈونگرے برس رہے ہیں۔ اور پشاور میں سوگوار مائیں اپنے مقتول بچوں کے قاتلوں کے ترجمان کو ایک بنگلے میں قہقہے لگاتے دیکھ کر اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کر اور کانوں میں روئی پھنساکر قہقہوں کی اذیت سے بچنے کی سعی ناکام کرتی ہیں اور آنسو ان سے غداری کرکے گالوں پہ بہے جاتے ہیں اور ان کی ہچکیوں کی آواز کہانی لکھنے والے تک پہنچ رہی ہے۔ گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں دفن مصلوب ذوالفقار علی بھٹو شاہراہ دستور پہ بنی سپریم کورٹ کو تکے جاتا ہے اور ساتھ پہلو میں سویا شاہنواز راولپنڈی کی سڑک کے ایک طرف خار دار تارروں کے پیچھے اونچی فصیلوں کی طرف دیکھتا ہے تو اس کے ساتھ سویا مرتضی اپنی خون آلود قمیص کو لہراتا ہے اور بار بار آبپارہ کی ایک سفید عمارت کی طرف دیکھتا ہے جو کبھی سرخ رنگ کی ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور قبر میں بے نظیر بھٹو نے اپنے سر پہ کفن کو تھوڑا سا نیجے کھسکا دیا ہے اور بار بار وہ لیاقت باغ راولپنڈی کی سڑک کی جانب اشارہ کرتی ہیں اور آسمان کی طرف دیکھتی ہیں۔ جبکہ زبان پہ مندمل ہوگئے زخم کے ساتھ آصف زرداری نے بلوچوں کی سفید پگ پھر سے باندھ لی ہے، دونوں کاندھوں پہ اس کے پلو لٹک رہے ہیں، وہ بار بار بلھّے شاہ، سچل سرمست، شاہ عنایت ٹھٹھوی، لطیف بھٹائی کے اشعار پڑھتا ہے اور پھر اردو میں بولتا ہے، کہتا ہے کوفے پہ قابض لوگ اندھے،بہرے گونگے ہیں ان کو مقامیت کی زبان سمجھ نہیں آتی، اس لیے اودھ کی تہذیب میں جنم لینے والی معرب و مفرس زبان میں بات کرنا پڑتی ہے۔ ہمارے لکھاری پہ دباؤ ہے کہ وہ ان سب چیزوں پہ کوئی کہانی نہیں لکھے گا، بلکہ احتساب کے جنون کو کہانی کی زبان میں بیان کرے گا۔ لکھاری پریشان ہے۔ اسے تو کہیں دور سے کچھ اور آوازیں آرہی ہیں۔اور وہ سولہ دسمبر 1971ء کے بعد کی کہانی لکھنے کی بجائے دسمبر71ء کے کچھ کرداروں کی آوازیں سن رہا ہے۔ اور یہ کردار خود اسے اپنی کہانی سنارہے ہیں۔ ایک کردار جو یادگار شہداء میرپور ڈھاکہ قبرستان میں دفن ہے۔ اسے یہ کہہ کر چونکا دیتا ہے کہ وہ کوئی کرانتی کاری نہیں ہے۔ نہ وہ بنگالی علیحدگی پسند/آزادی کی تحریک کا شہید ہے۔ بلکہ وہ توغیر جانبدار رہنے کے باوجود مارا گیا۔ ہمارا لکھاری اس سے بچنے کی بہت کوشش کرتا ہے،لیکن وہ اس کا ہاتھ تھام لیتا ہے اور اسے ایک طرف لیکر چلنا شروع ہوجاتا ہے۔ ہمارا لکھاری ڈھاکہ کی ایک گلی میں ایک مکان کے سامنے پاتا اور اسے اس مکان کے اندر دھکیل دیا جاتا ہے۔اور وہ دیکھتا ہے۔

ستار پہ انگلیاں چل رہی تھیں۔ راگ بہاگ کو ستار پہ بجایا جارہا تھا ۔ شام آہستہ آہستہ ڈھل رہی تھی ۔ اداسی کے رنگ بکھیرتے چل جارہے تھے ۔ ستار نواز بی سیوا رام کرشنا کی سنگت طبلہ نواز اور نے نواز کررہے تھے۔ راگ بہاگ اسے اپنے ساتھ جیسے بہائے لے جارہا تھا۔ وہ بے خود اور مست ہوا جاتا تھا۔ اسے لگتا تھا جیسے وہ دریائے نربدا کی پرسکون لہروں کے ساتھ تیرتا جارہا ہو۔ اسے ستار کی تاروں سے نکلتی موسیقی کہیں اپنے اندر جذب ہوتے محسوس ہورہی تھی ۔فرش پہ بچھی چاندنی پہ وہ پاؤں سمیٹے بیٹھا تھا۔

‘ حجور، کہیے راگ بہاگ کی ستار پہ ادائیگی پسند آئی’، سیوا رام شنکر نے اسے پوچھا تو وہ ہڑبڑا سحر سے باہر آگیا۔

‘سیوا رام کرشنا جی! آپ نے تو کمال کردیا۔ میں جو فلم ڈائریکٹ کرنے جارہا ہوں، اس کے بیک گراؤنڈ میوزک میں اسی ہی رکھوں گا۔’

چاندنی پہ پاؤں سیکڑے پتلون شرٹ میں ملبوس دھان پان سے شخص نے ہاتھ میں پکڑے سگریٹ کے فلٹر کو سلگتے دیکھ کر اسے سامنے پڑی ایش ٹرے میں مسل کر رکھتے ہوئے کہا۔

‘بابو! آپ کی بڑی کرپا ہوگی ہم، اگر آپ ایسا کریں گے۔’، سیوا رام کرشنا جی نے دونوں ہاتھ جوڑ کر  اسے پرنام کی اور اٹھ کھڑے ہوئے۔

حسام الدین کو سب بابو کہتے تھے، نوجوان بنگالی فلم میکر تھا۔ مگر سکرپٹ رائٹنگ، ڈائریکشن بھی کرتا تھا۔ مشرقی بنگال جسے اب مشرقی پاکستان کہا جاتا تھا اس کے سب سے بڑے شہر ڈھاکہ میں رہتا تھا۔ وہ مشرقی بنگال کی فلم انڈسٹری کا ابھرتا ہوا ستارا سمجھا جارہا تھا۔ اپنے کرئیر کے آغاز ہی میں اس نے دوسپر ہٹ بنگالی فلمیں پروڈیوس کی تھیں، ان فلموں کا سکرپٹ خود لکھا تو ہدائیت کاری بھی کی اور یہ اس کا ایک کارنامہ سمجھا جارہا تھا۔

حسام الدین نے ڈھاکہ یونیورسٹی سے بنگالی لٹریچر میں ماسٹرز کیا تھا اور پھر اسکالر شپ پہ لندن اسکول آف فائن آرٹس سے فلم میکنگ میں پوسٹ گریجویٹ ڈگری حاصل کی تھی۔ اسے بنگالی زبان،ادب اور فلم و ڈرامے سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔ حسام الدین کا باپ عبدل الکبیر کہا جاتا تھا کہ مشرقی بنگال میں نکسلائٹ ماؤ واد تحریک کے  اولین نظریہ سازوں میں سے ایک تھا اور ان کو مشرقی بنگال کا کانو سنیال کہا جاتا تھا۔

(کانو سیال، چارو موجمدار اور جنگل سنتھال نکسلائٹ تحریک کے بانی تھے)

 1950ء میں ان کو سیکورٹی فور‎سز نے اٹھایا اور غائب کردیا تھا۔ اور پھر ایک دن ان کی لاش چٹاگانگ میں ایک نہر کے کنارے پہ ملی تھی۔

جس دن عبدل الکبیر عرف کانو سنیال کی لاش نہر کنارے ملی، اسی دن سیکورٹی فورسز کی بڑی تعداد نے ان کے گھر پہ چھاپہ مارا اور وہ سات سال کے حسام الدین کو اس کی ماں زھرا اختر بیگم کے ہمراہ اپنے ساتھ لے گئے اور وہاں پہ تین سے چار غاجیوں نے حسام الدین کے ساتھ بدفعلی کی تھی اور اسے خون سے لت پت چٹاگانگ کے اس ویرانے میں پھینک گئے جہاں آج چٹاگانگ یونیورسٹی بنی ہوئی ہے۔ اور اس کی ماں کا اس کے بعد کوئی پتا نہیں چلا۔

حسام الدین بنگالی شاعر رابندرناتھ ٹیگور کی یاد میں بنے ایک اناتھ آشرم میں پلا پڑھا تھا اور وہیں بابو موتی رام کا وہ آنکھ کا تارا بنا جو درمیانے درجے کے میوزک ڈائریکٹر تھا۔ اس نے حسام الدین کو بنگالی زبان وادب ،فلم، موسیقی، تھیڑ و آرٹ میں طاق کردیا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں حسام الدین کا داخلہ بھی موتی رام کے روابط کے سبب ممکن ہوا تھا۔

حسام الدین نے اپنے بچپن کے ان بدترین لمحات کو اپنی لاشعور کی گہرائیوں میں کہیں دفن کردیا تھا جو اس کے باپ کی لاش ملنے کے اگلے دن ماں کے ساتھ اٹھائے جانے کے بعد اس وجود میں آئے تھے۔

موتی رام جو بظاہر تو سر سنگیت میں ڈوبے رہتا تھا، لیکن جب حسام الدین کے ساتھ ہوتا تو باتوں باتوں میں وہ سیاسی باتیں چھیڑتا اور اس کو کچھ کہنے پہ اکساتا تو حسام الدین ایسے ظاہر کرتا،جیسے اسے نیند آنے لگی ہے اور وہ سونے کا ناٹک کرنے لگتا تھا،موتی رام اس کے ناٹک کو سمجھ کر چپ ہوجاتا۔

اپنے باپ کی سیاسی وراثت کو کبھی عملی طور پہ اپنا نہیں سکا تھا۔ اسے سر سنگیت، ادب اور فلم و تھیڑ سے فرصت نہیں تھی اور اسے اپنے انگ انگ میں بنگالی زبان و ادب رچ بسا نظر آتا تھا۔ کالج کے زمانے میں کلاسیکل بنگالی رقص بھی اس کے مشاغل میں شامل ہوگیا تھا اور اسے سارا سونار بنگلہ رقص کرتا نظر آتا تھا۔ سو ڈھاکہ یونیورسٹی میں اس کی غیرنصابی سرگرمیوں کا مرکز ڈرامیٹک سوسائٹی تھی۔ یونیورسٹی میں کرانتی کاریوں سے عشق میں مبتلا نوجوان لڑکے لڑکیاں اسے ملامتی نظروں سے دیکھتے تھے۔

اس نے کبھی اسٹوڈنٹس یونین سرگرمیوں میں حصّہ نہیں لیا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی، عوامی لیگ، نیپ اور بائیں بازو و سیکولر لبرل ڈیموکریٹ گروپوں کے طلباء ونگ اسے اپنے باپ کی سیاسی وراثت کو ترک دینے اور بنگلہ دھرتی کا غدار کہا کرتے لیکن وہ کسی کی بات کا جواب نہ دیتا،بلکہ ایسے طعنوں کو ہنسی میں اڑا دیتا تھا۔

ایک بار اسے نکسلائٹ تحریک کے ہمدرد بنگالی طالب علموں نے رات کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں گھیرلیا، اس کے  ایک ہاتھ میں شراب کی بوتل اور دوسرے ہاتھ میں گٹار تھا، ان طلباء میں سانگی بھی تھا،جسے سیکورٹی فورسز ڈھونڈتی پھرتی تھیں اور اسے دیکھتے ہی گولی مارنے کے آڈر تھے۔ سانگی نے اس کا گریبان پکڑا اور اسے تھپڑ مارتے ہوئے کہنے لگا

‘مادر چود،سالا، پونزابی ایجنٹ ! اپنے باپو کی عجت کی ارتھی کیوں نکال رہا ہے؟

اس کے منہ سے بے اختیار نکلا،’ بورژوازی پرانی شراب جیسی ہے، دوآتشہ نشہ چڑھانے والی، تمہاری کرانتی اس کے سامنے ٹھہر نہیں پائے گی، پونزابی جائے گا تو بنگالی بورژوازی آجائے گی اور تمہیں ملک و قوم کا دشمن کہہ کر گولی سے اڑادے گی۔”

اس کے بعد وہ بے تحاشہ ہنسنے لگا۔

وہ لڑکے اسے گالیاں دیتے ،چلتے بنے۔

یونیورسٹی سے باہر نکلنے کے بعد کچھ ہی دنوں میں موتی رام نے اس کا لندن اسکول آف فائن آرٹس میں داخلہ  ممکن بناڈالا اور اسے اسکالر شپ مل گئی تھی۔ اور وہاں سے وہ ڈھلا ڈھلایا فلم ساز بنکر نکلا تھا۔

ڈھاکہ واپس آکر جب وہ اپنی پہلی فلم کا اسکرپٹ لکھ چکا اور اپنی فلم کے لیے ہیروئین ڈھوںڈ رہا تھا تو ڈھاکہ میں ایک ٹی کیفے پہ اس نے سچیندہ کو دیکھا۔ وہ بی اے کی طالبہ تھی۔ اسے سچیندہ میں اپنے فلم کی ہیروئین نظر آئی تھی۔ اس نے سچیندہ کو کسی نہ کسی طرح راضی کرلیا تھا۔ جبکہ اس کے والد سچیندہ کو ہرگز فلموں میں کام کرتے نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ اس دوران سچیندہ نےحسام الدین کو صاف بتایا کہ باپ سے بغاوت کیے بنا وہ اس کی فلم کی ہیروئین نہیں بن سکے گی۔ اس دوران حسام الدین تو پہلے ہی سچیندہ کی بڑی بڑی موٹی سیاہ آنکھوں کا اسیر ہوگیا تھا۔

 سانولی سلونی سچیندہ اس کی دل کی دنیا زیر و زبر کرچکی تھی۔ سو دونوں نے کورٹ میرج کرلی اور سچیندہ کے باپ نے اسے عاق کرڈالا۔ اور یوں سچیندہ نہ صرف حسام الدین کی پہلی فلم کی ہیروئین بنی بلکہ اس کی بیوی بھی بن گئی۔

‘ ریان! تم کبھی مشرقی بنگال کے کانو سنیال کی بات کیوں نہیں کرتے، کیا تمہیں یہاں کے ظلم کی چکّی میں پستے ہوئے کسان نظر نہیں آتے؟ تم ہر وقت رومان میں کیوں ڈوبے رہتے ہو؟ کیا سماج کی تلخ حقیقتوں کو فلم کی زبان میں بیان نہیں کیا جاسکتا؟ دیکھو تو سہی وہاں گانوؤں میں کسانوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ چٹاگانگ کے ساحلوں پہ مانجھیوں کی زندگی کیسے بوجھ بنادی گئی ہے؟’، ایک دن سچیندہ نے اری ٹیٹ ہوکر حسام الدین سے کہا۔

حسام الدین نے  نے یہ سب سنکر جواب میں پہلے کچھ نہ کہا، وہ سچیندہ کو سگریٹ پھونکنے کے دوران بس تکتا ہی رہا۔ اور پھر کہنے لگا

“مجھے اس جنگ کی سرے سے سمجھ نہیں آتی، رومان بس رومان ، مناظر فطرت کے اسکرپٹ مجھے سمجھ آتے ہیں،میں ایک عام سا فلموں کا دھنی بنکر ان اسکرپٹوں پہ فلمیں بنانا چاہتا ہوں، میں بڑے بڑے بیانیوں کی خاطر اپنی جان گنوانا نہیں چاہتا۔”

سچیندہ نے بھی اسے ملامتی نظروں سے دیکھا،مگر حسام الدین کی محبت اس کے رگ و پے میں رچی بسی تھی، وہ اس کی عاشق تھی جبکہ حسام اسے اپنی محبوبہ کہا کرتا تھا۔ اس نے اپنی دو فلموں میں اسے ہی ہیروئین کا کردار دیا تھا اور اب تیسری فلم میں بھی اسے ہیروئین رکھا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا،’میں چاہتا ہوں کہ اپنی فلموں کی سنچری بناؤں اور ان سو فلموں میں تمہیں میری ہیروئین ہوں” اور وہ تعلی میں کہتا کہ وہ سو کی سو فلمیں سپرہٹ ہوں گی۔

سیوا رام کرشنا کے ہاں سے نکل کر حسام الدین واپس اپنے گھر کو لوٹ رہا تھا کہ سڑک پہ ایک جگہ ناکہ پہ اسے روکا گیا۔

‘کون ایں توں ، بھین چودا!’

ناکے پہ کھڑے ایک لمبے تڑنگے،سرخ و سپید فوجی نے اس سے انتہائی درشتی سے گالی دیکر  پوچھا تھا۔۔۔

 اسے بس ‘کون’ کی سمجھ آئی باقی کی نہیں۔۔۔۔

ام حسام الدین، فلم بناتا ۔۔۔۔ اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں بتایا اور پھر جیب سے شناختی کارڈ نکال کر دکھایا۔۔۔۔۔

ایہہ تے سانوں وی ملوم اے توں بنگالی کتییا، فلماں شلماں بناوندا ہوئیں گا یا فیر توں کنجراں وانگوں ہارمونیم تے تبلہ وجاندا ہونا اے۔۔۔۔ مسجد اچ نمازاں تے پڑھاون توں رہیاں ( یہ تو ہمیں بھی معلوم ہے تم بنگالی کتّے ہو فلم شلم بناتے ہوں گے یا پھر کنجروں کی طرح ہارمونیم یا طبلہ بتاتے ہوں گے، مسجد میں نماز تو پڑھانے سے رہے)

شناختی کارڈ دیکھتے ہوئے فوجی نے کہا اور پھر لات رسید کرتے ہوئے کہا،’جا نس جا، ایتھوں کسے کتّی دیا پترا، رات دے دس وجے دے بعد ہن کسے سڑک تے ماں یہاوندا ہویا نظر آیا تے تیری بونڈ پھاڑ دیاں گے فیر چیخاں ماردا پھریں گا۔’۔۔۔۔۔ (جاؤ بھاگ جآؤ ، کتیا کے بچے، پھر کبھی رات کے دس بجے کسی سڑک پہ پائے گئے تو وہ سلوک کروں گا کہ چیختا پھرے گا۔۔۔۔۔ اتنی شستہ پنجابی کا اردو میں ترجمہ اتنا ہی ہوسکتا تھا)۔۔۔۔۔

حسام الدین کو اس کی بات زرا بھی پلّے نہیں پڑی تھی لیکن وہ یہ سمجھ گیا تھا کہ اسے وہاں سے چلے جانے کو کہا جارہا ہے۔ وہ تیز قدم چلتا ہوا وہاں سے اپنے گھر پہنچ گیا۔

سچیندہ نے پہلی دستک پہ ایسے دروازہ کھولا جیسے دروازے سے لگی کھڑی ہو۔

سچیندہ: تم کو منع کیا تھا کہ اتنی دیر باہر نہ رہا کرو۔ حالات زرا اچھے نہیں ہیں، سنا ہے سیکورٹی فورسز بنگالیوں کے ذہین دماغوں کے خلاف ٹارگٹ ٹو ڈیتھ آپریشن شروع کرچکی ہے۔’ سچیندہ نے بے قراری سے کہا۔

کاجل اور کبیر تمہارا انتظار کرتے کرتے سوگئے ۔

سچیندہ نے مزید کہا۔

ہمہمہم۔۔۔۔۔ حسام الدین نے اس سے زیادہ کچھ نہ کہا اور جوتے اتار کر بیڈ پہ لیٹ گیا۔

ڈھاکہ کینٹ میں ایک بنگلے میں رات کے بارہ بجے تھے اور بنگلے کی ساری بتیاں روشن تھیں۔ بنگلے کے گرد سخت سیکورٹی تھی۔ اندر اور باہر چاروں طرف اسٹین گنیں اٹھائے فوجی پہرا دے رہے تھے۔ بنگلے میں برآمدے کے سامنے ہال نما کمرے میں ایک لکڑی کی لمبی میز کے پیچھے کرسی پہ میجر جنرل چودھری نصیر سلیمی براجمان تھا اور اس کے سامنے ایک فوجی اٹین شن کھڑا تھا  اور اس کے چہرے پہ سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ اس کے کاندھے پہ لگے اسٹارز سے پتا چلتا تھا کہ وہ میجر ہے۔سامنے بیج پہ اس کا نام ابوبکر لکھا تھا۔

میجر ابوبکر! تینوں ،میں آکھیا سی، اوس عبدل الکبیر کتّے دے پتر دا پتا کرائیں، اوس سور دا ایہہ پتر ماؤاسٹ نیٹ ورک نوں جلارہیا اے( میں نے تمہیں کہا تھا کہ اس عبدل الکبیر کتے کے بیٹے کا پتا کراؤ، اس سور کا یہ بچہ  ماؤاسٹ نیٹ ورک چلارہا ہے)

سر! میں نے پتا کرلیا ہے، البدر والوں کی رپورٹ غلط ہے۔ اس کا بیٹا حسام الدین سیدھا سادھا فلم ساز ہے۔ فلمیں بھی غیرسیاسی بناتا ہے،اس سے تو خود ماؤاسٹ اور بنگالی قوم پرست بھی نفرت کرتے ہیں۔ وہ بے ضرر ہے۔

تینوں (سخت غصّے میں میجر جنرل) کئی واری آکھیا اے ، اساں البدر توں ہی انفارمیشن نئیں لیندے، ساڈے کول اندر دی خبر لین دے ہور بھی زرایع نيں،توں کدے کدے مینوں لگدا اے ہلے تک کالج دی فضا توں باہر نی آیا، ترے اندر ہلے وی کمیونسٹاں تے قوم پرستاں دا ڈنگ باقی اے۔۔۔۔چھڈ،  سویرے سویرے اودھے گھر تے چھاپہ مارو تے او! مینوں ہر صورت اچ کل دی سویر مردہ چاہیدا اے، اوتوں حکم اے کسے پروفیسر،کسے فلماں شلمآں ،گیتاں شیتاں لکھن آلے نوں تے کسے بنگالی سیاست دان نوں چھڈنا نئیں ۔۔۔۔۔۔

(کئی بار کہا ہے، ہم صرف البدر والوں سے معلومات نہيں لیتے، ہمارے پاس اندر کی خبر پانے کے لیے اور بھی سورس ہیں،،کبھی کبھی مجھے لگتا ہے تم ابھی تک کالج کے ماحول سے باہر نہیں آئے۔ اب بھی تمہارے اندر کمیونسٹ اور قوم پرستوں کا زھر باقی ہے۔۔۔۔۔ چھوڑو،  صبح سویرے، اس کے گھر چھاپہ مارو اور مجھے ہر صورت کل کی صبح وہ مرا ہوا چاہیے ،اوپر سے حکم آیا ہے کہ کسی استاد، کسی فلم شلم،گیت ویت لکھنے والے،کسی بنگالی سیاست دان کو چھوڑنا نہیں ہے۔)

“سر! یہ مجھے سے نہیں ہوگا، میں اس آپریشن کی قیادت نہیں کرسکوں گا، میں کسی بے گناہ کے خون سے ہاتھ نہیں رنگ

سکتا، پہلے ہی بہت ظلم ہورہا ہے،میں خدا سے ڈرتا ہوں، کل کیا جواب دوں گا”

میجر ابوبکر کی بات سنتے ہی میجرجنرل غصّے سے پاگل ہوگیا، اس نے میز پہ پڑی گھنٹی پہ زور سے ہاتھ مارا، اور ساتھ ہی ایک طرف لگے سرخ بٹن کو دبا دیا، ایک دم سے ہالٹ ہالٹ کی آوازیں لگاتے باہر سے درجن بھر سپاہی اندر آگئے، انہوں نے میجر ابوبکر کی طرف گنیں تان لیں۔

میجر ابوبکر نے اپنی ٹوپی، بیلٹ، ہولسٹر میں لگے ریوالور کو میز پہ رکھ دیا

سر میرا ارادہ کسی بغاوت کا نہیں ہے، میں اس کا حصّہ نہیں بن سکتا۔

میجر جنرل آگے بڑھا، ‘شٹ اپ، بکواس بند کرو، تم کمیونسٹ ہو،بے دین ہو، حکم نہ ماننا ہی غداری ہوتا ہے’، اور ساتھ ہی اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر میجر کے کاندھوں پہ لگے بیج نوچ کر اتار لیے۔

Arrest him, Take him and put him into Quarter Guard.

اس کے بعد اس نے کہا میجر علی رضا کو بھیجو

تھوڑی دیر میں ایک لمبے قد کا نوجوان میجر اندر داخل ہوا، اس نے زور دار سیلوٹ مار کر ‘یس سر کہا۔

میجر جنرل نے اسے بریف کرنا شروع کیا اور تھوڑی دیر بعد وہ کمرے سے نکلتا چلا گیا۔

صبح کے چار بجے تھے کہ دروازے پہ زور دار دستک ہوئی، ایسے لگا جیسے کوئی بندوق کے دستے سے دروازے کو پیٹ رہا ہو اور اگر دروازہ کھولنے میں دیر ہوئی تو دروازہ توڑ دیا جائے گا۔حسام الدین دروازے کی طرف بڑھنے لگا تو سچیندہ نے اسے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا اور اٹھ کر دروازے تک گئی اور اس نے پوچھا کون ہے؟

تیری ماں دے خصم نئیں ، دروازہ کھول کنجری کسے تھاں دی ،۔۔۔۔۔’ باہر سے آواز آئی

سچیندہ نے کپکپاتی انگلیوں سے دروازہ کھولا ہی تھا کہ سنگین لگی رائفلیں لیے درجنوں مسلح سپاہی اندر گھس آئے اور سیدھے بیڈ روم کی طرف گئے اور اور وہان سےحسام الدین کو گھسیٹتے ہوئے باہر لے آئے۔ اور سچیندہ نے اس دوران آگے بڑھکر ان کو روکنے کی ناکام کوشش کی۔ اسے بالوں سے پکڑ چند فوجیوں نے نیچے لٹالیا۔

 اور اس کی چیخیں پہلے آسمان تک بلند ہوئیں اور پھر آہستہ آہستہ سسکیوں میں ڈھل گئیں۔

حسام الدین کو ایک فوجی بس میں سوار کرلیا گیا، اس کی آنکھوں پہ پٹیاں بندھی ہوئی تھیں، اسے محسوس ہوا کہ وہ بس میں اکیلا نہیں ہے۔

بس کافی دیر چلتی رہی اور پھر ایک جگہ رکی۔ اور کسی نے ان سب کو نیچے اترنے کو کہا۔

وہ نیچے اترے تو پیروں کے نیچے حسام کو کچی مٹی محسوس ہوئی۔

تھوڑی دیر بعد اس کی آنکھوں سے پٹی ہٹادی گئی،لیکن ہاتھ اب بھی پشت پہ بندھے ہوئے تھے۔ اس نے گردن گھما کر دیکھا تو اس کے ساتھ قطار میں 20 کے قریب لوگ کھڑے ہوئے تھے۔ اور سامنے سپاہی اسٹین گنیں ان کی جانب تانے کھڑے تھے، ایک سپاہی ایک مغوی کی مساوات بنی ہوئی تھی۔

یہ میر پور ڈھاکہ کے قبرستان کا ویرانہ تھا۔

اتنے میں اس سے تیسرے نمبر پہ کھڑا ایک جوان زور زور سے ہنسنے لگا۔ اور کہنے لگا

“بورژوازی پرانی شراب ہوتی ہے، اس کا نشہ دوآتشہ ہوتا ہے، لیکن غیرجانبداری زھریلی شراب ہوا کرتی ہے جو پیٹی بورژوازی امرت سمجھ کر پیتی ہے، اور آزادی کا ڈھرا پینے والوں کا مذاق اڑاتی ہے اور یوم حساب ان کے ساتھ ہی لائن میں کھڑی ہوتی ہے اور گولیوں سے اڑا دی جاتی ہے۔”

حسّام الدین اسے پہچان گیا تھا،وہ سانگی تھا۔

بکواس بند کرو، میجر چلایا اور ساتھ ہی اس نے زور سے کہا،فائر

ایک آگ سی  حسام الدین کے سینے ،آنکھوں اور پیشانی میں اترتی گئی اور تھوڑی دیر بعد وہاں اندھیرا چھاگیا۔

اس کے بعد منظر بدلتا ہے اور ہمارا لکھاری دیکھتا ہے

ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں شیخ حسینہ واجد وزیراعظم بنگلہ دیش لاکھوں افراد کے انتہائی پرجوش مجمع سے خطاب کررہی تھیں۔اور خطاب کے دوران انھوں نے سٹیج پہ بیٹھی ایک عورت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا

‘سچیندہ آپ کے شوہر حسام الدین نے اس وطن کے لیے اپنی جان قربان کردی، ان کو لیجانے والوں نے جسمانی طور پہ آپ کے شوہر اور بنگالی قوم کے عظیم فلم ڈائریکٹر کو ختم کردیا لیکن اپنے فن اور اپنے جذبہ کے ساتھ وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔’

سچیندہ سوچ رہی تھی کہ حسام الدین تو مشرق اور مغرب والوں کے باہمی جھگڑے سے الگ رہنے کی کوشش کررہا تھا۔وہ انقلاب کے دنوں ميں بھی رومان بھری فلمیں بنانے کا سوچ رہا تھا۔ انقلابی ترانوں سے ہٹ کر وہ بیک گراؤنڈ میوزک کے لیے راگ بہاگ کی ستار پہ ادائیگی کو فلم کا بیک گراؤنڈ میوزک کے طور پہ لینے کے لیے سیوا رام کرشنا سے وعدہ کرچکا تھا۔ اسے تو اپنی فلموں  کی سنچری کرنا تھی پھر بھی دسمبر 71ء کی صبح  ویسے ہی غائب کیا گیا جیسے ڈھاکہ یونیورسٹی سے 299 اساتذہ غائب ہوئے اور ان کی لاشیں میرپور ڈھاکہ کے قبرستان میں دریافت ہوئی تھیں۔ جہآن آج یادگار شہداء بنی ہوئی ہے۔     

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here