ہندوستان کے اندر تاریخ اسلام میں سب سے بڑی کشمکش ،دوسرے مسلمان ملکوں کی طرح سنّیت اور شیعیت کے درمیان رہی ہے۔ شیعہ کیونکہ ہندوستان میں ایک اقلیت ہیں، تو ایک اعتبار سے یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اس بات کا سراغ لگایا جائے کہ سنّی اکثریت نے ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟ اور ان کے کلامی مناقشوں کی نمو کا تعاقب کیا جائے جو ان دونوں فرقوں کے درمیان ہوتے رہے۔ موجودہ مقالہ 13ویں صدی سے ابتدائی 19ویں صدی کے درمیان ہندوستان میں دونوں فرقوں کے باہمی مل جل کر اکٹھے رہنے اور جھگڑنے کی تشکیل نو کرتا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب کالونیل ازم شروع ہونے والا تھا،جس نے ساری سیاسی و ثقافتی فضا کو ہی بدل ڈالا تھا۔

اسلام میں ابتدائی دور سے نظریاتی مناقشہ شروع ہوگیا تھا۔دو بڑے فرقے سنّی اور شیعہ نے اپنے اپنے عقائد و شعائر پہ دلائل قائم کرلیے تھے۔ ابتداء ہی سے، سیاسی اقتدار کے موجود ہونے یا اس سے محرومی نے ان اختلافات کے کھیل پہ بڑا اثر ڈالا تھا۔ اکثریتی سنّی اسلام محۃلف حکومتوں کے زیرسایہ پھلا پھولا۔ جیسے بنوامیہ، بنو عباس اور ترک ‏عثمان تھے۔

شیعہ فرقوں میں اثناءعشری اور اسماعیلی اس وقت پھلے پھولے جب ان کو فاطمی اور صفوی ادوار میں سیاسی حمایت میسر آئی۔ پیش ہائے رفت جو ہر جگہ ہوئیں، انھوں نے بھی دکھایا کہ سیاسی تبدیلیوں نے مذہبی منظرنامے پہ بھی اثر ڈالنا جاری رکھا۔

کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ حقیقت میں جب شیعہ کے پاس سیاسی سرپرستی کا سامان نہ تھا تو سنّی آرتھوڈوکسی/قدامت پرست سنّیت کی جانب سے ان کو جن چیلنچز کا سامنا ہوا تو ان کا ردعمل ایسے لمحات میں بالکل خاموشی کا تھا۔ جبکہ اس کے برعکس جب وہ سیاسی دباؤ سے آزاد تھے ،یا کسی حکومت کی سرگرم حمایت رکھتے تھے، تو ان کا ردعمل بہت بے باک اور پرجوش تھا۔

ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ شیعہ کی سرگرمیاں ان لمحات میں بھی کافی مضبوط نظرآتی ہیں جب مغل ہندوستان میں برداشت اور تحمل کی روح کا غلبہ تھا۔اس زمانے میں بعض ریاستوں یا صوبوں میں شیعیت کو سرکاری/درباری سرپرستی بھی میسر رہی۔ اس سے ہٹ کر، جب 400 صدی ھجری میں ایران کے اندر شیعی صفوی سلطنت کا آغاز ہورہا تھا توعملی طور پہ کسی سنّی صدا کو ہم نے وہاں بلند ہوتے نہیں دیکھا۔

عربوں کے سندھ اور ملتان کو فتح کرنے (712-14) کے بعد، شیعی اثرورسوخ پہلے قرامطہ کی شکل میں سامنے آیا،جو مصر میں فاطمی سلطنت(909-1117) کے وفادار تھے۔نویں صدی عیسوی می،اپنے رہنماء جلام ابن شیبان کی قیادت میں،انہوں نے ملتان کا محاصرہ کیا،جہاں انہوں نے مشہور مندر سورج مندر کو تباہ، پروہتوں کو قتل،اور قصبے کی قدیم ترین مسجد کو بند کردیا۔ کیونکہ وہ ان کے سبب سے بڑے حریف بنوامیہ نے تعمیر کی تھی۔قرامطہ کے دور حکمرانی کا خاتمہ محمود غزنوی (999-1030) نے کیا۔ اس نے بھی اس دوران عام مظالم ڈھائے اور قرامطہ کی بنائی مسجد کو تباہ کرڈالا۔1

ایک لمبے عرصے تک ہم شیعہ فرقہ کی کوئی خبر نہیں سن پاتے۔ ان کے بارے میں ہمیں سننے کو اس وقت ملتا ہے، جب ہمیں سلطان معزالدین غوری کی 1206ء میں ملحد فدائی کے ہاتھوں اس وقت وقت مارے جانے کی خبر ملتی ہے،جب وہ واپس غزنی لوٹ رہا تھا۔ظاہر سی بات ہے یہاں جس کو ملحد فدائی کہا گیا،وہ اسماعیلی ایجنٹ ہوگا۔2

ایک قابل تجسس واقعہ رضیہ سطانہ کے دور حکمرانی(1236-40) میں دہلی میں پیش آتا ہے،جب، اس زمانے کی ایک حکایت کے مطابق، قرامطہ ملحدین کا ایک بڑا ٹولہ،جن کی تعداد سیکڑوں میں بتایا جاتی ہے،وہ ایک سکالر کے روپ میں موجود نور ترک اسماعیلی کی قیادت میں5مارچ1237ء کو ایک مدرسہ معزی دہلی پہ دھاوا بول دیتا ہے۔ یہ دھاوا عام سنّیوں پہ ناصبی(دشمنان علی) اور مرجوس(مرتد) کی تہمت لگاکر کیا جاتا ہے۔ ان کی شورش کو جلد دبادیا جاتا ہے۔3
دلچسپ اور تجسس کو ابھارنے والی بات اس میں یہ ہے کہ اگلی صدی کے آغاز میں شیخ نظام الدین کے ملفوظات میں شیخ نور ترک کا تذکرہ بہت عزت و احترام سے کیا جاتا ہے۔ اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ پرامن طریقے سے مکّہ جاکر رہنے لگے تھے۔4

اب یہ متعین کرنا ممکن ہے کہ اثناءعشری شیعہ کی پہلے پہل آمد ایرانی اور وسط ایشیائی تارکین وطن کے ساتھ ہوئی تھی،جو دہلی امنڈ آئے تھے۔ ابن بطوطہ جو دہلی محمد تغلق(1324-51) میں آیا تھا،بتاتا ہے کہ شریف ابو غرّا نجف سے ہندوستان آیا اور اس نے دولت آباد میں آٹھ سال گزارے، اس کو دوگاؤں کی گرانٹ دی گئی،اور پھر وہ دہلی گیا،جہاں اسے سلطان نے بڑی خطیر رقم دی۔اس رقم کے ملنے کے تھوڑے دن بعد وہ فوت ہوگیا۔وہ رقم بطور خیرات حجاز اور عراق کی اس شیعہ برادری میں بانٹ دی گئی جو دہلی میں قیام پذیر تھی-5
ایسی ہی شیعہ کی آبادی قیلون کیرالہ میں تھی،جہاں پہ وہ کھلے عام اپنے مذہب کا اعلان کرتی تھی۔6

شیعہ کے پرامن طریقے سے رہنے کی اس حالت میں بظاہر خلل دہلی سلطنت میں اس وقت پیدا ہوا،جب سلطان فیروز شاہ کوٹلہ(1351-88) ان کے خلاف کچھ اقدامات اٹھائے۔ اس کا حکم فیروز شاہ کوٹلہ جامع مسجد پہ تحریر کردیا گیا،اس کے مطابق شیعہ مذہب کے لوگ،جن کو روافض کہا جاتا ہے، جو لوگوں کو رفض میں شامل ہونے کی دوت دیتے ہیں اور اپنے ہم مذہب لوگوں کی تعلیم و تربیت کے پیشے میں مشغول ہیں،وہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور سب صوفیاء کو برا بھلا کہنے، قران میں حضرت عثمان کی جانب سے اضافے کرنے کی تہمت لگانے والے ہیں۔ اس نے اس حکم میں یہ بھی دعوی کیا کہ اس نے ایسے تمام شیعہ مبلغین کو بند کردیا ہے۔غالیوں کو قتل کردیا ہے۔اور دوسروں تنبیہ کی ،جبکہ ان کی کتابوں کو جلادیا ہے۔اور اس فرقے سے جو نقصان ہورہا تھا،اسے پوری طرح سے دفع کردیا ہے۔7

گمنام مصنف کتاب سیرت فیروزشاہی(1370-1) کسی امام ابوشاکر سلام کا حوالہ دیتا ہے،جو ایک فہرست شیعی فرقے کے عقائد کی پیش کرتا ہے،اور اس کی رائے میں ہر ایک عقیدہ اس فہرست میں کفر ٹھہرتا ہے۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ ناقد مفتی کے پیش نظر کون سے ماخذ تھے، ان لمبی فہرست کی جانچ کرنا بنتی ہے۔سرسری طور پہ، یہ فہرست ناقد کی اس خواہش کو ظاہر کرتی ہے کہ اپنے مخالف کے سر کسی بھی معاملے میں انتہا پہ مبنی خیال تھونپا جائے۔ مثال کے طور پہ یہ عقیدہ تھونپنا کہ ‘علی خدا ہیں’ یا دو مختلف موقف کو باہم ملادینا، مثال کے طور متعہ اور طلاق ثلاثہ بارے موقف ہے۔8

اسی طرح کا ایک اور مناظرانہ متن شیعہ کے خلاف سراجیہ کے نام سے ہے، جس کو جلال مخدوم جہانیہ (1308-84) کی تصنیف بتایا جاتا ہے رضا لائبریری،رام پور میں محفوظ ہے۔9

مغل حکمرانی کے قائم ہوجانے کے بعد شیعہ تھیالوجی کی طرف سرکاری رویے میں ابتدائی طور پہ بدلاؤ کم ہی آیا تھا۔ روایت کی گئی ہے کہ ہمایوں نے اس امام کو برخاست کردیا تھا جو دو سالوں سے دربار میں نمازیں پڑھایا کرتا تھا،جب اس نے ایک شخص کو یہ کہتے سنا کہ اس نے امام کو شیعہ کی صحبت میں ایک دن دیکھا تھا۔ بلکہ اس نے دوسال کی ںمازوں کی قضا بھی ادا کی۔10
جبکہ بابر(1526-30) یا ہمایوں کے پہلے دور حکمرانی (1526-40) میں ہم نے شیعہ کے خلاف کسی احتسابی کاروائی کی روایت کتابوں میں نہیں پاتے۔

ہمایوں کے ایران سے لوٹنے پہ، وہ اپنے ساتھ کافی تعداد میں ایرانی سپاہی،افسران لیکر آیا،جن کی اکثریت شیعہ تھی۔11

اس قدرے زیادہ کھلی فضا میں نے ایسی صورت حال کو جنم دیا، کہ سید راجو بن حامد الحسینی البخاری نے تجویز کیا کہ تقیہ پہ عمل ترک کردیا جائے ،جو شیعہ ابتک اپنائے ہوئے تھےاور اس نے ان کو تحریک بخشی کہ وہ اعلانیہ اپنے مذہب کا اعلان کریں اور مشغول مذہب حق ہوں۔15

نوٹ: پروفیسر سید علی ندیم رضوی علی گڑھ یونیورسٹی میں تاریخ کے استاد ہیں۔

جاری ہے 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here