٭  لکھنے کی تحریک کیونکر ہوئی؟

٭٭  لکھنے کی تحریک پڑھنے سے ہوئی۔  گھر کا ماحول ادبی تھا۔  زیادہ تر سائنس پڑھتے تھے۔  پھر بھی والد اور بھائی بہنوں میں شعر و ادب کا ذوق موجود تھا۔  والد علامہ اقبال پڑھا کرتے تھے۔  دادا مثنوی معنوی پڑھتے تھے۔  ہمیں کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا۔  پھر بھی اچھا لگتا تھا۔  سبھی شوق سے سنتے تھے۔  پھر میری بڑی بہن پنجاب پبلک لائبریری کی ممبر تھیں میں ان کے ساتھ جایا کرتی تھی۔  پھر اس شوق کو مہمیز زاہد ڈار کی بہن ریحانہ ڈار نے دی۔  وہ چھٹی جماعت سے میرے ساتھ پڑھا کرتی تھیں۔  ان کا گھر ادبی گہوارہ تھا۔  ادبی لوگوں کی آ ّمد و رفت رہتی تھی۔  اس کے ساتھ مل کر میٹرک سے پہلے ہی تمام ترقی پسند ادیب و شاعر پڑھ ڈالے۔  جاں نثار اختر، سلام مچھلی شہری، ساحر، اختر الایمان، حفیظ ہوشیار پوری سبھی کو پڑھتے تھے۔  ریحانہ بہت کتابیں لا کر دیتی تھی۔  اس نے بہت پڑھوایا۔  روز کا ایک شاعر یا ادیب پڑھ لیتے تھے۔  میٹرک ہوتے ہوتے خاصا جدید ادب پڑھ چکے تھے شاعری سمیت، فیض کو رٹ لیا تھا۔  مشاعرے میں بھی جاتے تھے۔ 

٭ تخلیق کار عموماً اپنی ادبی زندگی کا آغاز شعر سے کرتا ہے۔  کیا آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوا یا آپ براہ راست افسانے کی طرف آئیں۔ 

٭٭  میں براہِ راست افسانے کی طرف آئی۔  شعر کہنے کو نہ جی چاہا، نہ کہا نہ خیال آیا، لیکن شاعری کے ساتھ ربط بہت رہا۔  خصوصاً ً اقبال کے ساتھ، پھر فراق و فیض پسندیدہ رہے۔ 

٭  انسانی فطرت ہے کہ اس کی پسند بدلتی رہتی ہے۔  شعر و ادب میں بھی ایسا ہوتا رہتا ہے، آخر کیوں؟

٭٭  ہمارے تجربات وسیع سے وسیع تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔  جذباتی و نفسیاتی میدان تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔  فیض میٹرک و انٹر تک پسندیدہ رہا، پھر ساتھ نہیں دے پایا۔  یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک شاعر پسندیدہ ہوتا ہے، پھر نہیں رہتا، کچھ عرصہ بعد دوبارہ پسند آ جاتا ہے۔  اپنے تجربات کے حوالے سے بھی پسند بدلتی رہتی ہے۔  غالب زیادہ سمجھ میں نہ آتا تھا لیکن جب کلاسیکی شاعری کو پڑھا تو ترقی پسند ادب چھٹ گیا۔  میر و غالب و درد آ گئے ( میر کے ہاں ہر دو سطح کے اشعار ہیں۔  برے اشعار میں زبان کا استعمال منفرد اور خوبصورت ہے یا بعض ایسے الفاظ بھی انھوں نے شعر میں خوبصورتی سے برتے جو خیال تھا کہ شعر میں آ ہی نہیں سکتے۔  )

٭ آپ کس کے لیے لکھتی ہیں؟

٭٭  اپنا آپ ہی سامنے ہوتا ہے۔  ایک مخصوص کیفیت سے چھٹکارا پانے کے لیے لکھتی ہوں۔  بعد میں خیال آتا ہے کہ اسے کون پڑھے گا۔  اس لیے پڑھنے والوں کے نقطۂ نظر سے کبھی نہیں لکھا۔ 

٭  خالدہ اصغر اور خالدہ حسین کے درمیان تیرہ برسوں کا وقفہ ہے۔  آپ نے خود کو خالدہ حسین بننے کے بعد خالدہ صغر سے کس قدر مختلف پایا؟ کیا خالدہ حسین نے خود کو ادھوری عورت تو نہیں محسوس کیا؟

٭٭  خالدہ حسین بننے کے بعد خالدہ اصغر مجھ سے جدا ہو گئی۔  میرا خیال ہے کہ وہ بہت ہی جینیوئن عورت تھی۔  جس کے اندر کوئی کھوٹ نہیں تھا۔  مصلحت اندیش نہیں تھی۔  کمپرومائز کرنا نہیں جانتی تھی۔  خالص تخلیقی عورت تھی۔  مکمل وجود تھی۔  وہ تخلیقی عورت جو عملی دنیا میں قدم رکھتی ہے تو اسے جنگ لڑنی پڑتی ہے کہ وہ صرف ایک تخلیق کار بنے یا دنیا دار۔  دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔  تخلیق کاری اور دنیاداری دو الگ الگ چیزیں ہیں ہر تخلیق کار نے یہ جنگ لڑی۔  جنھوں نے تخلیق کے حق میں فیصلہ دیا وہ آگے نکل گئے۔  جنھیں دونوں سے نباہ کرنا پڑا وہ پیچھے رہ گئے۔  پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ تخلیق کار یہ بھی جانتا ہے کہ اگر اس نے دنیاوی کردار ادا نہ کیا تو تجربہ ادھورا رہ جائے گا۔  اس تجربے کو مکمل کرنے کے لیے اسے دنیا کے سمندر میں غوطہ لگانا ہی پڑتا ہے لیکن بہت بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اصل اہمیت تخلیق ہی کی تھی۔  اسے ہی زیادہ وقت دینا چاہیے تھا۔  یہی وجہ ہے کہ میں سمجھتی ہوں کہ تخلیق کار کبھی نارمل نہیں ہوتا۔ 

٭ خواتین تخلیق کار کی مشکلات کا اندازہ آپ کو بخوبی ہے۔  کیا ان کا تدارک ہو سکتا ہے؟

٭٭  عورت مرد تخلیق کار میں فرق نہیں ہونا چاہیے۔  سوشل سیٹ اپ میں معاشرے نے جو رول دیے ہیں اس میں فرق ہے۔  عورت کی معاشرتی ذمہ داری پہلے، تخلیق کی بعد میں ہے۔  اندرونی طور پر جو کچھ بھی ہے معاشرہ توقع کرتا ہے کہ وہ صرف معاشرتی کردار ادا کرے اور پوری تندہی کے ساتھ ادا کرے۔  مرد کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ اچھا باپ، بیٹا، شوہر ہو، اسے بھی تخلیق کے سلسلے میں فرسٹریشن ریتی ہے، لیکن عورت کو زیادہ مسائل پیش آتے ہیں۔ 

٭  عورت چھ سال کی ہو یا چھیاسٹھ سال کی، مرد معاشرہ اسے ایک ہی نگاہ سے دیکھتا ہے۔  عورت ہونے کا فخر چھین کر عورت ہونے کا کرب دیا جاتا ہے۔  آپ کی تحریروں سے یہ بات عیاں ہے۔  اس کا کوئی حل ممکن ہے؟

٭٭  ہاں میرا افسانہ ’’سیٹی‘ ‘ اسی موضوع پر ہے۔  عورت ہمیشہ جانتی ہے کہ اسے ایک شخصیت کے طور پر قبول کیا جائے۔  میری صلاحیتوں پر جنس کو فوقیت نہ دی جائے، لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ 

٭  آپ کی تحریروں میں وقت کی گرفت سے آزاد ہونے کی شدید آرزو نظر آتی ہے، جبکہ یہ ممکن نہیں؟

٭٭  در اصل وقت کی گرفت سے نکلنے کی تمنا، حسرت ان معنوں میں شاید استعمال نہیں کی، بلکہ وقت کو سمجھنے کی خواہش ضرور کی ہے۔  وقت لمحات کاتسلسل نہیں بلکہ یہ انسانی روح کا ایک تجربہ ہے۔  اقبال نے بھی وقت کو اپنے باطن میں محسوس کیا ہے۔  وقت کو میں جس شدت سے محسوس کرتی ہوں وہ حقیقت سے قریب جانے کی آرزو ہے، کیونکہ میں جانتی ہوں کہ وقت سے باہر نہ جا سکتی ہوں نہ وقت کو گرفت میں لے سکتی ہوں۔  ’’زمانے کو برا نہ کہو زمانہ خدا ہے ‘‘ برگساں کے سامنے اقبال نے یہ حدیث پڑھی تو وہ اچھل پڑا کہ یہی تو اصل وقت کا تصور اور حقیقت ہے۔  وقت ہی سب سے بڑی طاقت ہے۔  ماضی کی یاد یا مستقبل کی امید سب اسی سے منسلک ہے۔ 

٭ آپ کی بھید بھری کہانیوں میں تشکیک، تذبذب، ابہام اور بے یقینی کی فضا ماحول کا حصہ ہے یا آپ کی ذات کا؟

٭٭  میری زندگی کا تجربہ ہے کہ جو کچھ دیکھا جاتا ہے اس کے پیچھے کوئی اور ہے۔  مادی چیزوں کے پیچھے بھی مجھے محسوس ہوتا ہے۔  عام منظر جیسے ہمیں نظر آتے ہیں ان کی حقیقت یہ نہیں ہے۔  اس حقیقت کو جاننے، ان مناظر کو دیکھنے کی خواہش بہت ہے۔  کبھی کچھ نظر آ بھی جاتا ہے۔  ہماری اساس دینی ہے۔  میں نے اس بات کو کبھی نہیں چھپایا کہ میرا دین سے گہرا تعلق ہے۔  روحانیت غالب رہی ہے۔  ہم جو کچھ دیکھتے ہیں اس کے پیچھے کوئی اور ہے جو نظر آتا ہے وہ صرف اتنا ہی نہیں ہے۔  اصل میں وہ نہیں ہے اور بہت کچھ ہے۔  میرے محسوس کرنے کا انداز یہ ہے کہ عام دیکھی بھالی چیزوں کی کوئی نئی جھلک یا نئی تفصیل منکشف ہو جاتی ہے۔  یہ میرے اپنے بس کی بات نہیں ہے، بلکہ یہ میری ذات کی بنیادی خصوصیت ہے جو میں نے خود نہیں پیدا کی ہے، پیدائشی ہے۔  عجیب و غریب اور نامانوس چیزیں مانوس اور کبھی اچانک بیٹھے بیٹھے مانوس چہرے، مانوس شکلیں، مانوس چیزیں سبھی کچھ اجنبی اجنبی سا لگتا ہے۔  کھبی یوں ہوا ہے کہ اب کا دیکھا ہوا منظر لگتا ہے کہ پہلے بھی دیکھ چکی ہوں۔ 

٭ آپ کے بعض افسانوں کی فضا اساطیری ہے۔  آپ نے قدیم دور کے مسائل اور جدید دور کی پیچیدگیوں کو ایک لڑی میں پرو کر پیش کیا ہے۔  کیا وقت بدل جاتا ہے حقیقت نہیں بدلتی؟

٭٭  بات یہ ہے کہ مسائل کی صورتیں بدلتی جاتی ہیں۔  بنیادی مسائل غیر متبدل ہوتے ہیں ان کی اساس ایک ہی ہوتی ہے۔  پرانی کہانیاں بھی ہر دور میں ایک نئی معنویت دیتی ہیں اور بہت دلچسپی کا باعث ہوتی ہیں، نئی نئی صورتوں میں سامنے آتی ہیں۔ 

٭ حقیقت پسند، تجریدی، علامتی، اساطیری اور روایتی بیانیہ افسانے میں آپ کامیاب افسانہ کسے سمجھتی ہیں؟

٭٭  تخلیق انسانی تجربوں کا فنی اظہار ہے۔  نوعیت ایک ہی ہوتی ہے تجربے کی اس کے اظہار کی صورتیں مختلف ہو سکتی ہیں۔  کبھی وہ شعر میں کبھی وہ تصویر میں اور کبھی وہ رقص میں اپنا آپ دکھا جاتا ہے۔  پھر کہانی کی بھی کئی صورتیں ہیں، اس میں ہر دور میں ہر طرح کی چیز لکھی جاتی ہے۔  حقیقت نگاری، بیانیہ، علامتی، تجریدی یہ سب کچھ اس سے پہلے بھی لکھا جاتا ہے بلکہ انہی سب کا اشتراک ادب ہے۔  یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ تجربہ درست نہیں ہے۔  دیکھنا صرف یہ ہے کہ خلوص اورسچائی موجود ہے کہ نہیں، خواہ وہ کسی بھی انداز میں لکھا جا رہا ہو۔  حقیقت نگار کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ علامت کے پیرائے میں اپنا خیال پیش کرے، نہ علامت نگار پر زور دیا جا سکتا ہے کہ وہ بیانیہ افسانہ لکھے۔  لکھنے والے کو آزادی ہونی چاہے کہ وہ جیسے چاہے لکھے، تجربہ کیسا ہے، لکھا کیسا ہے، اگر ان میں سچائی اور خلوص ہے، پڑھنے والے کو اپیل کر رہا ہے تو کامیاب ہے۔  ہر دور میں ہر طرح کے اظہار مل کر ادب کی مکمل تصویر بناتے ہیں۔  میں تجرید کی قائل نہیں ہوں۔  تجرید اور علامت میں فرق ہے۔  علامت میں ابہام بھی پیدا ہو سکتا ہے۔  ابہام خوفزدہ کرنے والی چیز نہیں۔  تمثیلی انداز، استعاری انداز ہو سکتا ہے افسانے میں لیکن تجرید صرف شاعری میں ہونی چاہیے۔ 

٭ جدید افسانے کے فکری عناصر، اس کی تکنیک اور اسلوب کے باعث پس منظر میں چلے گئے، آپ کی کیا رائے ہے؟

٭٭  کہانی یا اسلوب دونوں الگ الگ نہیں۔  ہر مواد اپنا اسلوب اپنے ساتھ لے کرتا ہے۔  وہ کبھی نہیں سوچتا کہ مجھے کیسے لکھنا ہے۔  وہ اکائی کی صورت میں انسان کے وجدان پر طاری ہوتا ہے۔  اسے سوچنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔  اسلوب کو الگ نہیں کر سکتے۔  اگر الگ کر دیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ زائد ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔  کہانی یا مواد کے بغیر اسلوب کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔  آپ کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں اور آپ پھر بھی کہہ رہے ہیں تو پھر صرف خطابت رہ جاتی ہے۔ 

٭ علامتی افسانے میں قاری کے لیے ابلاغ کا مسئلہ پیدا ہوا، کیا یہ حقیقی مسئلہ ہے؟

٭٭  ابلاغ کا مسئلہ اگر اسلوب کی وجہ سے پیدا ہوا تو یہ افسانہ نگار کی زیادتی ہے۔  جان بوجھ کر ابہام پیدا کیا گیا ہے تو اس کا پتہ فوراً چل جاتا ہے۔  اگر خالص تجرید ہے تو وہ بھی الجھا کر رکھ دیتی ہے۔  بعض دفعہ ایک ہی افسانے کی بہت سی تہیں ہوتی ہیں۔  اگر قاری کسی ایک تہہ تک بھی پہنچ گیا تو افسانہ، افسانہ نگار اور قاری سبھی کامیاب ہیں پھر ہر پڑھنے والا اپنے مزاج کے مطابق مطلب اخذ کرتا ہے۔  بعض مرتبہ تخلیق کار اپنی علمیت ظاہر کرنے کے لیے یا کبھی محض فیشن کے طور پر ایسا کرتا ہے تو غلط ہے۔ 

٭ ادب میں خواتین لکھاریوں کو نظر انداز کرنے یا انہیں ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے کا رجحان ہے۔  کیا یہ انداز خواتین تخلیق کاروں کے لیے نقصان کا باعث نہیں۔  اگر عورت بہت اچھا لکھتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی اور ہے یا اگر خوبصورت ہے تو اسے اس کی تخلیق پر زیادہ نمبر دے دیے جاتے ہیں؟

٭٭  بات در اصل یہ ہے کہ کبھی عورت کی طرف داری کی جاتی ہے۔  غیر ضروری تعریف کی جاتی ہے اس کے بھی دو روّیے ہیں۔  ایک سرپرستی کا انداز۔  دوسرے ہمدردی، بے چارگی اور رحم کے طور پر، جیسے کسی کو حوصلہ افزائی کی جا رہی ہو۔  یہ بددیانتی ہے۔  اس کے باعث تخلیق کا معیار بھی گر جاتا ہے۔  البتہ یہ بھی ہوا ہے کہ مساویانہ سطح پر عورت کے فن کو پرکھا گیا ہے۔  نقاد انصاف سے کام لیتے ہیں۔  کئی نقاد ایسے ہیں جنھوں نے عورت ہونے کا فائدہ دیا ہے اور نہ ہی نقصان پہنچایا ہے، بلکہ ایمانداری کے ساتھ اس کی قدر و قیمت کا تعین کرتے ہیں۔  عورت ہونے کی وجہ سے توجہ نہیں دی، یہ نہیں ہوا۔  ضرورت سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔  ادب میں اچھے کام کو بھلایا نہیں جا سکتا۔  ہو سکتا ہے کہ دیر ہو جائے، لیکن بالآخر ہر ایک کے فن کا اصل مقام مل جاتا ہے۔  کسی بھی قابل ذکر نقاد نے عورت کی تخلیقات کو جنس کے حوالے سے نہیں پرکھا۔ 

٭ خواتین لکھاریوں کا رجحان نثر کے بجائے شعر کی طرف زیادہ ہے، اس کا سبب؟

٭٭  نہیں ایسا نہیں ہے۔  خواتین فکشن کی طرف بھی آئیں بلکہ شروع میں تو ناول ہی لکھے گئے۔  بہت سی خواتین نمایاں ہیں اس سلسلے میں جنھوں نے گھریلو خواتین کے لیے لکھا اور جنھیں بہت پسند بھی کیا گیا۔  البتہ یہ خیال کہ نثر کی بجائے شعر کی طرف رجحان زیادہ ہے اس کی وجہ یہ ہی ہے کہ نوعمری میں جب تخلیقی کام کیا جاتا ہے۔  اس عمر میں رومانی تجربات کا غلبہ ہوتا ہے۔  نزدیک ترین ذریعہ اظہار، شاعری ہی محسوس ہوتی ہے۔  خواتین ہمیشہ عدیم الفرصتی کا شکار رہتی ہیں۔  نثر لکھنے کے لیے وقت چاہیے، تو ایک عورت بیک وقت اتنے مطالبے پورے نہیں کر سکتی اسے یا کم موقع ملتا ہے۔  اس لیے کم لکھتی ہے۔ 

٭  بہت پہلے میں نے آپ سے ایک سوال کیا تھا کہ آپ ناول لکھنا چاہتی تھیں۔  لکھنا شروع بھی کیا۔  مکمل نہ کرنے کا، عدیم الفرصتی کے علاوہ کوئی اور سبب تو آپ نے اس کا جواب کچھ یوں دیا تھا۔ 

’’میں اس کے بارے میں تشکیک کا شکار ہو گئی تھی۔  کہ آیا یہ سب مجھے لکھنا چاہیئے یا نہیں لیکن اب پانچ چھ سال بعد میں نے فیصلہ کیا ہے کہ مجھے لکھنا چاہیے۔  اس کی روایتی ہیئت نہیں بن رہی تھی۔  وہ نہایت مختلف نظر آ رہا تھا۔  میں نے ہاتھ روک لیا۔  لیکن اب پہلا باب چھپنے کے لیے دے رہی ہوں۔  اس کے بعد مجبور ہو جاؤں گی، لکھنے کے لیے۔  اس میں ایک لکھنے والی لڑکی کے مسائل کا تذکرہ ہے۔  ہاں آپ اسے کسی حد تک سوانحی ناول کہہ سکتے ہیں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ لکھنے والے کا پہلا ناول سوانحی ہوتا ہے۔  ‘‘

اب جبکہ آپ کا ناول ’’ کاغذی گھاٹ ‘‘ کے نام سے شائع ہو کر سنجیدہ ادبی حلقوں سے داد بھی پا چکا ہے اور برسوں پہلے کیے گئے سوال کے جواب میں آپ کا یہ کہنا کہ لکھنے والے کا پہلا ناول کس قدر سوانحی ہوتا ہے، تو اس ناول میں آپ کی زندگی کی واضح، غیر واضح جھلک دکھائی دیتی ہے۔  گھر کا ادبی ماحول، دادا ابا کا مثنوی معنوی سے والہانہ لگاؤ، بچوں کو مثنوی معنوی کے اشعار سنا کر ان کی اخلاقی پرداخت کرنا، فارسی زبان و ادب کی طرف توجہ دلانا۔  مجاز و جذبی و اختر الایمان و ساحر تمام اہم شعرا کا کلام آپ اور آپ کی دوستوں نے میٹرک اور ایف اے کے دوران ازبر کر رکھا تھا۔  آپ کے کردار بھی یہی ادبی ذوق رکھتے ہیں۔  بے شمار واقعات آپ کی زندگی سے مماثل ہیں۔  آپ یہ بتائیں کہ ’’ کاغذی گھاٹ ‘‘ کا محرک کیا تھا۔  اس کا عنوان دیکھتے ہی غالب کے دیوان کا پہلا شعر

نقش فریا دی ہے کس کی شوخی تحریر کا

کاغذی ہے پیراہن ہر پیکر تصویر کا

ذہن میں آتا ہے۔  ’’ کاغذی گھاٹ ‘‘ زندگی کی بے ثباتی اور تقدیر کے جبر کی طرف اشارہ ہے۔  ’’وہ اکثر چلتے چلتے رک جاتی۔  انسان ہر قدم پر انتخاب کرتا ہے۔  مگر وہ انتخاب ہی در اصل پہلے سے طے شدہ ہے ‘‘ ۔ 

ماضی کی طرف مراجعت آپ کے لاشعور میں موجود ہے۔  مستقبل ایک خلا ہے جس میں واقعات و عمل کی تخلیق جاری ہے، ان واقعات و سانحات کے رونما ہونے میں فرد کی کاوش اور جد و جہد کا کتنا عمل دخل ہے۔  آپ کے نزدیک… صفر…کاغذی گھاٹ انسان کی سعی اور اس کی مجبوری کے سوالوں کے جواب کی تلاش میں مصروف افراد کی کہانی ہے۔  آپ کے نزدیک کاغذی گھاٹ کی تخلیق کا محرک کوئی واقعہ، کردار، جذبہ، ما بعد الطبعیاتی فضا، وجدان، منطق یا موجود و ناموجود کے درمیان کش مکش ہے؟

٭٭  آپ کے اس طویل سوال کے جواب میں مختصراً یہ کہنا چاہوں گی جہاں تک نام ’’ کاغذی گھاٹ ‘‘ کا تعلق ہے خواجہ حسن نظامی کا ’’من کہ مسمی ایک دھوبی‘‘ مجھے شروع ہی سے فیسینسٹ کرتا تھا، یہ وہیں سے آیا۔  اب آپ کے دوسرے سوالات… میں ماضی میں رہنے والی خاتون ہوں، ناستلجیامیں گرفتار۔  پرانی یادیں مجھے بلاتی رہتی ہیں۔  پرانے لوگوں سے پرانی جگہوں سے روحانی تعلق کو میں چاہوں بھی تو ختم نہیں کر سکتی۔  ہاں اس ناول میں بھی سوانحی عنصر غیر شعوری طور پر یا شاید شعوری طور پر در آیا ہے۔  میں نے دیکھا کہ تحریک پاکستان کے حوالے سے ناول لکھے گئے، لیکن وہ ایرا، جب پاکستان بن گیا۔  وہاں کیا مسائل تھے۔  ایک نو عمر لڑکا… لڑکی نئے وطن کو کس زاویے سے دیکھ رہے ہیں۔  پر زیادہ بات نہیں کی گئی۔  یہاں اس لڑکی کی کہانی بیان کی گئی ہے، جس نے ہجرت کے عذاب نہیں سہے، وہ اسی سر زمین پر پلی بڑھی ہے۔  وہ لاہور ہی کو اپنا سب کچھ جانتی ہے۔  اپنے بزرگوں سے بٹالے کا ذکر جو بہت وارفتگی سے کیا جاتا ہے، اکثر و بیشتر سنتی رہتی۔  قیام پاکستان کے بعد آبادی کا تبادلہ، ہجرت کر کے آنے والے اور ہجرت کر کے جانے والے، اسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔  میں نے ان کرداروں کے ذریعے اپنے محسوسات۔  اپنی سوچیں بھی واضح کر دیں۔  نتیجے میں مجھے بہت سے اعتراضات بھی سہنے پڑے۔  بعض لوگوں نے بہت کھل کر اعتراض کیے۔  ایک بڑا اعتراض تو یہ تھا کہ میں نے صدر ایوب کی بہت کر تعریف کی تھی جو لوگوں کو پسند نہ آئی۔  مجھے صدر ایوب اچھے لگتے تھے۔  انھوں نے پاکستان کو ترقی کی جس راہ پر لگایا، ان کے بعد ترقیِ معکوس ہمارا شعار ہو گئی، پھر مجھے صدر ایوب اپنے والد سے ملتے جلتے بھی لگتے تھے۔  مجھے ان کی شخصیت پسند تھی۔  میں نے مصلحت نہیں دیکھی جو میرا جی چاہا، میں نے بے کم و کاست لکھ دیا۔  میں وقت کو، اس ایرا کو محفوظ کرنا چاہتی تھی۔ 

٭ آپ نے طویل عرصے تک علامتی و تجریدی افسانے لکھے ’’ہیں خواب میں ہنوز‘‘ اور ’’ میں یہاں ہوں ‘‘ بیانیہ ہے۔  جانے بوجھے کردار ہیں۔  عمومی کہانیاں ہیں۔  واقعات کا بیان ہے۔  گرد و پیش کی زندگی۔  لوگوں نے اسے پسند بھی کیا۔  اب ’’کاغذی گھاٹ ‘‘ بھی ’’سواری ‘‘ ، ’’ پہچان ‘‘ ،، ’’دروازہ ‘‘ سے مختلف اسلوب میں لکھی گئی۔  یہ بات آپ بھی تسلیم کرتی ہوں گی کہ بیانیہ انداز میں تحریر کی گئی تخلیق کی زیادہ پذیرائی ہوئی۔  ذاتی طور پر آپ کس انداز کو پسند کرتی ہیں۔ 

٭٭  میں نے علامتی انداز میں لکھا یا بیانیہ میں، مجھے کبھی یہ پریشانی یا فکر نہیں ہوئی کہ اس کی پذیرائی ہو رہی ہے یا نہیں۔  سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے شعوری طور پر کوئی اسلوب اختیار نہیں کیا۔  شعوری طور پر کوئی علامت تحریر نہیں کی۔  میرے ساتھ کچھ ایسا تھا کہ میں امیجز میں سوچتی تھی، چیزوں کی معنویت نہیں سمجھتی تھی۔  بس میرے ذہن میں مختلف امیجز بنتے جاتے تھے۔  جو افسانے کا روپ دھار لیتے تھے۔  ابھی میں نے کہا کہ میرا ماضی سے رشتہ بہت گہرا ہے۔  میں چاہوں بھی تو اس سے گریز نہیں کر سکتی۔  ’ ’سواری ‘‘ افسانے کی تخلیق میں بھی لاشعور میں چھپا ماضی ہی تھا۔  ’’سواری‘‘ مجھے ساری زندگی ہانٹ کرتی رہی پھر میں نے کہانی تخلیق کی۔  کردار تخلیق کیے یہ سب میرے ماضیِ بعید کا حصہ تھے۔  میرے بچپن میں میری گلیوں سے ’’ گڈے ‘‘ گزرا کرتے تھے، جن میں بیل جتے ہوتے۔  ان گڈوں میں ہڈیاں، بڑے بڑے خوفناک ہڈ، کھالیں، چمڑا وغیرہ ہوتا، جنھیں کپڑے سے ڈھک دیا جاتا لیکن پھر بھی بہت کچھ کھلا دکھائی دیتا اور اس بہت کچھ دکھائی دینے والے منظر نے مجھ میں خوف، دہشت، ہارر اور موت سے ڈر کی فضا تخلیق کی پھر گاڑی بان بکلیں مارے ہوئے۔  ہوتے صرف ان کی آنکھیں نظر آتیں، باقی سب کچھ چھپا ہوتا۔  اب بڑی بڑی ہڈیاں، ڈھانچے، جن پر دہ ڈالا ہوتا … اور انسان جو چادروں میں مستور ہوتے … جب میں بڑی ہوئی لکھنے کی طرف مائل ہوئی تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ چیز ہر انسان میں موجود ہے۔  وہ بہت کچھ پوشیدہ ہے۔  کچھ کھلا ہوا بھی ہے۔  شاید انسان کا جسم اس کا ظاہر ہے۔  شاید ضمیر، انسان کا باطن، سب سے چھپا ہوا ہے۔  یہی دیکھی ان دیکھی، سنی ان سنی، معلوم نامعلوم، موجود نہ موجود کی کتھا میری بعد کی تخلیقات میں رقم ہوتی رہی۔  مجھے لوگوں نے بتایا کہ یہ علامت ہے۔  شاید میں اس وقت علامت کے معنی نہیں جانتی تھی۔ 

بس مجھے صرف ایک خوشی ہوتی تھی افسانہ لکھنے کے بعد، میں جو چاہوں لکھ سکتی ہوں۔  میری شروع کی کہانیوں میں علامتی رنگ نمایاں ہے۔  بعد میں خود بخود، غیر محسوس طریقے سے بیانیہ کی طرف آ گئی۔  شاید شادی شدہ زندگی کی مصروفیات اس کا سبب تھیں۔ 

٭ لیکن آپ کی شادی شدہ زندگی میں بھی، مصروف عورت کی زندگی میں بھی علامات کا عمل دخل نظر آتا ہے۔ 

٭٭  ہاں ایسا ہے۔  اب بھی کردار یا کہانی سے زیادہ امیجز مجھے ہانٹ کرتے ہیں۔  اب بھی میرے اندر ایک امیج مجھے اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔  پتا نہیں میں کب لکھ سکوں گی لیکن اس امیج نے کہانی کی فضا، اس کے کردار اور اس کی پر اسراریت اور طلسماتی جہات تخلیق کر لی ہے۔ 

میں سمجھتی ہوں کہ عورت کی زندگی میں ایسا وقت آتا ہے۔  جب وہ غائب کر دی جاتی ہے یا ہو جاتی ہے یا اسے ہونا پڑتا ہے …………‘‘

٭ آپ نے جو کہانی کا خاکہ بیان کیا ہے۔  چونکہ ابھی صفحۂ قرطاس پر رقم نہیں ہوئی، میں اسے حذف کرتی ہوں اور ہم سب اس دنیا میں جغرافیائی طور پر موجود اس طلسماتی اور تحیر زا خطے کی پر اسرایت اور اس دنیا میں عورت کے وجود اور دونوں کے درمیان تعلق کی کہانی کے منتظر رہیں گے۔  بس آپ یہ بتائیں کہ اس کہانی میں موجود تین عورتیں، تین مشہور عورتیں حقیقی کردار ہیں یا تخلیقی۔ 

٭٭  نہیں بالکل حقیقی تو نہیں ہیں، آپ کو اپنے گرد و پیش میں ان کی مماثلت مل جائے تو اس سے انکار نہیں۔  مرد مشہور عورتوں سے مل کر خوش ہوتے ہیں لیکن خود ان کی بیوی، بیٹی، بہن، ماں شہرت، اچھی شہرت کی مالک ہو۔  اس میں دو رائے ہو سکتی ہیں۔ 

٭ اتفاقات تقدیر ہیں یا تقدیر اتفاقات۔  یہ سوال آپ کی پیشتر تخلیقات میں سر اٹھاتا ہے۔  آپ کسی نتیجے پر پہنچی یا ابھی سفر میں ہیں۔ 

٭٭  میں تقدیر کی قائل ہوں۔  سب چیزوں کا پہلے فیصلہ ہو چکا ہے۔  ایک لمحے یا ایک ثانیے میں جو ہمیں کرنا ہے یہ سب طے ہے۔  ہم پر اب کھل رہا ہے۔  جو نقشہ بنا ہوا ہے ہم اسی پر چل رہے ہیں اس سے سر مو انحراف نہیں کر سکتے۔  سب کچھpre planned ہے۔  منصوبہ بندی ہو چکی ہے۔  یہ مجبور محض کا تصور نہیں ہے۔  پہلے خاکہ تھا ہم رنگ بھر رہے ہیں، اس سے ادھر ادھر نہیں ہو سکتے۔  جو جو کام مقدر ہو چکے ہیں وہ پورے ہو کر رہیں گے۔  میرے ایک افسانے میں ایک لڑکی کا کردار ہے۔  اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ وہ اپنے اختیار سے کچھ نہیں کر رہی۔  جو کچھ اسے کرنا ہے، پہلے سے مقرر ہو چکا ہے۔  وہ تو دھوکہ اور فریب کے حصار میں ہے۔  وہ لڑکی اس کیفیت سے نجات پانے کے لیے یہ کرتی ہے کہ جو کام کر رہی ہے اس کے الٹ کرنے لگ جاتی ہے۔  جس راہ پر جا رہی ہے ایک دم وہ بدل لیتی ہے۔  آخر میں پتا چلتا ہے کہ اسے تو جانا ہی اس طرف تھا۔  سبھی کچھ پہلے سے رقم تھا۔ 

٭ پھر دعا کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ 

٭٭  دعا تو ضروری ہے۔  اس کے نتیجے میں جو کچھ ہو گا وہی مقدر ہو گا۔  دعا کے نتیجے میں جو کچھ سامنے آئے گا وہ بھی پہلے سے مقدر کیا جا چکا ہے۔  دعا کرنا بھی مقدر میں ہے۔  تقدیر ہی تدبیر کرواتی ہے۔ 

٭ آپ کے افسانوں کے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ معلوم سے نامعلوم اور خارج سے باطن کی طرف سفر کرتے ہیں۔  آپ افسانے میں زندگی کی داخلی تصویریں پیش کرتی ہیں۔  ہم خارج اور باطن کی حد بندی کیسے کر سکتے ہیں جبکہ ہر شخص کائنات کا حصہ بھی ہوتا ہے اور اپنی ذات میں خود کائنات بھی؟

٭٭  دردں بینی یا داخلیت کو ہم کوئی الگ چیز قرار نہیں دے سکتے۔  جتنی دنیا رچتی بستی ہے، جتنے میرے افسانوں میں گھروں، شہروں، بستیوں سڑکوں، محلوں کی تفصیل ہے اتنی کسی اور کے ہاں نہیں، جو داخل ہے وہ خارج اور جو خارج ہے وہ داخل، دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔  زندگی کی بنیاد ہی داخلیت پر ہے۔  اس سے ہم کیسے انکار کر سکتے ہیں۔ 

٭ کیا اردو کے علاوہ کسی اور زبان میں لکھنے کی خواہش پیدا ہوئی؟

٭٭  اردو کے علاوہ پنجابی میں لکھنا چاہتی ہوں۔  کچھ کہانیاں ذہن میں ایسی ہیں کہ جنھیں پنجابی ہی میں لکھا جا سکتا ہے۔  کبھی انگریزی میں لکھنے کو جی چاہتا ہے۔  انگریزی میں نظمیں تو لکھیں لیکن فکشن کی طرف نہ آئی۔ 

٭ آپ کا غیر ملکی ادب کا مطالعہ بھی خاصا وسیع ہے، ایک تخلیق کار کے لیے دیگر زبانوں کے ادب کے مطالعے کی ضرورت و اہمیت کیا ہو سکتی ہے۔  آپ کس زبان کے ادب اور ادیب کو اپنی زبان اور ذات سے زیادہ قریب سمجھتی ہیں۔ 

٭٭  لکھنے والے کی شخصیت میں ساٹھ ستر فی صد مطالعے کا حصہ ہوتا ہے۔  ملکی ادب کے علاوہ غیر ملکی ادب کا مطالعہ بھی بے حد ضروری ہے، اس سے آفاقیت کا احساس ہوتا ہے کہ کس طرح کسی دوسرے معاشرے میں انسانی صورت حال بالکل ویسے ہی ہے جیسے کہ اپنے یہاں۔  اب یہ سوال کہ مجھے کس زبان کا ادب اور ادیب پسند ہے تو ایشیائی ادب سے قطع نظر پھر عرب، مصر، فلسطین و ایران یہ سبھی تو اپنے ہیں خصوصاً ً مذہب کے حوالے سے کہ ہماری معاشرتی اقتدار بھی مشترک ہیں تو باہر کے ادب میں جو قریب محسوس ہوتے ہیں تو عجیب بات یہ ہے کہ یہودی لکھنے والے آئی وی سنگر، برناڈ میلاڈ، سموئل قریب ہیں۔  اس کی وجہ مذہبی و روحانی بنیاد بھی ہو سکتی ہے۔  ان کی مذہبی روایات موجود ہیں۔  بے شک مسلمانوں سے فرق ہیں۔  شاید اس وجہ سے پھر روسی ادب خود سے قریب محسوس ہوا۔  وہ بھی انقلاب سے پہلے کا۔  دوستووسکی، ترژنیف، ٹالسٹائی نے بہت اپیل کیا۔  بہت سی باتیں مانوس لگتی ہیں۔  اب کچھ عرصے کے بعد دوستووسکی کو دوبارہ پڑھا تو اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ دوستووسکی دنیا کا سب سے بڑا لکھنے والا ہے۔  اس کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ اس نے زندگی کی تلخیوں، بیماریوں، نا انصافیوں، جہالت اور روحانی توڑ پھوڑ کو ایسی ڈی ایٹچ مینٹ کے ساتھ لکھا کہ اس میں جذباتیت ہے نہ جھنجھلاہٹ اور نہ ہی پروپیگینڈا۔  انسان کی باطنی زندگی وضاحت کے ساتھ، کھلی کتاب کی مانند دکھائی دے جاتی ہے۔  اس نے بھر پور زندگی گزاری۔  آفات و تجربات، موت کی سزا اسے ہوئی۔  مرگی کا مریض وہ تھا۔  بہت بڑا گیمبلر تھا۔  اب حالات نے اسے انسانی تجربوں کی غیر معمولی سطح تک پہنچا دیا۔  جرمن ادب میں کافکا، ہرمن ہسے بہت اپیل کرتا ہے۔  کئی چیزیں بہت اچھی ہیں، فرنچ میں کامیو پسند ہے۔ 

٭ بیسٹ بک سیلر ضروری نہیں کہ بڑا ادیب بھی ہو، آپ کی کیا رائے ہے؟

٭٭  بیسٹ سیلر کبھی (بھی )اچھا ادب نہیں ہوتا۔ 

٭ کتابوں پر جو انعامات رائٹرزگلڈ یا اکیڈمی کی طرف سے دیے جاتے ہیں، کیا ان کا فیصلہ انصاف پر مبنی ہوتا ہے؟

٭٭  ہاں اس وقت تک، اس عہد میں جیسا بھی ادب لکھا جا رہا ہے۔  اس میں بہترین ہوتا ہے کوشش تو یہی کی جاتی ہے۔  ہر ایک کی پسند کا معیار مختلف ہو سکتا ہے۔  جس کی وجہ سے کبھی مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ 

٭ ادب میں ہونے والی گروپ بندی، ادب کو نقصان پہنچا رہی ہے، آپ کا کیا خیال ہے؟

٭٭  ادب کو تحریکوں نے فائدہ پہنچایا ہے لیکن گروپ بندی نقصان کا باعث ہے کسی کی صلاحیتوں کا اعتراف نہ کرنا برا شگون ہے۔ 

٭ کیا آج ادیب کے لیے پی آر ضروری ہے؟

٭٭  پی آر شپ بالکل ضروری نہیں ہے، لیکن یہ رسم بن چکی ہے۔  ادیب کی قدر و قیمت اس کی تحریر سے ہونی چاہیے۔  تعلقات سے نہیں۔  نہ ٹی وی پر آنے سے نہ ادبی محفلوں میں جانے سے۔  اصل بات یہ ہے کہ کیا لکھتا ہے۔  کتنا لکھتا ہے۔  کیسا لکھتا ہے۔  باقی سب باتیں ضمنی ہیں۔  کئی لوگ تنہائی میں رہ کر اچھا ادب تخلیق کرتے ہیں۔  ذاتی طور پر میں اس بات کی قائل ہوں کہ لکھنے والا جب تک ایک حد تک صوفی نہیں ہو گا اچھا نہ لکھ سکے گا۔  گلیمر تخلیقی تحریک کو کم کر دیتا ہے۔  بہرحال قدر و شناسی ضروری ہے ورنہ لکھنے والے کا حوصلہ پست ہو جاتا ہے سکوت سخن شناس، تحسین ناشناس دونوں کا اپنا کردار ہے۔  جینوئن لوگوں کی قدر ہونی چاہیے، لیکن یہ ہوتا نہیں ہے۔  یہ المیہ ہے۔ 

٭ آج کل آپ کی تخلیقی مصروفیات کا کیا عالم ہے؟

٭٭  صحیح طرح سے لکھنا پڑھنا نہیں ہو رہا۔  افسانے وغیرہ ہو جاتے ہیں۔  پچھلے کچھ عرصے میں پانچ چھ افسانے لکھے جو مختلف رسائل میں شائع ہوئے۔ 

٭ آپ کے قارئین آپ سے بہت سی ادبی فتوحات کی توقع رکھتے ہیں؟

٭٭  کاش میں ان کی توقع پوری کر سکوں جس کی مجھے بھی توقع نہیں ہے۔ 

٭٭٭

نوٹ: خالدہ حسین کے انٹرویو کا یہ حصّہ ویب سائٹ پنجند سے لیا گیا۔ یہ انٹرویو ڈاکٹر قرۃ العین نے کیا تھا۔ آپ ویب سائٹ پہ پورا انٹرویو پڑھ سکتے ہیں۔ خالدہ حسین اردو کی منفرد فکشن نگار تھیں۔ ان کا انتقال 10جنوری 2018ء کو ہوا۔ ان کی یاد میں یہ اس انٹرویو کا حصّہ شایع کیا گیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here