65 سالہ بزرگ استاد شوکت حسین شوقی ( حال مقیم کبیروالا) نے “ایسٹرن ٹائمز” سے ملاقات میں اپنی داستان حیات سنائی ۔وہ یکم جنوری 1950 کو خانیوال چن شاہ بستی میں پٹواری فجر علی شاہ کے گھر پیدا ہوئے حصول تعلیم کے لیے پوسٹ آفس خانیوال سے ملحقہ میونسپل کمیٹی سکول میں داخلہ لیاچوتھی جماعت میں تھا شکور محمد آسی نام کے ٹیچر نے میری خوشخطی سے متاثر ہو کر مجھ پر خاص توجہ دی اور مجھے پینٹنگ سکھا دی پانچویں جماعت کا امتحان اول پوزیشن سے پاس کیا جس سے وظیفہ ملنے لگا اٹھارہ سال کا تھا جب اسی سکول سے مڈل پاس کیا ۔والد صاحب کی نوکری ریٹائرمنٹ سے پہلے کسی وجہ سے ختم ہوگئی تھی گھر میں بڑا ہونے کی وجہ سے مجھے کام کرنا پڑا مزید تعلیم حاصل نہ کر سکا ۔1970 /71 میں گھر سے کچھ فاصلے پر اسوقت محبوب پرنٹنگ پریس کے نام سے چھاپہ خانہ کھلا تو وہاں جا کر بیٹھنے لگا یہاں عبدالزاق چھٹہ نام کا خطاط تھا جن سے میں نے خطاطی سیکھی  یہ ہنر لیکر 1973 میں کراچی چلا گیا وہاں روزنامہ اعلان اخبار میں بطور کاتب 400 روپے ماہانہ پر نوکری مل گئی اخبار کے مالک ایڈیٹر امین الدین بھیا نے پہلے مجھ سے خبر کی کتابت کرائی پھر نوکری پر رکھ لیا یہاں تین سال ملازمت کی رات کو اخبار لکھنے کی ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد کچھ گھنٹے نیند پوری کرتا دن میں بندر روڈ پر آدم خان مارکیٹ میں  سسپنس ، سب رنگ سمیت مختلف رسائل وجرائد کے لیے پرائیویٹ طور پر کتابت کرتا رہا اسی دوران معروف کالمنسٹ
زاہدہ حنا سے ملاقات ہوئی ان کی زیر نگرانی شائع ہونیوالے عالمی ڈائجسٹ کی کتابت کا سارا کام مجھے ٹھیکے پر مل گیا۔
 1979 کے اوائل میں روزنامہ صداقت کراچی میں ملازمت کر لی چیف ایڈیٹر بشیراحمد رانا نے 5 ہزار ماہانہ تنخواہ مقرر کی اس اخبار کی نوکری مجھے کبھی نہیں بھولتی ایڈیٹر کی طرف سے ” جٹ دا مکلاوہ” کے نام سے مقالہ خصوصی لکھا گیا جس کی اشاعت پر اس وقت کی فوجی حکومت نے اخبارکو ایک لاکھ روپے ہرجانے کا نوٹس بھیج دیا اگلے روز چیف ایڈیٹر بشیر احمد رانا نے اخبار کے چھ کے چھ صفحات پر یہی مقالہ چھاپنے کا کہا۔ نیوز ایڈیٹر صفدر بھی اخبار کے مالکان میں سے تھا ۔دوسرے نیوز ایڈیٹر کا نام شہزاد چغتائی تھا۔ سارے اخبار میں ” جٹ دا مکلاوہ ” شائع ہوا تو شام کو فوجی آئے انہوں نے ہم چاروں کو گرفتار کر لیا۔ ملڑی کورٹ میں پیش کیا گیا وہاں سے چار مہینے کی سزا سنا دی گئی اور ہمیں سکھر جیل منتقل کر دیا گیا۔ جیل میں روز نامہ جنگ کے مالک میر خلیل الرحمن ملنے کے لیے آئے وہ مجھے جنگ میں سزا پوری ہونے کے بعد ہیڈ لائنر رکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے میری خواہش پر جیل میں ہمارے لیے وی سی آر پر فلمیں وغیرہ دیکھنے کا بندوبست کرا دیا تھا۔
جیل سے رہائی کے بعد کراچی ریلوے اسٹیشن پر صحافیوں دانشوروں سیاسی کارکنوں نے بڑی تعداد میں ہمارا شاندار استقبال کیا استقبال کرنے والوں میں صادقین ، فرہنگ قمر ، ذوالفقار ، آرذین اور انعام راجہ بھی شامل تھے ۔کچھ دنوں میں نوائے وقت جوائن کر لیا یہاں میری ہیڈ کاتب رفیق غزنوی سے کسی بات پر منہ ماری ہوئی لڑائی میں وہ مجھ سے زخمی ہوگئے انکوائری ہوئی ۔ مجھے قصوروار ٹھہرا کر ادارہ نوائے وقت نے مجھے ملک بھر میں اپنے اخبارات وجرائد میں بین کر دیا اس کے بعد فل ٹائم بندر روڑ پرمرزا آدم مارکیٹ میں بیٹھنا شروع کر دیا یہاں ڈائجسٹوں کی کتابت کا بے پناہ کام تھا۔ایک مرتبہ صادقین مرحوم نے ڈائجسٹوں کی تصویری کہانیوں کا مقابلہ کرایا جس میں مجھے اول انعام ملاتھا ۔ا2 اکتوبر 1982 کو موٹر سائیکل پر ہاکس بے جاتے ہوئے بائیک سلپ ہوا اس حادثے میں دائیں ہاتھ کی دو انگلیاں فریکچر ہو گئیں بس پھر مستقل واپس گھر خانیوال شفٹ ہوا 1984 میں شادی ہو گئی  ۔
محبوب پرنٹنگ پریس کے مالک حاجی ربنواز بھٹہ مرحوم نے ہفت روزہ شب وروز کے نام اخبار کا ڈیکلئریشن لیا اور مجھے کتابت کی ذمہ داری سونپ دی  میں نے کئی سال بطور کاتب یہ اخبار چلایا ۔اس دوران سرکاری مسودوں کی بھی کتابت کی سرکاری کام کی کتابت کے دوران پروٹوکول گارڈ ملتے تھے 1993 تک خانیوال / شاہین مارکیٹ ملتان بھر پور کام کیا ۔
لو میرج ایک عشرے سے زیادہ نہ چلی گھریلو حالات خراب ہوتے چلے گئے بیوی سے علیحدگی ہونے پر میں ایک مرتبہ پھر کراچی چلا گیا لیکن اس مرتبہ میرا ٹھکانہ کوئی اخبار یا رسالہ نہیں بلکہ سبزی منڈی روڈ پر ملنگ بابا درویش سائیں سرکاربابا جی جھنڈے شاہ کا دربار تھا 2005 میں بابا جی فوت ہوگئے میں ان کی وفات کے بعد واپس خانیوال آ گیا ۔1996 میں کمپیوٹر آچکا تھا باٹا والی گلی میں بورڈ بینر وغیرہ لکھنے کا کام شروع کیا میں نے سپرے ورک والا بینر متعارف کرایا ہر طرف میرے کام کی دھوم مچ گئی تھی ۔پنڈی اسلام آباد سمیت کئی شہروں کی خاک چھانی بالاخر ایک دوست کے مشورے پر 2013 سے تعلیمی اداروں میں طلباء کو خوش نویسی سکھانے کے لیے بطور کیلی گرافر ٹیچر کام کر رہاہوں الائیڈ سکول سے شروع کیا تھا  تین چار سال  کبیروالا کے معروف پرائیویٹ سکول خالدبن ولید میں بطور کیلی گرافر ٹیچر پڑھاتا رہا ہوں اب بہتر تنخواہ پر گریثرن سکول کو بطور کیلی گرافر ٹیچر جوائن کیا ہے ۔
طالبعلموں کی لکھائی درست ہونے کی وجہ سے ان کے نمبر اچھے آتے ہیں میں خوش ہوتا ہوں اور میرا اپنے کام پر اعتماد گہرا ہو جاتا ہے ۔استاد شوقی نے بتایا کہ کی پیڈ ٹیکنالوجی کا دور ہے ہر کام کمپیوٹرائزڈ ہو گیا ہے لیکن اس کے باوجود ہاتھ سے لکھے کا کوئی مقابلہ نہیں جس کی لکھائی خوبصورت  ہو گی امتحان میں اچھے نمبر بھی اسی کو ملتے ہیں خوشخطی کی اہمیت بدلتے دورکے ساتھ کم ہوئی لیکن مکمل ختم نہیں ہوئی پڑھائی کے ساتھ لکھائی اچھی ہو تو طالبعلم مار نہیں کھاتا ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here