مشرق وسطی کے سٹیج پر امریکہ اور ایران کے درمیان سرد وگرم تناؤ نمودار ہورہا ہے،جہاں تہران اپنے دشمنوں کو خود یا اپنے اتحادیوں کی مدد سے نشانہ بنا رہا ہے لیکن اب تک ان حملوں کے سبب ایک امریکی بھی موت کے گھاٹ نہیں اترا ہے- یہ سعودی عرب میں اور خلیج فارس میں تزویراتی اہمیت کی چیزوں کو نشانہ بنارہا ہے- کیونکہ امریکہ نے جے سی پی او اے کے نام سے جانے جانے والے ایٹمی معاہدے سے دست بردار ہونے کے بعد ایران پر یک طرفہ پابندیاں عائد کرڈالی ہیں- ایران کا مقصد سرحدوں سے پار سب سے زیادہ سعودی عرب اور امریکہ کو کئی ایک پیغامات بھیجنا ہے- تہران اپنے اہداف کے ذخیرے میں سے چند ایک کا ہی چناؤ کررہا ہے،اس کے مخصوص اہداف ہیں- اور وہ ان کے زریعے سے آہستہ آہستہ اپنے دشمنوں کے نقصان میں اضافہ اور ان پر آخری حد تک ان پر اثرانداز ہونے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے-

حال ہی میں حوثیوں نے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر جو حملہ کیا، کئی ایک مقاصد کے سبب اس کے لیے کئی مہینے تیاری کے لیے درکار تھے- باخبر زرایع کے مطابق،’یمن کے حوثیوں کے زریعے سے ایران امریکہ اور سعودی عرب کے کمزور دفاعی نظام کی آزمائش کررہا ہے تاکہ کوئی رخنہ ڈھونڈا جائے- یہ سلسلہ مئی سے چل رہا ہے جب پہلی بار آرامکو تیل کمپنی کی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا- حوثیوں نے گزشتہ پانچ ماہ سے سعودی عرب کے مختلف علاقوں میں کئی ڈرونز بھیجے ہیں- یہ ریڈار کی صلاحیتوں اور خام تیل کی ایکسپورٹ کو نشانہ بنانے کے لیے محفوظ ترین راستوں کی تلاش کرنے کی چال تھی تاکہ یمن میں جنگ کو رکوایا جاسکے- روس امریکی پٹریاٹ مزائیلوں کو تباہ کرنے والے ایس 400 مزائیل کی خوب تشہیر کررہا ہے جبکہ حالیہ حملے میں پٹریاٹ مزائل بےکار ثابت ہوئے- پیوٹن کی یہ تجویز کہ سعودی والوں کو چاہئے کہ روسی سسٹم خرید لیں نے انقرہ میں روحانی اور ظریف کو کھلکھلاکر ہنسنے پر مجبور کردیا ہے-

سعودی آئل تنصیبات پر حملے نے کئی ایک پیغام دیے ہیں: اس نے ایران کے اتحادیوں کی مشرق وسطی میں طاقت کو ثابت کیا ہے – اس سے ایران بہت معقول اپنے ملوث ہونے کی تردید کرسکتا ہے،جب اسے ضرورت پڑے- اس سے اس میدان کا بھی پتا لگا ہے جہاں ایران حملہ کرسکتا ہے- اس نے یہ پیغام بھی پہنچایا ایران کے غزہ،لبنان اوریمن میں اتحادی اپنے دشمنوں کی جانب سے بنائے جانے والے مدافعتی سسٹم کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی علاقے کے کردار میں اپنی مرضی ضابطے مسلط کرنے کی طاقت رکھتے ہیں- اس حملے نے یہ بھی باور کرایا ہے کہ ایرانی تیل کو عالمی منڈی میں بیچنے کی اجازت دی جائے، امریکی پابندیاں اٹھائی جائیں وگرنہ خام تیل کی ایکسپورٹ قابل زکر حد تک روکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا- یہ طے ہے کہ ایران کے پاس تیل کی قیمتوں اور ٹینکرز کی انشورنس کا ریٹ بلند ترین سطح پر لیجانے کے زرایع موجود ہیں- اس سے مڈل ایسٹ میں ایران کے اتحادیوں کی اہلیت و صلاحیت اور اور جنگ کی صورت میں جدید ڈرونز کے ساتھ اپنے دشمنوں(اسرائیل اور امریکہ) کا مقابلہ کرنے پر آمادگی (حزب اللہ بمقابلہ اسرائیل،غزہ بمقابلہ اسرائیل) بھی ظاہر ہوئی ہے- علاقے کی نگرانی کے لیے جاسوس طیاروں، الیکٹرانک مانیٹرنگ اور ہیومن انٹیلی جنس پر شاہانہ خرچ کرنے کے باوجود امریکہ کی نقائص سے بھری انٹیلی جنس اہلیت کا پول بھی کھلا ہے- اس سے امریکہ کی تذلیل ہوئی ہے جوکہ 54 علاقائی اڈوں میں دسیوں ہزار فوجی رکھتا ہے- یہ اڈے اسرائیل،عراق،افغانسان،شام،سعودی عرب،کویت،بحرین قطر اور یو اے ای میں ہیں- یو اے ای میں اس کا سب سے بڑا فوجی اڈا ہے- امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ اسمبل کرنے والے ملک کی نمائندگی کرتا ہے-

ایران تصدیق کررہا ہے کہ امریکی افراد اور فوجی آلات حرب کا مڈل ایسٹ میں ارتکاز لازمی طور پر حقیقی طاقت اور برتری کا ثبوت نہیں ہے، بلکہ میزبان ملکوں پر ایک ناروا مالی بوجھ ہے- مڈل ایسٹ میں ان ملکوں کے لیے یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے جہاں امریکی اڈوں موجود ہیں- اتنے بڑے پیمانے پر امریکہ اور اس کے فوجی آپریٹس کی موجودگی پر انحصار کرکے ان ممالک نے ایک جواء تو کھیلا ہی ہے تاہم اس نے ان کی اپنی حفاظت خود نہ کرنے کی کمزوری کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔ یہ ملک امریکی ہتھاروں اور آلات پر اربوں ڈالر خرچ کرچکے ہیں۔

اتحادیوں کے ساتھ سلوک اور حمایت کا فرق بھی بہت زیاد ہے۔ ایران نے اتحادیوں یکے ایسے بااعتماد سلسلے کی زنجیر بنائی ہے جو ایک واحد ادارے کے طور پر دکھائی دیتی ہے جبکہ امریکہ اپنے اتحادیوں کی توہین کرتا اور ان کو ڈراتا دھمکاتا رہتا ہے۔ حال ہی میں اس نے سعودی عرب اور بحران کے بادشاہوں کی توہین کی اور ان سمیت دوسرے عرب لیڈروں کو بلیک میل کرکے امریکی اسلحہ خریدنے پر مجبور کیا۔

لبنان میں، ایران نے حزب اللہ کی حمایت 1982ء سے اسرائیلی حملے کے دوران شروع کی اور 18 سالوں میں اسرائیل کو ملک سے نکلنے پر مجبور کردیا کیونکہ اس دوران مزاحمت سے اس پر مسلسل حلے ہوتے رہے۔ شام میں، ایران نے فوجی دستے بھیجے، تیل،رقم، اسلحہ اور ہتھیار بھی دیے۔ اور اس کو اتحادی بھی فراہم کیے اور جبکہ اس دوران شام ایک ناکام ریاست نظر آرہا تھا، جہادی کی یلغار تھی جو شام کے ایک بڑے حصّے پر قابض تھے- ایران نے شام کو ناکام ہونے سے بچایا جبکہ اس دورارن درجنوں علاقائی اور بین الاقوامی ریاستیں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہو گئیں۔ فلسطین میں، ایران نے اپنا جنگی تجربہ اور ہتھیار شئیر کیے جبکہ فلسطینیوں کو اپنے کاز اور مقاصد کے حصول کے لیے مالی مدد دی۔ عراق میں ایران نے حکومت اور مقبول فورسز کو داعش کا راستا روکنے کے لیے اس وقت بھی سپورٹ کیا جب امریکیوں نے شام میں جہادیوں کو پھلنے پھولنے دیا تھا۔ امریکہ نے بغداد کو پیشگی ادائیگی کے باوجود ہتھیاروں کی منتقلی میں تاخیر کی جبکہ انھیں اس کی اشد ضرورت تھی- یمن میں، ایران حوثیوں کے ساتھ سعودی عرب ، یو اے ای اور دوسرے ممالک امریکہ، فرانس، برطانیہ اور کینڈا کی مسلط کردہ جنگ کے خلاف کھڑا ہوگیا اور اس نے ان کو اسلحے اور انٹیلی جنس کی پیشکش کی- یمن میں حوثیوں کی شکل میں ایران کے ایک نئے شراکت دار کا جنم ایک تکلیف دہ پروسس ہے۔ ایران کے مڈل ایسٹ میں دیگر اتحادیوں کی طرح حوثیوں نے بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے اور اپنا راستا خود بنانے کی بہت بڑی قیمت چکائی ہے۔ ایران نے اپنے اتحادیوں کی مدد کرنے میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

دوسری طرف واشنگٹن ایران کی جانب سے امریکہ کی انتہائی دباؤ کی پالیسی کے خلاف جارحانہ پالیسی پر اپنے اتحادیوں کی مدد کے متبادل راستے تلاش کرنے کی بجائے مزید معاشی دباؤ اور گلہ گھونٹ دینے والی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس کے اتحادی جو پہلے ہی حملوں کی زد میں ہیں اس صورت حال سے مایوس ہیں- ایران نے سعودی عرب کے تیل ٹینکروں اور تنضیبات پر جو حملے کیے ان کو روکنے کا راستا تلاش کرنے میں ناکامی ہوئی ہے- ایسا کوئی پیش منظر نہیں ہے جس سے یہ پتا چلے کہ ایران پر سے امریکہ غیر قانونی اور یک طرفہ پابندیاں اٹھانے جارہا ہے۔ اس سے مسائل میں اور اضافہ ہورہا ہے۔ بہت سارے اتحادی ممالک کو یہ احساس ہورہا ہے کہ وہ امریکہ کے اتحادی نہیں بلکہ محض گاہگ ہیں- یہ گاہک اقتدار میں رہنے کی بھاری قیمت دے رہے ہیں۔ اور اس وقت تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا جب تک یہ گاہگ ان کی اپنی مقامی آبادیوں کے ہاتھوں اٹھا کر باہر نہ پھینک دیے جائیں جیسے مصر میں حسنی مبارک اور تیونس میں بن علی سے ہوا- لیکن امریکی ہتھاروں پر ان کی سرمایہ کاری تو ان کو بچا نہیں پارہی- امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا زیادہ سے زیادہ بہترین کام اب یہ ہوسکتا ہے کہ وہ سعودی تیل کے ذخیروں اور سہولیات پر حوثیوں کے حملے سے جو کھنڈر بنے ہیں ان کا معائنہ کرتے رہیں۔

امریکہ کے برعکس، ایران اپنے اتحادیوں کا دفاع کرتا، مالی اور فوجی امداد کی پیشکش کرتا ہے۔ یہ اپنا جنگ لڑنے کا تجربہ اور ٹیکنالوجی ان میں بانٹتا اور ان کو اچھے سے مسلح کرتا اور ان کو اس دن کے لیے تیار کرتا ہے جب آخری کاری وار لگانے کا وقت آتا ہے۔ تہران اپنے شراکت داروں کا ایک نیٹ ورک تعمیر کرچکا ہے۔ ژدل ایسٹ کے مختلف حصوں میں اس کا نیٹ ورک پھیل چکا ہے۔ بحیرہ روم سے بحیرہ عرب تک اور باب المندب تک اس کا نیٹ ورک نظر آرہا ہے۔ اب یمنی شراکت داروں کی باری ہے جو سخت ترین درد سے گزرے ہیں اور انھوں نے بڑے پیمانے پر خون ریزی اور تباہی کی صورت قیمت چکائی جب ابھی وہ’برائی کے محور’ کے اتحادی بھی نہیں بنے تھے۔ یہ نیٹ ورک فلسطین،لبنان، شام،عراق اور یمن تک پھیلا ہوا ہے۔ اور اگر کبھی ایران پر حملہ ہوا تو یہ امریکہ کے خلاف کئی ایک محاذوں پر نبرد آزما ہونے کو تیار ہے-

ایک یا دوسرے راستے سے، امریکہ کی خارجہ پالیسی اور رجیم بدلو منصوبوں نے اس ‘محور’ کو ٹھوس بنایا ہے اور ایران نے مڈل ایسٹ کے مختلف حصوں میں امریکہ کی ناکامی کا فائدہ اٹھایا ہے۔

مڈل ایسٹ اصل میں امریکہ- ایرن تناؤ کی وجہ سے مشکلات اٹھارہا ہے۔ اس کشیدگی کے سبب توانائی کے ذخائر اور سمندر میں ٹینکرز کا محفوظ سفر مسلسل زد میں ہے اور کوئی بھی شخص اس صورت حالات میں اور زیادہ تناؤ بڑھنے اور ایک غیر متوقع اور بغیر منصوبہ بندی کی جنگ کے پھوٹ پڑنے کو خارج از امکان نہیں کہہ سکتا۔

مڈل ایسٹ میں اس وقت تک امن نہیں ہوگا جب تک امریکہ کی ایران پر غیر قانونی پابندیاں جاری رہیں گی- اصل میں امن کا قیام اس وقت تک ہو بھی نہیں سکتا جب تک امریکی افواج مڈل ایسٹ میں شراکت دار کی بجائے ڈرانے،دھمکانے والی قوت کے طور پر مجود رہیں گی- مڈل ایسٹ کے اندر ان افواج کو باقی رکھنا جن کا کام اپنے شراکت داروں کے ساتھ چھٹی پر خود کو ساحل سمندر پر دھوپ لگوانا اور مڈل ایسٹ کی فوڈ سے لطف اندوز ہونا ہے۔ مڈہ ایسٹ سے امریکی افواج کے مکمل انخلاء کی ایرانی مانگ سب ہی فریق؛ن کے لیے اچھی مانگ ہے اگرچہ اس وقت ان کو جتنی بھی یہ بری لگ رہی ہو۔

 

“Elijah J. Magnier is a veteran war-zone correspondent and political analyst with over 35 years of experience covering the Middle East and North Africa (MENA). He specialises in real-time reporting of politics, strategic and military planning, terrorism and counter-terrorism; his strong analytical skills complement his reporting. His in-depth experience, extensive contacts and thorough political knowledge of complex political situations in Iran, Iraq, Lebanon, Libya, Sudan and Syria make his writings mandatory reading for those wishing to understand complicated affairs that are routinely misreported and propagandised in the Western press.

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here